دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں امن و استحکام کی شدید ضرورت محسوس ہوئی- بڑی بڑی ریاستوں نے اس پر غور و فکر کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی- اس تنظیم میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین جیسی بڑی ریاستوں کو ویٹو پاور دی گئی، تاکہ کسی بھی بڑے فیصلہ میں ان پانچ ویٹو طاقتوں کا اعتماد حاصل ر ہے- تاہم، اقوامِ متحدہ کی ستر سالہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تنظیم اپنے بیان کردہ مقاصد کو پوری طرح پایۂِ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی- اس کی بنیادی وجہ بڑی طاقتوں کے دوہرے معیارات اور مکارانہ پالیسیاں ہیں- بالخصوص امریکہ اور یورپی طاقتوں نے مل کر اس تنظیم اور دیگر اداروں کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کی ہے- جس وجہ سےدنیا کے دیگر ممالک کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچا ہے- فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ تب سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور ابھی تک حل طلب ہے مگر اس کے برعکس انڈونیشیا میں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے مسائل کو تیزی سے حل کیا گیا، کیونکہ ان سے مغربی طاقتوں کے مفادات وابستہ تھے- اسی طرح آج کے دور میں بھی مغرب کی عیاری بےنقاب ہو چکی ہے-
یوکرین کے مسئلہ پر مغربی دنیا بیک زبان روس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور روسی مذمت میں قراردادیں پاس کر چکے ہیں- جبکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر یکسر مختلف رویہ اپنا رہے ہیں- غزہ کی حمایت کرنے کی بجائے یہ اسرائیل کو سفارتی اور مالی امداد فراہم کر رہے ہیں- امریکہ اپنی سرپرستی میں اسرائیل کے دفاع کو یقینی بنا رہا ہے- ان طاقتوں کی یہ پالیسیاں اب کسی سے مخفی نہیں رہیں- ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنس کالامارڈ کے مطابق:
“The West's formidable response to Russia's invasion of Ukraine underscored double standards, exposing in comparison how inconsequential their reactions have been to so many other violations of the U.N. Charter”.[1]
’’روس کے یوکرین حملے پر مغرب کے زبردست ردعمل نے دوہرے معیارات کو اجاگر کیا، جس کے موازنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بہت سی دوسری خلاف ورزیوں پر ان کا ردعمل کتنا غیر ضروری رہا ہے‘‘-
مسئلہ فلسطین کا مختصر تاریخی جائزہ:
مسئلہ فلسطین کا آغاز 1917ء کے بالفور ڈیکلریشن سے ہوتا ہے، جس میں یہودیوں کےلیے الگ ریاست بنانے کا وعدہ کیا جاتا ہے- یہ ریاست برطانیہ کی نگرانی میں یورپ میں نہیں بلکہ ایشیاء میں مسلمانوں کی سرزمین فلسطین پر بنانے کا فیصلہ ہوا- خلافت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد فلسطین برٹش مینڈیٹ میں دیا گیا- جس کے بعد اس علاقے میں پوری دنیا سے یہودیوں کی غیرقانونی آمد شروع ہو گئی- فلسطینیوں نے اپنی تئیں ان برطانوی پالیسیوں کی پوری مخالفت کی- تاہم یہ مسئلہ چلتا رہا، حتیٰ کہ 1948ء میں اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا، جس کے جواب میں اقوام متحدہ نے اس علاقے کو ناجائز طریقے سے دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا- فلسطینیوں کے گھر کو زبردستی کاٹ کر یہودیوں کو دیا گیا اور جو حصہ فلسطینیوں کے حق میں آیا اسے بھی مزید دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ایک ویسٹ بینک اور دوسرا غزہ- اس فیصلےسے یہودیوں کی نئی ریاست قائم کی گئی ، جسے اسرائیل کا نام دیا گیا-
“The roots of this struggle can be traced to the Balfour Declaration of 1917 when British colonialists cynically gave European Zionists a “homeland” in Palestine in return for funds provided by the Rothschilds for Britain’s war against Germany”.[2]
’’اس جدوجہد کی جڑیں 1917 کے بالفور ڈیکلریشن سے معلوم کی جا سکتی ہیں جب برطانوی استعمار نے جرمنی کے خلاف برطانیہ کی جنگ کے لیے روتھ چائلڈز کی طرف سے فراہم کی جانے والی رقوم کے بدلے میں یورپی صیہونیوں کو فلسطین میں ایک ’’وطن‘‘ دے دیا ‘‘-
اس وقت سے لے کر آج تک فلسطینی مسلمان اپنی آزادی اور حقِ خود ارادیت کےلیے جدوجہد کر رہے ہیں- اسرائیل نے شروع دن سے بین الاقوامی قوانین،اقوام متحدہ کی قراردادیں اورانسانی حقوق کے چارٹر کی پروا کیے بغیر فلسطینیوں پر ظلم و تشدد جاری رکھا ہوا ہے- جس وجہ سے اس نے فلسطین کے بقیہ علاقے پر بھی قدم جمانے شروع کر دیے ہیں- تاہم فلسطینی مسلمان اپنی آزادی کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں- بین الاقوامی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ قابض طاقت کے خلاف جدوجہد کرنا مقبوضہ قوم کا حق ہے-
خلاصہ یہ کہ جب کسی کو ان کی زمین سے جبری طور پہ بے دخل کیا جائے ، جامع منصوبہ بندی سے ان کی نسل کشی کی جائے اور ان کی آبادیوں کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بنا دیا جائے اور وہاں بسنے والوں کو ایک بامشقت قیدی کی زندگی گزارنے پہ مجبور کیا جائے اور دنیا صرف تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہو تو جوابی رد عمل آنا فطری بات ہے- اسرائیل کی ظالمانہ و غاصبانہ پالیسیوں اور دنیا کی مجرمانہ خاموشی کا اور کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟
یوکرین تنازعہ اور مغربی طاقتوں کا رد عمل:
یوکرین مشرقی یورپ میں آباد ایک ملک ہے، جو کہ 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے آزاد ہوا-فروری 2021ء میں روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا- جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے اس حملہ کو روسی جارحیت قرار دیا- مغربی طاقتوں نے کھل کر یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا- ان کے مطابق یہ بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے اور عالمی امن و استحکام کو اس سے شدید خطرات لاحق ہیں-
غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے مغرب کی اصلیت کھل کر سامنے آ گئی- دنیا کو انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت اور حق ِ خود ارادیت جیسے سبق دینے والے خود اپنے عمل میں یکسر مختلف ہیں- ان کی دوغلی پالیسیاں اب دنیا کی نظر سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں- مغربی ممالک نے یوکرین پر روسی جارحیت کی کھل کر مخالفت کی- سیاستدانوں،سکالرز، میڈیا اور صحافیوں نے روسی حملے کو غیر قانونی قرار دیا اور یوکرینی عوام کی ہر ممکن مدد کےلیے اپنی خدمات پیش کرنے کا اعلان کیا - تاہم غزہ میں اسرائیل نے قتلِ عام جاری کیا ہوا ہے، مگر ان ممالک نے کوئی اعتراض نہیں کیا- جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ریاستوں نے اپنے مفادات کےلیے قوانین اور تنظیمیں قائم کی ہوئی ہیں- میکاولی کی تعلیمات کے مطابق ان کی نظر میں وہی قانون ہے، جس سے ان کے اغراض و مقاصد یقینی بن سکیں-
مغربی دوہرے معیارات اور اسرائیلی جارحیت:
وہی مغرب جو یوکرین پر حملے کے خلاف آہنی دیوار بن گیا- جنہوں نے روسی جارحیت کے خلاف یوکرینی حکومت اور عوام کو ہرممکن مدد فراہم کی- انٹرنیشنل میڈیا، صحافی، دانشور غرضیکہ تمام لوگوں نے یوکرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا- جبکہ معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر مغربی طاقتیں نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں، بلکہ اس کی مدد کےلیے اپنی فوج، ایئرکرافٹ کیرئیر اور سفارتی تائید بھی فراہم کر رہے ہیں-
سفیر ریٹائرڈ، ضمیر اکرم کے مطابق:
“Brazen Western support for Israeli oppression manifests criminal hypocrisy and double standards, violating all norms of international law, democracy, freedom, human rights and humanity”.[3]
’’اسرائیلی جبر کی ڈھٹائی سے مغربی حمایت مجرمانہ منافقت اور دوہرے معیار کو ظاہر کرتی ہے، جو بین الاقوامی قانون، جمہوریت، آزادی، انسانی حقوق اور انسانیت کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے‘‘-
امریکہ صدر جوبائیڈن نے ہنگامی طور پر اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا- ان کے مطابق اسرائیل پر حملہ کسی بھی ملک کی سلامتی پر حملہ ہے، جس کا بھرپور جواب دینا چاہیے-امریکی ایئرکرافٹ کیرئیر بحیرہِ روم میں موجود ہیں، تاکہ اسرائیل کے خلاف حملے پر اس کی مدد کر سکیں- امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اسرائیل کی حفاظت کےلیے مشرقِ وسطی کے ممالک کے دورے کر رہے ہیں-
یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے روس کے خلاف سخت بیان دیا-
“Together with our partners in Europe, we are supporting Ukraine in their fight for freedom now and we will help them over the long term. We are also working with nations everywhere to hold Russian forces accountable for the war crimes and other atrocities they have committed in Ukraine”.[4]
’’یورپ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر، ہم اب یوکرین کی آزادی کی لڑائی میں ان کی حمایت کر رہے ہیں اور ہم طویل مدت کے لیے ان کی مدد کریں گے- ہم ہر جگہ اقوام کے ساتھ مل کر روسی افواج کو یوکرین میں جنگی جرائم اور دیگر مظالم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کام کر رہے ہیں ‘‘-
جبکہ اسرائیلی جارحیت پہ صدر جوبائیڈن نے امریکہ کی اکثریت رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کا دورہ کیا اور انہیں ہر قسم کی معاونت کی یقین دہانی کرائی- فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی تو کیا کرنا، الٹا انہوں نے اپنے تیکھے بیانات سے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا- الشفاء ہسپتال پر اسرائیلی حملہ، جس میں سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے، صدر بائیڈن نے اس حملےکو حماس سے منسوب کر دیا- ایکسپریس ٹریبون کے کالم نگار رستم شاہ مہمند کے مطابق:
“What a mockery of international law and humanitarian norms when the deliberate destruction of a hospital that killed 500 people in Gaza is attributed by President Biden to an inaccurate Palestinian rocket!”.[5]
’’غزہ میں ہسپتال کو دانستہ تباہ کر کے 500 افراد کو ہلاک کرنے والے میزائل کو جب صدر بائیڈن نے غلط فلسطینی راکٹ سے منسوب کیا تو اور بین الاقوامی قانون اور جنگی قوانین کا کتنا مذاق ہے‘‘!
یورپین کمیشن بھی اس دوہرے معیار کو اپنانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے-سابق پاکستانی سفیر اور ڈان کی کالم نگار، ملیحہ لودھی اس رویے پر یوں رقم طراز ہیں:
“The EU Commission president Ursula von der Leyen once characterised Russia’s “attacks on civilian infrastructure” that aimed to deprive people of water and electricity as “acts of pure terror”. But neither she nor any Western leader chose to describe Israel’s action of cutting off electricity, water, food and fuel supplies to Gaza in a similar way”.[6]
’’یوروپی یونین کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے ایک بار روس کی خصوصیات بیان کیں کہ ’’شہری انفراسٹرکچر پر حملوں کی نشاندہی‘‘ جس کا مقصد لوگوں کو پانی اور بجلی سے محروم کرنا تھا کہ یہ ’’خالص دہشتگردی کی کارروائیاں ہیں‘‘- لیکن نہ تو انہوں نے اور نہ ہی کسی مغربی رہنما نے غزہ کو بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی سپلائی بند کرنے کے اسرائیل کے اقدام کے خلاف اسی طرح بیان کرنے کا انتخاب کیا ‘‘-
یعنی جو معیار روس یوکرین جنگ پہ قائم کرتے ہیں وہ اسرائیل کی غزہ پر چڑھائی کے وقت کیوں بدل جاتا ہے؟ کیا غزہ میں انسانی المیہ کو وہ ’’انسانی المیہ‘‘ نہیں مانتے؟ جرمنی اور فرانس نے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکالنے پر پابندی عائد کر دی ہے- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی جیسے ان کے نعرے کتنے بے معنی ہیں- امریکہ میں یونیورسٹیوں کے ڈونرز نے دھمکی دی ہے کہ اگر طلباء فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں تو وہ ان جامعات کی فنڈنگ روک لیں گے- گارڈین کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں عام سرکاری ملازم سے لے کر ہالی وڈ کے سلیبررٹیز کو فلسطین کے ساتھ حمایت پر خبردار کیا گیا ہے- باوجود ان پابندیوں کے، وہاں پہ انصاف پسند لوگ اپنی حکومتوں کی دوہری پالیسیوں پر سراپا احتجاج ہیں- آئرلینڈ کی قانون ساز کونسل کے سابقہ ممبر رچرڈ بوئڈ بیرڈ یورپی دوغلی پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“You’re happy to use the most strong and robust language to describe the crimes against humanity of [Russian President] Vladimir Putin, but you will not use the same strength of language when it comes to describing Israel’s treatment of the Palestinians.”[7]
’’آپ [روسی صدر] ولادیمیر پیوٹن کے انسانیت کے خلاف جرائم کو بیان کرنے کے لیے انتہائی مضبوط اور سخت زبان استعمال کرنے پر خوش ہیں، لیکن جب بات فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک کو بیان کرنے کی ہو تو آپ اتنی مضبوط زبان استعمال نہیں کریں گے‘‘-
برطانوی وزیراعظم رشی سنک کا کردار بھی فلسطین کے حوالے سے افسوسناک ہے، جبکہ یوکرین کی حمایت میں وہ بڑھ چڑھ کے شامل رہے ہیں-
مسئلہ یوکرین پر انہوں نے یوں بیان دیا:
“Putin was launching indiscriminate attacks on civilians in Ukraine”.[8]
’’پیوٹن نے یوکرین میں شہریوں پر اندھا دھند حملے شروع کیے ‘‘-
برطانیہ نے یوکرین کے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے یوکرین کو فوجی ہتھیار بھی مہیا کیے ہیں، تاکہ روسی فوج کا مقابلہ کیا جا سکے-
“The UK, the first country to provide Kyiv with modern battle tanks, also sent long-range cruise missiles to Ukraine ahead of its long-expected counteroffensive”. [9]
’’برطانیہ، کی ایو (یوکرین کا دارالحکومت) کو جدید جنگی ٹینک فراہم کرنے والا پہلا ملک ہے، اس نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائل بھی یوکرین کو اس کے طویل متوقع جوابی حملے سے پہلے بھیجے ‘‘-
جبکہ اسرائیلی جارحیت پر وزیراعظم رشی سنک کا مؤقف مختلف ہے- انہوں نے اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے فوری طور پر اسرائیل کا دورہ کیا- اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا:
“I am proud to stand here with you in Israel’s darkest hour, We will stand with you in solidarity. We will stand with you and your people. And we also want you to win.”[10]
’’ مجھے اسرائیل کی تاریک گھڑی میں یہاں آپ کے ساتھ کھڑا ہونے پر فخر ہے-ہم یکجہتی کے ساتھ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے- ہم آپ کے اور آپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ تم جیتو‘‘-
برطانیہ کی ہوم سیکریٹری سیولا بریورمین نے کہا کہ فلسطین کے حق میں نکلنے والے مارچ ’’نفرت مارچ‘‘ ہیں- انہوں نے برطانیہ میں فلسطینی جھنڈا لہرانے پر پابندی کا اظہار کیا-
جرمن چانسلر اولاف سکلوزنے بھی دیگر مغربی طاقتوں کی طرح دوہری پالیسی کو اختیار کیا- روس کی مذمت میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی- روس کے متعلق وہ کہتے ہیں:
“The Russian attack on Ukraine is a blatant violation of international law. There is no justification for it. Germany condemns this reckless act by President Putin in the strongest possible terms. Our solidarity is with Ukraine and its people”.[11]
’’یوکرین پر روسی حملہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے- اس کا کوئی جواز نہیں- جرمنی، صدر پیوٹن کے اس لاپرواہ اقدام کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے- ہماری یکجہتی یوکرین اور اس کے عوام کے ساتھ ہے‘‘-
جبکہ فلسطینیوں کے قتلِ عام پر ان کے ضمیر میں ذرا بھی جنبش نہیں ہوئی- فاشزم کی روایت پر چلتے ہوئے وہ اسرائیل کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں-
“At this moment, there is only one place for Germany — the place at Israel’s side.”[12]
’’اس وقت جرمنی کی حمایت ایک ہی جانب ہے - وہ ہے اسرائیل‘‘-
آج یہ سب ان ممالک میں ہو رہا ہے، جو یوکرین کے حق ِخود ارادیت اور سلامتی کیلئے آہنی چٹان کی طرح کھڑے رہنے کی اداکاری کرتے رہے - جبکہ غزہ میں چڑھتے اسرائیلی ٹینک اور ان کے نیچے سسکنے والی معصوم جانیں مغربی ضمیر پر کوئی اثر نہیں ڈال سکیں-ملیحہ لودھی، جو اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں،اسی حقیقت پر لکھتی ہیں:
“While Western leaders denounced Russian military actions and targeting of civilians in Ukraine, they refused to apply the same principle to Gaza”.[13]
’’جبکہ مغربی رہنماؤں نے روسی فوجی کارروائیوں اور یوکرین میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی، انہوں نے غزہ پر اسی اصول کو لاگو کرنے سے انکار کر دیا ‘‘-
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے دوہرے معیارات بھی ڈھکے چھپے نہیں- کچھ ماہ پہلے کینیڈا کے اندر سکھ شہری قتل ہوا- تحقیق میں پتہ چلا کہ اس مکروہ کام میں بھارت کا ہاتھ ہے- جس وجہ سے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے- مگر اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے، اس پر وزیر اعظم ٹروڈو نے اظہار مذمت تک کرنا بھی پسند نہیں کیا، اس کے برعکس انہوں نے اسرائیل سے اظہار یکجہتی کیا-
بھارت اور اسرائیل: مشترک پالیسیاں
اس تمام صورتحال میں بھارت کا کردار بھی قابلِ مذمت ہے- وزیر اعظم مودی نے کھل کر اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا- بھارت اور اسرائیل دونوں قابض ریاستیں ہیں اور دونوں کی ظالمانہ پالیسیاں بھی تقریباً یکساں ہیں- جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پہ قبضہ کر کے ان کو حق ِخود ارادیت سے محروم کیا ہوا ہے، بعینہ بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضہ جما کر کشمیریوں کی آزادی کو سلب کیا ہوا ہے- دونوں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کےلیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور ان مذموم مقاصد کےلیے دونوں کو امریکی حمایت حاصل ہے- پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری لکھتے ہیں:
“The two occupying powers also seem to learn how to sustain their illegal occupation of these territories from each other. Both enjoy firm US support”.[14]
’’ایسا لگتا ہے کہ دونوں قابض طاقتیں ایک دوسرے سے ان علاقوں پر اپنے غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کا طریقہ بھی سیکھ رہی ہیں- دونوں کو امریکی حمایت حاصل ہے‘‘-
اقوام متحدہ کی ناکامی:
حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کےلیے قرارداد پیش کی گئی، لیکن امریکہ نے ہمیشہ کی طرح اس قرارداد کو ویٹو کر دیا- امریکہ نے اپنے زیادہ تر ویٹوز کو اسرائیل کی حمایت میں استعمال کیا-
“The US has used its veto power at least 34 times to block UN Security Council resolutions that were critical of Israel”.[15]
’’امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کو روکنے کے لیے کم از کم 34 بار اپنے ویٹو پاور کا استعمال کر چکا ہے جو اسرائیل کے لیے تنقیدی تھیں ‘‘-
مغربی ممالک کی دوہری پالیسی ان کے تعمیر کردہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور تنظیموں سے بھی عیاں ہوتی ہے- آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قیام کا مقصد غریب اور پسماندہ ممالک کو مالی امداد فراہم کر کے خودمختار بنانا ہے- جبکہ، دراصل ان اداروں کو بطور آلہ استعمال کر کے امریکہ دوسرے ممالک کو کنٹرول کرتا ہے- مختلف ہتھکنڈوں کے تحت ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا جاتا ہے- جس کے بعد ان کی آزادی اور خودمختاری سلب کر لی جاتی ہے اور اقوامِ متحدہ میں ان کا ووٹ بھی امریکہ کی حمایت میں استعمال ہوتا ہے-
انٹرنیشنل میڈیا کی متعصبانہ کوریج:
اس جنگ میں جہاں دیگر تنظیموں اور حکومتوں کی حقیقت آشکار ہوئی ہے- وہیں انٹرنیشنل میڈیا کی اصلیت بھی سامنے آ گئی- میڈیا اور صحافت کا بنیادی نظریہ حق و سچ کو عوام تک پہنچانا ہوتا ہے- میڈیا جو خود کو آزاد سمجھتا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کا راگ آلاپتے نہیں تھکتا وہ انٹرنیشنل میڈیا بھی اپنے حکمرانوں کی طرح حالات و مفادات کے مطابق رنگ بدل لیتا ہے اور ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا رہتا ہے- یوکرین کی جنگ کو سی این این اور بی بی سی جیسے بڑے میڈیا نیٹ ورکس نے خوب کوریج دی- جس میں اس نکتہِ نظر سے پروگرام نشر کیے گئے، جن میں روس ظالم اور جابر ڈکٹیٹر کے طور پر سامنے آیا،لیکن یہی میڈیا غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر ایسے چپ ہے کہ سانپ سونگھ گیا ہو- بلکہ اس کے برعکس وہ اسرائیل کی کاروائیوں کی تائید کر رہے ہیں- ان چینلوں کے ملازمین کو فلسطین سے حمایت کا اظہار کرنے پر سختی سے منع کیا گیا ہے- دنیا میں جو چینل اسرائیلی بربریت کو بےنقاب کر رہے ہیں،یہ بھی مغربی ممالک کو گوارا نہیں- الجزیرہ چینل، جو بےدھڑک ہو کے اسرائیلی مکروہ عزائم کو بے نقاب کر رہا ہے اس کو روکنے کےلیے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن نے قطری حکام سے رابطہ کیا- ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق:
“Blinken asked the Qataris to “turn down the volume on Al Jazeera’s coverage because it is full of anti-Israel incitement”.
All this perhaps settles this question that Israel indeed exercises considerable control over the Western media and also perhaps the policies of Western capitals”.[16]
’’بلنکن نے قطریوں سے کہا کہ الجزیرہ کی کوریج کوکم کر دیں کیونکہ یہ اسرائیل مخالف اشتعال انگیزی سے بھرا ہوا ہے‘‘-
’’یہ سب شاید اس سوال کو حل کرتا ہے کہ اسرائیل واقعی مغربی میڈیا اور شاید مغربی دارالحکومتوں کی پالیسیوں پر کافی کنٹرول رکھتا ہے‘‘-
بین الاقوامی عدالت انصاف میں مغربی منافقت:
بین الاقوامی عدالت انصاف اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام قائم عدالت ہے- یوکرین پر جارحیت کی وجہ سے اس عدالت نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہوئے ہیں -[17] لیکن اسرائیلی وزرائے اعظم، جنہوں نے سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کیا، جن میں عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا، ان وزراء کے خلاف آج تک اس عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری نہ کیے تو اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس عدالت کے فیصلے مغربی طاقتوں کی منشا کے مطابق کیے جاتے ہیں-
حاصل بحث:
عالمی امن اور استحکام کےلیے بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی غیر جانبداری ناگزیر ہے-ویٹو کی طاقت والی ریاستوں کو انصاف اور قوانین کے مطابق مسائل کو حل کرنا چاہیے- تاہم موجودہ حالات میں امریکہ اور اس کے تحت نیٹو کی ریاستیں بڑی طاقت ہیں، جن کی خودغرض اور مکارانہ پالیسیوں کی وجہ سے عالمی امن کو شدید دھچکا لگا ہے- کشمیر میں بھارتی جارحیت اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مغربی حمایت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مغربی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کےلیے کسی حد تک بھی جا سکتی ہیں - تاہم ا ب دنیا کی نظر میں ان کی منافقت اور دوہرے معیارات عیاں ہو چکے ہیں- جلد یا بدیر ان کا زوال یقینی ہے، کیونکہ جھوٹ اور باطل کو ہمیشہ شکست ہوئی ہے-
٭٭٭
[1]https://www.voanews.com/a/west-s-ukraine-response-exposes-double-standards-amnesty/7024914.html
[2]https://qoshe.com/02167143652
[3]https://qoshe.com/02167143652
[4]https://www.whitehouse.gov/briefing-room/statements-releases/2023/08/24/statement-from-president-joe-biden-on-ukraine-independence-day/#:~:text=Together%20with%20our%20partners%20in,they%20have%20committed%20in%20Ukraine
[5]https://tribune.com.pk/story/2443101/west-backed-gaza-genocide-has-shamed-humanity?amp=1#amp_tf=From%20%251%24s&aoh=16991723486694&referrer=https%3A%2F%2Fwww.google.com
[6]https://www.dawn.com/news/1786870/war-hypocrisy-and-tragedy
[7]https://www.aljazeera.com/news/2023/10/9/western-leaders-accused-of-hypocrisy-over-response-to-palestine-ukraine
[8]https://www.dawnnews.tv/news/1215741/
[9]https://www.ft.com/content/57ee0384-c431-42bf-a119-2c8cd05e436b
[10]https://www.aljazeera.com/news/2023/10/19/british-pm-sunak-in-israel-whats-on-his-agenda
[11]https://twitter.com/Bundeskanzler/status/1496730907704799233?t=0TsfKUUeOd7yYLcyC8WEjw&s=19
[12]https://apnews.com/article/germany-scholz-israel-aid-hamas-b38a3cf34895fbfc0c966bb27413886f
[13]https://www.dawn.com/news/1786870/war-hypocrisy-and-tragedy
[14]https://www.dawn.com/news/1786580/two-struggles
[15]https://www.aljazeera.com/news/2023/10/26/how-the-us-has-used-its-veto-power-at-the-un-in-support-of-israel
[16]https://tribune.com.pk/story/2443617/israel-and-the-western-media
[17]https://www.icc-cpi.int/news/situation-ukraine-icc-judges-issue-arrest-warrants-against-vladimir-vladimirovich-putin-