حضرت امامِ اعظم، النعمان بن ثابت، بہت بڑے عالِم دین، بانی فقہ حنفی، حدود 80ھ / 699ء میں پیدا ہوئے اور رجب 150ھ/ اگست 767ء میں بحالتِ اسیری بغداد میں فوت ہوئے اور وہیں خیزران کے مقبرے کے مشرقی جانب اُن کا مزار ہے، جس محلّے میں یہ مقبرہ واقع ہے، وہ اب بھی اعظمیہ کہلاتا ہے، ان کے دادا، جن کا اسلامی نام غالباً نعمان تھا، کابل کے رہنے والے تھے-
امامِ اعظم کے علم کی طرح ان کی ذہانت اور طبّاعی بھی ضربُ المِثل تھی، انہوں نے اپنے شاگردوں میں سے 40 نامور شخص انتخاب کیے اور اُن کی ایک مجلس بنائی، الطّحاوی نے ان میں سے تیرہ کے نام دئیے ہیں، جن میں امام ابو یوسف اور امام زفر نمایاں شخصیتیں ہیں، اس طرح فقہ کا گویا ایک ادارہ علمی تشکیل پذیر ہو گیا، آپ کے شاگردوں کی چند کتابیں، خصوصاً ابو یوسف کی اختلاف ابی حنیفہ و ابی لیلیٰ اور الرد علیٰ سیر الاوزاعی ، الشیبانی کی الحج اور مؤطا امام مالک کا نسخہ، امام ابو حنیفہ کے مسلک کے اہم مآخذ ہیں-[1]
آپ کی تابعیّت کے بارے تمام راوی نقل کرتے ہیں کہ:
’’آپ کو بعض معمّر صحابہ سے ملنے کا فخر حاصل ہو چکا تھا جو پہلی صدی کے اواخر یا اس کے قریب قریب تک زندہ رہے یا جو پہلی صدی کے آخری عشرے تک بقیدِ حیات رہے، انہوں نے ایسے صحابہ کے نام ذکر کیے ہیں جن کی زیارت کا شرف آپ کو حاصل ہوا تھا مثلاً انس بن مالک (م:93ھ) عبداللہ بن ابی روفی (م:87ھ) واثل بن اسود (م:85ھ) ابو الطفیل عامر بن واثلہ (م: 102ھ) جو سب صحابہ کے بعد مکّہ میں فوت ہوئے‘‘-[2]
حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) براہِ راست حضور نبی کریم (ﷺ) سے تفقّہ کرتے رہے اور پھر رسول اللہ (ﷺ) سے یہ تعریفی سند حاصل فرمائی کہ جسے قرآن سیکھنا ہو وہ عبد اللہ بن مسعود سے سیکھے- ان کی ذہانت اور قابلیت دیکھ کر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے اپنی خلافت کے زمانے میں ان کو کوفے میں معلّم بنا کر بھیجا اور یہ وہاں کی جامع مسجد میں فقہ کا درس دیتے رہے ، اُن کے شاگردوں میں یمن ہی کے دو فاضل، عَلقمہ (م: 62 ھ) اور اَسود نخعی (م:75ھ) نے امتیاز حاصل کیا اور کوفے میں حضرت ابنِ مسعود (رضی اللہ عنہ) کے جانشین بنے، علقمہ کے شاگردوں میں ابراہیم نخعی، ایک اور یمنی نے مسجدِ کوفہ میں درسِ فقہ کا سلسلہ جاری رکھا اور جب ابراہیم نخعی کی وفات ہو گئی تو حمّاد بن ابی سلیمان نے، جو غالباً ایرانی تھے، کوفے کی درس گاہِ فقہ کو مزید شہرت عطا کی -ابو حنیفہ اِن ہی حمّاد کے شاگرد اور جانشیں ہیں‘‘-[3]
علمِ حدیث سے متعلق بھی ایک اہم بحث، امامِ اعظمؒ سے متعلق ہے یعنی وہ تاریخِ ابنِ خلدون میں لکھا ہے:
’’امام ابوحنیفہ سے سترہ حدیثیں مروی ہوئی ہیں اور اس قول کو کئی کوتاہ چشموں نے ہوا دی اور دعوے داغنے شروع کئے کہ ابو حنیفہ کو کُل سترہ حدیثیں پہنچی تھیں-17 حدیثیں امام ابو حنیفہ کو پہنچنا سراسر خلافِ نقل ہے، کیونکہ اگر 15 مسانید سے قطع نظر کیا جائے اور صرف دیگر تصانیفِ تلامذہ امام دیکھی جائیں جن میں بذریعہ امام، بسندِ مسلسل، اخبار و آثار مروی ہیں، مثلاً امام محمد کی مؤطا و کتاب الآثار ، کتاب الحج و کتاب السَیر کبیر اور امام ابو یوسف کی کتاب الخراج و اَمالی وغیرہ، تو بھی صد ہا روایات امام کی نکلیں گی، علاوہ ان کے مصنّف ابنِ ابی شیبہ، مصنّف عبد الرزاق و تصانیفِ دارقطنی، تصانیفِ حاکم، تصانیفِ بیہقی اور تصانیفِ طحاوی، مثلاً شرح معانی الآثار اور مشکل آلاثار وغیرہ کو دیکھو کہ ان میں کس قدر امام ابو حنیفہ کے ذریعے سے بسند متصل روایات موجود ہیں‘‘-[4]
امام اعظم 120ھ میں جامع کوفہ کی اس مشہور علمی درس گاہ میں جلوہ افروز ہوئے جو حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کے زمانے سے باقاعدہ چلی آ رہی تھی، تو آپؒ نے جہاں فقہ کا عظیم الشان فن اجتماعی محنت سے مُدوّن کیا وہیں فقہ کے ابواب پر مشتمل حدیثوں کا ایک مجموعہ بھی، صحیح اور معمول بہ روایت سے انتخاب فرما کر مرتب کیا اور اس کو اپنے تلامذہ کے سامنے لیکچرز کی صورت میں پیش کیا، اسی کا نام کتاب الآثار ہےاور آج امّتِ اسلامیہ کے علمی سرمایہ میں احادیثِ صحیحہ کی سب سے قدیم کتاب یہی ہے جو دوسری صدی کے ربع ثانی کی تالیف ہے، امام اعظم سے پہلے حدیث نبوی کے جتنے مجموعے اور صحیفے تھے ان کی ترتیب فنی نہ تھی بلکہ ان کے جامعین نے ’’کیفما اتفق‘‘ حدیثوں کے مجموعے تیار کیے تھے، گویا جس کام کی ابتدا، بقول حافظ ابنِ حجر عسقلانی، امام شعبی نے کی تھی اسی کو امام اعظم نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل فرمایا اور بعد کے آنے والوں کے لئے ترتیب و تبویب کی شاہراہِ قائم کر دی-
کتاب الآثار اس دور کی تمام تصانیف سے پہلے کی تصنیف ہے، اس دور کے تمام مصنفین، ابنِ جریج کو چھوڑ کر ، امام اعظم کے بعد ہیں- سب اگر چہ قرنِ ثانی کی پیداوار اور معاصِر ہیں مگر امام اعظم سے کسی نا کسی طرح متاثر ہیں اور صرف متاثر نہیں بلکہ امام اعظم کی جلالتِ علمی کے قدر دان ہیں-
کتاب الآثار کا طریقِ تالیف، تعلیم کُتب اور تعلیم روایات کا نہیں بلکہ تعلیم علوم و فنون کا ہے، یعنی بذریعہ درس و املاء، شیوخ سے علم حاصل کرنا، تمام علوم اور مہمات فنونِ عربیہ کے لئے صدر اوّل میں یہی طریق رائج تھا، آغاز میں اس طرزِ تالیف کی بنیاد یں پڑیں کہ تلامذہ اپنے حفظ و یاد داشت کیلئے اساتذہ کے تمام امالی یا ان کا خلاصہ لکھ لیا کرتے تھے لیکن آگے چل کر یہ چیز اس قدر مقبول ہوئی کہ اقسام تصنیف میں ایک خاص قسم بن گئی اور خود اساتذہ اور علماء فن اپنی مرویات بطور تصنیف مرتب کرنے لگے، اس طرح کہ حلقہ درس میں مطالب و مسائل املا کراتے اور ساتھ ساتھ خود بھی لکھتے جاتے یا پہلے مجموعہ مرتب کر لیتے اور پھر اسی کو املا کراتے، حدیث میں یہ طریق تمام علوم سے زیادہ رائج اور مقبول ہوا اور محدثین کے یہاں اسے ایک خصوصی مقام حاصل ہو گیا، چنانچہ محدثین نے سماع من لفظ الشیخ دو مختلف صورتوں میں سے ایک قسم املا کو قرار دیا ہے اور یہ محدثین کی بیان کردہ ان تمام قسموں میں سے، جو تحمل روایت کیلئے مشہور ہیں ایک اور اعلیٰ قسم ہے-[5]
صدر الائمہ موفق بن احمد مکّی (م: 568ھ) نقل کرتے ہیں :
’’امام ابو حنیفہ نے کتاب الآثار کا انتخاب چالیس ہزار (40000) احادیث سے کیا ہے‘‘-
کتاب الآثار کو امام اعظم سے آپ کے متعدد تلامذہ نے روایت کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کے متعدد نسخے پائے جاتے ہیں، ان میں ہر ایک نسخہ اس کے راوی کی طرف منسوب ہو گیا ہے، کتاب الآثار کے ویسے تو کئی نسخے ہیں لیکن ان میں سے چار زیادہ مشہور ہیں:( 1) نسخہ امام زُفر بن ہذیل (م: 158ھ)، (2) نسخہ امام ابو یوسف (م:182ھ)، (3) نسخہ امام محمد بن حسن الشیبانی (م:189ھ)،( 4) نسخہ حسن بن زیاد (م: 204ھ)‘‘-[6]
کتاب الآثار امام ابو یوسف اور کتاب الآثار امام محمد بن حسن الشیبانی، مطبوعہ دستیاب ہیں -[7]
فقہاءِ احناف کے ہاں بہت حال خبرِ واحد اور قیاس میں تعارض اور تطبیق، شیخین و صاحبین کے استثناء کے ساتھ، ہر دور میں کسی نا کسی صورت میں موجود رہا ہے، محدثین کی اصطلاح میں خبرِ واحد/ سنۃ الآحاد سے مراد ہر وہ روایت ہے جو متواتر نہ ہو، اس تعریف کی رو سے مشہور، مستفیض، عزیز اور غریب، سب ہی خبرِ واحد میں شمار کی جائیں گی، حنفیہ کے علاوہ باقی تمام فقہاء اور محدثین کی اس سلسلے میں یہی رائے ہے- جہاں تک خبرِ واحد کی حجیت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں تین نقطہ نظر معروف ہیں:
1- خبرِ واحد اگر شرائط صحت پر پورا اترے، تو وہ عقائد و احکام، دونوں میں حجت ہے، جمہور محدثین، ظاہریہ اور امام شافعی کا نقطہ نظر یہی بیان کیا جاتا ہے-
2- خبرِ واحد اگر شرائط صحت پر پورا اترے تو وہ احکام میں تو حجت ہے مگر عقائد میں حجت نہیں، یہ نقطہ نظر حنفیہ سمیت جمہور اصولیوں اور فقہاء کی طرف منسوب ہے-
3- خبرِ واحد نہ عقائد میں حجت ہے اور نہ ہی احکام میں، یہ نقطہ نظر بعض شیعہ اور معتزلہ وغیرہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے-
راوی فقہاء کے نزدیک خبرِ واحد کی قبولیت کیلئے ایک تو یہ ضروری ہے کہ اس کے راوی میں درج ذیل چار شرائط پائی جائیں:عقل، اسلام، عدالت اور ضبط- علاوہ ازیں روایت میں انقطاع معنوی کی کوئی صورت نہ ہو یعنی خبرِ واحد معناٗ منقطع نہ ہو یعنی وہ دیگر ادلّۃ/ اصولوں سے متعارض نہ ہو-خبرِ واحد قرآن و سنتِ معروفہ سے متعارض نہ ہو، دیگر آئمہ میں سے امام مالک کے حوالے سے بعض محققین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھی یہ دو اصول استعمال کئے ہیں، جبکہ بعض آئمہ، خاص طور پر امام شافعی نے ان اصولوں کے استعمال پر کافی نقد کیا ہے اور انہیں غلط قرار دیا ہے مبادا کہ لوگ روایات کو خلافِ قرآن قرار دے کر رد کرنے لگیں-امام شافعی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جب خبرِ واحد ثقہ راویوں ثقہ عن ثقہ کی سند سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ اپنی ذات میں خود ایک اصول ہے اور اسے خلاف ِ قرآن یا خلافِ سنتِ مشہورہ ثابت کر کے رد کرنے کے بجائے تطبیق کی راہ نکالنی چاہیے-چنانچہ آپ کے دلائل سے متاثر ہو کر بعد کے تقریباً سبھی محدثین نے اس سلسلے میں عراقیوں/ حنفیوں کے بجائے آپ کی پیروی کی ہے، اسی طرح احناف کے ہاں اصول ہے کہ خبرِ واحد ایسی نہ ہو جس کے خلاف صحابہ کا عمل ثابت ہو، فقہاء حنفیہ کے علاوہ مالکیہ نے بھی اس اصول کو استعمال کیا ہے جبکہ امام شافعی، جمہور محدثین اور امام ابنِ حزم نےاس اصول پر نقد کیا ہے-
