الامام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) سے منقول تفسیری روایات کا مطالعہ

الامام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) سے منقول تفسیری روایات کا مطالعہ

الامام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) سے منقول تفسیری روایات کا مطالعہ

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی اپریل 2024

سیدنا امام جعفر الصادق (رضی اللہ عنہ) سید السادات ہیں اور اہلِ بیت کے عظیم امام ہیں- اس کے ساتھ آپ (رضی اللہ عنہ) کا شمار جلیل القدر تابعین میں بھی ہوتا ہے- جیسا کہ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’آپ (رضی اللہ عنہ)کو بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا-(پھر اپنی رائے لکھتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں )میرے خیال میں آپ (رضی اللہ عنہ)کو دو (جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام) حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک (رضی اللہ عنہ) اور حضرت سیّدنا سہل بن سعد (رضی اللہ عنہ)کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ‘‘-[1]

آپ کے القاب کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ فریدالدین عطارؒ لکھتے ہیں:

’’امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) امت مصطفےٰ (ﷺ) کے سلطان، حجت نبی(ﷺ) کی دلیل، سچے  با عامل اور محقق عالم، اولیاء اللہ کے دلوں کا میوہ، سید الانبیاء (ﷺ) کے لخت جگر، اولاد علی وارث نبی، عارف عاشق سیّدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)‘‘- [2]

اگر ہم آپ (رضی اللہ عنہ) کے جمیع اقوال اور علمی کاوشوں کو جمع کرنا شروع کریں تواس کے لیے کئی زندگیاں اور کئی دفاتر درکار ہیں اور پھر بھی احاطہِ علم کا دعوٰی محض وہم و خیال ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا-یہاں صرف بعون اللہ تعالیٰ حصولِ برکت وسعادت کیلیے امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) سے منقول محض چند تفسیر ی روایات کا جائزہ لیتے ہیں-

1: لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘[3]

’’بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول (ﷺ)جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ‘‘-

اس کی تفسیر میں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں:

’’حضرت آدمؑ کے زمانے سے لے کر زمانہ جاہلیت تک حضور نبی کریم (ﷺ)کی نسب مبارک پر کسی قسم کا کوئی عیب یا قدغن نہیں‘‘-[4]

2:’’لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً ط وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ طوَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ‘‘[5]

’’مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں مسلمانوں کے سوا اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کچھ علاقہ(تعلق) نہ رہا مگر یہ کہ تم ان سے کچھ ڈرو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے‘‘-

اس کی تفسیر میں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:

’’مؤمن کے ساتھ ریا، شرک اور منافق کے ساتھ عبادت ہے ‘‘-[6]

3: ’’وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاط وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىط وَ عَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ‘‘[7]

اوریاد کروجب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے مرجع اور امان بنایا اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے -

امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کو سُنا جو حضور نبی کریم (ﷺ) کے حج مبارک کے متعلق گفتگو فرما رہے تھے، فرماتے ہیں کہ:

’’جب آقا کریم (ﷺ)نے طواف فرمایا تو حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی (یا رسول اللہ (ﷺ)کیا یہ ہمارے باپ ابراہیم کا مقام ہے ؟تو آپ (ﷺ) نےارشادفرمایا :ہاں-تو حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی (یا رسول اللہ (ﷺ) کیا ہم اس کو جائے نماز بنا لیں؟ تواللہ عزوجل نے یہ آیت مبارک نازل فرمائی ’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘ [8]

یہ روایت ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کا صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) بالخصوص خلفاء راشدین کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے جس کی بنیاد نسبتِ رسول (ﷺ) اور نہایت عقیدت اور احترام پر تھی -

4:’’فَاَزَ لَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ ص وَقُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ ‘‘[9]

’’تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے‘‘-

امام سیوطیؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں اما م جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کے حوالے سے حضور نبی کریم (ﷺ) کا قول مبارک نقل کرتے ہیں کہ :

’’بے شک جب اللہ عزوجل نے دنیا کو پیدا فرمایا تو اس میں سونے اور چاندی کو پیدا نہیں فرمایا پس جب اللہ عزوجل نے حضرت آدم اور حضرت حواء (علیھما السلام)کو زمین پر اتارا تو ان دونوں کے ساتھ سونے اور چاندی کو اتارا اور اسی (سونے اورچاندی) کو حضرت آدم (علیہ السلام) نے حضرت حواء (علیھا السلام) کے لیے مہر بنایا‘‘- [10]

