سراجِ بنگال

سراجِ بنگال

مسلمانوں کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جتنا نقصان ملّتِ اِسلامیہ کو اپنوں نے پہنچایا ہے اتنا غیروں نے نہیں کیونکہ اغیار کو اس ملّت کا شیرازہ بکھیرنے کے مواقع اسی وقت ہی میسر آتے تھے جب مسلمان اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر کمزور ہوجایا کرتے تھے- ہندوستان پر انگریزی تسلط کیونکر قائم ہوا؟ اس سوال کا کارل مارکس نے نہایت ہی جامع جواب دیا ہے، لکھتے ہیں :-

’’مغلوں کے اقتدارِ اعلیٰ کو مغلوں کے صوبہ داروں نے اور صوبہ داروں کی قوت کو مرہٹوں نے ، مرہٹوں کی قوت کو افغانوں نے توڑا اور جبکہ یہ سب ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے ، انگریز کود پڑا اور سب کو مطیع بنانے کے قابل ہوگیا-‘‘ (۱)

دُنیا کی کسی بھی قوم کا افتخار اُن کی تاریخ اور اُن کے اَجداد کے تاریخی کارنامے ہوتے ہیں اِسی طرح مُسلمانانِ ہند جب اپنی تاریخ پہ نازاں ہوتے ہیں تو اُس میں وہ اُن تاریخی کرداروں کو سامنے رکھتے ہیں جن کی خِدمات ، جرأت و بہادری اور انسانیت دوستی کی داستانیں دُنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں - ایسے ہی کرداروں میں بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ ہیں کہ جب ہندو قبائل اور قیادت انگریزوں کے ساتھ فقط اِس لئے گٹھ جوڑ کر رہی تھی کہ وہ مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے مگر یہ سوچے بغیر کہ اپنی غُلامی کے عوض وہ یہ فیصلہ کر رہے ہیں - اِس موقعہ پہ نواب سراج الدولہ تھے جنہوں نے انگریزی مراعات اور آسائشوں کو ٹھکرا کر حریت ، آزادی اور شہادت کا سفر اختیار کیا -

بالکل اِسی طرح جب قوموں کے سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتے ہیں اس کے پیچھے بھی ایسے تاریخی کردار ہوتے ہیں جو اُس قوم کے دامن پہ بد نما دھبے کی مانند جڑ جاتے ہیں - ایسے لوگوں کی تاریخی غلطیاں ، ضمیر فروشی ، ہوسِ اقتدار اور انسانیت سوزی جیسے قبیح اعمال قوموں کو سر جھکانے پہ مجبور کرتے ہیں - برصغیر پاک و ہند میں انگریزی اقتدار کی باقاعدہ ابتداء بنگال سے ہوئی ہے اور اس کی بنیاد رکھنے میں میر جعفر جیسے غداروں کا بڑا اہم کردار ہے جو آج تک اسلامیانِ ہند کی تاریخ پہ ایک بد نما دھبے کی مانند موجود ہے - جہاں یہ قوم اِس بات پہ فخر کرتی ہے کہ ہمیں تھے چاہے ٹیپو چاہے سراج ، وہ ہمیں ہی تو تھے جنہوں نے مراعات اور آسائشوں کے بدلے آزادی اور شہادت یعنی ’’مرگِ باشکوہ‘‘ کو ترجیح دی - وہیں یہ قوم شرم سے سر جھکا لیتی ہے کہ ٹیپو اور سراج کے قاتلوں میں اُن کی اپنی صفوں میں چھپے ہوئے غدّاروں کے نام آتے ہیں ، میر جعفر غدّارِ بنگال اور میر صادق غدّارِ میسور -

۱۸۵۷ء کی  جنگِ آزادی سے ایک صدی قبل بنگال کے مرشد آباد میں پلاسی کے مقام پر ۲۳ جون ۱۷۵۷ء کو غداری کی ایک ایسی تاریخ رقم کی گئی جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں- یہ ایک حقیقت ہے کہ نواب آف بنگال نواب سراج الدولہ کا قتل ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلبے کا سب سے بڑا سبب بنا تھا - اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ، جسے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ (۱۵۵۸ء-۱۶۰۳ء) کی طرف سے صرف پندرہ سال کے لیے تجارت کا اجازت نامہ ملا تھا (۲) اور ہر بار وہ حکومت برطانیہ سے اپنی مدت اجارہ میں توسیع کرواتی رہی حتیٰ کہ برصغیر پر حکمرانی کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے -کمپنی کی اندرونی خباثت کا تذکرہ کارل مارکس ایک مضمون میں کچھ یوں کرتے ہیں:-

’’ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اور بینک آف انگلینڈ نے بھی جو اثر حکومت کو رشوت دے کر حاصل کیا تھا اسے برقرار رکھنے کے لئے وہ اور بینک آف انگلینڈ نئی نئی رشوتیں دینے پر مجبور ہوئے - ہر بار جب کمپنی کی اجارہ داری کی مدت ختم ہوئی تو وہ اپنے چارٹر کی تجدید صرف حکومت کو نئے قرضوں اور تحائف پیش کر کے ہی کر سکتی تھی- ‘‘(۳)

مزید لکھتے ہیں:-

’’ ایسٹ انڈیا کمپنی نے صرف اپنے ایجنٹوں کے لئے تجارتی مراکز اور اپنے سامان کے لئے گودام قائم کرنے سے ابتدا کی تھی - اپنے تجارتی مرکزوں اور گوداموں کی حفاظت کے لئے اس نے کئی قلعے تعمیر کر لئے تھے - اگرچہ ۱۶۸۹ء ہی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں علاقا ئی ملکیت کی بنیاد ڈالنے اور علاقائی آمدنی کو اپنے نفع کا ذریعہ بنانے کاخیال کیا تھا - پھر بھی ۱۷۴۴ء تک اس کی ملکیت میں بمبئی اور کلکتہ کے مضافات میں کچھ غیر اہم علاقے ہی تھے - اس کے بعد کرناٹک میں جو لڑائی ہوئی ، اس میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ چند تصادموں کے بعد کمپنی ہندوستان کے اس حصے کی مالک بن بیٹھی -بنگال کی جنگ اور کلائیو کی فتوحات نے اور کہیں زیادہ اہم پھل دئیے - ان کا نتیجہ بنگال ، بہار اور اڑیسہ پر حقیقی قبضہ تھا -‘‘(۴)

لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ جن کے ہاتھ میں اقتدار تھا انہی کے ہاتھ میں قلم بھی تھی- اِس سے پہلے کہ بنگال پر برطانیہ اور اُس کے ٹٹو ، پٹھو اور پٹھے مؤرخوں کی تاریخی ستم ظریفی کا تذکرہ ہو ، مؤرخین کا ایک سانحہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ تاریخ لکھنے والا بڑی مشکل ہے کہ غیر جانب دار ہو - مثلاً دو ظالم حکمران گزرے ایک سکندر اور دوسرا چنگیز خان - تاریخ سکندر کو ’’اعظم‘‘ کے لقب کا اعزاز دیتی ہے جبکہ چنگیز خان کو اس کا مطلوبہ حق نہیں ملتا تو فرق صرف اتنا ہے کہ سکندر کو اعظم انہوں نے لکھا جن کو اُس نے نوازا تھا اور چنگیز کو غاصب کہہ کے پکارنے کی تاریخ انہوں نے لکھی جن کو اس نے مارا تھا - وگرنہ پیشہ تو دونوں کا ستمگری ہی تھا اور دونوں ہی عظیم فاتح تھے - چنگیز خان کی مہمّات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کئی ایک ایسے مشکل معرکے اُس نے لڑے جن کا سکندر سوچ بھی نہ سکتا تھا خاص کر موسمی شدّت کے دوران - اِسی طرح کا سانحہ برطانیہ نے بپا کیا جسے بجا طور پہ ’’علمی و تاریخی بد دیانتی‘‘ کہا جانا چاہئے کہ اُنہوں نے اپنی حکومت کا جواز پیدا کرنے کیلئے اور اپنے ناجائز قبضہ کو درست ثابت کرنے کیلئے مقبوضہ علاقوں کے حکمرانوں کی شدید طرح سے کردار کُشی کی اور اُن کے متعلق ایسی افواہیں مشہور کیں کہ لوگ از خود ہی اُن سے اِجتناب کرنے لگیں - اس دور کی قلمی خیانت کا تذکرہ فلسطینی نژاد امریکی محقق ایڈوارڈ سعید (Edward Saeed) اپنے ایک لیکچر میں یوں کرتا ہے:

"If you look at some of the writings about India in England from the middle to the end of the ninteennth century, you realize that India existed in order to be ruled by England."(5)

یعنی انیسویں صدی کے درمیان سے لے کر اختتام تک کی تمام تصانیف انڈیا پر برطانیہ کے حقِ حکمرانی کے گرد ہی گھومتی ہیں-وطن پرستی میں مبتلا ایسی قوم جس کی تاریخ اور سیاست کا محور فقط وطن ہی ہو ان سے اپنے وطن کے برعکس حقائق کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے- ان کے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کے لیے کم ظرف اور تنگ نظر مورخوں نے مُجاہدِ آزادی ، فخرِ بنگال نواب سراج الدولہ کی سیرت کو اِس طرح پیش کیا ہے کہ پڑھنے والے کے دل ود ماغ میں سراج الدولہ کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں- ایک ایسی قوم جس نے جھوٹ ، مکر و فریب ، دھوکہ دہی اور فراڈ کے نتیجے میں بنگال میں حکمرانی کا راستہ ڈھونڈنے والے لارڈ کلائیو ایسے شخص کے دیو قامت مجسمے کو بطور ایک ہیرو کے لندن کے وائٹ ہال کے سامنے نصب کر رکھا ہو وہ حقائق سے کیسے پردہ اٹھا سکتی ہے؟ وہ سچ کیسے بول سکتی ہے ؟

عسکری یلغار کے ساتھ ساتھ تاریخی بگاڑ کے اس دور میں ایک نوجوان ڈرامہ نگار جو علامہ اقبال کے عہد میں حادثاتی طور پر سراج الدولہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو انہیں نواب سراج الدولہ کا وہ قصر جسے سیاہ خانہ بنانے میں انگریز کمپنی نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، نور سے معمور پاتے ہیں- اس حادثے کا تذکرہ وہ یوں کرتے ہیں:-

’’ستمبر ۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے کہ بھگت سنگھ اور اس کے چند رفقا کسی قتل کے سلسلے میں پنجاب میں گرفتار ہو کر لاہور حوالات میں داخل ہوئے- ان میں جتندر ناتھ داس ایک بنگالی نوجوان بھی تھا- اس کا حوالات کے اہل کاروں سے کچھ بگاڑ ہوگیا اور اس نے قبل از سماعتِ مقدمہ بطورِ احتجاج بھوک ہڑتال کردی اور بھوک سے مرگیا- اس کی لاش اس کے رشتے داروں کے حوالے کردی گئی- وہ اسے کلکتے لے گئے- جہاں اسے سپردِ آتش کیا گیا- انہیں دنوں میں مجھے دفتر اخبار ’رنبیر ‘جموں میں جانے کا اتفاق ہوا- وہاں ’ٹریبیون‘کا ایک پرچہ نظر سے گزرا، اس میں مندرجہ ذیل تار شائع ہوا تھا (۶)

جو انگریزی میں سرورق کے قریب درج ہے- جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’اپنے بزرگوں کی غداری کا کفارہ‘‘

۱۹-کلکتہ- جب جتندر ناتھ داس کی لاش چتا پر رکھی گئی تو اس کے والد بینکم بہاری کی طرف سے مندرجہ ذیل پیغام پڑھا گیا:-

’’اس غداری کے کفارے کے طور پر جس کا ہمارے ہندو، مسلمان بزرگوں نے اس وقت ارتکاب کیا جب انہوں نے سراج الدولہ کو دھوکہ دیا، جس کے وہ نمک خوار تھے اور نہ صرف بنگال بلکہ سارا ہندوستان غیروں کے حوالے کردیا- اپنا عزیز ترین فرزند حضور کے قدموں میں ڈالتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اس مقدس خودکشی کے طفیل ہندوستان بیدار ہوجائے-‘‘ فری پریس‘‘

 اس تار کو پڑھ کر مصنف اپنا ما فی الضمیر بیان کرتا ہے :-

’’ اس تار کو پڑھ کر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی- میری معلومات کے مطابق سراج الدولہ (خاکم بدہن) ایک قابلِ نفرت بدمعاش تھا- مگر اس کے برعکس یہ تارظاہر کرتا تھا کہ وہ قابلِ احترام شخصیت کا مالک ہے-‘‘ (۷)

اس ایک پسِ منظر سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ سراج الدولہ کے متعلق برطانوی دورِ حکومت میں جو معلومات پہنچائیں گئیں ان سے نواب سراج الدولہ کی شخصیت کا کونسا رُخ متعارف کروایا گیا- برطانوی سامراج کی زیرِ نگرانی لکھی گئی تاریخ کی کتب مثلاً غلام حسین طباطبائی کی ’’سیر المتاخرین‘‘ جو سراج الدولہ کی شہادت کے ۲۳ سال بعد مکمل ہوئی اس وقت سرکار ی کمپنی کا عروج تھا، اس کے علاوہ سر اورمی (Ormy) کی تاریخ ہند جو طباطبائی کا ہی ہم عصر تھا، اس کے ساتھ اسی زمانے کا ایک اور شاہدِ حال ڈاکٹر ہال ویل (Hal Well) کی کہانی بھی ہے - بنگالی محقق باسو کے مطابق خود اس کے (ہال ویل کے برطانوی ) ہم وطن اسے دروغ گو تسلیم کرتے ہیں- اس کے علاوہ ایک اور ذریعہ معلومات تھا ، یہ کمپنی کے سرکاری کاغذات کا مجموعہ ہے جسے ٹالی ویلر (Talloy Wheler)  نے مرتب کیا تھا اس میں بھی کمپنی کی حمایت ہی درج ہے- ڈاکٹر باسو اُسے بھی ناقابل اعتبار شمار کرتے ہیں -ان تمام ذرائع معلومات کو کھنگال کر سراج الدولہ کی شخصیت کے حقیقی رُخ کو اُجاگر کرنے کے لیے مصنف ’’سراج الدولہ‘‘ کو تیرہ چودہ سال لگے- (۸)

سوائے انگریزی آقاؤں کی رضا مندی ، خوشنودی اور خوشامد کے سراج دُشمنی کا کوئی جواز تاریخ میں نظر نہیں آتا بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ مغرب زدہ مؤرخین کا خُبثِ باطن ’’سراج دُشمنی‘‘ نہیں دراصل ’’سماج دُشمنی‘‘ ہے کیونکہ سراج ہی سے تو اچھا سماج تشکیل پا سکتا ہے اگر سراج نہ رہے یعنی حریت و آزادی کا جذبہ اور شوقِ شہادت نکل جائے تو کیا سماج رہے گا - انگریز مؤرخین اور کمپنی کی خوشنودی اور مراعات کے خواہشمند ہندوستانی مؤرخوں نے مُجاہدِ آزادی نواب سراج الدولہ کو ظالم انسان ثابت کرنے میں نہ صرف زورِ قلم صرف کیا تھا بلکہ اسے اردو زبان میں ترجمہ کروا کر ہندوستان میں تقسیم بھی کرایا گیا - بطور نمونہ ایک کتابچہ جو انگریزی زبان میں لکھا گیا اور ۱۸۴۴ء میں اسے دہلی کالج کے اردو ٹیچر منشی نور محمد نے اردو زبان میں منتقل کیا- اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہوجس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نواب سراج الدولہ کے بارے انگریزی سامراج کی چاپلوسی اور خوشامد میں کیسی زبان استعمال کی جاتی تھی:-

’’علی وردی خان جو شجاعت اور امورِ ریاست میں شہرت رکھتا تھا دس برس تک مرہٹوں سے لڑا اور صوبہ بنگال کو ان کے دستِ تصرف سے باز رکھا، اگرچہ اس عرصہ میں خان مذکور نے بارہا انہیں شکست دی لیکن انجام کار تنگ ہو کر (وہ) شرائط جو مرہٹوں نے پیش کیں تھیں منظور کر لیں اور بارہ لاکھ روپیہ سالانہ خراج دینا انہیں مقرر کیا- ایک سال قبل از وفات اپنی سے ، خان موصوف نے مجبور ہو کر صوبہ اڑیسہ کو حوالہ مرہٹوں کے کیا- ایک مرد ،نوجوان (سراج الدولہ)، چوبیس برس کی عمر کا جو متکبر اور ظالم و نامرد و عیاش اور طریقہ لہو و لعب کو بڑا مطلب زندگی سمجھتا تھا اس کے قائم مقام ہوا اور ممکن نہ تھا کہ صوبہ بنگال اور بہار اس کے قبضۂ تصرف میں رہے- ‘‘ (۹)

اس عبارت سے صاف عیاں ہے کہ کمپنی کی طرف سے دیئے جانے والے کمیشن پر پلنے والے مؤرخین کے نزدیک سراج الدولہ کی زندگی اخلاقی طورپر قابل اعتراض تھی - انگریز نواز مؤرخوں کے نزدیک ریاست سے غداری کرنے والوں کو کڑی سزائیں دینا سراج الدّولہ کے ظالم ہونے کی دلیل ہے - اور انگریزوں کی شرائط پہ اُن کے سامنے سرنڈر نہ کرنا اور ان سے صلح نہ کرنا اس کے متکبر ہونے کی دلیل ہے - اور انگریزوں کی حکومت کو برسرِ عام ناجائز اور ان کی پالیسیوں کو مکارانہ و عیارانہ و مبنی بر جھوٹ اور فتنہ و فسادات کا موجب کہنا سراج الدولہ کے بد زبان ہونے اور لہو و لعب کا رَسیا ہونے کی دلیل ہے - اگر سراج شہید حقیقی معنوں میں عیش وعشرت کا متوالا ہوتا تو اس سے زیادہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی خوش بختی بھلا اور کیا ہوسکتی تھی؟ ہوشیار لوگوں کا عیاش تاجداروں سے ہر قسم کی مراعات حاصل کر لینا بہت آسان ہوتا ہے- اگر کمپنی کے پیش نظر محض تاجرانہ مراعات کا حصول تھا تو اس مقصد کے لئے ایک بدکردار سراج ، ذی ہوش اور غیرت مند سراج سے کہیں زیادہ مفید تھا - ہندوستان کی انگریزی عہد کی تاریخ گواہ ہے کہ شراب و شباب کے دلدادہ ، حریت و آزادی سے عاری فقط و فقط سرداری ، نوابی یا حکمرانی کے خواہشمند حضرات نے کسی بھی مقام پہ انگریز سے جنگ نہیں لڑی کیونکہ جو کچھ وہ چاہتے تھے انگریز اُنہیں مُہیّا کرتے تھے - لہٰذا انگریز کے خلاف تو وہی لڑے جن کے نزدیک مراعات و تعیّش کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے بلکہ اصل حیثیت آزادی ، خودداری اور آبرومندانہ زندگی کی تھی نہ کہ غُلامی اور انگریز کی چاپلوسی کی - مُجاہدینِ آزادی کی کردار کُشی کرنے والے مؤرخین اور اُن کی اندھی تقلید کرنے والے قارئین نے کیا کبھی کلائیو کی خانگی زندگی پر بھی غور کیا ؟ کیا کبھی سراجِ بنگال کے دُشمنوں کے معاملاتِ زندگی کا بھی جائزہ لیا ؟ نہیں ! ہمیں یقین ہے اُنہوں نے کبھی نہیں لیا ہوگا - کیونکہ وہ سچ جاننے کے باوجود اُسے سچ ماننا نہیں چاہتے اُن کا مقصد سچ جاننا یا سچ بیان کرنا نہیں بلکہ بلکہ چند کوڑوں ٹکوں کی خاطر سچ چھپا کر انگریز کے ناجائز تسلُّط کا جواز تلاش کرنا ہے چاہے اپنے ہیرو زیرو کرنے پڑیں ، چاہے اُن کے خُون سے بے وفائی کرنی پڑے ، چاہے اُن کے آفتابِ نیم روز کی مانند روشن اور اُجلے کردار پر حرف اُٹھانے پڑیں -