خبرِ واحد اور قیاس میں تعارض کی صورت میں احناف کے مابین بھی علمی اختلاف پایا جاتا ہے مثلاً ایک رائے یہ ہے کہ قیاس سے متعارض روایت کا راوی اگر غیر فقیہ ہےتو اس کی روایت خبرِ واحد مردود ہے، اس نقطہ نظر کے قائلین میں عیسیٰ بن ابان، امام البزدوی اور امام سرخسی وغیرہ شامل ہیں- دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ خبرِ واحد اور قیاس میں تعارض کی صورت میں خبرِ واحد کو ہر صورت قیاس پر مقدّم رکھا جائے گا، بشرطیکہ خبرِ واحد دیگر شرائط صحت پر پورا اترتی ہو- امام ابو الحسن کرخی، امام کاسانی، ابنِ ہمام اور محب اللہ بہاری اس نقطہ نظر کے حامی ہیں- معاصرمحققین خبرِ واحد کو ترجیح دینے کے حامی ہیں، ابو زہرہ مصری، وھبہ الزحیلی وغیرہ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ امام محمد بھی خبرِ واحد کو ترجیح دینے کے اصول پر عمل کرتے تھے، جو اُن کی کُتب سے ثابت ہے، یہی صورت حال امام ابو یوسف کی کُتب سے بھی ثابت کی گئی ہے-[8]
علمِ حدیث میں ہی، اکابر احناف سے ماخوذ ’اخبار ‘ پر علمی اہمیت کے حامل ذخیرہ بلکہ خزینہ کو شاید کُوزے ہی میں امام الصُمیری نے جمع و ترتیب دیا ہے-[9]
فقہی اعتبار سے بعض اکابرین ’حیلِ شرعی‘ شرعی حیلوں کو جائز نہیں سمجھتے-امام ابو حنیفہ نے فقہ میں حیلے کو دلائل سے جائز قرار دیا ہے-[10]
مستشرقین نے بھی علمی سطح پر فقہ حنفی اور اس کے مصادِر و معاملات پر عِلمیت کا مظاہرہ بھی کیا ہے اور خامہ فرسائی بھی ، جوزف شاخت (Joseph Schacht) اور نویل جے کولسن(Noel J.Coulson) نے فقہ میں اور ابراہم یودوفتش(Abraham Udovitch) نے فقہ حنفی میں مضاربت پر علمی بحث کا آغاز کیا اور اس ضمن میں حنفی فقہ کو قدیم اطالوی طرزِ تجارت (Comenda) کا چربہ قرار دیا ، نیز مزید درجنوں کُتب میں ضمنی طور پر فقہ حنفی پر مختلف پہلوؤں سے گفتگو کی جاتی رہی ہے-[11]
اکابر اولیاء کرام صوفیاء جو امام ابو حنیفہ کے شاگردوں میں گنے جاتے ہیں ، مثلاً سیّدنا ابراہیم بن ادہم ، سیّدنا شفیق بلخی ، سیّدنا معروف کرخی ، سیّدنا فضیل بن عیاض ، سیّدنا عبداللہ بن مبارک، سیّدنا داؤد طائی، سیّدنا خلف بن ایوب، سیّدنا بایزید بسطامیؒ اور آپ کی تقلید کرنے والے اولیاء کرام صوفیاء میں سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش، خواجہ غریب نواز اجمیری، خواجہ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، خواجہ فرید الدّین گنج شکر، خواجہ بہاؤ الدّین نقشبند بخاری، امام ربانی حضرت مجدد الفِ ثانی اور سُلطان العارفین سُلطان باھُوؒ شامل ہیں-[12]