5:’’قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ؁ سُبْحٰنَ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ‘‘[11]

’’(اے محبوب مکرم ﷺ)تم فرماؤ بفرضِ مُحال رحمٰن کے کوئی بچہ ہوتا تو سب سے پہلے میں پوجتا -پاکی ہے آسمانوں اور زمین کے رب کو عرش کے رب کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں ‘‘-

اس کی تفسیر میں علامہ اسماعیل حقیؒ حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کا قول مبارک نقل کرتے ہیں :

’’امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) نےارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے محمد عربی(ﷺ)کے نور مبارک کو پیدا فرمایا- سب سے پہلے توحید کی گواہی آپ (ﷺ) نے دی اور سب سے پہلے قلم نے لکھا ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘-اسی لیےارشاد فرمایا میں سب سے پہلے عبادت گزار ہوں اور توحید الٰہی اور ذکر الہی کا میں ہی زیادہ حقدار ہوں‘‘-[12]

6: لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْطوَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ ‘‘[13]

’’اس لیے کہ غم نہ کھاؤ اس پر جو ہاتھ سے جائے اور خوش نہ ہو اس پر جو تم کو دیا اور اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اترونا (متکبر)بڑائی مارنے والا‘‘-

ا س کی تفسیر میں آپ (رضی اللہ عنہ) ارشادفرماتے ہیں:

’’اے ابن آدم تجھے کیا ہواکہ تو ایسی گم شدہ چیز پر افسوس کرتا ہے جس کا چلاجانا واپس نہیں ہو سکتا اور تجھے اپنے پاس موجود چیز پر خوش ہونا بھی زیب نہیں دیتا ہے ایسی موجود چیز جس کو موت تیر ے ہاتھ میں نہیں چھوڑے گی ‘‘-[14]

7: ’’سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَیُّهَ الثَّقَلٰنِ‘‘[15]

’’جلد سب کام نبٹا کر ہم تمہارے حساب کا قصد فرماتے ہیں اے دونوں بھاری گروہ‘‘ -

ا س کی تفسیر میں آپ (رضی اللہ عنہ)ارشادفرماتے ہیں کہ:

’’جن وانس کو ثقلان اس لیے کہا گیا کیونکہ یہ گناہوں سے بوجھل ہیں ‘‘- [16]

آپ (رضی اللہ عنہ) کے نزدیک ’’ثقلان ‘‘ثقل سے ماخوذ ہے جس کے معانی بوجھ کے ہیں اورجن و انس کے وجود مادی خواہشات اور نفس و شیطان کی آماجگاہ کی وجہ سے گناہوں سے اٹے رہتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ جن و انس کو باقی مخلوق کی مقابلے میں بہت زیادہ مکلف بنایا گیا ہے -

8:’’اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّط ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوام وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواطفَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَطوَ اَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِطوَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘[17]

’’وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیاہو( یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اَب ایسی حرکت کرے گا تووہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے‘‘-

اس کی تفسیر میں آپ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :

’’اللہ پا ک نے سُود کو اس لیے حرام فرمایا تاکہ لوگ آپس میں قرضے کا لین دین کرسکیں ‘‘-[18]

9:’’وَ إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ ‘‘[19]

’’اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شِفا دیتا ہے ‘‘-

امام نسفیؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کا قول مبارک نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :

’’جب میں اپنے افعالِ بد کے مشاہدے سے بیمار پڑجاتا ہوں تو اللہ عزوجل فضل وکرم کے احسانات کو منکشف فرماکر مجھے شفاء عطافرماتا ہے‘‘- [20]

10: ’’وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآءُ ط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ ‘‘[21]

’’اور کسی آدمی کو نہیں پہنچتا کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر یا یوں کہ وہ بشر پردۂِ عظمت کے اُدھر ہو یا کوئی فرشتہ بھیجے کہ وہ اس کے حکم سے وحی کرے جو وہ چاہے بےشک وہ بلندی و حکمت والا ہے‘‘-

امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) سے ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھےاللہ تعالیٰ کا دیدار کرائیے- آپ (رضی اللہ عنہ) نے اسے ارشاد  فرمایا:

’’تمہیں یاد نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلالم) کو کیا فرمایا جب انہوں نے ’’ارنی‘‘ کہا-حالا نکہ وہ بہت بڑے بلند مرتبہ نبی تھے - انہیں بھی ’’لن ترانی‘‘ کہا گیا پھر تم کون ہو؟ اس نے کہا وہ ملت دوسری تھی ہم ملتِ احمدیہ ہیں اس ملت کے لوگوں نے کہا :

’’رائی قلبی ربی‘‘ ’’میرے قلب نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا‘‘

اور کسی نے کہا : ’’لا اعبد ربالم ارہ‘‘

’’میں اس خدا کی عبادت نہیں کرتا جس کو میں دیکھ بھی نہ سکوں‘‘-

اس شخص کے بار بار اصرار پر حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ اسے دریائے دجلہ میں پھینک دو اسے دریا میں پھینکا گیا تو وہ کہتا تھا:’’الغیاث یا ابن رسول الله ‘‘ حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) نے پانی سے فرمایا اسے ڈبو دے لیکن وہ شخص فریاد کرتا رہا جب وه شخص نا امید ہوا کہ یہ لوگ میری مدد نہیں کرتے تو پکارا  ’’الہٰی الغیاث‘‘امام جعفر (رضی اللہ عنہ) نے اس سے یہ کلمات سن کر فرمایا اب اسے باہر لاؤ- اسے پانی سے باہر لایا گیا اس کے پانی سے بھیگے ہوئے کپڑے اتار کر نئے کپڑے پہنائے گئے اور اس کے جسم سے پانی سکھایا گیا – آپؓ نے اس سے پوچھا بتائیے کیا حال ہے اس نے کہا جب تک آپ کو پکارتا رہا اضطرار اور پریشانی سوار رہی لیکن جب حق کو پکارا تو میرے ہوش وحواس مطمئن ہوئے اضطرار و اضطراب کافور ہوا اور دل کا دریچہ کھلا اور وہی دیکھا جو میرا جی چاہتا تھا- آپ نے فرمایا جب تک تو مجھے پکارتا رہا تو اپنے مدعا میں سچا نہیں تھا جب تو نے مخلوق سے رابطہ توڑا تو تجھے محبوب و مطلوب مل گیا- اب اس رابطۂ حق کو مضبوط رکھنا‘‘- [22]

اما م جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کا اس کو یہ سمجھا نا مقصود تھا کہ انسا ن کو وصال الٰہی دنیا میں ہوتا ہے اور جو اللہ عزوجل کے برگزید ہ نے ’’ رائ قلبی ر بی‘‘ اور ’’لا اعبد ربالم ارہ ‘‘کا دعوٰی فرمایا وہ بھی حق ہے لیکن اس کی شرط ہے کہ انسان کے پاس دل بھی ان جیسا ہو -یعنی وہ  ’’اللہ بس ماسوی اللہ ہوس “کا عملی پیکر ونمونہ ہو -

اس روایت کو لکھنے کے بعد علامہ اسماعیل حقیؒ اپنے رائے لکھتے ہیں کہ :

’’اس آیت مبارکہ سے معلوم ہو اکہ رؤیت باری تعالیٰ کے دنیا میں ممکن ہونے کے جواز پر دلالت کرتی ہے نہ کہ اس کے امتناع پر ہاں یہ آیت مبارکہ حال بشریت میں اس کے دیدار کے ممتنع ہونے پر دلالت کرتی ہے (جب یہ پردہ ہٹ جائے تو ممکن ہے)‘‘-

وجود عين غباريست در رهِ ديدار
 غبار مانع ديدار مي شود هش دار

’’دیدار کے راستے میں تیرا وجود عین غبار ہے ،ہو ش کر یہ غبار مانع دیدار ہے ‘‘-

11: ’’وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَاصَالِحًا‘‘[23]

’’رہی وہ دیوار وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے اُن کا خزانہ تھااوران کا باپ نیک آدمی تھا‘‘-

اما م جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’اس تختی پر ڈھائی سطریں تھیں پوری تین نہ تھیں ان میں تحریر تھا رزق پر ایمان رکھنے والے شخص پر تعجب ہے کہ وہ کیسے مارا مارا پھرتا ہے حساب پر یقین رکھنے والے شخص پر تعجب ہے کہ وہ کیوں غافل ہے اور موت پر ایمان رکھنے والے شخص پر تعجب ہے کہ وہ کیوں کر خوش ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :

’’وَ إِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِيْنَ‘‘

’’اور اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی کا عمل ہو تو ہم اسے بھی لا حاضر کریں گے اور ہم حساب کرنے والے کافی ہیں ‘‘

ان دونوں یتیم بچوں کے باپ کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ صالح شخص تھا جب کہ ان دویتیم بچوں کے نیک ہونے کا ذکر کہیں نہیں ہوا ان یتیموں اور ان کے باپ کے درمیان جس کی وجہ سے بھی یہ محفوظ رہے ساتھ پشتوں کا فاصلہ تھا اور ان کا یہ جد امجد نساج(کپڑے بُننے کا کام کرنے والا) تھا‘‘-[24]

12:’’ وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘[25]

’’اور بے شک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے ‘‘-

اس آیت کی تفسیر میں اما م ثعلبیؒ ، امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کا قول مبارک نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:

’’سیدی رسول اللہ (ﷺ) سیدہ فاطمہ الزہراء (رضی اللہ عنھا) کے پاس تشریف لائےا س حال میں کہ آپ (رضی اللہ عنھا) نے اونٹ کے چمڑے کی چادر زیبِ تن فرما رکھی تھی اور اپنے ہاتھ مبارک سے آٹا کی چکی پیس رہی تھیں- آپ (رضی اللہ عنھا) کی یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ (ﷺ) کی چشمان مبارکہ سے آنسو چھلک پڑے اور آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: اے میری بیٹی! آخرت کی مٹھاس سے پہلے دنیا کے کڑوے گھونٹ پی لے پس اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی فرمائی ہے کہ تمہارا رب آپ (ﷺ) کو اتنا عطا فرمائے  گا کہ آپ (ﷺ)راضی ہو جائیں گے‘‘- [26]

نوٹ: اس روایت کو علامہ اسماعیل حقّیؒ اور دیگر علماء محققین نے بھی رقم فرمایا ہے -

13:’’نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ ج وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ‘‘[27]

’’ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے ہے اس میں جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے اس میں جو مانگو‘‘-          

امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں :

’’جو شخص (اپنی اطاعت و عبادت کے بدلے ) ثواب یا دیگر اغراض (بہشت وغیرہ)کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی امداد فرشتے کرتے ہیں اور جو اپنی اطاعت وبندگی سے مشاہدہ حق کا طالب ہوتا ہے تو اللہ عزوجل اس کا حامی و ناصر ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: اللہ پاک مؤمنوں کا والی ہے (دنیا میں)اور آخرت میں ہم تمہاری شفاعت کے ساتھ مدد کریں گے اور اعزاز و اکرام سے تمہیں ملیں گے جبکہ کافروں اور ان کے ساتھیوں کی آپس میں بغض و عداوت سے ملاقات ہوگی‘‘- [28]

14:اِرْجِعْ اِلَیْهِمْ فَلَنَاْتِیَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَ لَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَاۤ اَذِلَّةً وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ‘‘[29]

’’پلٹ جا ان کی طرف تو ضرور ہم ان پر وہ لشکر لائیں گے جن کی اُنہیں طاقت نہ ہوگی اور ضرور ہم اُن کو اس شہر سے ذلیل کرکے نکال دیں گے یوں کہ وہ پست ہوں گے‘‘-

امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا:

’’دنیا اللہ تعالیٰ اور اور انبیا ءکرام اور اولیاء عظام کے نزدیک کچھ قدروقیمت نہیں رکھتی یہ حضرات نہ دنیا کے ہونے سے خوش ہوتے ہیں اور نہ ہونے سے مغموم ہوتے ہیں پس علماء اور عقلاء پر لازم ہے کہ وہ دنیا کے اسباب سے خوش نہ ہوں ‘‘-

مالِ دنیا دامِ مرغان ضعیف
ملک عقبٰی دام مرغانِ شریف

’’مال ِ دنیا کمزوروں کی پھانسی ہے ملک عقبٰی شریفوں کی پھانسی ہے‘‘-[30]

15:قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْٓا اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ اَذِلَّةًج وَ كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ‘‘[31]

’’بولی بےشک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے تباہ کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل اور ایسا ہی کرتے ہیں ‘‘-

امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ)نے ارشاد فرمایا کہ:

’’اس میں اہل ایمان کے قلوب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب معرفت قلوب میں داخل ہوتی ہے تو پھر اس سے تمام آرزؤیں اور مرادیں ختم ہو جاتی ہیں پھر وہ دل اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نہیں رہتے‘‘-[32]

خلاصہ کلام :

آپ(رضی اللہ عنہ) خانوادہ اہل بیت کے چشم و چراغ ہیں جن کو اللہ عزوجل نے جہاں دیگر عظیم صفات سے متصف فرمایا وہیں آپ (رضی اللہ عنہ) کو علم کا وہ بحر بے کنار بنایا جس کو بیان کرنا ممکن نہیں-دور دور سے لوگ تحصیل علم کیلئے آپ (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق آپؓ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی ان میں فقہ کے علماء بھی تھے، تفیسر کے متکلمین بھی تھے اور مناظرین بھی، آپؓ کے اصحاب میں سے بہت سے بڑے فقہا تھے جنہوں نے کتابیں تصنیف کیں جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے-کتاب کی تصنیف سے زیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے- سیّدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی صحبت میں رَہ کر کئی تلامذہ اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے-

امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی حیات مبارکہ ہمارے لیے سبق ہے کہ حالات جتنے بھی سنگین ہوں، انسان کو علم و کردار سازی پہ محنت جاری رکھنی چاہیے جیسا کہ آپ(رضی اللہ عنہ)نے سنگین حالات کے باوجود اپنی تمام تر توانائیاں امت مسلمہ کی فلاح وبہبود کے لیے وقف رکھیں-

٭٭٭


[1](الذہبی، محمد بن احمد بن عثمانؒ،(المتوفى: 748 ھ)، سير أعلام النبلاء، (دارالحديث،القاهرة،الطبعة: 1427ھ)، باب، الطَّبَقَةُ الخَامِسَةُ مِنَ التَّابِعِيْنِ: جَعْفَرُ بنُ مُحَمَّدِ (ؓ)، ج: 6، ص: 362)

[2]تذکرۃ الاولیاء از فریدالدین عطار ،باب:جعفر بن محمد الصادقؒ)

[3](التوبہ:128)

[4](معالم التنزيل فی تفسير القرآن،ص: 408، زیرِ آیت:التوبہ:128)

[5](اآلِ عمران:28)

[6]( البحر المحيط في التفسير،زیرِآیت:العمران:28)

[7](البقرۃ:125)

[8](تفسیر ابن کثیر،زیرآیت البقرۃ:125)

[9](البقرۃ:36)

[10](تفسیر ابن کثیر،زیرآیت البقرۃ:82)

[11](الزخرف:81- 82)

[12]تفسیر روح البیان، زیرِآیت الزخرف :81۔82)

[13](الحدید:23)

[14](تفسیر بغوی، زیرِآیت الحدید:23)

[15](الرحمٰن:31)

[16](تفسیر قرطبی، زیرَآیت الرحمٰن:31)

[17](البقرۃ:275)

[18](تفسیر قرطبي زیرآیت البقرۃ:275)

[19](الشعراء:80)

[20](تفسیر مدارك التنزيل وحقائق التأويل،زیرَآیت الشعراء:80)

[21](الشورٰی:51)

[22](تفسیر  روح البیان،زیرِآیت الشورٰی :51)

[23](الکھف:82)

[24](تفسیر ابن کثیر،زیرآیت  الکہف:82)

[25](الضحیٰ:5)

[26]تفسیر ثعلبی، زیرِآیت الضحیٰ:5)

[27](حم السجدہ:31)

[28](تفسیر روح البیان، زیرِآیت حم السجدہ:31)

[29](النمل :37)

[30]( تفسیر روح البیان، زیرِآیت النمل :37)

[31]( النمل:34)

[32]( تفسیر روح البیان، زیرِآیت النمل :34)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر