جویائے راز ہائے قُدرت ، دلدادۂ فیضانِ نبُوّت ، اسیرِ محبتِ رسالت ، عمل پیرائے رُشد و ہدایت ، مُسافرِ راہِ طریقت ، امینِ اَنوارِ وِلایت ، بادشاہِ مشغُول بہ لذّاتِ عبادت ، حاکم بہ اوصافِ حیا و شرافت ، باغبانِ گُلستانِ اقدارِ مُروّت و اخُوّت ، متمکنِ مُعارجِ سعادت ، جامعِ تدبُّر و حِکمت ، مجمعِ بصیرت و بصارت ، منبعِ حلم و صداقت ، دوستدارِ علم و زکاوت ، قدر دانِ فنُون و مہارت ، مہرِ مُنوّر از آسمانِ خودداری و غیرت ، مُحافظِ ضمیر و حمیّت ، پاسدار و پاسبانِ اِنصاف و عدالت ، نگہبانِ سرمایۂ اُمّت ، افتخارِ جوانانِ مِلّت ، مُدبِّرِ تدابیرِ حکومت ، زینتِ تختِ اَمارت ، دانندۂ رموزِ سیادت ، آشنائے فرائضِ قیادت ، نجمِ فلکِ فراست ، شناسائے اداہائے دلیری و ہمّت ، صاحبِ شمشیر و شوکت ، حاملِ جلال و قُوّت ، انجمِ تاباں از فلکِ آزادی و حریت ، پیکرِ عدل و شجاعت ، واقفِ اسرارِ شہادت ، حکمرانِ سلطنتِ خُداداد ، شیرِ میسور ، مجاہد ابنِ مجاہد میر فتح علی ٹیپو سُلطان ابنِ نواب حیدر علی (رحمۃ اللہ علیھما) کی داستانِ شجاعت و شہادت سے کون واقف نہیں ؟ جس کی زندگی کا ہر ایک لمحہ ، ہر ایک ساعت اور ہر ایک سانس حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر وقف تھا - جس کا کہا ہوا ایک ایک جملہ سالارانِ عالَم کیلئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے ، جسے اپنوں اور بے گانوں حتیٰ کہ اُسے بے دردی سے قتل کرنے والے مکار و غدّار دُشمنوں نے بھی خراجِ تحسین پیش کیا - جس کی آواز میں حیدرِ کرّار کی للکار کی جھلک اور جس کا حملہ خالد بن ولید کی یلغار کا عکسِ تابندہ تھا - جس کی تیغِ بے نیام سرزمینِ ہندوستان میں اِسلامیانِ ہند کی آزادی کی آخری محافظ تھی ، جس کی شمشیر کی چمک برق و رعد کی طرح سپاہیانِ فرنگ و غدّارانِ مِلّت پہ کڑکتی و برستی رہی - تاریخ گواہ ہے کہ ٹیپو سُلطان اِسلامی ہِند کا وہ جرنیل تھا جس نے شکست کا سامنا نہیں کیا بروزِ شہادت بھی اُسے شکست کا نہیں غدّاری کا سامنا تھا صاحبانِ فن جانتے ہیں کہ شکست کا سامنا کرنا اوربوجۂ غدّاری ئِ یاراں موت کا سامنا کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں ٹیپو سُلطان شہید ضرور ہوا تھا مگر ہارا نہیں تھا - اور میرے ایک اہلِ دِل دوست کی زبان میں ’’ٹیپو سُلطان کا وجُودِ مسعود تلواروں ’’زیر و زبر‘‘ تو ہو گیا تھا مگر ’’زیر‘‘ نہیں کیا جا سکا تھا‘‘ - اُس کی شجاعت و بہادری کا زیور بعد از مرگ بھی اُس کے لاشے سے یَوَاقیت و جواہر کی وہ شعاعیں نکالتا رہا کہ تادیر اُس کے خوف سے دُشمن قریب آنے کی جرأت نہ کرسکے کہ شاید اُس کی تلوار بعد از مرگ بھی جنبش نہ کردے - جس کی تلوار تو ٹوٹ گئی مگر تلوار کا دستہ دستِ شہید سے الگ نہ ہوا -
جو لڑا تھا سپاہیوں کی طرح ، ایسا بھارت میں بادشا ہ نہ ہوا
رُوح تو ہوگئی تھی تن سے جُدا ، ہاتھ تلوار سے جُدا نہ ہوا
یہی تو وہ مومنانہ شان ہے جِس کا اعلان شہادتِ مومن پہ ہوتا ہے ، جسے علامہ اقبال جاوید نامہ میں سُلطان ٹیپو کی زُبان سے یوں ادا کرتے ہیں کہ {بندۂ آزاد را شانے دِگر - مرگ اُو را می دِہد جانے دِگر} کہ بندۂ آزاد کی شان ہی مختلف ہے کہ موت اُسے ایک نئی زندگی عطا کرتی ہے - اُس کے جسدِ خاکی سے رُوح کے پرواز کرجانے کا یقین ہوجانے کے بعد جب انگریزوں نے اُس کے جسدِ مُبارک کو قبضہ میں لیا تو اُن کے جرنیل نے اعلانِ فتح اعترافِ شکست کے لفظوں میں یوں کیا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے ‘‘ - گویا جب تک ’’شیرِ میسور‘‘ زِندہ تھا دُشمن کو معلوم تھا کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ واحد اور آخری مسلمان حکمران تھا جس کی قیادت میں اسلامیانِ ہند برطانیّہ کے ناجائز سامراجی قبضے کے خِلاف جمع ہو سکتے تھے - صاحبانِ نظر اِس بات کا کامل یقین رکھتے ہیں کہ ’’مملکتِ خُداداد‘‘ در اصل ’’سلطنتِ خُداداد‘‘ ہی کا ایک تسلسل ہے اِس لئے سُلطان ٹیپو شہید کا نام ، اُس کا ذِکر اور اُس کی داستان آج تک دلدادگانِ حریت کے جذبات کی ترجمان ہے - صِرف اہلیانِ مشرق و اِسلام ہی شیرانِ میسور کی داستانِ حُرِیّت کے مُعترف نہیں بلکہ ان کے اپنے زمانے کے اندر جب ’’نئی دُنیا‘‘ یعنی امریکہ میں جارج واشنگٹن کی سربراہی میں امریکی قوم برطانوی سامراج کی غُلامی سے آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی اُس وقت امریکی بحریّہ کے ایک بڑے جنگی بیڑے کا نام ’’ایس ایس حیدر علی‘‘ رکھا گیا - جس سے یہ اَندازَہ لگانا مُشکل نہیں کہ شیرانِ میسور نواب حیدر علی اور اُس کے فرزندِ سعادت مند ٹیپو سُلطان دلدادگانِ حُریّت کے دِلوں کی دھڑکن تھے - علّامہ اِقبال نے جِن اَلفاظ میں اِس عظیم مجاہدِ اِسلام کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے وہ اِسی کا مُستحق تھا - شہیدانِ محبت کا اِمام ، ہند و چین و روم شام کے مسلمانوں کی آبرو ، پروردۂ نگاہِ خواجۂ بدرو حُنین ﷺ ، وارثِ جذبِ حُسینؓ ، کہ جس کے نام کی نوبَت آج بھی دکّن میں بج رہی ہے -
آں شھیدانِ مُحبت را اِمام
آبروئے ہند و چین و روم و شام
نامش از خورشید و مَہ تابندہ تر
خاکِ قبرش از من و تُو زِندہ تر
عشق رازے بُود بر صحرا نِہاد
تو ندانی ، جاں چہ مشتاقانہ داد
از نگاہِ خواجۂ بد ر و حُنین
فقرِ سُلطاں وارثِ جذبِ حُسین
رفت سُلطاں زیں سرائے ہفت روز
نوبتِ اُو در دکنؔ باقی ہنوز
ترجمہ : یہ سلطان ٹیپو ہے جو شہدأ کاامام اورہند وچین وروم وشام کی آبرو ہے-اس کانام خورشید وماہ سے زیادہ چمک رہاہے اس کی قبر کی خاک ہم سے زیادہ زندہ ہے-عشق ایک راز تھا جسے اس نے عیاں کردیا-تو نہیں جانتا کہ اس نے کس مشتاقانہ انداز سے جان دی-خواجۂ بدروحنینﷺ کی نگاہ کے فیض سے سلطان شہیدکافقر جذبِ حسینؓ کاوارث تھا-سلطان شہید اس ہفت روزہ دنیا سے جاچکا ہے -مگر دَکن میں اس کے مرقد پراب تک نوبت بجتی ہے-
اِسی مردِ بیدار و مردِ خود آگاہ و مردِ مُجاہد کیلئے علّامہ اقبال نے تاریخی تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’مشرق اندر خواب و اُو بیدار بُود‘‘ - کہ جب سارا مشرق اور سارا ایشیا غُلامی کی نیند سو رہا تھا ، سُلطان ٹیپو شہید واحد حُکمران تھا جو بیدار تھا -
تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ۸ مئی کو اِسلامی برصغیر کے اِس عظیم حکمران میر فتح علی ٹیپو سلطان کے ۲۱۶ویں یومِ شہادت کی مناسبت سے ’’خوابیدہ ایشیاء کا بیدار لیڈر‘‘کے عنوان سے ایک خصوصی لیکچر کا انعقاد کیا گیا- اس موقع پر مسلم انسٹیٹیوٹ کے پبلک ریلیشنز کو آرڈینیٹر جناب طاہر محمود نے ماڈریٹر کی خدمات سر انجام دیں- بین الاقوامی مبصرین ، دوست ممالک کے سفیران ، دانشور حضرات ، محققین، ممبران ِ پارلیمنٹ، یونیورسٹیز کے پروفیسرز ، صحافیوں سمیت طلباو طالبات کی بڑی تعداد نے بھی لیکچر میں شرکت کی- ماڈریٹر نے مسلم انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین صاحبزادہ سُلطان احمد علی کی جانب سے مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید کہا اور اُن کی آمد پر دِلی اِظہارِ تشکُّر کیا - اور بتایا کہ وہ خود بھی اِس تقریب میں حاضر ہونے کے مُشتاق تھے لیکن ناگزیر مصروفیّات کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکے -
تعارفی کلمات:
ڈاکٹر عالیہ سہیل خان
پرنسپل، پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین، راولپنڈی
اپنی تاریخ اور قومی ہیروز کو یاد رکھنا کسی بھی قوم کیلئے ضروری ہوتا ہے- ہمارے آبائو اجداد نے دُنیاوی زندگی پر شہادت کو ترجیح دی کیونکہ شہید کی موت قوم کی حیات ہے - کسی جنگ کی ہار قوم کی ہار نہیں ہوتی اور اسی چیز کا مظاہرہ ٹیپو سلطان نے کیا- جنگ میں ہار جیت سے زیادہ اہمیت جذبے کی ہوتی ہے جس کے ساتھ ایک سپاہی میدان میں لڑتا ہے- ٹیپو سلطان نے دشمن کی ذلت آمیز شرائط اور غلامی کی زندگی گزارنے کی بجائے آزادی کے ساتھ لڑتے ہوئے جان قربان کرنے کو ترجیح دی کیونکہ اس کا کہنا تھا {یک دمِ شیری بہ از صد سالِ میش} ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے-‘‘ ٹیپو سلطان در حقیقت مردِ مجاہد اور مردِ حُرتھا جسے اقبال کی زبان میں فیضِ فطرت نے دیدۂ شاہیں بخشا تھا- ٹیپو سلطان خودی، ضمیر اور پختہ عقائد کا مظہر تھا اور قرآن میں غوطہ زن مردِ حق اور عاشقِ رسولﷺ تھا- یومِ شہادت اپنی آخری لڑائی میں اُترنے سے پہلے ٹیپو سلطان شہید نے وضو کیلئے پانی منگوایا اور کہا کہ میں نبی آخر الزماںﷺ کی بارگاہ میں با وضو حاضر ہونا چاہتا ہوں- اقبال نے ہمیں خبردار کیا تھا کہ ابلیس مسلمانوں کے بدن سے روح محمدﷺ نکال کر انہیں شکست دینا چاہتا ہے- آج ہمارے تعلیمی ادارے کتاب خواں تو پیدا کر رہے ہیں مگر صاحبِ کتاب پیدا نہیں کر رہے - بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں جس تہذیب کو فروغ دیا جا رہا ہے وہ ہم سے ہماری تاریخ چھین رہی ہے تاکہ ہم اپنے نظریات سے دور ہو جائیں - اقبال کے مطابق بے یقینی قوموں کیلئے تباہی ہے اور آج ہم بے یقینی کا شکار ہو رہے ہیں اور ہمارے عقائد کمزور ہو گئے ہیں- بد قسمتی سے آج ہمارے طلباء کو درست تاریخ نہیں پڑھائی جا رہی اور انہیں نو آبادیاتی نظام کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس میں ٹیپو سلطان کے کردار کو منفی طور پر دکھایا جاتا ہے - اس سے زیادہ مایوس کن یہ ہے کہ اس ساری صورتحال پر ہم لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں- ہمیں یہ خاموشی توڑ دینی چاہئے کیونکہ موجودہ دور میں کسی بھی قوم کو شکست دینے کیلئے اس پر ثقافتی جنگ مسلط کی جاتی ہے اور ہم اس جنگ کی زد میں ہیں اور یہ جنگ اصل جنگ سے کہیں زیادہ نقصان دہ اور مضر ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ نپولین کے خلاف جنگ برطانیہ نے میدان میں نہیں بلکہ عوامی سکولوں میں جیتی تھی- ہمیں اپنے قومی ورثہ کو بچانا ہے اور یہی ٹیپو سلطان کا پیغام ہے- اس ثقافتی جنگ سے جہاں قوم کا مورال گرا دیا جاتا ہے وہیں عزت نفس بھی تباہ کر دی جاتی ہے- ایسی قومیں غلامی قبول کر لیتی ہیں کیونکہ ان میں سے جرأت اور مزاحمت کی طاقت مفقود ہو جاتی ہے- آج کے دن کی مناسبت سے یہ پیغام ہر پاکستانی تک پہنچانا چاہئے کہ اگر ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اوجِ ثریا پر اپنا کھویا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ٹیپوسلطان کی طرح زندہ رہنا ہو گا- اقبال ٹیپو سلطان کی وصیت میں فرماتے ہیں:
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیٔ محفل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے
جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
خصوصی لیکچر:
سردار عتیق احمد خان
سابق وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر
پچھلی دو دہائیوں میں مغرب میں اسلام کا امیج بہت خراب کیا گیا ہے - آج کل انٹرنیٹ کے دور میں جہاں دُنیا سمٹ کر گلوبل ویلج بن گئی ہے تو وہیں نوجوان نسل کو اُلجھانے کیلئے تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنا بھی آسان ہو گیا ہے - یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو تاریخ کا اصل رخ دکھایا جائے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ انصاف، مساوات ، اخوت اور بھائی چارے سے پھیلا - برصغیر کا حکمران ٹیپو سلطان ایک دور اندیش اورعظیم لیڈر تھا لیکن افسوس کہ تاریخ کے اوراق میں گم ہو گیا ہے- وہ برصغیر میں برطانوی تسلط کے خلاف کھڑا ہوااور اپنی سرزمین کی حفاظت کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں جامِ شہادت نوش کر گیا- بطور حکمران اُس نے عوام کی فلاح و بہبود پر بہت توجہ دی اُس کی شخصیت میں برداشت اور مذہبی رواداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور رعایا میں تمام لوگوں کو یکساں حقوق میسر تھے کیونکہ رواداری اور برداشت قرآن پاک کا بنیادی سبق ہے- اسی وجہ سے اُس معاشرہ میں مختلف مکاتب فکر کے مابین تنائو کی کیفیت جنم نہیں لیتی تھی-
زرعی اصلاحات ٹیپو سلطان کے ایجنڈا میں شامل تھیں اُس نے باغبانی کو بہت فروغ دیا اور دُنیا کے مختلف علاقوں کے پھلوں، درختوںاور پھولوں کے پودے منگوا کر بنگلور کے باغ میں لگوائے - اُس نے بڑے پیمانے پر کپاس کی کاشت کو فروغ دیا اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کی-ٹیپو سلطان نے مختلف ممالک میں تجارت اور کاروبار کو فروغ دینے کیلئے وفود بھیجے- ٹیپو سلطان ہی وہ پہلی شخصیت تھی جس نے دُنیا میں راکٹ ٹیکنالوجی کی بنیادرکھی- میسوری راکٹ کئی کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جن میں تلواریں اور بلیڈ استعمال کئے جاتے تھے- ۱۷۹۹ء