اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کی عترت یعنی سادات کو ایسے بے شمار کمالات وفضائل اور خصائص سے نوازا ہے جو کسی اور کے حصے میں نہیں آئے - کہیں تو ؛
’’قُلْ لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[1]
فرما کہ اُن کی محبت کو امت مسلمہ پر فرض کردیاہے- تو کہیں؛
’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا ‘‘[2]
کہہ کر اُن کی ذات سے ہرقسم کے رجس اور نقائص کو دور کرکے اُن کی طہارتوں اور پاکیز گیوں کے جھنڈے کو بلند کردیاہے-ایک روایت کےمطابق خود آقا کریم (ﷺ) نے بھی اپنی عترت کو قرآن کا ساتھی بناکر اس چیز کی ضمانت دے دی کہ اگر ان دونوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ان پاکیزہ ہستیوں اور سادات میں سے ایک ہستی امام جعفر صادق بھی ہیں جو کہ علم و معرفت کا منبع ہیں آپ علم ومعرفت کا ایسا بہتا سمندرہیں کہ جہاں سے وقت کے بڑے بڑے نامور امام فن بھی اپنی علمی پیاس بجھاتے نظر آتے ہیں حقائق و معرفت کے سمندر نے تشنگان علم ومعرفت کو اپنے علم و فیض سےایسا سیراب کیا کہ آئمہ جرح و تعدیل بھی آپ کی ثقاہت و عدالت کے گُن گائے بغیر نہ رہ سکے -
زیرنظرمضمون میں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی ذات اقدس کو آئمہ جرح و تعدیل کی آراءکی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے کہ اُن کی نگاہ میں آپؓ کا کیا علمی مقام و مرتبہ ہے -
یاد رہے کہ فن جرح و تعدیل ایک ایسا علم ہے کہ جس میں خاص الفاظ کے ذریعے کسی بھی شخصیت یا راوی کی عدالت و ثقاہت یا اس کے عیب و ضعف کو بیان کیا جاتاہے- اگر راوی کے عیب یا ایسی کمزوریوں کو بیان کیا جائے جو اس کی روایت کے رد کا سبب بنے تو اسے جرح کہتے ہیں-اگر راوی کی ایسی صفات بیان کی جائیں جس کی وجہ سے اس کی روایت قبول ہو جائے تو اسے تعدیل کہتے ہیں-
آئمہ جرح و تعدیل وہ امام ہوتے ہیں کہ جن کی علمی وسعت اور راویوں کے احوال پر گرفت اس پائے کی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی شخصیت یا راوی پر کلام کر سکتے ہیں-اگر ایسے آئمہ جب کسی شخصیت کی توثیق و تعدیل کر دیں تو وہ شخصیت علمی دنیا میں مسلمہ اور ثقہ مانی جاتی ہے اور اس سے روایت کردہ چیزوں پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے-
اس مضمون کو لکھنے کا مدعا یہ ہے کہ سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) لوگوں کی نظر میں یکے از آئمہ سادات کے طور پر معروف ہیں اور لوگ ان سے صرف روحانی عقیدت رکھتے ہیں اگرچہ ان کی یہ روحانی عقیدت اولیت بھی رکھتی ہے لیکن جو آپؓ کی علمی خدمات ہیں وہ بھی عظیم المرتبت اور بلند پایہ ہیں -لہٰذا ان خدمات کو جاننا اور ان کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے تاکہ آپؓ کی علمی اور روحانی شخصیت نکھر کر سامنے آجائے-
قارئین جب ہم کتب جرح و تعدیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہےکہ آئمہ جرح و تعدیل نے نہ صرف آپ کے علمی کمال کے سامنے اعترافِ عجز کیا ہے بلکہ مختلف انداز اور اقوال میں اْن کی ثقاہت وعدالت کے چرچے کیے ہیں-امام جرح و تعدیل ابن ابی حاتم الرازی کہ جن کا شمار اجل آئمہ جرح و تعدیل میں ہوتا ہے اور جن کے قول کو فن جرح و تعدیل میں مرکزیت حاصل ہے انہوں نے بڑے خوبصورت انداز کے ساتھ مختلف آئمہ کرام کے اقوال و آراء کی روشنی میں اُن کی علمی شان کو بیان کیا ہے -
اسحاق بن ابراہیم بن راھویہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے سوال کیا :
’’کیف جعفر بن محمد عندک قال ثقۃ ‘‘[3]
’’تمہارے نزدیک جعفر بن محمد کا علمی مقام کیا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ وہ ثقہ ہیں‘‘-
آئمہ جرح و تعدیل کے نزدیک ثقاہت میں سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی مثل کوئی نہیں آسکتا-علامہ عبد الرحمٰن فرماتے ہیں کہ میں نے اپنےباپ سے سنا وہ فرمارہے تھے :
’’جعفر بن محمد ثقۃ لایسال عن مثلہ‘‘[4]
’’جعفر بن محمد ثقہ ہیں اْن کی مثل کے بارے تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ‘‘-
علامہ ابوزرعہ فرماتے ہیں کہ میرے باپ سے جعفر بن محمد سہیل بن ابی صالح اور العلاء کے بارے پوچھا گیا کہ ان تینوں میں سے کو ن اصح ہے -تو انہوں نے فرمایا:
’’لایقرن جعفر الی ھؤلاء‘‘ [5]
’’اما م جعفر صادق کو ان کے ساتھ نہ ملاو‘‘-
اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ امام جعفر صادق ان سے ہر لحاظ سے ارفع اور اعلیٰ ہیں-
اما م ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں کہ آپ سے یحیی بن سعید الانصاری ،امام ابن جریج ،امام ثوری ،امام شعبہ ،امام مالک ، امام ابن اسحاق ، سلیمان بن بلال اور ابن عیینہ نے روایت کیا ہے اگر ہم ان مذکورہ ناموں پر غور کریں تو یہ کوئی معمولی شخصیات نہیں ہیں -بلکہ ان میں سے ہر ایک امام فن اور مسلمہ شخصیت ہے ان سب حضرات کا آپ سے روایت کرنا امام جعفر صادق کے کمالِ علم و فضل پر دلالت کرتا ہے -
فن جرح و تعدیل میں اما م یحیی بن معین کا بھی بہت بڑا نام ہے اُن سے جب آپ کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’جعفر بن محمد ثقۃ ‘‘[6]
’’جعفر بن محمد ثقہ ہیں ‘‘-
اسی طرح امام نسائی بھی آپ کی ثقاہت کا ڈنکا بجاتے ہیں ہیں اور انہوں نے فرمایا امام جعفر الصادق ثقہ ہیں-[7]
جس انداز میں امام عجلی الکوفی نے آپ کی ثقاہت اور انفرادیت کو بیان کیاہے اُس سے آپ کی علمی وجاہت نکھر کر سامنے آجاتی ہے، وہ فرماتےہیں :
’’ولھم شیٔ لیس لغیر ہم خمسۃ آئمۃ جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی ولا یسأ ل عن عدالتہ فھوالثقۃ ابن ثقۃ‘‘[8]
’’امام جعفر کے جو آباء و اجداد ہیں مثلامحمد بن علی بن حسین بن علی ان کو ایسی امتیاز شان ملی ہے جو کسی اور کو نہیں ملی امام جعفر سمیت یہ پانچوں آئمہ ہیں اور امام جعفر کی عدالت کے بارے کلام کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا وہ ثقہ ابن ثقہ ہیں‘‘ -
آپ کی ثقاہت وعدالت اور علمی شان اس درجےکی تھی کہ جب امام اعظم ابو حنیفہ سے پوچھا گیا کہ اے اما م صاحب جن شخصیات کو آپ نے دیکھا ہے اُن میں سے کون سب سے زیادہ فقیہ ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’مارایت احداافقہ من جعفر بن محمد ‘‘[9]
’’میں نے جعفر بن محمد سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا‘‘-
آپ کمال درجے کے فقیہ کیوں نہ ہوتے کیونکہ آپ کے آباؤ اجداد کا علم و فیض سینہ بہ سینہ آپ کو عطا ہُوا تھا- یہی تو وجہ ہے بطور تحدیث نعمت اور امت مسلمہ کی بھلائی اور ’’بلغوا عنی ولو کان آیۃ‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ فرماتے تھے :
’’سلونی قبل ان تفقد ونی فانہ لایحد ثکم احدبعدی بمثل حدیثی‘‘[10]
’’مجھ سے سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے نہ پاسکو کیونکہ میرے بعد مجھ جیسی حدیث تمہیں کوئی بھی بیان نہیں کرے گا‘‘-
آپ کے چہرے پر اتنی نورانیت اور علمی وجاہت چھلکتی تھی کہ عمروبن ابی مقدام فرماتےہیں :
’’کنت اذانظرت الی جعفر بن محمد علمت انہ من سلالۃ النبیین‘‘[11]
’’جب میں جعفر بن محمد کے چہرے کو دیکھتا تھا تو میں چہرے ہی سے جان لیتا کہ آپ نبیوں کی اولاد میں سے ہیں‘‘-
آپ علمی میدان میں ایک ایسی ہستی کامل تھے کہ اگر کوئی آپ کی شخصیت پر انگلی اٹھانے کی کوشش کرتا تو اجل اکابر اہل سنت کی جانب سے شدید الفاظ میں اُس کا ردکردیا جاتا -جس طرح امام شمس الدین ذہبی نے ’’سیر اعلام النبلاء ‘‘میں حفص بن غیاث کے بارے میں روایت کیا ہےکہ وہ عبادان (یہ ایک جگہ کا نام ہے) گئے تو وہاں کچھ بصرہ کے لوگ جمع ہوگئے تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں تین شخصیات اشعث بن عبدالملک ،عمروبن عبید اور جعفر بن محمد کی احادیث نہ سنانا توانہوں نے جواب دیا کہ اشعث کا معاملہ تم پر چھوڑتا ہوں اور جہاں تک بات عمروبن عبید کی ہے تم اُس کو اچھی طرح جانتےہو اور رہی بات امام جعفر صادق کی :
’’فلوکنتم با الکوفۃ لاخذ تکم النعال المطرقۃ‘‘[12]
’’اگرتم کوفہ میں ہوتےتو میں جوتوں سے تمہاری تواضع کرتا ‘‘-
حفص بن غیاث آئمہ اہل سنت میں سے ہیں- امام ابن سعد، امام عجلی اور دیگر آئمہ ان کی ثقاہت و فقاہت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں وہ کوفہ اور بصرہ میں منصب قضاء پر بھی فائز رہے[13]-گویا یہ رویہ آئمہ اہل سنت و جماعت کا تھا کہ سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی ذات پہ سوال اٹھانے والوں کو وہ جوتوں کا مستحق سمجھتے تھے-
جہاں بہت سے نامور آئمہ فن نے اُن کی ثقاہت و عدالت کو بیان کیا ہے اور اپنے اقوال و آراء کے ساتھ اُن کی توثیق کی ہے تو وہاں چند ایک نے آپ کی شخصیت پر جرح و کلام کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن جس انداز میں آئمہ جرح و تعدیل نے اُن کی اس جرح و کلام کا رد کیاہے تواْس کے بعد اُن کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی- مثال کے طور پر یحیی بن سعید سے روایت کیا گیا ہےکہ امام جعفر صادق نے مجھے غالبا حج کے بارے میں ایک طویل حدیث املاء کروائی لیکن اس معاملے میں میرے دل میں ایک خلش پائی جاتی ہے-لہذا امام جعفر صادق کی بنست علامہ مجالد مجھے زیادہ محبوب ہیں تو اُن کے اس قول پر علامہ ذہبی نے گرفت کرتے ہُوئے فرمایا:
’’قلت ھذہ من زلقات یحیی القطان بل اجمع اُئمۃ ھذ الشان علی ان جعفر اوثق من مجالد ولم یلتفتوا الی قول یحیی‘‘[14]
’’میں کہتا ہوں کہ اس قول میں امام یحیی القطان پھسل گئے ہیں بلکہ آئمہ کرام تواما م جعفر الصادق کی اس شان پر متفق ہیں کہ وہ علامہ مجالد سے زیادہ ثقہ ہیں اور آئمہ کرام نے امام یحیی القطان کے اس قول کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں کی‘‘-
بلکہ علامہ اسحاق بن حکیم نے امام یحیی القطان سے امام صاحب کی باقاعدہ توثیق بھی نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ امام یحیی القطان نے فرمایا :
’’جعفر ما کان کذوبا ‘‘[15]
’’امام جعفر میں کسی قسم کا کذب نہیں تھا ‘‘-
اسی طرح ابن سعد نے آپ کے بارے کہا کہ آپ کثیر الحدیث تھے لیکن اُن کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جائے گی بلکہ وہ ضعیف ہیں کیونکہ ایک مرتبہ اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ حدیثیں آپ نے اپنے والد سے سنی ہیں توانہوں نے کہاجی ہاں اور پھر ایک مرتبہ اُن سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کومیں نے اُن کی کتب میں پایا ہے تو اس بنا پر ابن سعد کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں کیونکہ کبھی وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنی ہیں کبھی کہتے ہیں کہ میں نے اُن کو اُن کی کتب میں پایا ہے -تو امام ابن حجر عسقلانی الشافعی نے ابن سعد کے اس بے تُکے قول کا ردِ بلیغ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’قلت یحتمل یکون الاقوالان وقعاعن احادیث مختلفۃ فذکر فیما سمعہ انہ سمعہ و فیما لم یسمعہ انہ وجدہ و ھذ ایدل علی ثبتہ‘‘[16]
’’میں کہتاہوں کہ اس میں یہ احتمال موجود ہےکہ یہ دونوں اقوال مختلف احادیث کے بارے واقع ہوں جو آپ نے احادیث سنی ہوں اُن کے بارے کہہ دیاہو کہ میں نے سنی ہیں اور جو آپ نے اُن کی کتب میں پائی ہوں اُن کے بارے کہہ دیاکہ میں نے اِن کو کتب میں پایا ہے یہ چیز تو عیب والی نہیں ہے بلکہ یہ چیز تو مزید ثبت پر دلالت کرتی ہے‘‘-
الغرض! آئمہ جرح و تعدیل کے ان اقوال اور تبصروں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) علمِ حدیث میں نہایت ہی مایہ ناز مستند اور مسلمہ شخصیت مبارکہ تھے کہ جن کی بارگاہ سے اپنے عہد کے نامور آئمہ فن نہ صرف مستفید ہوئے بلکہ انہوں نے آپ کی ثقاہت و عدالت اور ان کے علمی کمالات کو بھی خوب اُجاگر کیا ہے اور ان کی ذات اقدس پہ نکتہ چینی کرنے والوں کا ردِ بلیغ کرنا اپنا فرض جانا ہے-
٭٭٭
[1](الشورٰی:23)
[2](الاحزاب:33)
[3](الجرح والتعدیل ،جز:2،ص:487)
[4](ایضاً)
[5](ایضاً)
[6](ایضاً)
[7]( تہذیب التہذیب ،جز:2،ص:105)
[8]( تاریخ الثقات ،جز:1،ص:98)
[9]( الکامل فی ضعفاء الرجال ،جز:2،ص:358)
[10](تذکرۃ الحفاظ ،جز :1،ص:126)
[11]( الکامل فی ضعفاء الرجال ،جز:2،ص:257)
[12](سیر اعلام النبلاء ،جز:6،ص:364)
[13](الثقات للعجلی، جز:1، ص:125)
(الطبقات الکبرٰی، جز:6، ص:390)
[14](ایضاً)
[15](ایضاً)
[16]( تہذیب التہذیب ،جز:2،ص:105)