علامہ محمد اقبالؒ کی برسی کے حوالے سے مسلم انسٹیٹیوٹ نے ’’فلسفہء اقبال: مسلمانوں کے مسائل کاحل ‘‘کے موضوع پر22 اپریل 2015ء نیشنل لائبریری اسلام آباد میں رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا اہتمام کیا- اس موقع پر پاکستان میں افغانستان کے سفیر عزت مآب جناب جانان موسیٰ زئی مہمانِ خصوصی تھے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مسعودنے رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کی صدارت کی- علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہیڈ آف اقبال اسٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر شاھد اقبال کامران ، معروف مصنف شاعر اور تجزیہ نگار پروفیسرجلیل عالی اور ہیڈ آف Conflict and Peaceاسٹڈ یز نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز ڈاکٹر ذولفقار قریشی نے رائونڈ ٹیبل ڈسکشن میں اپنے خیالات کا اظہار کیا - اسکے علاوہ مختلف ممالک کے سفارت کاروں ، صحافیوں ، اسکالرز، طلباء اور سول سوسائٹی کے نمائندگان نے رائونڈ ٹیبل ڈسکشن میں شرکت کی- مباحثہ کے آغاز میں پروگرام کے ماڈریٹر نے صاحبزادہ سُلطان احمد علی (چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے مہمانانِ گرامی کا خیر مقدم کیا اور اُن کی آمد کا شُکریّہ ادا کیا -
اس موقع پر شرکاء نے کہا کہ:
آج مسلم اُمہ کو دہشت گردی، معاشی مسائل، ناخواندگی، فرقہ واریت اور نظریاتی ابہام جیسے مسائل کا سامنا ہے جن کا حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے - ایسی صورتحال میں اقبال کا پیغام ان مسائل کا حل فراہم کرتا ہے کیونکہ اقبال کے دور میں بھی مسلمان اِنہی مسائل کا شکار تھے- علامہ اقبال کے پیغام کو تقریباًپوری دنیا میں پڑ ھا اور پڑھایا جاتا ہے خصوصی طور پر مسلم ممالک میں- اقبال نے فرد کے کردار کی تعمیر پہ زور دیا- اقبال کے مطابق اسلام ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ اپنے ماننے والوں کوبھی زندگی کے ہر میدان میںاپنی اور معاشرے کی بہتری کے لئے مسلسل کوشش کا درس دیتا ہے-
شاعرِ مشرق علامہ اقبال ایک عظیم مفکر تھے ، جن کی تعلیمات نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا اور انسانیت کے لئے مشعل ِ راہ ہیں- اُن کا پیغام آفاقی ہے اور یہ جغرافیائی حدود یا کسی ایک مکتبہ فکر تک محدود نہیں ہے - اقبال نے دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں مسلمانوں کے کردار پر روشنی ڈالی- انہوں نے اس وقت کے تمام نظریات کا احاطہ کیا اور قرآن پاک سے رہنمائی لیتے ہوئے کبھی بھی کسی نظریہ یا تہذیب کے خلاب تعصبانہ رویہ نہیں رکھا جیسا کہ وہ کہتے ہیں:
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر لوگوں نے دوسرے نظریات اور تہذیبوں کے خلاف ترک کردیا اور اس میں اقبال کا بہت بڑاکردار تھا- اقبال نے وہ آفاقی معیار تلاش کیا جس کی بنیاد پر انسانیت کو تاریکیوں سے نکالا جا سکے- اقبال کا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا کہ اصل کفر وہ کرتا ہے جو تخلیقی صلاحیتوں کا انکار کرتا ہے - تعلیم کے بغیر سچ کو بھی سچ ثابت نہیں کیا جاسکتا - مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنی چاہئے ، جیسا کہ قرآن کریم نے بھی کائنات کو انسان کیلئے مسخر کر دئیے جانے کا فرمایا ہے - اسلام زندگی کے ہر معاملے میں بات چیت اور دوسروں کی رائے کے احترام کا درس دیتا ہے - ہمیں اپنی تمام تر گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کرنا چاہئے جس کا مقصد ہر شخص پر سلامتی بھیجنا ہے -
تاریخ اور مختلف چیزوں کو بیان کرنے میں اختلاف نے منفی رویے اور شدت پسندی کو جنم دیا ہے - ہمیں اپنے معاشرے میں پنپنے والے منفی رجحانات کو روکنا چاہئے- بحثیت مسلمان ہمیں سوچنا ہوگا کہ دورِ جدید میں تعلیم کے میدان میں ہم نے کتنا حصہ ڈالا ہے - ہم دنیا میں تب ہی ترقی کر سکتے ہیں اگر ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کریں- اقبال کا پیغام تخلیق کا ہے ، مگر آج بد قسمتی سے ہم نئی ایجادات کو استعمال تو کر رہے ہیں لیکن نئی چیزیں ایجاد نہیں کر رہے - ہمیں صرف معلومات کے حصول کی بجائے علم حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہئے- آپ دیکھ لیں کہ ہم نئی کتب اپلوڈ کم اور ڈاؤن لوڈ زیادہ کرتے ہیں اور جو مواد اپ لوڈ کیا بھی جاتا ہے اُس کامعیار عالمی معیارات پہ پورا نہیں اُترتا -
اگرچہ آج کا دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن ہمارے بالخصوص نوجوانوں میں مذہب اور نظریات سے متعلق بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں- حتیٰ کہ اقبال کے متعلق بھی ہم مختلف آراء کا شکار ہیں کیونکہ ہمارے پاس اس کوسمجھنے اور اس کا جائزہ لینے کیلئے وقت ہی نہیں ہے- اس پہ عوامی سطح پر بحث مباحثہ ہو نا بہت ضروری ہے - اقبال نے اپنے کلام میں نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے ،کیونکہ نوجوان ہی کسی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں- معاشرے کی اصلاح کے لئے اقبال نے فرد کی سوچ کو ہر قسم کے ڈر، خوف اور غلامی سے آزاد کرنے کی بات کی اور اسی طرح سے نوجوان مستقبل کے معمار بن سکتے ہیں - اقبال نے فرد کے کردار کی تعمیر کا پیغام دیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی تبلیغ سے قبل اپنا مثالی کردار معاشرے کے سامنے پیش فرمایا-
تحریک ِ پاکستان، برصغیر پاک و ہند میں پہلی سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد انڈیا کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کا حصول تھا- اس تحریک کے لئے اقبال نے قائداعظم کی بھر پور مدد کی ،کیونکہ قائداعظم تعلیم یافتہ اور جدت سے ہم آہنگ تھے چنانچہ قائد کی شخصیت اس پاکستان کی وضاحت کرتی ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا- اقبال نے ایک نظریاتی ریاست کا تصور دیا، خاص طور پر جب ایک قوم کی اپنی تہذیب و تمدن ، روایات اور تاریخ موجود ہو- اسی تناظر میں اقبال نے دو قومی نظریہ پیش کیا - اقبال جاگیردرانہ نظام کے خلاف تھے ، لیکن بد قسمتی سے ہم آج بھی اس میں مبتلا ہیں - اقبال کی بیان کردہ سلطانی جمہور تو درکنار ، ہم تو مغربی جمہوریت سے بھی کوسوں دور ہیں - ایک مسلم معاشرے میں مغربی جمہوریت بھی بہت سی تبدیلیاں لا سکتی ہے - ہمیں اقبال کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا ، ورنہ ہم جدید دنیا کا سامنا کامیابی کے ساتھ نہیں کر سکتے - اقبال نے بندے ،خدا اور کائنات کے آپس میں تعلق کو بیان کیا اور بتایا کہ اس تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں انسان کا کیا کردار ہونا چاہئے-اقبال کو افغانستان سے بھی خصوصی لگائو تھا اور انہوں نے افغانستان کے دورے بھی کئے- انہوں نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا اور افغانستان کے امن و ترقی سے ایشیا کے امن وترقی کو منسوب قرار دیا- آج یہ نظریہ عملی طور پر ثابت ہوچکا ہے اور اس کا عملی ثبوت خطے میں تعاون اور ترقی کے منصوبوں کا آغاز ہے اور اسی ضمن میں اس سال کے آخر میں اسلام آباد میں ’’Heart of Asia ministerial conference‘‘کا انعقاد ہوگا- افغانی قوم کا بھی اقبال سے بے حد لگائو ہے اور آپ کے پیغام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے -اقبال کا پیغام اس پورے خطے کے لوگوں کو آپس میں جوڑنے کا باعث ہے- اقبال کے نظریے کے مطابق یوریشیا، وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیا، چین، ایران اور مشرقِ وسطیٰ کی معاشی ترقی اورزمینی راستوں پر زور دیا جا رہا ہے - اقبال نے چین کے ابھرنے کی پیش گوئی کی تھی اور آج یہ پیش گوئی سچ ثابت ہورہی ہے - اقبال عربوں کے مخالف نہ تھے ، کیونکہ ان کا ماضی بہت درخشاںہے،انہوں نے ہمیشہ سامراجی نظام کے خاتمہ کی بات کی اس لئے اقبال سمجھتے تھے کہ عربوں کے ڈوبنے کا سبب اسلامی شناخت کی بجائے عرب شناخت پہ زر دینا ہے حالانکہ دُنیا میں اُن کا اِحترام عرب نہیں بلکہ اسلامی شناخت سے ہے - ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ صحیح معنوں میں اقبال کے پیغام کو سمجھایا جاسکے اور نوجوانوں کو معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے حوصلہ ملے- اقبال کے کلام پر مسلسل تحقیق اور غور و فکر کی ضرورت ہے -
وقفہ سوال و جواب :
سوال و جواب کے وقفہ کے دورن شرکاء اور پینل کے مابین سیر حاصل گفتگو ہوئی- شرکاء نے کہا کہ :
جب پاکستان کا قیام ہوا تو ہمارے پاس ترقی کا سنہری موقع تھا لیکن ۱۹۴۸ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد ہم اپنے راستے سے ہٹ گئے- آج ہمارے معاشرے میں لوگ اپنی بساط کے مطابق اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں لیکن مواقع بہت کم ہیں اور زبان کا مسئلہ اس مقصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ اِس مُلک کی اشرافیّہ اپنی قومی اور علاقائی زبانوں کے سخت خلاف ہے وہ چاہتی ہے کہ صرف انگریزی زبان مروّج رہے اِس لئے قومی زبان جاننے والا شخص مقابلے کے امتحان میں شریک نہیں ہو سکتا - صرف مغربی زبان و ثقافت کا واقف ہی بیوروکریسی کا حصہ بن سکتا ہے جو کہ اپنے ملک سے بھی اور مذہب و ثقافت سے بھی بے وفائی اور نا انصافی کے مترادف ہے - ہمیں اپنی مثبت سوچ کے استعمال سے معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے - اقبال نے فرد کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اپنی دنیا تخلیق کرنے کا تصور دیا- سوشل میڈیا میں اقبال سے منسوب غلط کلام اور اُن کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈہ کو صرف اقبال کے حقیقی پیغام کو پھیلانے سے ہی روکا جا سکتا ہے - ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تاریخی ورثے ، اپنی روشن روایات اور اقبال کے کلام بشمول ان کے لیکچرز اور خطوط سے آشنائی فراہم کرنی چاہئے- اقبال کی حقیقی انقلابی نظموں کو تدریسی اداروں میں پڑھایا جانا چاہئے، نہ کہ فقط چند مشہور نظمیں -