شاعر اور تخلیق کار معاشرے کا سب سے حساس اور ذمہ دار فرد ہوتا ہے- عام آدمی کی سوچ جب انتہا پر پہنچتی ہے تو تخلیق کار کی سوچ کا آغاز ہوتا ہے- عام آدمی کسی واقعہ یا سانحہ کو دیکھ کر وقتی طور پر مغموم ہوتا ہے اور چند گھنٹوں یا دنوں بعد اس کیفیت سے نکل آتا ہے لیکن شاعر کسی بھی سطح کے سانحہ کے کرب کو نہایت شدت سے محسوس کرتا ہے اور مسلسل مضطرب رہتا ہےاور بالآخر کرب کا اظہار اپنے الفاظ میں کرتا ہے- اس کرب میں اتنی شدت ہوتی ہے کہ عام فرد بھی اس شدت کو محسوس کر سکتا ہے- دُنیا کی کسی بھی زبان کے تخلیق کاروں کا یہ وطیرہ رہا ہے- دنیا کے کسی بھی خطہ سے منسلک افراد جن کا تعلق شعر و ادب سے ہو وہ انسانیت کے غم پہ خاموشی برداشت نہیں کر سکتے- اس کی روایت صدیوں پر محیط ہے- جہاں شاعر عشق و محبت کی داستانیں اپنے موضوعات میں سمیٹ لاتا ہے وہیں انسانی مسائل پر بھی اس کا دل شدت سے دھڑکتا ہے- مسئلہ فلسطین کے پیشِ نظر اردو زبان و ادب میں بیشتر تخلیق کاروں نے اپنے الفاظ میں اس ظلمِ عظیم کا نوحہ لکھنے کی پر خلوص کاوش وسعی کی ہے-
مزاحمت کیا ہے ؟ اس کی ادب میں ضرورت کیوں پیش آتی ہے-یہ اپنی جگہ پر ایک اہم بحث اور سوال ہے-اس کے بارے میں فلسطین کے قومی شاعر محمود درویش کا کہنا ہے:
’’مزاحمت کی شاعری جیسا کہ میں سمجھتا ہوں وطن کی مدافعت کے مقصد کے ساتھ جڑی ہوتی ہے- ایسی قوتوں کے خلاف مدافعت جو وطن کو اپنے جبر و تسلط میں لانا چاہتی ہیں- چنانچہ میں جو کچھ بھی لکھتا ہوں اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو اس سے ایک ایسا انسان ابھر کے سامنے آئے گا جو مختلف صورتوں اور مختلف لبادوں میں وطن کا دفاع ہی کر رہا ہوتا ہے اور میں اس ہر طاقت کا مد مقابل ٹھہرتا ہوں جو مجھ سے میرا حق چھیننا چاہتی ہے‘‘-[1]
اردو زبان میں نمایاں طور پر خطۂ فلسطین کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبال کا نام اولین معنوں میں لیا جاتا ہے- اقبال کی طویل نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کا اصل سیاق و سباق بھی مسئلہ فلسطین ہے - اقبال نے سرزمینِ فلسطین و قبلۂ اول سے اپنی روحانی و جذباتی وابستگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا-
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق |
مسئلہ فلسطین کے حوالہ سے اپنے ایک خط میں قائد اعظم محمد علی جناح سے اپنے جذبات اور کرب کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’میں فلسطین کے مسئلے کیلئے جیل جانے کیلئے تیار ہوں، اس لیے کہ مَیں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندستان کیلئے، بلکہ اسلام کیلئے بہت عظیم ہے یہ ایشیا کا دروازہ ہے، جس پر بُری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں‘‘-[2]
آبروئے صحافت مولانا ظفر علی خان اپنی کتاب ’’چمنستان‘‘ میں تقسیمِ فلسطین پہ مسجدِ اقصیٰ کے محافظوں کو ڈھونڈتے ہیں :
لندن کے کمیشن کی سفارش سے پریشان |
مولانا ظفر علی خان اپنی نظم ’’غازیانِ فلسطین‘‘میں نغمہ سرا ہیں:
کفن باندھے ہوئے صحرا سے نکلے |
ترقی پسند ادباء میں نمایاں ترین شخصیت فیض احمد فیض کی ہے- فیض احمد فیض نے اُس وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعدد نظمیں کہیں تھیں- مزاحمت و انصاف پسندی کی آواز فیضؔ کے ہاں بڑے پیمانے پر موجود ہے- وہ سماجی و انسانی کرب پہ چیخ اٹھتے ہیں- فلسطین کی جنگ آزادی پر فیض احمد فیض منفرد اظہارِ سخن کرتے ہیں-فیض کی نظم ’’فلسطینی شہداء جو پردیس میں کام آئے‘‘ سے کچھ حصہ ملاحظہ ہو-
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد |
احمد ندیم قاسمی نے خود کو اردو کے نامور افسانہ نگار اور شاعر کے طور پر منوایا-احمد ندیمؔ قاسمی کا تعلق بھی ترقی پسند تحریک سے تھا ان کے ہاں بھی سماجی اور معاشرتی اقدار و افکار کے قتل پر بیشتر نظمیں موجود ہیں- ان کا یہ شعر زبان زدِ عام ہے جس میں دعائیہ اظہار ہے-
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ |
فلسطین کے ادب کا جب تذکرہ ہوگا تو محمود درویش کا نام لازم و ملزوم ہوگا- انہیں فلسطین کا قومی شاعر کہا جاتا ہے- 1912ء میں فلسطین کے ایک گاؤں الروہ میں پیدا ہوئے جبکہ وفات 2008ء میں ہوئی- محمود درویش کی شاعری کے اردو سمیت 20 سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور انہیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے-
محمود درویش کے جذبات کا تلاطم اس نظم میں دیکھئے:
ہم کہاں جائیں آخری سرحدوں کے بعد |
ایک اور نظم میں سخن کے در یوں وا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ عربی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے-
’’ہم آئے روز دو سے آٹھ لاشیں اٹھاتے ہیں دس زخمیوں کو مرہم کرتے ہیں ہمارے بیس کے قریب مکانات ملیا میٹ کر دیے جاتے ہیں صرف یہی نہیں ہر روز پچاس لگ بھگ زیتون کے درخت بھی اکھیڑ دیے جاتے ہیں‘‘- [4]
ابنِ انشاء کی نظم ’’دیوارِ گریہ‘‘ کسی نوحہ سے کم نہیں اس نظم میں امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پہ ابنِ انشاء نے واشگاف الفاظ میں بات کی ہے-
دیکھ بیت المقدس کی پرچھائیاں |
فلسطین پر حبیب جالب کی کئی نظمیں ہیں جن کے نام ’’یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی بچے‘‘، ’’اے جہاں دیکھ لے (فلسطین پر)‘‘ اور ’’اے اہل عرب اے اہل جہاں‘‘ وغیرہ ہیں- ان کی نظم ’’یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی بچے‘‘ سے کچھ اشعار :
یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی |
معروف غزل گو شاعر شہزاد احمد کے ہاں بھی فلسطینیوں اور قبلہ اول کے استحصال کا تذکرہ موجود ہے- اپنی نظم ’’حُسین علیہ السلام کا سبق‘‘ میں اپنے کرب کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
آگ کی سُن کر خبر سینے ہمارے ہوئے شق |
ماہر القادری کی نظم ’’ مشہدِ اکبر ‘‘ کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو-
یہ قبلۂ اول پہ عجب وقت پڑا ہے |
سرور انبالوی ممتاز شاعر ہیں- ان کی نظم ’’ارضِ فلسطین کی فریاد ‘‘ ایک حساس قاری پر گہرے نقش چھوڑتی ہے-
آتش و آہن کی بارش اور دھواں بارود کا |
یوسف ظفر کا یہ کلام بھی بھر پور شدت احساس اور کرب کے پہلوؤں کو لیے ہوئے ہے:
دیکھ اے چشمِ زلیخا قدر اپنے پیار کی |
ادا جعفری نسائی لب و لہجہ کی منفرد شاعرہ ہیں ان کی غزلیں و نظمیں بہت مقبول ہیں- سماجی و انسانی مسائل کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہوئی ان کے ہاں بہت سی نظمیں موجود ہیں-مسجد اقصی کے حوالے سے ان کے جذبات و احساسات ملاحظہ ہوں-
ایسا اندھیرا تو پہلے نہ ہوا تھا لوگو! محترم ہے مجھے اِس خاک کا ذرہ ذرہ خار زاروں کو کِسی آبلہ پا کی ہے تلاش |
گوہر ملیسانی ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں-اُن کی نظم ’’ایک ہوں مسلم‘‘ میں پُر تاثیر پیغام موجود ہے-
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے |
اسی نظم کے دوسرے حصہ میں اجتماعی ضمیر کو کچھ یوں جھنجھوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں-
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر |
محمد ایوب بسمل کی فلسطین پر طویل نظم جس کا پہلا بند کچھ یوں ہے:
کفر ہے برسر پیکار یہاں برسوں سے |
عائشہ مسرور کی نظم ’’نئی لوری‘‘ مسئلہ فلسطین کے پس منظر میں کئی پرسوز جذبات کا مرقع ہے:
اے میرے نور عین! جاگ |
نعیم صدیقی کی نظم ’’یروشلم‘‘اپنے مزاج کی بہت منفرد مزاحمتی نظم ہے-
لہو اگل رہا ہے آج، میرا پُرفنوں قلم |
عصر حاضر کے بیشتر بزرگ و نوجوان شعراء کے ہاں بھی مزاحمتی عناصر پائے جاتے ہیں- فلسطینی عوام اور بیت المقدس کے استحصال پہ عہدِ حاضر کے کچھ شعراء کا منتخب کلام ملاحظہ ہو-
جلیل عالی اپنی نظم ’’فلسطینی بھائیوں کیلئے‘‘ کے اندر فکر و فن کے حسین موتی پروتے ہیں:
یہ اتفاق نہیں اہتمام ہے اُس کا |
اپنی ایک غزل میں جس طرح جلیل عالی نے اسرائیلی و امریکی استبداد کے تکبر کو للکارا ہے اس نے اقبال کی یاد تازہ کر دی ہے :
وہ کسی کا کبھی ہوا ہی نہیں |
شوکت عابد کے الفاظ میں جس طرح کا اظہار ہے وہ اپنی مثال آپ ہے- ان کی طویل نظم سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
جس آگ میں جلتے ہیں در و بام فلسطیں |
سردار سلیم کے اشعار میں فلسطین سے محبت کا اظہار-
اے فلسطین تری خاک کے ذروں کو سلام |
آغا سروش نے عصرِ حاضر کے مسلمانوں کے خوابیدہ ضمیر کو مسئلہ فلسطین کے پیش نظر اس انداز میں ہدف بنایا ہے:
مشہور تھی دنیا میں جو عربوں کی حمیت |
سعود عثمانی نے مختلف پیرائے میں اظہار کیا ہے:
اپنی طاقت کے نشے میں بدمست ہیں مقتدِر صاحب مال و زر بھیڑیے |
اشفاق غوری نے بہت خوب صورت انداز میں جذبات رقم کئے ہیں:
اے فاتحِ غزوات کریں آپ ہی امداد، فریاد ہے فریاد |
ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر ڈاکٹر منظر پھلوری لکھتے ہیں:
افراد ترے قتل ہوئے گھر بھی لئے چھین ، اے ارضِ فلسطین |
امریکہ سے تنویر پھول کا اظہارِ وابستگی بہت منفرد ہے:
فریاد ہے، فریاد ہے اے قادر و قیوم |
مسعود نقوی لکھتے ہیں:
اے خدا قبلہ اول کے تحفظ کے لئے |
احساس نصیر آبادی کا اظہارِ سخن :
آہِ دلدوز سے قلب غمگین ہے |
کبیر والا سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ کومل جوئیہ لکھتی ہیں:
ہونگے یہ نصابوں میں مضامین، فلسطین |
سیدہ صائمہ کامران نے پرسوز جذبات کچھ یوں رقم کئے ہیں:
سارے جہاں نے دیکھا فلسطین جل گیا |
ہندوستان کے نوجوان شاعر عمران پرتاب گڑھی کی نظم ’’میں فلسطین ہوں‘‘ کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو:
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں |
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر سعید شارق کا اظہار خیال بھی قابل توجہ ہے:
ہم سب تماش بین ہیں اِن تین کے لیے |
راقم الحروف کا ایک شعر:
قربان جان و دل میں حسینوں پہ کیوں کروں |
مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کے موضوع کو لے کر اردو زبان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پردرد خیالات کی ترسیل کا سلسلہ پورے اخلاص سے جاری ہے اور کیوں نہ ہو کوئی بھی زبان بالعموم اور شاعری بالخصوص جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے- اُردو زبان سے منسلک ادباء آخری دم تک استحصالی و ظلم پر مبنی رویوں پر اپنی تخلیقات میں احتجاج کرتے نظر آئیں گے- دُعا ہے کہ ارضِ فلسطین میں ظلم و بربریت کا سیاہ باب ختم ہو اور امن و آشتی کا دور دورہ ہو-
٭٭٭
[1]محمد کاظم ، اخوان الصفا ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ، 2003 ، ص: 254
[2]پروفیسر حمید رضا صدیقی: اقبال کی سیاسی بصیرت- ملتان: بیکن بکس، 2005 ،ص: 41
[3]عبد الحق حقانی القاسمی، فلسطین کا ممتاز مزاحمتی شاعر، محمود درویش، فکر و نظر، ص:57
[4]محمود درویش، جالتہ الحصار، موسہ محمود درویش، دارالناشر، عمان، 2013، الطبعتہ الاولی، ص:15