سیدنا امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) اور تدوین فقہ

سیدنا امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) اور تدوین فقہ

سیدنا امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) اور تدوین فقہ

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری اپریل 2024

زندگی تحرک کا نام ہے ، جس میں ہرلمحہ بغیر کسی انقطاع کے نشوونما کا عمل جاری ہے - اب ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی کو اپنے اس طویل اور مسلسل سفر میں ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی ، جس میں تغیر و نمو کی رفتار سفرِ زندگی کی رفتار سے کم نہ ہو ، تاکہ وہ نظام، زندگی کی تیز رفتاری سے آئے دن نت نئے پیدا ہونے والے مسائل اور امور کا حل پیش کر سکے - ایسا نظام ِ زندگی اس کائنات ِ ارضی و سمائی میں فقط دین ِ اسلام ہی ہو سکتا ہے - جو بلاشک و شبہ زندگی کی طرح زندہ ،فطری حقائق کی طرح ابدی اور روشن اور زمانے کی طرح ارتقاء پذیر ہے - جس کا ہرلمحہ تازہ دم رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے - جیسا کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ پیام مشرق میں دین اسلام کے اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

بیتاب و تند و تیز و جگر سوز و بیقرار
در هر زمان به تازه رسید از کهن گذشت

اسلام اور دنیا کے دیگر نظام ہائے زندگی میں ایک اہم اور بنیادی فرق ہے اور وہ یہ  ہے کہ دنیا کے ہر قانون میں ریاست پہلے وجود میں آتی ہے اور ریاست کو چلانے ،اس میں نظم و ضبط قائم کرنے اور اس کے اندرونی و بیرونی معاملات کو منظم کرنے کے لئے قانون کی ضرورت بعد میں پیش آتی ہے- ریاست مقصود سمجھی جاتی ہے اور قانون اس مقصد کی تکمیل کا فقط ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھا جاتا ہے-

لیکن اسلام کے نظام میں یہ معاملہ بالکل برعکس ہے- یہاں ریاست فی نفسہ مقصود بالذات نہیں بلکہ قانون الٰہی فی نفسہ مقصود بالذات ہے؛ اور رہی ریاست تو وہ قانون الہی کو نافذ کرنے کافقط ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے -

قانون الٰہی کے تمام پہلوؤں کے مطابق زندگی کو منظم کرنا، یہ ہر مسلمان کی ذاتی اور شخصی ذمہ داری ہے-انفرادی اور اجتماعی زندگیاں قانون الٰہی کے مطابق منظم کرنا ، یہ مسلمانوں کی انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اجتماعی ذمہ داری بھی - چونکہ اس کام کو مکمل طور پر اور بطریق احسن انجام دینے کے لئے ریاست کا وجود ضروری تھا اس لئے ریاست کو بطور ایک ذریعہ اور وسیلہ کے لازمی سمجھا گیا-

جیسے جیسے یہ ریاست پھیلتی گئی، ویسے ویسے اس ریاست کو نئے نئے مسائل پیش آتے گئےاور جیسے جیسے نئی نئی اقوام اسلام میں داخل ہوتی گئیں، ان کو نئے نئے مسائل اور مشکلات پیش آتی گئیں- ان سب مسائل کا جواب قرآن پاک اور سنت رسول (ﷺ) میں بالواسطہ یا بلا واسطہ تفصیلاً یا اجمالاً ، صراحتاً یا اشارتاً موجود تھا- اس لئے جیسے جیسے نئی نئی اقوام امت مسلمہ کا جز بنتی گئیں، ان کے سابقہ عقائد ، سابقہ تصورات اور سابقہ نظریات کی تطہیر و اصلاح کا کام قرآن مجید کی رہنمائی میں شروع ہوتا گیا- ان اقوام کے سابقہ رواجات، سابقہ روایات، سابقہ تصوراتِ حیات اور سابقہ طورطریقوں میں جو امور قابل اصلاح تھے، ان کی اصلاح کی گئی- اور اصلاح کے بعد ان لوگوں کو اسلام کے اجتماعی نظام میں اس طرح سمولیا گیا کہ اس سے مسلمانوں کی وحدت اور فکری یکجہتی کے لئے کسی قسم کے مسائل پیدا نہ ہو سکیں - یہ کام فقہ وشریعت نے بطریق احسن انجام دیا-

علم فقہ کا آغاز وارتقاء

آغاز اسلام میں جب فقہائے اسلام فقہ کے قوانین اور احکام کو مرتب کر رہے تھے اس وقت تو یہ صورت حال تھی کہ جب کوئی نیا مسئلہ پیش آتا تھا تو فقہائے اسلام اس کا جواب دے دیا کرتے تھے- مثلاً: سیدناحضرت مولائے علی(رضی اللہ عنہ) (جو باب العلم تھے ، جو ظاہر و باطن کے مرج البحرین تھے ،جو علم ِقرآن و حدیث کا حسین امتزاج تھے) جب لوگوں کو مسائل درپیش ہوتے ،تو وہ آپ کے پاس جایا کرتے اور راہنمائی لے لیا کرتے تھے- یوں ہی ایک ایک کرکے ان کے اجتہادات جمع ہو گئے - اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود صحابی کے پاس قرآن پاک کا علم بھی تھا اور سنت کا بھی علم تھا- جب کسی شخص کوکوئی مسئلہ پیش آتا تھا تو وہ جا کرحضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے پوچھ لیا کرتاتھا یوں ہی پوچھنے والے پوچھتے تھے اور آپ بتا دیتے تھے- اس طرح ایک ایک کر کےحضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ)کے اجتہادات جمع ہوتے گئے- اسی طرح حضرت عمر فاروق ، حضرت عبداللہ بن عمر، اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت انس بن مالک، زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) وغیرہ جیسے بڑے بڑے صحابہ کے اجتہادات ایک ایک کر کے جمع ہوتے گئے اور تابعین ان کو مرتب کرتے گئے- پھر تابعین کے اجتہادات بعد میں آنے والے لوگوں کے پاس پہنچتے گئے، جمع ہوتے گئے اور بتدریج کتابی شکل میں مرتب ہوتے رہے- پہلی صدی ہجری میں یہ سارا کام مکمل ہو گیا - صحابہ کرام نے قرآن پاک کو جتنا سمجھا اور اس سے جواحکام نکالے، وہ انہوں نے تابعین تک منتقل کر دیئے - تابعین نے جتنا سمجھا اور جو احکام مرتب کئے وہ انہوں نے تبع تابعین تک منتقل کر دیئے - تبع تابعین نے یہ سارے اجتہادات اپنے شاگردوں تک منتقل کر دیئے - جب تابعین اور تبع تابعین کے شاگردوں کا زمانہ آیا- تو انہوں نے الگ الگ کتابیں مرتب کرنی شروع کیں- یعنی قرآن پاک کی تفسیر اور حدیث کے مجموعوں سے الگ کچھ کتابیں جن میں تفصیلی اجتہادات اور فقہی احکام لکھے گئے تھے- ان میں سب سے پہلی کتاب کس نے لکھی؟ یہ کہنا بڑا مشکل ہے- لیکن آج جو کتابیں موجود ہیں اُن میں قدیم ترین کتاب کتاب المجموع ہے جو حضرت امام زید بن علی (رضی اللہ عنہ) نے لکھی تھی، جو سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کے پوتے اور سیدنا حضرت امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ)کے صاحبزادے، (حضرت امام محمد باقر (رضی اللہ عنہ) کے بھائی اور سیدناحضرت امام جعفرالصادق (رضی اللہ عنہ) کے چچا ) تھے - فقہ کی سب سے پہلی کتاب حضرت امام زید بن علی (رضی اللہ عنہ)نے لکھی تھی - اُن عملی احکام پر جن کو آج فقہ کہتے ہیں- یہ کتاب پہلی صدی ہجری کے اواخر اور دوسری صدی ہجری کے اوائل میں لکھی گئی - آج ہمارے پاس اس سے پہلے لکھی گئی فقہ کی کوئی مستقل بالذات کتاب موجود نہیں ہے -اس کے بعد جو دوسری کتابیں ہم تک پہنچی ہیں تو وہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں اور ان کے معاصر فقہاء کی کتابیں ہیں - [1]

سیدناحضرت امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) کے فقہی مقام و مرتبہ سے آگاہی کےلئے ضروری ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد کے فقہی مقام و مرتبہ سے آگاہی حاصل کی جائے-آپ (رضی اللہ عنہ) سیدنا حضرت امام محمد باقر (رضی اللہ عنہ) کے لخت جگر اور سیدنا حضرت امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) کے پوتے ہیں-

علم فقہ اور سیدنا حضرت امام محمد باقر (رضی اللہ عنہ)

 ابوالفضل امام ابن حجر عسقلانی (المتوفى: 852ھ) ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں لکھتےہیں کہ امام ابن برقی (المتوفی: 249ھ) نے امام محمد باقر (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں فرمایا:

’’کان فقیہا فاضلا‘‘[2]

’’آپ (رضی اللہ عنہ) صاحبِ فضیلت فقہی تھے‘‘-

امام ذہبی ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’امام نسائی اور دیگر آئمہ نے امام محمد باقر (رضی اللہ عنہ) کو مدینہ کے فقہاء میں شمار کیا ہے اورحفاظِ حدیث آپؓ کے حجت ہونے پر متفق ہیں‘‘-[3]

علم فقہ اورسیدنا حضرت امام زید بن علی (رضی اللہ عنہ)

سیدنا حضرت امام زید بن علی (رضی اللہ عنہ)سیدنا امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) کے صاحبزادے، سیدنا امام محمد باقر (رضی اللہ عنہ) کے بھائی اور سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کے چچا ہیں- آپؓ امام اعظم ابو حنیفہ کے شیوخ میں سے ہیں-

امام احمد بن علی ابو العباس تقی الدین المقریزی (المتوفی: 845ھ) لکھتے ہیں کہ امام شعبی (المتوفی: 104ھ) نے حضرت امام زید بن علی (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ کی قسم! کسی عورت نے بھی زید بن علی (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ صاحبِ فضیلت اور ان سے زیادہ فقہی پیدا نہیں کیا‘‘-[4]

امام احمد بن علی ابو العباس تقی الدین المقریزی (المتوفی: 845ھ) لکھتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے علمی مقام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

’’میں نے ان کےزمانےمیں ان سے زیادہ فقہی، ان سے زیادہ عالم، ان سے زیادہ حاضر جواب اور ان سے زیادہ بات کی وضاحت کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا‘‘-[5]

علم فقہ اورسیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)

امام شمس الدين الذہبی(المتوفى: 748ھ)’’ سير أعلام النبلاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عمرو بن ابی المقدام فرماتے ہیں:

’’میں جب بھی حضرت امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) کو دیکھتا ہوں تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ وہ انبیاء  کرام(علیھم السلام) کی نسل سے ہیں ‘‘-[6]

امام ابو الفتح محمد بن عبد الكريم بن ابى بكر احمد الشہرستانی (المتوفى: 548ھ) لکھتے ہیں :

’’حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) دین میں علمِ بیکراں، حکمت میں ادبِ کامل اور دنیا اور اس کے زرق و برق کے تعلق سے مکمل زہد کے حامل اورپاک دامن اوصاف کے مالک تھے‘‘-[7]

امام ابن حبان ابو حاتم، الدارمی، البُستی (المتوفى: 354ھ) لکھتے ہیں :

’’حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) سادات اہل بیت کے فقہاء، علماء اور فضلاء میں سے تھے ‘‘- [8]

امام شمس الدين الذہبی (المتوفى: 748ھ) ’’تذكرة الحفاظ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ صالح بن ابو اسود کہتے ہیں :

’’میں نے حضرت امام جعفر بن محمد (رضی اللہ عنہ)کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

’’’سلونی قبل ان تفقدونی‘‘[9]

’’مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ‘‘-

امام الذہبی (المتوفى: 748ھ) ’’سير أعلام النبلاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عمرو بن ابی المقدام فرماتے ہیں :

’’میں نے امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا کہ آپ جمرہ کے نزدیک کھڑے ہو کر فرما رہے تھے :

’’سَلُونِي، سَلُونِي‘‘[10]

’’پوچھ لو مجھ سے پوچھ لو ‘‘-

انبیاء اور رسل (علیھم السلام)کے بعد یہ اعلان صرف مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بر سرِ منبر فرمایا تھا :

’’سلونی ماشئتم قبل ان تفقدونی‘

’’پوچھ لو مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ‘‘-

آپ (رضی اللہ عنہ)کے بعد یہ مقام صرف و صرف حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کو ہی حاصل ہوا-

امام الآئمہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے مدینہ منورہ میں دو سال آپؓ کی شاگردی میں گزارے- آپؒ کی نگاہ میں ساری زندگی کا حصولِ علم ایک طرف اور جو دو سال آپؓ کی کشف برداری میں گزارے وہ ساری زندگی کے علم پر بھاری رہے-اس لئے آپؒ فرماتے تھے کہ

’’لو لا السنتان لھلک النعمان‘‘

’’سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کے ہاں گزارے ہوئے اگر دو سال نہ ہوتے تو نعمان بن ثابت ہلاک ہو جاتا‘‘-

امام شمس الدین الذہبی ’’تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

امام اعظم ابوحنیفہ سےپوچھا گیا کہ آپ نے زندگی میں سب سے بڑا فقیہ کس کو پایا تو آپ نے فرمایا :

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْقَهُ مِنْ جَعْفَر

’’میں نے سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) سے بڑھ کر کسی کو فقہی نہیں پایا‘‘-

شیخ فرید الدین عطار ’’مظہر العجائب‘‘ میں لکھتے ہیں:

باقر و صادق دو گوهر بوده‌ اند
که علوم حیدری بر بوده ‌اند

’’حضرت امام باقر(رضی اللہ عنہ) اور حضرت امام صادق (علیہ السلام) دو گوہر ہیں، انہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم سے علوم نصیب ہیں‘‘-

هر که او از دیدشان آگاه نیست
گمره است او بر یقین در راه نیست

’’جو کوئی ان کی بصیرت (علوم کے مراتب) پر یقین نہیں رکھتا، گمراہ ہے اور یقیناً راہ حق پر نہیں ہے‘‘-

جعفر صادق امام خاص و عام
چون ندانستی چه گویم و السلام

’’حضرت جعفر صادق ہر خاص و عام کے امام ہیں، جو نہیں جانتے/مانتے انہیں کیا کہوں، بس والسلا م‘‘-

او جمیع اولیاء را راهبر
از معارف گفته او بے ‌حدّ و مر

’’آپ جملہ اولیاء کے راہبر ہیں، آپ نے لامتناہی معارف/علوم بیان کئے ہیں‘‘-

علامہ عبد الرحمٰن جامی حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)  کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’آپ (رضی اللہ عنہ) کے علوم کا احاطہ فہم و ادراک سے بلند ہے ‘‘- [11]

خلاصہ کلام :

جب انسان سید السادات کے نفوس قدسیہ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتا ہے تو اس پہ واضح ہو جاتا ہے کہ علم کیا ہوتا ہے؟ تفقہ فی الدین کیا ہوتا ہے؟ فقہی کس کو کہتے ہیں؟ اور علم انسان کے وجود میں کیسے سرایت کرتا ہے؟

امام عبد الوہاب شعرانی ’’طبقات الکبرٰی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شیخ ابو العباس مرسی فرماتے ہیں کہ:

’’العلم ھو الذی ینطبع فی القلب کالبیاض فی الابیض و السواد فی الاسود‘‘

’’علم وہ ہے جو دل میں یوں سرایت کر جائے جیسے سفید چیز میں سفیدی اور سیاہ چیز میں سیاہی‘‘-

امام نووی فرماتے ہیں کہ:

’’یطیب القلب للعلم تطیب الارض للزراعۃ‘‘

’’علم نافع کے حصول کے لئے دل کو دنیاوی آلائشوں سے اس طرح صاف کرنا چاہیے جس طرح کھیتی باڑی کے لئے زمین کو صاف کرتے ہیں‘‘-

اسلاف کے طرزِ عمل سے پتا چلتا ہے کہ ان کے حصولِ علم کا طریقہ اور تھا اور آج ہمارا حصولِ علم کا طریقہ اور ہے-وہ حصولِ علم کے لئے تزکیہ نفس کو ضروری سمجھتے تھے اور ہم تزکیہ نفس کو غیر ضروری سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج پڑھنے کے باوجود معاشرہ علم کی روشنی سے محروم ہے-

فتاوی ہندیہ کے مقدمہ میں درج ہے کہ فقہ نام سمجھ کاہے-پس فقہی وہ ہے جس کو دین و ایمان میں سمجھ حاصل ہو لہٰذا جو فضائل فقہ کے احادیث و آیات سے ثابت ہیں وہ ان بزرگوں کے لئے مسلم ثابت تھے جن کو سلف و صدرِ اول و صحابہ و خلف و تابعین کہتے ہیں باوجود یکہ یہ کتابیں جو اس وقت موجود ہیں اور جتنے مسائل ان میں مندرج ہیں اُس وقت موجود نہیں تھیں اور ایسے ہی یہ بھی سمجھ کا قصور ہے کہ علم دین فقط ان ہی مسائل میں منحصر ہے جو ان کتب فقہ میں مدون ہیں- حالانکہ ان میں خضوع و خشوع اور حضور قلب کا ذکر اتفاقی ہے -

تمام کام دو طرح ہوتے ہیں ایک دل سے جن کو افعالِ قلب کہتے ہیں اور نیت بھی دل ہی سے ہوتی ہے اور دوم اعضائےِ ظاہری سے جیسے وضو کرنا اور نماز کے ارکان ادا کرنا وغیرہ-پھر ظاہری افعال میں کوئی ایسا فعل نہیں جس کے ساتھ دل کا فعل نہ لگا ہو اور دل کے افعال بکثرت ایسے ہیں جن کے ساتھ ظاہری اعضاء کے کام کو کچھ تعلق نہیں ہے-تو فقہی وہ ہے جو ظاہر و باطن سب افعال و خطرات و وسواس کے احکام جانتا ہو-

اور ظاہر و باطن دونوں کی پاکیزگی و تقوٰی سے آگاہ ہو اور خطرات ِ نفس و وسواسِ شیطان سے ہوشیار ہو-لیکن آئمہ مجتہدین کے پیچھے لوگوں نے تقوٰی ظاہر کو بنامِ فقہ اور تقویٰ باطن کو بنامِ تصوف موسو م کر لیا اور کتابِ توضیح وغیرہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے وقت میں دونوں کا مجموعہ فقہ تھا اور بیشک یہی ہونا ضروری ہے- کیونکہ جس کے باطن میں تکبر و غرور، بخل و دنیا کی جاہ و منزلت، مؤمنوں کی طرف سے بغض و عداوت ، حقد و حسد، ظلم و کینہ وغیرہ مذموم و بدسیرتیں بھری ہوئی ہوں اس کے وضو، غسل کی نماز کی صورت میں کیا امید ہے-[12]

شیطان اور نفس کے مکروفریب سے بچنے کیلئے استاد اور مرشد کی راہنمائی اورصحبت و تربیت لازم ہے ، جس کے بغیر جسم کی ظاہری اور باطنی تطہیر ممکن نہیں ہے -

آئیے! حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کے قافلے کے سنگ  چلئے تاکہ ظاہری تربیت کے حصول کے ساتھ باطنی تربیت کا حصول بھی ممکن ہو سکے-کیونکہ باطنی تربیت کے بغیر تفقہ فی الدین کا حصول مشکل ہے-

٭٭٭


[1](محاضراتِ فقہ للغازی :ص: 187-46،47،185 ، )ناشر : الفیصل ناشران و تاجران کتب ،اردو بازار لاہور ،پاکستان )

[2](تہذیب التہذیب، ج:9، ص:350 ، الناشر: دائرة المعارف النظامية، الهند )

[3](سیر اعلام النبلاء، ج:4، ص:403 ، الناشر : مؤسسة الرسالة)

[4]( المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار جز 4 ، ص 317 ، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت)

[5](ایضاً)

[6](سير أعلام النبلاء ، جز 6 ،ص 364 ، الناشر: دار الحديث- القاهرة)

 (تهذيب الكمال في أسماء الرجال جز 5 ،ص 78 ، الناشر: مؤسسة الرسالة بيروت)

[7](الملل والنحل ، جز 1 ،ص 166، الناشر: مؤسسة الحلبي)

[8](الثقات 6 ،ص 131 ، الناشر: دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند)

[9](تذكرة الحفاظ جز 1 ،ص ،126 ، الناشر: دار الكتب العلمية بيروت-لبنان)

[10](سير أعلام النبلاء ، جز 6 ،ص 364 ، الناشر: دار الحديث- القاهرة)

[11](شواہدالنبوت : ص: 180)

[12](فتاوٰی عالمگیری، مقدمہ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر