کیسے دیکھے کوئی رفتارِ امامِ صادق کتنے اذہان پہ انوارِ حقیقت کھولے مجھ پہ بھی علم کی اور فقر کی میراث کھلے بن کے نکلے وہ فقیہہ اور امامِ عالَم علم کا جیسے سمندر ہو رواں سینے میں وہ سیاست ہو یا پھر فہم و فراستِ علمی کس میں جرأت کہ کرے ظلم کسی مفلس پر کتنی صدیوں کی مسافت کا سفر بِیت چکا علم و عرفان کی صورت میں جو تقسیم ہوا زہر دینے کو بلایا جو شہہِ دوراں نے میری بخشش کا یہی کاش وسیلہ بن جائے معرفت، حلم، سخا، فقر و ہنر کا جامیؔ |
٭٭٭