سمر قند کا گاؤں ہے اک نَسَف نَسَف ایک مرکز تھا اَحناف کا طُفیلِ لعابِ رسولِ ھُدیٰ ہوئیں اس سے سیراب سب وادیاں روان و دواں فیضِ نامِ عمر نسف کا عمرؒ سیفِ اسلام ہے عمر، بن کے خورشید چمکا وہاں حیات و تصانیف و مرقد شریف دیا روشنائی کو اپنا لہُو جو تھی گرد آئینہءِ عقل پر خرد زاغ لے کر پڑی تھی جہاں مسلماں کی تلقیں کے پیشِ نظر کیا چند سطروں میں اس کو بیاں کیا نیم کوزے میں قلزم کو قید وہ ناخن میں دیدارِ کونین ہے وہ والعصر و کوثر کا فیضان ہے کہوں جب عمر کو کہ محبوب ہے ازل سے حسینوں کا ہے یہ شِعار طوالت کی ضِد اُن کا ابلاغ ہے ورق پر یہ بوتے ہیں تخمِ سخن
حسینوں میں کم گوئی کا ہے رواج یہ منصب نہیں ایک محجوب کا بتاتا ہوں ’’بیدل‘‘ کی تائید سے کہ ’’نظارۂ گُل ہو مقصود جب نہ چمگادڑوں سے تو کر دوستی نہ رکھے وہ صحبت کسی خام سے جبھی تفتازانی سے ملتے ہیں ہم محبت ہے صُبحِ ازل کی ضیا ہوئے تفتازانی سے جب فیضیاب تلاشا ہے اِک کنزِ انمول کو یہ انگشتری میں نگیں جَڑ گیا رسالہ ہے ایمان کی زندگی رسالہ حرا کی میں خلوت کہوں وہ زم زم کی لذت وہ عجوہ کھجور ہے نُورِ خرد، عشق کی زندگی وہ کاذب پہ صدّیق کا وار ہے وہ ذوالنّور کا فیضِ انوار ہے امامِ حسن کی وہ تدبیر ہے وہ سجاد و باقر کی تسکین ہے وہ جعفر وہ عالی وہ سید، شریف تھا نعمان سے جو عقیدہ چلا نَسَف کے عمر نے وہی ہے لیا وہ ہے بوحنیفہ کا فیضِ جلیل وہ الاشعری کا ہے نُورِ یقیں جوینی، غزالی کی تائید ہے پڑی معتزلہ کو اس سے نکیل تھے جہمی، حروری و مرجئی تمام
جہانِ ضلالت تھا خاشاک و خَس |
٭٭٭