ہر تہذیب کے کچھ چشم و چراغ ایسے ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ تہذیب ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بامِ عروج تک رسائی حاصل کرتی ہے- اسلامی تاریخ و تہذیب بھی ایسی جلیل القدر شخصیات سے مزین ہے جنہوں نے اپنے علم و حکمت سے دینِ متین کی آبیاری کا فریضہ سر انجام دیا-ان برگزیدہ ہستیوں میں خانوادۂ اہل بیت کے روشن چراغ سیدنا حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی ذاتِ گرامی مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے- سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) خانوادہ اہلِ بیت کے اکابرین میں شمار ہوتے ہیں-
آپ یوسف سنت، جمال طریقت، معبر اہل معرفت، مزین اہل صفوت، بلند خیال، علوم کا ہمالیہ اور حلم کا بحربے کراں، معرفت کا قلزم، سخاوت کا دریا، حیاء کا پیکر، نور کا چشمہ، علم شریعت،علم طریقت،علم معرفت اور علم حقیقت کا منبع ،علوم اسلامی کے موجد، زہد و تقویٰ میں کامل اور عبادت و ریاضت میں بلند پایہ تھے- علاوہ ازیں تمام عالم اسلام میں آپ کے علم و حکمت کا شہرہ تھا-آپ نےجس علمی تحقیق کی بنیاد رکھی اس کے سبب اسلامی دنیا علم کا گہوارہ بن گئی-یہاں زیر نظر تحریر میں آپ کے چند پند و نصائح کوبطور نصیحت ذکر کیا جا رہا ہے-
اولاد کی اچھی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہمارے اکابربڑے احسن انداز میں نبھاتے آئے ہیں،وقتاً فوقتاً اپنے بچوں کو مختلف انداز میں نصیحتیں کیا کرتے تھے-
امام ابی نعیم اصبہانیؒ لکھتے ہیں کہ :
حضرت سیدناامام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹے کو چند نصیحتیں فرمائیں آپنےنصیحتیں کرنےکے بعدفرمایا :اے بیٹا میری بات یاد رکھو اس لیے کہ اگر تم نے ان کو یاد رکھا تو تمہاری زندگی بہتر گزرے گی اور تمہاری موت قابل رشک ہوگی-
مالدار کون؟
”اےعزیزبیٹا!اصل مالدار وہ شخص ہے جواس پر راضی ہو جائے جو اس کے لئے مقرر کر دیا گیا ہے اور جو شخص دوسروں کے مال پر نظر رکھتا ہے وہ فقیری کی حالت میں مرتا ہےاور جو شخص اس پر راضی نہ ہوا جو اللہ نے اس کیلئے مقرر کر دیا ہے گویا وہ اللہ پاک کو اس کے فیصلے میں بہتان لگاتا ہے‘‘-
اس نصیحت میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم اپنے اندر قناعت پیدا کریں قناعت یہ ہے کہ انسان کی قسمت میں جو رزق لکھا ہے اس پر اس کا نفس راضی رہے-جو مل جائے اس پردل جمی کے ساتھ صبر اختیار کریں اور اللہ پاک جس حال میں رکھے اس کی رضا پر راضی رہتے ہوئے ہر وقت اس کا شکر ادا کرتے رہیں -
صحبت علماء عزت کا باعث:
”اے بیٹا! جو شخص دوسروں کے عیوب سے پردہ اٹھائے گا اس کے اپنے عیب ظاہر ہو جاتے ہیں- جو شخص بغاوت کیلئے تلوار بلند کرتا ہے وہ اسی تلوار سے قتل کر دیا جاتا ہے،جو شخص اپنےکسی بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا وہ خود ہی اس میں گرے گا، بے وقوفوں کی محفل میں بیٹھنے والا حقیر و ذلیل ہوتاہے جبکہ علماء کی صحبت اختیار کرنے والا عزت پاتا ہے اور برائی کے مقام پر جانے والے پر تہمت لگائی جاتی ہے“-
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے بلکہ ہر دوسرے شخص کے عیب تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں بھلائی کا نہیں سوچتے جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دوسروں کےعیب تلاش نہ کریں ہمیشہ دوسروں کی خیر خواہی کریں اورفقراء و اولیاء کاملین کی صحبت اختیار کریں جنہوں نے انبیاء (علیھم السلام) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے بعد دین حق کی روشنی کو دنیا میں پھیلانے کے لئے مذہب و قومیت، رنگ و نسل اور ذات پات کی پابندیوں سے بالاتر ہو کر بلا تفریق اس پیغمبرانہ طریق کو جاری رکھا-
مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں:
یک زمانہ صحبت با اولیاء |
’’اولیاء کاملین کی صحبت کے چند لمحات سو سال کی بے ریا عبادت سےافضل ہیں‘‘-
فضول اور لایعنی گفتگو سے پرہیز:
’’اے بیٹا! لوگوں پر عیب لگانے سے بچنا ورنہ لوگ تم پر عیب لگائیں گےاور فضول باتوں سے بچنا ورنہ ان کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہو گے‘‘-
دوسروں کی خامیوں پر نظر رکھنے کی بجائے ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں اور اپنی خامیوں کو تلاش کریں اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے فضول اور لایعنی گفتگو سے پرہیز کریں کیونکہ انسان کے لیے سب سے نفع بخش چیز یہ ہے کہ لوگوں کی پردہ دری کےبجائےاپنے عیبوں پر نظر رکھے-
حق بات:
”اے بیٹا! حق بات ہی کہنا خواہ تمہارے حق میں ہو یا تمہارے خلاف کیونکہ مذمت کا سامنا تمہیں اپنے دوستوں کی طرف سے ہی کرنا پڑے گا“-
شریعتِ اسلامیہ میں سچ بولنے کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہےاور بار بار سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہےکیونکہ سچائی ایک ایسی صفت ہے جس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی،رسول اللہ (ﷺ) نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا-ہمیں ہر حال میں شریعت کے تقاضوں کے مطابق سچ بولنے کی پاسداری کرنی چاہیے-
بغض و نفرت کا سبب:
”اے بیٹا!قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہنا، سلام کو عام کرنا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، جو تجھ سےتعلق توڑے تم اس سےرشتہ جوڑنا، جو تم سے بات نہ کرے اس سے بات کرنے میں پہل کرنا، جو تم سے مانگے اسے عطا کرنا، چغل خوری سے بچنا اس لئے کہ یہ مردوں کےدلوں میں بغض پیدا کر دیتا ہے- لوگوں کے عیوب کےپیچھے پڑنے سے بچو اس لئے کہ یہ چیز خود کو (مذمت و تہمت) ہدف بنانے کے قائم مقام ہے“-
تلاوتِ قرآن پاک دین اسلام میں ایک نہایت ہی پسندیدہ اور مطلوب عمل ہے ہماری پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم قرآن پاک کے معانی اورمفاہیم کو سمجھ کر پڑھیں کیونکہ قرآنِ پاک نیک اعمال کو کرنے کی نصیحت اور برے اعمال سے بچنے کی تلقین کرتا ہے- اللہ تعالیٰ نے بھی صلہ رحمی کرنے، رشتے داروں اور دوسروں کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے-ہمیں صلہ رحمی کو اپناتے ہوئے بغض، چغل خوری اور لوگوں کی عیب گوئی کرنے سے بچنے کی ضرورت ہے-
اچھائی کی تلاش:
”اےعزیز بیٹا! اگر اچھائی کے طلبگار ہوتو اس کے لیے لازم ہے کہ اس کی اصل جگہ تلاش کرو-اس لئے کہ اچھائی کی بھی جگہ ہوتی ہےاور اس کی کوئی اصل اورجڑہوتی ہےاور اصل کی شاخیں ہوتی ہیں اوران شاخوں کے ساتھ پھل ہوتے ہیں اور پھل اس وقت تک اچھا نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی جڑنہ ہواور جڑ اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب زمین عمدہ اور مناسب ہو“-
شریعتِ مطہرہ میں دوسروں کے ساتھ اچھائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ نیکی اور گناہ برابر نہیں ہو سکتے بلکہ نیکی خیر ہے اور گناہ شر اور خیر و شر برابر نہیں ہوسکتے - لہٰذا ہمیں بھی چاہیئے کہ دنیا اور آخرت کی بہتری کے لئے زندگی کے ہر معاملے میں اچھے پہلو پر نظر رکھیں-
فاسق و فاجر کی مثال:
”اے بیٹا! اگر ملاقات کی تمنا ہو تو نیک لوگوں سے ملنا، فاسق و فاجر لوگوں سے نہ ملنا، کیونکہ فاسق و فاجراس چٹان کی طرح ہوتے ہیں جس سے پانی نہیں بہتا، ایسے درخت کی طرح ہوتے ہیں جو سر سبز و شاداب نہیں ہوتااور ایسی زمین کی طرح ہوتے ہیں جس پر گھاس نہیں اُگتی“-[1]
جس طرح اہلِ صدق واہلِ تقویٰ کی صحبت انسان کی زندگی پر مثبت اثر ڈالتی ہے، اسی طرح برے لوگوں کی صحبت و ہم نشینی اختیار کرنے سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں-
مولانا جلالُ الدِّین رُومی فرماتے ہیں :
صحبت صالح ترا صالح کند |
’’نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے اوربرے لوگوں کی صحبت برا بنا دیتی ہے ‘‘-
اسی طرح ہمارے اکابربھی ہمیشہ علم وحکمت کی تلاش میں رہتےتھے -امام شمس الدین ذہبیؒ اپنی کتاب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں رقمطرازہیں کہ :
ایک روز سیدنا سفیان ثوری (رضی اللہ عنہ)، حضرت سیدنا امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیاکہ جب تک آپ مجھے کوئی نصیحت نہیں فرمائیں گے تب تک میں یہاں سےنہیں اٹھوں گا - سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)نے جب آپ کایہ ذوق دیکھا توارشادفرمایا:اے سفیان میں آج آپ کو چند فائدہ مند باتیں بتاتا ہوں لیکن اس بات کا خیال رکھنا کہ باتوں سے زیادہ عمل کرنا بہتر ہوتا ہے، باتیں کم کیا کریں اور عمل پر زیادہ زور دیا کریں،تین باتوں کو یادرکھنا اور ان پر عمل کرنا -
1-نعمت میں اضافہ:
” اگراللہ تعالیٰ تمہیں کسی نعمت سے نواز دے اور تم چاہو کہ یہ نعمت ہمیشہ برقرار رہے تو اس (نعمت) پر زیادہ سے زیادہ زبان وعمل سے شکرادا کیا کرو ‘‘-
کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ‘‘[2]
’’ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا‘‘-
اگر کوئی بندہ مومن اس کی نعمت کو حاصل کرنے کے بعد اس کا شکر ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اور زیادہ انعام عطا فرمائے گا-
2-رزق میں برکت:
”اور اگر تمہیں کبھی رزق میں تنگی اور کمی محسوس ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرو“-
ارشاد باری تعالیٰ ہے -
’’اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا لا یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا لاوَّ یُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْہٰرًا‘‘[3]
’’اپنے رب سے معافی مانگو وہ بڑا معاف فرمانے والا ہےتم پر شراٹے کا مینہ(موسلا دھاربارش) بھیجے گااور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا‘‘-
رزق کی کمی،تنگی اور دشواری میں اعمال کی خرابی کا بہت عمل دخل ہوتا ہے لیکن انسان کو یہ یاد نہیں رہتا کہ اس کے اعمال میں خرابی اور کوتاہی ہے- اس تنگی اور دشواری سے نکلنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ انسان اپنے برے اعمال پر کثرت سے توبہ و استغفار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی غلطیوں اور گناہوں کو معاف فرما کر رزق کے دروازے کھول دے-
3-کشادگی کی چابی:
”اے سفیان اگرتمہیں کسی بادشاہ کی طرف سےغم و تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو یا کوئی اور پریشانی لاحق ہو تو کثرت کے ساتھ’’لا حول و لا قوۃ الا باللہ‘‘پڑھا کرو کہ یہ کشادگی کی چابی ہے اور جنت کےخزانوں میں سے ایک خزانہ ہے کیونکہ آپ خود اس کا مشاہدہ کر لو گے کہ یہ کلمہ تمہیں کس طرح ظالم کے ظلم سے محفوظ رکھتا ہے“-
سیدنا سفیان ثوری (رضی اللہ عنہ)نے اپنے ہاتھ سے حلقہ بناتے ہوئے عرض کیا کہ تین باتیں ہیں اور کیا ہی بہترین باتیں ہیں میں آپ کی ان نصیحتوں کو کبھی فراموش نہیں کروں گا-آپ نے فرمایا :اللہ کی قسم اگر تم میری ان باتوں پر عمل کرو گے تو ہمیشہ نفع میں رہو گے-[4]
سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کے مزید چند نصیحت آموز فرامین:
دنیا کو حکم ربانی:
اللہ پاک نے دنیا کو حکم فرمایا :اے دنیا! جو میری عبادت کرے تُو اُس کی خدمت کر اور جو تیری خدمت کرے تُو اُسے تھکا دے-[5]
رزق میں اَضافہ:
رزق میں اَضافہ کرو صدقہ کرکے اور اپنے اموال کو محفوظ کر لو زکوۃ کے ذریعے اورجو میانہ روی اختیار کرے وہ کبھی بھی تنگ دست نہ ہوگااور اللہ پاک فضول خرچی کرنے والے کو محروم کر دیتا ہے-[6]
سود حرام:
’’اللہ پاک نے اس لئے سود کو حرام کیا ہے کہ تاکہ لوگ بھلائی کرنے سے نہ رک جائیں ‘‘-[7]
دین کے معاملےمیں لڑائی جھگڑوں سے بچواس لئےکہ یہ دل کومصروف رکھتا ہےاور نفاق(یعنی منافقت)پیدا کرتا ہے-[8]
سیدنا امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) نے صرف علم ہی نہیں بلکہ اخلاق و عبادات اور معاشرت میں بھی امت مسلمہ کی رہنمائی اور امامت فرمائی ہے- آپ کو علم کلام ، علم جفر ، علم کیمیا اور دیگر سائنسی علوم میں بھی کمال حاصل تھا-علم کیمیاء کے بانی اورمشہور مسلمان سائنس دان جابر بن حیان نے بھی آپ سے علم حاصل کیا- الغرض آپ کا علم ، دانش، آگہی ، عقل، فلسفہ داد ا کی وراثت اور نانا کا ترکہ تھا، جن کے در دولت پر علم وانش دربان بنے دست بستہ مؤدب کھڑےنظرآتے ہیں-اللہ پاک کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ مالک کریم ہمیں آپ کی ان نصیحتوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے -آمین!
٭٭٭
[1](حلیۃالأولياءِ و طبقات الأ صفیاء، ج:2، ص:474)
[2](ابراہیم: 7)
[3](نوح : 10-12)
[4](سیر اعلام النبلاء، ج:6،ص:366)
[5](حلیۃالأولياءِو طبقات الأ صفیاء ج2:،ص:473)
[6](ایضاً،ص:474)
[7](ایضاً ،ص:473)
[8](ایضاً، ص:477)