ابتدائیہ:
زندگی کا فلسفہ اور سماجی ارتقا دونوں کا تعلق ایک سوال سے ہے جو کہ انسانی تاریخ کا سب سے اہم اور بڑا سوال ہے- کیا انسان کی زندگی کا کوئی مقصد ہے یا نہیں؟ اگر زندگی کا کوئی مقصد ہے تو اسے پورا کرنے کیلئے انسان کو یہاں رہ کر بھرپور محنت کرنی ہے تا کہ اس کی زندگی کا مقصد پورا ہو جائے- اس مقصد کو پورا کرنے کےلئے کی جانے و الی محنت کے نتیجے میں زندگی گزارنے کا ایک مکمل نظام سامنے آتا ہے جس کی کئی جہتیں ہیں جس میں معیشت، سیاست، تعلیم وغیرہ شامل ہیں- انہی نظاموں اور ان کے طور طریقوں میں درجہ بدرجہ تبدیلی کے نتیجے میں ایک نیا فلسفہ جنم لیتا ہے جسے سماجی ارتقا کا فلسفہ کہتے ہیں-امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) اسلامی تاریخ کی ایک مشہور شخصیت ہیں- اس مضمون میں امام پاک کی تعلیمات میں زندگی اور اس کے سماجی ارتقا کے بارے امام پاک کے نظریات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے-
زندگی کا مقصد:
سماجی ارتقا ایک ایسا معاشرتی مظہر ہے جس کی بنیاد میں ہمیشہ وہی قوانین ہوتے ہیں جو کہ ایک فرد کی زندگی کا مقصد پورا کرنے کیلئے ضروری ہیں یہ مقصد ایک کمپاس کی طرح ہوتا ہے جو کہ معاشرے کے ارتقا کی سمت کا تعین کرتا ہے- جب تک زندگی کا مقصد تبدیل نہ ہو تب تک معاشرے کے زندگی گزارنے کے طریقوں میں وقت کی ضروریات کے مطابق آہستہ آہستہ تبدیلی ہوتی رہتی ہے- اگر کسی معاشرے کا زندگی کا مقصد ہی تبدیل ہو جائے تو اس معاشرے کے زندگی گزارنے کے طریقوں میں ایک انقلاب آجاتا ہے جیسا کہ مغربی معاشرے میں پچھلی چند صدیوں میں ایسے کئی انقلابات دیکھے جا چکے ہیں- چونکہ امام پاک کا دور اسلام کے شروعات کے ادوار میں سے ہے اس لیے ہمیں آپ کے دور میں اسلامی تعلیمات میں ایک پختگی نظر آتی ہے جس کا اظہار آپ کی تعلیمات سے مزید واضح ہوجاتا ہے کہ امام پاک با مقصد زندگی کو ہی زندگی مانتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ انسان یہاں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنا وقت مفید اور با مقصد کاموں میں خرچ کرے-
آپ کی تعلیمات کا تعلق اسلامی روایت سے ہے تو اس لیے آپ کی تعلیمات کے مطابق انسان کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے اور انسان کی کامیابی کا انحصار بھی اس مقصد کے پورا ہونے پر ہے- یہ مقصد اس جہان میں رہ کر اللہ کے دیئے ہوئے قوانین کے مطابق زندگی گزار کر اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہے- اس لیے آپؓ فرماتے ہیں:
’’ اللہ نے تمہیں اپنا بندہ بنایا ہے اور تمہیں حکم دیا کہ اپنے دل، اپنی زبان اور اپنے اعضا سے اس کی عبادت کرو اور اس کی بندگی کا احساس کرو کیونکہ اس کی تم پر حاکمیت ہے- جان لو کہ مخلوقات کی پیشانیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ‘‘- [1]
علمی پہلو:
امام پاک کے تمام نظریات میں سے نظریہ علم مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور آپ کی شہرت کی کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ آپ کا علمی مقام اور علمی خدمات ہیں- آپؓ کی علمی وسعت اور کوششوں کے نتیجے میں اسلامی فقہ کے تمام مذاہب وجود میں آئے کیونکہ سنی فقہی مذاہب کی بنیاد رکھنے والے دو اہم امام یعنی امام ابو حنیفہ اور امام مالک آپ کے شاگرد تھے- اس کے علاوہ آپؓ کیمیا کے علم کے بھی ماہر تھے اور کیمیا کے علم کا بانی، جابر بن حیان، آپ کا شاگرد تھا- آپؒ علم حاصل کرنے کے دو اہم مقاصد بیان کرتے ہیں جس میں سے ایک کا تعلق اللہ کے ساتھ جبکہ دوسرے کا تعلق معاشرے کے ساتھ ہے- آپؒ فرماتے ہیں:
’’علم ہی ہر اعلیٰ مقام اور مرتبے کی بنیاد ہے- اسی لیے حضور نبی کریم(ﷺ) نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے- یہاں علم سے مراد تقویٰ اور یقین کا علم حاصل کرنا ہے‘‘- [2]
’’حضرت علی کا قول ہے کہ علم حاصل کرو چاہے اس کیلئے چین کیوں نہ جانا پڑے، یعنی اپنی ذات کا علم حاصل کر و کیونکہ اسی میں خدا کا علم چھپا ہوا ہے‘‘- [3]
’’ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کیلئے علم کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے اور علم اس جہان میں انسان کی زینت اور اگلے جہان میں جنت کی ضمانت ہے اور علم ہی سے انسان اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے ‘‘-[4]
مگر آپؓ زبانی کلامی علم کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ علم کی اہمیت کی بنیاد عمل پر رکھتے ہیں- آپ ؓ فرماتے ہیں:
’’جان لو کہ علم کی تھوڑی مقدار کے لیے بہت زیادہ عمل درکار ہوتا ہے، کیونکہ قیامت کا علم ایسا علم رکھنے والے شخص سے اپنی پوری زندگی میں اس کے مطابق عمل کرنے کا تقاضا کرتا ہے‘‘-[5]
اسی طرح آپؓ علم کے معاشرتی پہلو کو انسان کے اخلاق کے ساتھ جوڑتے ہیں اور ایک عالم کی لازمی خصوصیات یوں بیان کرتے ہیں:
’’علم رکھنے والے شخص کو لازم ہے کہ وہ عقلمند، مہربان، ہمدرد، صابر، اچھی نصیحت کرنے والا اور سخی ہو‘‘- [6]
’’سچا عالم وہ ہے جس کا درست عمل، خالص دعائیں، سچائی اور تقوٰی بولتا ہو نا کہ وہ جس کی صرف زبان، بحثیں، موازنے اور دعوے بولتے ہوں‘‘- [7]
روحانی پہلو:
جہاں امام پاک کی علمی و فکری تعلیمات سے لوگ فیض یاب ہو رہے تھے وہیں آپؓ کی روحانی تعلیمات کا چرچہ بھی بہت بلند تھا جس کا اعتراف امام ابو حنیفہ یوں کرتے ہیں :
’’ اگر میں دو سال امام جعفر صادق کی صحبت میں رہ کر معرفت کی تعلیم حاصل نہ کرتا تو ابو حنیفہ ہلاک ہو جاتا‘‘- [8]
امام پاک انسان کو روح اور جسم کا مرکب مانتے ہیں اور روح کی بیداری اور نفس کی پاکیزگی کو اللہ کی معرفت کیلئے لازمی قرار دیتے ہیں- اما م پاک فرماتے ہیں:
’’کرامت والا وہ ہے جو اپنی ذات کے لیے نفس کو سرکشی سے روکے رکھے کیونکہ نفس سے جنگ کرنا اللہ تعالیٰ تک رسائی کا سبب ہے‘‘- [9]
اسی طرح آپؓ اللہ کی معرفت اور اور بندے کے ساتھ اس کے روحانی قرب کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
’’ اللہ کی معرفت جڑ ہے اور ایمان اس کی شاخ ہے‘‘- [10]
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے میں اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جتنا کہ رات کی تاریکی میں سیاہ پتھر پر چیونٹی رینگتی ہے‘‘-[11]
آپؓ الہام کے بھی قائل تھے اور اس کا رد کرنے والوں کے بارے میں یوں فرماتے تھے:
’’(اللہ تعالیٰ کے ہاں) مقبولیت کے اوصاف میں سے ایک وصف الہام بھی ہے جو لوگ دلائل سے الہام کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں وہ بد دین ہیں ‘‘- [12]
ایک عارف کے اوصاف بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’ ایک عارف بظاہر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس کا دل اللہ کے ساتھ ہوتا ہے اگر اس کا دل پلک جھپکنے کے وقت کیلئے تک بھی اللہ کو بھول جائے تو وہ اس کی تڑپ میں مر جائے گا‘‘- [13]
سیاسی پہلو:
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کربلا کے سانحہ میں جو حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)اور ان کے اہل و اعیال کے ساتھ ہوا وہ انتہا درجے کا ظلم تھا- مگر یہ ظلم صرف کربلا تک نہیں رہا بلکہ اس سانحے کے بعد بھی اموی بادشاہوں نے سادات کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں رکھا کیونکہ ان کو سادات کی سیاسی طاقت کا خوف ہر وقت رہتا تھا - اسی لیے اُموی بادشاہ اپنی پوری کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح سادات کو دبایا جائے اور اس کیلئے ان کا ہتھیار ظلم و جبر ہی تھا - ان حالات کو دیکھتے ہوئے اما م زین العابدین (رضی اللہ عنہ)نے حکومتی سیاسی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر لی تا کہ مسلمانوں میں فتنہ و فساد پیدا نہ ہو - آپؒ نے تعلیم و تلقین کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا- لیکن آپؒ نے اپنے اردگرد بیٹھنے والے لوگوں کو ہمیشہ حکومتی مظالم کی مخالفت کی تعلیم دی اور ان میں خودّاری و انصاف پسندی کا جذبہ پیدا کیا- اور یہی وہ روایت ہے جس پر ہمیں امام پاک کاربند نظر آتے ہیں- امام پاک نے تو اپنے عقیدت مندوں کو کئی معاملات میں عدم تعاون کی نصیحت کر رکھی تھی کیونکہ آپ کے نزدیک ظالم کا ساتھ دینا اس کے ظلم میں شریک ہونے کے برابر ہے- [14]
امام پاک کی زندگی کے حالات کو پڑھنے کے بعد جو سیاسی فلسفہ سامنے آتا ہے اس کے مطابق انسان کو حالات کے تقاضوں کے مطابق سیاسی فیصلے کرنے چاہیے- جن سیاسی اقدام سے لوگوں میں انتشار اور فتنے کا خطرہ ہو ان سے اجتناب کرنی چاہیے- ایسے حالات میں بعض دفعہ امام پاک کے پاس کچھ انقلابی بھی آتے تھے کہ وہ امام پاک کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹ دیں- تو امام پاک ان کی باتوں کو غور سے سنتے تھے اور ان کی ذہنی و نفسیاتی کیفیات کا بغور جائزہ لیتے تھے- مگر ہر بار آپ کو یہی علم ہوا کہ یہ لوگ سادات کا نام استعمال کر کے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں- اس لیے امام پاک خود بھی ایسے کام سے دور رہتے تھے اور اپنے لوگوں کو بھی اس سے الگ رکھتے تھے -[15] اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ سیاسی معاملات میں جوش کی بجائے ہوش اور بصیرت سے کام لینا چاہیے-
امام پاک نے ان پرفتن سیاسی حالات میں رہ کر بھی اپنی علمی و تحقیقی کوششوں کو جاری رکھا- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کوششوں سے انہوں نے اسلام کی علمی بنیادوں کو اتنا مضبوط کر دیا کہ آنے والے وقت میں اسلامی ریاست کے سیاسی و قانونی نظام کو تیار کرنے کیلئے جتنی بھی کوششیں کی گئیں ان کی بنیاد میں امام پاک اور ان کے شاگردوں کے علمی کارنامے تھے- اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کسی قوم کے سیاسی حالات جیسے بھی ہوں اسے اپنے لوگوں کیلئے علم و تحقیق کا میدان ہمیشہ کھول کر رکھنا چاہئے اور ان حالات میں ایسے قابل لوگ پیدا کرنےچاہیئں جو آنے والے وقت میں قوم کا نظم و نسق سنبھال سکیں وگرنہ اس قوم میں ایسے لوگ بھی باقی نہیں رہیں گے جو مستقبل میں قوم کی قیادت کر سکیں-
معاشی پہلو:
معاشی پہلو زندگی کے تمام سماجی پہلوؤوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ جب تک ایک انسان معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوتا تب تک وہ زندگی کے دیگر معاملات کو بھی بہتر طریقے سے انجام نہیں دے سکتا- امام پاک نے جہاں لوگوں کو دین کی تبلیغ کی وہیں انہوں نے دنیاوی معاملات پر بھی بھرپور زور دیا اور امام پاک خود بھی زراعت کے پیشے سے وابستہ تھے – آپ کے معاشی فلسفے کو درج ذیل واقعات کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے-
’’ایک دن آپؓ نے ایک صحابی کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ حج کے لیے کیوں نہیں گئے تو لوگوں نے عرض کی کہ اس نے تجارت چھوڑ دی ہے اب سرمایہ کم ہو گیا ہے- یہ سننا تھا کہ آپ سنبھل کر بیٹھ گئے فرمایا تجارت کو مت چھوڑو ورنہ بیکار ہو جاؤ گے تجارت کرو اسی میں برکت ہے‘‘-[16]
ایک شخص نے امام جعفر صادق سے عرض کی کہ حضور بازار چھوڑنا چاہتا ہوں تو آپؓ نے فرمایا کہ اس کے نتیجے میں تمہاری رائے کا وزن کم ہو جائے گا اور تم سے کسی بات میں مدد نہ لی جائے گی‘‘-[17]
امام پاک جہاں معاشی بہتری کی تعلیم دیا کرتے تھے وہیں آپؒ حرص اور فضول خرچی کی بھی نفی کرتے تھے اور میانہ روی کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے- آپؒ فرماتے تھے:
’’دیکھو طلب معیشت کو بےکار آدمی سے زیادہ اور دنیا کے حریص آدمی سے کم ہونا چاہیے- اپنے نفس کو حرص سے محنت کی منزل میں لے آؤ اور ضعف و سستی سے بلند بالا بناؤ- اتنا حاصل کرو جتنا ایک مومن کے لیے ضروری ہوتا ہے ‘‘-[18]
’’فضول خرچی سے غربت پیدا ہوتی ہے اور میانہ روی سے مالداری وجود میں آتی ہے ‘‘-[19]
سماجی پہلو:
اسلام کے ابتدائی دور سے ہی زہد، تصوف اور درویشی کو ظاہری لباس سے ساتھ جوڑ دیا گیاہے- عوام کی نگاہ میں نیک اور اچھا اسے ہی سمجھا جاتا ہے جس کے کپڑے بالکل سادہ یا پیوند لگے ہوئے ہوں اور زندگی کے عیش و عشرت کے سامان مثلا اچھی سواری، لذیذو عمدہ کھانے وغیرہ سے تو اس کا کوئی تعلق ہونا ہی نہیں چاہیے- ان معیارات کی اسلامی تعلیمات میں کوئی گنجائش نہیں ہے - جبکہ ایک عمدہ زندگی گزارنے کیلئے انسان کو سجنے سنورنے اور دنیاوی چیزوں سے لطف اندوز ہونے کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے - [20]
اسی لیے آپ انتہائی خوش لباس تھے اور اکثر ایسے لباس استعمال کرتے تھے جو کہ لوگوں کو حیران کر دیا کرتے تھے کہ رسول اللہ(ﷺ)کی آل ہو کر بھی آپؒ ایسے شاہانہ لباس کا استعمال فرماتے ہیں-
لیکن امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)یہاں بھی اپنی اسلامی روایت اور اقدار کو بالکل نہیں بھولتے اور ظاہری لباس کی عمدگی کے ساتھ ساتھ تقویٰ کے لباس کی بھی نصیحت کرتے ہیں:
’’ظاہری لباس بنی آدم کی حیا کو برقرار رکھنے کیلئے خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے- یہ عزت کا نشان ہے جو اللہ نے آدم کی اولاد کو دی ہے- یہ عزت کسی اور مخلوق کو نہیں دی گئی- یہ مومنین کو اس لیے دی گئی ہے تا کہ وہ ان کا استعمال کر کے خدا کے فرائض پورے کریں- تمہارے بہترین لباس وہ ہیں جوتمہیں خدا سے دور نہیں کرتے ہیں درحقیقت وہ لباس جو تمہیں اس کی یاد ، شکر گزاری اور فرمانبراداری کے قریب لاتے ہیں- ایسے لباس جو تمہیں تکبر، دکھاوا اور گھمنڈ کی طرف راغب نہیں کرتے ‘‘-[21]
اسی طرح امام پاک لوگوں کو ان کے اہل و اعیا ل کی فکر کرنے کی سختی سے ہدایت کرتے تھے- آپ فرماتے تھے:
’’ دوسروں کے سر اپنا بوجھ ڈالنے والا ملعون ہوتا ہے اپنے عیال سے غافل ہونے والا بھی ملعون ہوتا ہے‘‘- [22]
’’ آپؓ حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کی نسبت سے فرماتے تھے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنا اولاد و اطفال کیلیے رزق کی طلب کی کوشش سے زیادہ اہم نہیں ہے -معاش کے لیے نکلنے والا خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مانند ہے- حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کا عام دستور تھا کہ کسی شخص کو بھی دیکھ کر اس کے کام کے بارے میں سوال کرتے تھے اور اگر اس نے اپنی بیکاری کا اظہار کر دیا تو وہ آپ کی نظروں سے گر جاتا تھا- اسی لیے امام پاک (رضی اللہ عنہ) نے حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا تھا کہ اگر تجارت چھوڑ دو گے تو لوگوں کی نظروں سے بھی گر جاؤ گے‘‘-[23]
اخلاقی پہلو:
انسان کا اخلاق اس کی تربیت کے اثر اور اس کی تعلیم کے ثمر کی نشانی ہوتا ہے- ایک انسان بظاہر جتنا تعلیم یافتہ ہو اگر اس کا اخلاق اچھا نہیں ہے تو اسے معاشرے میں وہ مقام نہیں مل سکے گا جو اس کے علم کا تقاضا ہے- اس لیے امام پاک اخلاقی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا کرتے تھے تا کہ لوگ معاشرے کیلئے رحمت بن جائیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں- آپؒ فرماتے ہیں:
’’انسان کی بنیاد چند خصلتوں پر رکھی گئی ہے وہ انہیں پر ہوتا ہے جن پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے لیکن کبھی جھوٹ اور خیانت پر اس کی بنیاد نہیں رکھی گئی ‘‘-[24]
’’بدعنوانی(کرپشن) کی بنیادی وجہ اس دنیا سے محبت، مال جمع کرنا، نفس کی پیروی کرنا اور اس کی بھوک کو مزید بڑھانا، اپنی تعریف پسند کرنا، شیطان سے اتفاق کرنا اور اس کے نقش قدم پر چلنا ہے اور ان تمام عیبوں کا منبع اللہ کی طرف توجہ نہ دینا اور اسے بھول جانا ہے‘‘-[25]
’’مغرور آدمی کے ساتھ سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اس سے وہ چیز چھین لی جاتی ہے جس پر اسے غرور ہوتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ وہ کتنا حقیر اور نااہل ہے اور اس پر وہ خود اپنے خلاف گواہ ہوگا جو کہ اس کے خلاف ایک مضبوط دلیل ہو گی اور یہی حال ابلیس کا ہوا تھا‘‘-[26]
’’اللہ کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا، اللہ کی اپنے بندے پر بے پناہ مہربانی کی نشانی ہے- جو شخص اللہ کے ساتھ مخلص اور عاجزی والا ہوگا، وہ لوگوں کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک کرے گا‘‘- [27]
اختتامیہ:
امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ)کا فلسفہ زندگی کی تمام جہتوں پر مکمل اور گہری نظر رکھتا ہے-آپؓ نے زندگی کےتقریباً ہر شعبے پر بہت توجہ دی ہے تا کہ ہر طرح کا انسان آپ کے فلسفے سے کچھ سیکھ کر اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا سکے - آپ کے نظریات سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان کو اپنی دینی اور دنیاوی دونوں ضروریات کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اور بالخصوص معاشی و علمی ضروریات جو کہ آج کے دور میں بہت زیادہ اہم ہو گئی ہیں - امام پاک کے اقوال سے بھی یہ ظاہر ہے کہ اگر آپ معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے تو آپ علمی و مذہبی طور پر بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتے- آپ کے مذہبی خیالات بس ثواب کی حد تک محدود رہ جائیں گے جن کا دوسرے لوگ کوئی عملی اثر قبول نہیں کریں گے- اگر آپ کو اس جہان میں کامیابی اور قبولیت چاہیے تو اس کیلیے ضروری ہے آپ خود کو معاشی، علمی، فکری، تحقیقی اور سیاسی طور پر مضبوط کریں- جس کی سب سے بڑی مثال بین الاقوامی سیاست کے حالات ہیں کہ جو اقوام معاشی و علمی طور پر مضبوط ہیں دوسری اقوام بھی ان کے نظریات سے اثر قبول کرتی ہیں اور جن کے پاس یہ طاقت نہیں ہے ان کے نظریات کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا چاہے وہ کتنے ہی عمدہ اور مفید کیوں نہ ہوں-
٭٭٭
[1]Lantern of the path: p64
[2]ایضاً
[3]ایضاً
[4]ایضاً
[5]ایضاً
[6]Lantern of the path: p6
[7]ایضاً
[8](مختصر التحفۃ الاثنى عشریة، ص:8، مطبعه سلفیه، قاهره)
[9]تذکرۃ الاولیاء: ص: 10
[10]Lantern of the path: p129
[11]ایضاً
[12]تذکرۃ الاولیاء: ص :10
[13]Lantern of the path: p130
[14]امام جعفر صادق اور مذاہبِ اربعہ: ص:375
[15]ایضاً، ص:360
[16]ایضاً، ص:368
[17]ایضاً
[18]ایضاً
[19]ایضاً
[20] الاعراف: 26، 31
[21]The Lantern of the path, p20
[22]امام جعفر صادق اور مذاہبِ اربعہ: ص:369
[23]ایضاً
[24]حلیۃ الاولیاء ج:3: ص 281
[25]Lantern of the path: p74
[26]Lantern of the path: p56
[27]Lantern of the path: p30