حضرت شفیق بلخیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں امام ابو حنیفہ کے ساتھ ایک مریض کی عیادت کے لیے جا رہا تھا، ایک آدمی نے دور سے انہیں دیکھا تو چُھپنے لگا اور راستہ بدلنے لگا، امام صاحب نے دور سے اسے پکارا، راستہ مت بدلو، اسی راستے پر آؤ، جب اس شخص نے اندازہ کر لیا کہ ابو حنیفہ اسے دیکھ چکے ہیں تو وہ شرمندہ ہو کر ٹھہر گیا، امام صاحب نے اس سے پوچھا کہ تم راستہ کیوں بدل رہے تھے ؟ اس نے کہا کی آپ کی مجھ پر اتنی رقم ہے، مدّت لمبی ہو چکی ہے اور میں اب تک اس کی ادائیگی نہیں کر سکا ہوں، تو آپ کو دیکھ کر میں شرما گیا، امام صاحب نے فرمایا ، سبحان اللہ ، معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ تم مجھے دیکھ کر چُھپتے پھر رہے ہو؟ میں وہ قرض معاف کرتا ہوں اس کے بعد مجھ سے نہ چُھپنا اور اس عرصے میں مجھ سے تمہیں جو تکلیف پہنچی ہے وہ تم مجھے معاف کر دینا ، شفیق بلخی فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اصل زاہد ابو حنیفہ ہیں- اور کیا کمال بات!!! ادَب کا یہ عالَم کہ خود فرمایا کہ
اپنے استاذ حمّاد بن ابی سلیمان کی عظمت کی وجہ سے میں نے کبھی ان کے گھر کی طرف پاؤں نہیں پھیلائے، حالانکہ میرے اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ ہے‘‘-[13]
امامِ اعظمؒ کی سیرت و سوانح پر کسی بھی پہلو سے علمی کام کیا جائے، اس کیلئے ہمارے پاس ابتدائی سرمایہ علمی میں امام موفق بن احمد المکّیؒ کی کتاب مناقب ابی حنیفہ ہی ہوتی ہے اور کوئی محقق اس کتاب سے مستغنٰی ہو کر امام ابو حنیفہؒ پرعلمی کام بہرحال نہیں کر سکتا-[14]
کتاب ’الفِقہ الَاکبر‘ تالیف امام اعظم ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ):
ابن الندیم نے اپنی مشہور کتاب الفہرست میں امام اعظم سے منسوب چار کتابوں کے نام لکھے ہیں: الفقہ الاکبر، عثمان البتّی کے نام ایک خط، العاَلِم و المُتعلم، الرَد علی القدریۃ ، مسند جو خوارزمی (م:665ھ) نے مرتب کی ہے، اس کا ذکر الفہرست میں نہیں ہے-
’تاریخ ‘میں ابنِ خلکان کہتے ہیں کہ:
’’امام صاحب کی تین کتابیں تصنیف ہیں، باقی زبانی منقول ہیں ، ایک کتاب العالِم و المتعلّم، دوسری کتاب الرسالۃ، کہ ابو عثمان البتّی کو پہنچی تھی، تیسرے فقہ اکبر، کہ آپ کے شاگرد، ابو مطیع نے روایت کی ہے‘‘-[15]
الفِقہ الَاکبر محرّرہ رسالۃ نہیں ہے بلکہ اقسام کُتب میں اس کا شمار ’’امالی‘‘ املا کرائی گئی، میں ہوتا ہے-اسی لئے اس کے متعدد نسخے متداول و معروف ہیں جن میں اہم تر حمّاد بن ابو حنیفہ کا مروی نسخہ ہے-
ہمارے اصحابِ علم و فن بالخصوص متکلّمین نے الفقہ الاکبر پر علمی کام بھی کیا ہے، نقد کے ساتھ ساتھ سراہا بھی ہے، مقالے کے اس حصّے میں ہم اُن کُتب کا ایک اجمالی جائزہ لیں گے جو الفقہ الاکبر سے متعلق لکھی گئی ہیں اور جن تک ہماری محدود رسائی ممکن ہو سکی ہے-
’’الفِقہ الَاکبر ‘‘ ایک مختصر رسالۃ ہےجو علمُ الکلام کے چند بنیادی مسائل، بالخصوص توحید، ذاتی و صفاتی ربوبیت و خالقیت یعنی انسان جو علم محسوسات کو جاننے میں استعمال کرتا ہے وہ حواسِ خمسہ کا عقلی پیرایہ اظہار ہوتا ہے، خواہ وہ سامعہ ہو، باصرہ، لامسہ، شامّہ یا ذائقہ ہو، یہ خَمسہ ہیں، اسی طرح غیر محسوس علم کی تلاش، باطنی حواسِ خمسہ کی صورت گری میں پنہاں ہیں، یہ پانچ لطائف شمار ہوتے ہیں، یہ لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سِرّ، لطیفہ خفی اور لطیفہ اخفی سے متعارف ہیں-توحید میں اللہ کی ذاتی صفات مثلاً الحیاۃ، القُدرۃ، الکلام، السَمع، البَصیر، الارادۃ وغیرہ اور صفاتِ فعلیۃ ، یعنی التّخلیق، الترزیق، الاِنشاء، الابداع اور الصّنع وغیرہ -حقیقی معنوں میں فاعل اللہ تعالیٰ کی ذاتِ ہے اور فعل اللہ کی ازلی صِفات میں سے ایک صفت ہے اور تمام مفعول، اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق اور اس کے امور کا ظہور ہیں-جبکہ اللہ تعالیٰ کے افعال، غیر مخلوق اور غیر حادث ہیں -
اب ہم کچھ کُتب کا ایک اجمالی جائزہ لیں گے تا کہ کتاب الفقہ الاکبر کے ضمن میں ہونے والی علمی کاوشیں ہمارے سامنے واضح ہو سکیں-
1- کتاب ’’الفقہ الاکبرللامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان بن ثابت الکوفی و شرحہ ملّا علی القاری الحنفی (م:1001ھ )طبع بمطبعۃ دارالکُتب العربیہ الکبرٰی مصطفیٰ البابی الحلبی و اخویہ، بکری و عیسیٰ بمِصر،) 1326ھ( کتاب کے کُل صفحات 183 ہیں، صفحات 184-188 الفقہ الاکبر کا مَتن دیا گیا ہے-
2- مِنح الرّوض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر، المُحدّث الفقیہ علی بن سلطان محمد القاری و معہ التّعلیق المُیسّر علیٰ شرح الفقہ الاکبر تالیف الشیخ وہبی سلیمان غاؤجی، دار البشائر الاِسلامیہ
3- الدّرر الازھر فی شرح الفقہ الاکبر از مولانا محمد عبد القادر، رئیس سلہٹ، در مطبع نظامی واقع کانپور، مطبوع کردید 1928ء صفحات 64 ہیں شارح ابو محمد عبدالقاد نے جمادی الاخر 1273ھ عربی میں لکھی ہے-
4- الاَقول الفَصل شرح الفقہ الاکبر للامام ابی حنیفہ، شرحہ، محی الدّین محمد بن بہاء الدین (م:956ھ) مکتبہ الحقیقۃ، استنبول
5- ’الاقول الاظہر شرح الفقہ الاکبر‘ شارح مولانا محمد شفیق خان، عطّاری، مدنی، فتحپوری، مکتبہ السُنۃ، آگرہ، یوپی، الہند-
6- الفقہ الاکبر تالیف امامِ اعظم مع اردو ترجمہ’’البیان الازھر‘‘ از صوفی عبد الحمید سواتی، ادارہ نشر و اشاعت گوجرانولہ
7- فقہ اکبر مع ترجمہ مہر انور و وصایہ مع ترجمہ مسمّٰی بہ ہدایۃ، از مولوی وکیل احمد سکندرپوری، بمطبع مجتبائی دہلی-
8- ’فقہ الاکبر ‘ تالیف امام ابو حنیفہ، ترجمہ مولانا مبشر احمد مدنی، ادارہ اشاعت اسلام، علّامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور ، 20 صفحات پر مشتمل ایک مختصر لیکن جامع کتابچہ ہے-
9- ’شرح الفقہ الاکبر‘للامام الاعظم ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) از مولانا محمد الیاس گھمّن ، سر گودھا ، بار اوّل 2021ء -
10- کتاب ’فقہ اکبر‘پر ہونے والے اعتراضات و جوابات اور مستند ترین نسخہ کی تحقیق و تدقیق ترجمہ مفتی حمّاد رضا نوری برکاتی ، زاویہ پبلیشرز ، دربار مارکیٹ لاہور
11- ’فقہ اکبر و ابسط‘ مؤلفہ امام اعظم راوی حمّاد بن ابو حنیفہ، تحقیق و ترجمہ رشید احمد علوی، جمیعۃ پبلیکیشنز ، اردو بازار لاہور
12- ’الفقہ الاکبر‘ تالیف امام ابو حنیفہ ، مترجم و شارح ڈاکٹر عبدالر حیم اشرف بلوچ، پروگریسیو بکس، لاہور
13- شرح فقہ الاکبر’ المتن منسوب الی ٰ الامام ابی حنیفہ النعمان بن ثابت الکوفی شرحہ ابو منصور محمد بن محمد بن محمود الحنفی السمرقندی (م:333ھ) طبع علی نفقۃ الشئون الدینیۃ، بدولۃ، قطر، سن ندارد یہ نسخہ مطبعۃ مجلس دائرہ معارف النظامیۃ، حیدرآباد، دکن، ذی الحج 1321ھ سے مستعار ہے، یہ کتاب 431 صفحات پر مشتمل ہے، پھر فہارس ہے جو صفحہ 440 پر ختم ہوتی ہے-اس میں فقہ اکبر کا اصل متن محض آٹھ صفحات پر ہے-
14- ’الرسائل السبعۃ فی العقائد‘ دارُ البَصائر، القاہرہ، مصر-اس کتاب میں عقائد پر سات رسائل جمع کئے گئے ہیں- پہلا: رسالۃ ابی منصور الماتریدی کی شرح کے ساتھ ’شرح الفقہ الاکبر‘ ہے- دوسرا :رسالۃ ’ کتاب شرح الفقہ الاکبر‘، جو شیخ احمد بن محمد المُغنیساوی الحنفی کی شرح کے ساتھ ہے-تیسرا رسالۃ ’ کتاب الجوہرہ المنفیۃ فی شرح وصیۃ الامام الاعظم ابی حنیفہ ‘ جو مُلّا حسین ابن اسکندر الحنفی، کی علمی کاوش ہے -مزید رسائل میں ابوالحسن علی اشعری کی کتاب ’الابانۃ‘ کے دو ملحقات، امام اشعری کا ہی ایک ’ رسالۃ فی الزب ‘ اور ابنِ قدامہ کا ’ذم التاویل -
15- ’شرح فقہ اکبر‘ موسوم بہ تعلیم الایمان، از مولوی نجم الغنی خان رامپوری، میر محمد کُتب خانہ، آرام باغ کراچی، سن ندارد-
16- The Muslim Creed, by A. J. Wensinck Professor of Arabic in the University of Leiden Cambridge at the University Press 1932.
اس کتاب کا Chapter IV جس کا ٹائٹل The Fikh Akbar Iہے، صفحہ 102سے 124 تک ہے، اس ہی کتاب کے Chapter VII کا عنوان:The Wasiyat of Abi Hanifaہے، یہ صفحہ 123 سے 187 تک پھیلا ہوا ہے، اگلا Chapter VIII جس کا آغاز The Fikh Akbar II ہے، یہ صفحہ 188 سے 246 تک پھیلا ہوا ہے عقیدہ طحاویہ، وصیۃ ابو حنیفہ اور فقہ اکبر کے متن کو باہم موازنہ کرنے اور یکجا کرنے کی کوشش کی ہے-
17- IMAGE ABU HANIFA'S Al- Fiqh Al- Akbar, Explained by Abul Muntaha Al- Maghnisawi, With Selections from Ali Al-Qari's Commentary, including Abu Hanifa's Kitab al-Wasiyys, by Abdur- Rehman Yusuf, White Thread Press, London January 2014 First Edition was in 2007
یہ اصل کتاب 220 صفحات پر مشتمل ہے، پھر Bibliography اور آخر میں Index ہے، جس کے ساتھ کتاب صفحہ 240 پر ختم ہوتی ہے -
حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کے مختصر سوانحی خاکہ کے پس منظر میں آپ کی نسبت سے کتاب الفقہ الاکبر پر ہونے والی علمی کاوشوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے، نئے محققین کیلئے اس میں متعدد زاویہ ہائے تحقیق موجود ہیں-
٭٭٭
[1]ملاحظہ ہو مقالہ ’ابو حنیفہ‘ دائرہ معارفِ اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب، لاہور ، جلد اوّل، صفحات 783-786، طبع اوّل 1384ھ/ 1964ء
The Encyclopedia of Islam , Vol : 1 New Edition Leiden E. J. Brill , 1986 pages 123-124 by J. Schacht
امام اعظم کی چالیس رکنی کابینہ کے اسماء اور ان کی سوانح کیلئے ملاحظہ ہو ، امام ابو حنیفہ کی مجلسِ تدوینِ فقہ از ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، علمی مرکز، سٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی، ص 133-175
[2]حیاتِ حضرت امام ابو حنیفہ، تالیف شیخ محمد ابو زہرہ قاہرہ ، مصر ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری، ملک سنز فیصل آباد، بار سوم 1983ء صفحات 120-121-
[3]امام ابو حنیفہ کی تدوینِ قانونِ اسلامی از ڈاکٹر محمد حمیداللہ، اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی، طبع ششم، 1403ھ/1993ء صفحہ 26-
[4]حدائق الحنفیہ از مولوی فقیر محمد جہلمی، مکتبہ حسن سہیل لمیٹڈ ، اردو بازار، لاہور، صفحات 58-64
[5]امامِ اعظم اور علمِ حدیث، مؤلفہ مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی، انجمن دارالعلوم الشہابیہ، سیالکوٹ، اپریل 1981ء صفحات 347-348
[6] مسندِ ابی حنیفہ پر علمی بحث کیلئے مزید ملاحظہ کیجئے:ابو حنیفہ، حیاتہ و عصرہ - آراؤہ و فقہہ از الامام محمد ابو زہرہ، ملتزم الطبع والنشر، دار الفکر العربی ، نظرات علی الکُتب الثلاثہ فی الحدیث للائمۃ الحنفیۃ کتاب الآثار- مسانید الامام ابی حنیفۃ - مؤطا امام محمد، للعلامۃ المحدّث عبد الرشید النعمانی، مطبوعہ مجمع الامام احمد بن عرفان الشہید، لاحیاء المعارف الاسلامیہ
[7]کتاب الآثار از ابی یوسف یعقوب بن ابراہیم انصاری، دارالکُتب العلمیۃ، بیروت لبنان ، اس میں 1068 آثار منقول ہیں، فہارس کے ساتھ یہ نسخہ 267 صفحات پر مشتمل ہے
[8]احادیثِ احکام اور فقہاء عراق از مبشر حسین ، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، 2015ء
[9] اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ للامام المحدّث المؤرّخ الکبیر الفقیہ القاضی ابی عبد اللہ حسین بن علی الصُمیری المتوفی 436 ھ بمطبعۃ المعارف الشرفیۃ ، حیدرآباد، الہند،
[10]مقاماتِ امام اعظم از حافظ الدّین کردَری (م: 827ھ) صاحبِ فتاویٰ بزازیہ، اردو ترجمہ محمد فیض احمد اویسی، مکتبہ نبویہ، گنج بخش روڈ، لاہور،صفحات 289-290
[11]An Introduction to Islamic Law by Joseph Schacht, Clarendon Press, Oxford, 1982 Chapter 9 Pages 57-68
A History Of Islamic Law by N. J. Coulson, Edinburg at the University Press, 1978, Part Two Pages 75-148
Partnership and Profit in Medival Islam by Abraham Udovitch, Princeton University Press, 1970, Pages 294
[12]امام الائمّہ فی الحَدیث والفقہ، حضرۃ امام اعظم ابوحنیفہ از چوہدری محمد اسحاق خاں نقشبندی قادری، بزمِ صوفیاء، لاہور، ستمبر 2008ء
[13]ملفوظات امام ابوحنیفہ از مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی، مکتبہ دارُالعُلوم ، کراچی، طبع جدید شوّال 1427ھ صفحات 15-17
[14]مُناقبِ ابی حنیفہ للامام الموفق بن احمد المکّی (م: 568ھ) دارّالکتاب العَربی، بیروت- لبنان، 1401ھ/ 1981ء کتاب ہذا کی جلد اوّل 521 صفحات اور دوم 531 صفحات پر مشتمل ہے، اس کتاب کا اردو ترجمہ ، مناقب ِ امام اعظم ، ترجمہ مولانا فیض احمد اویسی، مکتبہ نبویہ، گنج بخش روڈ، لاہور ، 1999ء/ 1420ھ،
[15]فقہ اکبر و وصیت نامہ از مولانا مفتی محمد سعداللہ ، بیچ مطبع محمدی ، محمد حسین نے چھاپا، شعبان 1269ھ