میں ٹیپو سُلطان کی شہادت ہوئی اور ۱۸۰۱ء میں یہ راکٹ برطانیہ کی لیبارٹری رائل آرسنل( Royal Arsenal) بھجوا دیئے گئے اور چند سال بعد وہاں نئے راکٹ تیار کئے گئے جن میں حیدر علی اور اس کے بیٹے ٹیپو سلطان کی استعمال کردہ راکٹ ٹیکنالوجی استعمال ہوئی- ٹیپو سلطان نے مضبوط بحریہ قائم کی اور ــ’’فتح المجاہدین ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں فوج کے قواعد و ضوابط تفصیل سے تحریر کئے- یہ کتاب نوابزادہ لیاقت علی خان کے عہد میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے شائع بھی کی گئی اور اس کا دیباچہ بھی خود اُس وقت کے وزیرِ اعظم شہیدِ مِلّت نوابزادہ لیاقت علی خان نے لِکھّا -
ہماری تاریخ محبت ، مذہبی رواداری،پیارسے بھر پور ہے اور اسی کی بنیاد پر برصغیر میں لوگ پر امن طریقے سے زندگی گزارتے رہے - آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نوجوان ماضی سے منسلک رہیں- ٹیپو سلطان کے افکار پر عمل کرتے ہوئے ہمیں علمی تقاضوں کو نبھانا ہو گا - قائد اعظم کا فرمان اتحاد ،ایمان، تنظیم عوام کے لئے بالعموم اور لیڈر شپ کے لیے بالخصوص ہے اتحاد اور ترقی کے لیے مضبوط نظریاتی وابستگی کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق اور مضبوط دفاع بہت ضروری ہے- قائد کی اپنی شخصیت ایمان، اتحاد اور تنظیم کا مجسمہ تھی جنہوں نے دو قوتوں کو شکست دیتے ہوئے یہ ملک حاصل کیا- میرا یقین ہے کہ اگر پاکستان بن سکتا ہے تو یہ ترقی بھی کر سکتا ہے اور مستحکم بھی ہو سکتا ہے- ٹیپو سلطان اور دیگر ایسے رہنمائوں کی تاثیر اس قوم میں باقی ہے-
وقفہ سوال و جواب:
تقریب کے اختتام پروقفہ سوال و جواب ہواجس میں شرکاء کی بڑی تعداد بالخصوص طلباء نے حصہ لیا- پینل کے شرکاء نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ
آج اگرچہ امتِ مسلمہ میں بحیثیت مجموعی لیڈر شپ کا فقدان نظر آتا ہے مگر اس امت میں بہت صلاحیتیں موجود ہیں-حکمران جب نظریاتی مضبوطی پر کاربند ہوں تو قوم بھی اسی پر چلتی ہے- نظریاتی پختگی، رُوحانی پختگی سے ہی ممکن ہے جس کیلئے صوفیائے کرام و بزرگانِ دین کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے- حضورﷺ نے جب وصال فرمایا تو آپﷺ کے حجرہ مبارک میں کفن دفن کیلئے پیسے موجود نہیں تھے مگر عین اسی وقت حجرہ مبارک کی دیواروں پر تلواریں، نیزے اور زرہ بکتر موجود تھے- ہمیں عقیدے اور نظریہ کے ساتھ ساتھ مضبوط دفاع کی ضرورت ہے- ہمیں پاکستان کی آزادی کیلئے دو سو سال طویل جدوجہد کرنی پڑی، کشمیر یوں کے اندر آزادی کا جذبہ سب سے بڑی طاقت ہے جسے دُنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی اور یہ جذبہ وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑنے کی بجائے پروان چڑھا ہے- کشمیر میں بھارتی مظالم کے باوجود لوگ پاکستان کا پرچم بلند کرتے ہیں اور چھ لاکھ سے زائد قابض فوج کے باوجود لوگوں کے عزم و استقلال میں کمی نہیں آ سکی- کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کو ہی کرنا ہے اور وہ در حقیقت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں-