نام :
آپ کااسم گرامی جعفر اور کنیت ابو عبداللہ اور ابو اسماعیل ہےجبکہ مشہور لقب صادق ہے-مشہور ترین لقب ’’اَلصَّادِق‘‘ہے-
پیدائش وو صال:
ولادت ( 80 ھ) بمطابق 699ء مدینۃ المنورہ میں ہوئی اور وصال( 148 ھ ) بمطابق 765ءمدینہ منورہ میں ہوا-
شجرہ نسب:
نسب اسلام کی دو جلیل القدر اور برگزیدہ ہستیوں چوتھی پشت میں امیرالمومنین سیدنا علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) اور چوتھی پشت میں حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)سےملتا ہے -والدہ کی طرف سے ’’صدیقی‘‘ اور والد کی طرف سے ’’علوی و فاطمی‘‘ ہیں-
پدری سلسلہ نسب :
امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقربن امام علی زین العابدین بن امام حسین بن امیر المومنین حضرت علی (رضی اللہ عنہ)-
مادری سلسلہ نسب:
اما جعفرصادق بن ام فروہ بنت القاسم بن محمد بن امیر المومنین ابی بکر الصدیق-امام جعفر الصادق بن ام فروہ بنت اسماء بنت عبدالرحمٰن بن امیر المومنین ابی بکر الصدیق (رضی اللہ عنہ)-
ازواج:
سیدنا امام جعفرصادق (رضی اللہ عنہ)نے دو شادیاں فرمائیں:
- سیدہ حمیدہ بریریہ (رضی اللہ عنھا)کنیز تھیں جنہیں سیدنا امام باقر (رضی اللہ عنہ)نے خرید کر آپ کے سپرد کیا-
- سیدہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن حسین بن علی ابن علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ)-
اولاد:
آپ کےچھ (6) صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہے جن کے اسماء یہ ہیں -حضرت اسماعیل بن جعفر، حضرت محمد بن جعفر، حضرت علی بن جعفر، حضرت عبداللہ بن جعفر، حضرت اسحٰق بن جعفر اور موسی کاظم بن جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)، آپ کی ایک صاحبزادی ام فروہ بنت جعفر الصادق ہے-جبکہ صاحب الملل والنحل نے آپ کی اولاد پانچ بتائی ہے-
مشہور القابات :
آپ کو بہت سے القابات سے یاد کیا جاتا ہے جن میں سلطان ملت مصطفوی، فاضل، طاہر، صابر اور مشہور لقب الصادق ہے-
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فرماتے ہیں:
صدق صادق کا تصدق صادق الاسلام کر |
مشہور اساتذہ:
آپؒ کے اساتذہ میں سیدناامام زین العابدین، سیدنا امام ابو جعفر محمد الباقر، سیدنا امام القاسم بن محمد، حضرت عبیداللہ بن ابی رافع، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت عطاء بن ابی رباح، حضرت مسلم بن ابی مریم، حضرت محمد بن المنکدر اور ابن شہاب الزہری (رضی اللہ عنہ)شامل ہیں-
مشہور تلامذہ:
مورخین وسیرت نگاروں کے مطابق آپؓ سے علم و حکمت کا اکتسابِ فیض حاصل کرنے والوں کی تعدادچار ہزار سے زائدہے جن میں آپ کے فرزندامام موسیٰ کاظم،امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت،امام مالک بن انس ،حضرت یحییٰ بن سعید انصاری ،جابر بن حیان، ابن جریج،شعبہ بن حجاج ، ابان بن تغلب، اسماعیل بن جعفر، یحیی بن سعید القطان، سفیان بن عیینہ اورسفیان ثوری (رضی اللہ عنہ)جیسےدیگر اکابرِ اُمت نے بھی آپ سے اکتسابِ فیض کیا ہے-
روایت کرنے والے محدثین:
امام جعفر صادق سے محمد بن اسحق ، یحییٰ الانصاری، مالک بن انس، سفیان ثوری،سفیان بن عیینہ، ابن جریج، شعبہ بن حجاج اور یحییٰ القطان وغیرہ نے احادیث روایت کی ہیں-
مختلف علوم و فنون پہ دسترس:
آپ نے اپنے والد گرامی امام باقر(رضی اللہ عنہ) اور اپنے نانا سیدنا قاسم (رضی اللہ عنہ)سے ظاہری و باطنی علوم کا حصول کیا- آپ کا شمار علم تفسیر، حدیث، فقہ اور علم جفر و جامع کے آئمہ میں ہوتا ہے- علم جفر اور جامع دو علوم ہیں جو قضا و قدر سے تعلق رکھتے ہیں یہ علوم ماکان و ما يكون(جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا) پر کلی و جزئ طور پر محیط ہیں- حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ)نے حروف تہجی کو ترتیب ابجد پر لکھا اسی سے علم جفر اور جامع کا استخراج کیا جاتا ہے-
امام علی الرضاؒ کے زمانہ میں جب مامون الرشید خلیفہ ہوا تو آپ نے فرمایا علم جفر اور جامع دونوں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ حکومت پوری نہیں ہو گی ایسا ہی ہوا- اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادریؒ نے فرمایا کہ جفر سے جو جواب نکلے گا ضرور حق ہو گا کہ یہ علم اولیاء کرام کا ہے اہل بیت عظام کا ہے امیر المومنین علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ)کا ہے-
یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)فرمایا کرتے تھےکہ مجھے کھونے سے پہلے مجھ سے سوال کرو میرے بعد تم سے میری طرح کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرے گا-
٭٭٭