امت نے کیا نوش کوئی بادۂ رنگین کر بیٹھے ہیں شاید سبھی جذبات کی تدفین بے کار نظر آتی ہے اس قوم پہ تلقین شاید اسی بنیاد پہ حالات ہیں سنگین اے ارضِ فلسطین
جس دھرتی پہ کروائیں شہہِ بطحا (ﷺ) امامت اُس مٹی سے ہو جاتی ہے بے لوث محبت بچوں پہ عیاں کیجئے اقصی کی حقیقت اسلام کی تاریخ کا یہ باب ہے رنگین اے ارضِ فلسطین
کرتا ہے ترا ذکر بیاں خالقِ ذیشان اے مسجدِ اقصی تیری عظمت کے میں قربان بھولے ہیں نہ بھولیں گے ترے حُسن کا عنوان حق باھُو کے دیوانے یہ اقبال کے شاہین اے ارضِ فلسطین
معصوم سی کلیوں پہ ہی اک بار نظر ہو کھلتے ہوئے غنچے نہیں چاہیں گے کہ گھر ہو ؟ برسوں کے بپا ظلم کا اب ختم سفر ہو بکھرے ہوئے اجسام نے کر ڈالا ہے غمگین اے ارضِ فلسطین -
اس جور کا اس کرب کا احساس نہیں ہے یہ خونِ مسلماں ہے تبھی پاس نہیں ہے فی الحال اسیروں کو کوئی آس نہیں ہے خاموش ہے کیوں ظلم پہ اس عہد کا آئین اے ارضِ فلسطین
کہرام مرے حلقۂ باطن میں بپا ہے صدیوں سے روا ظلم نے کیا حال کیا ہے پھیلی ہوئی وحشت کی عجب زرد وبا ہے دل درد سے معمور ہے اک پل نہیں تسکین اے ارضِ فلسطین
اے کاش کہ یہ کرب مسلماں پہ عیاں ہو تڑپے تیرے اس حال پہ بوڑھا کہ جواں ہو ہر لب پہ یہی ایک ہی پُر درد فغاں ہو دیکھی نہیں جاتی ہے تری حالتِ مسکین اے ارضِ فلسطین
اللہ کرے دشمنِ کم ظرف ہو فی النار ہوں ختم تری حد سے ہمہ قسم کے آزار ہو جائے ترا سینہ و دل امن سے سرشار تُو جبر کی اس قید سے آزاد ہو آمین! اے ارضِ فلسطین
|