مسئلہ صرف سراج الدولہ کا نہیںدیکھیں ذرا ، یہاں محمد بن قاسم اور سُلطان محمود غزنوی جیسے لوگ جنہوں نے صُوفیا کو ہندوستان لانے میں کردار ادا کیا اُن کے متعلق کیا کیا باتیں نہیں ہوتی ہیں - جب ہم صوفیا کو ہندوستان میں تبلیغِ اسلام کا ہیرو مانتے ہیں تو ہمیں ساتھ ہی غزنوی کی روح کو بھی دُعا دینی چاہئے جو حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیّات کو ساتھ لیکر آیا کیا اِسے غزنوی کی خِدماتِ اسلام کے باب میں شامل نہ کیا جائے گا؟ محمد بن قاسم جس نے پہلے پہل شودروں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور بتایا کہ بطورِ انسان ہم ایک ہی باپ کی جد میں سے ہیں اور برابر کے انسان ہیں انہیں زبان دی بالا دست طبقے کے خلاف جد و جہد کا ہنر و حوصلہ دیا اخلاق سے متاثر کر کے مسلمان کیا ، کیا محمد بن قاسم کی خِدماتِ اسلام کے اعتراف میں لکھا نہ جانے چاہئے ؟ یہاں اورنگزیب کے متعلق کیا کچھ نہیں کہا جاتا جس نے دار الشکوہ کی صورت میں دینِ اکبری کے بارِ دِگر پھوٹتے پودے کی جڑ کاٹی اور اِسلام کی ، نظریۂ توحید کی حفاظت کی اور جسے حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم بزرگوں اور ہر دلعزیز اولیا اللہ نے ’’ہند میں دین کا احیا کرنے والا‘‘ کا لقب عطا کیا ، وہ بھی ایسے لوگوں کی مشقِ طعنہ سے محفوظ نہیں - خود پاکستان کے بانیان علامہ محمد اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح ایسے لوگوں کے دِل کی کجی ، زبان کی سختی اور لہجے کی درشتگی سے محفوظ نہیں - تو بھلا نواب سراج الدّولہ اِس باب میں اکیلے کیسے رِہ جاتے کہ اُن کی کردار کُشی نہ کی جاتی اور اُنہیں تختۂ مشق نہ بنایا جاتا - ہمیں اپنوں کے عظیم کارنامے بالفاظِ بد بیان نہیں کرنے چاہئیں اور نہ ہی اپنی آزادی کے دشمنوں کے عیب چھپانے چاہئیں - سوال یہ ہے کہ کیا لارڈ کلائیو ایک اعلیٰ کردار کا انسان تھا ؟ اِس کا جواب اگر سراج الدّولہ کے حمایتیوں کی زُبان سے دوں تو کہیں گے کہ تھے جو حمایتی انہوں نے تو یہی کہنا تھا - آئیں دُشمنِ سراج کے متعلق سرخ انقلاب کے اصل بانی (جو کہ ہر مذہب کی مخالفت میں انقلاب تھا) کیسے غیر جانبدارانہ طور پہ بنگال میں برطانوی لٹیروں کے جبر و استحصال اور منافقت کا تجزیہ کرتے ہیں اور لارڈ کلائیو کو ’’مہا ڈاکو‘‘ کے لقب سے مُلقّب کرتے ہیں - برطانوی سامراج اور لارڈ کلائیو کی اخلاقی نوعیت کس قسم کی تھی اس کی ایک جھلک کارل مارکس کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:-

’’جب بورژوا تہذیب اپنے وطن سے، جہا ں وہ معزز شکلیں اختیا ر کرتی ہے ، نو آبادیات کی طرف بڑھتی ہے ، جہاں وہ بالکل عُریاں ہو جا تی ہے ، تو اس کی گہری ریا کاری اور بربریت جو اس کی فطرت کا خاصہ ہے ، ہماری آنکھوں کے سامنے بے نقاب ہو جاتی ہے- یہ لوگ ملکیت کے حامی ہیں لیکن کیا کوئی انقلابی جماعت کبھی اس قسم کے زرعی انقلابات عمل میں لائی ہے جیسے بنگال ، مدراس اوربمبئی میں ہوئے ہیں ؟ میں خوداس مہا ڈاکو لارڈ کلائیو کا ایک فقرہ استعمال کر کے کہتا ہوں کہ جب معمولی رشوت ستانی ان کی حرص و ہوس کو آسودہ نہیں کر سکی تو کیا انہوں نے ہندوستان میں ظالمانہ استحصال بالجبر اختیار نہیں کیا ؟ یورپ میں تو وہ قومی قرضوں کی اہمیت اور تقدس کے متعلق بکواس کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ کیا انہوں نے ہندوستان میں ان راجوں کے منافع ضبط نہیں کیے جنہوں نے اپنی نجی بچت کو خود کمپنی کے سرمائے میں لگایا تھا ؟ وہ ’’ ہمارے مقدس مذہب ‘‘ کی حمایت کا نام لے کر ادھر تو فرانسیسی انقلاب سے جنگ آزما رہے اور ادھر ہندوستان میں کیا انہوں نے عیسائیت کے پرچار کی قطعی مخالفت نہیں کی ؟ اور کیا انہوں نے اڑیسہ اور بنگال کے مندروں میں جوق در جوق آنے والے یاتریوں سے روپیہ اینٹھنے کے لئے جگن ناتھ کے مندر میں ہونے والی عصمت فروشی اور قتل کی گرم بازاری کو اپنا شیوہ نہیں بنایا ؟ یہ ہیں ’ملکیت ،قاعدہ قانون ، خاندان اور مذہب‘کے نام لیوا لوگ ـ-‘‘ (۱۰)

یہ کسی مسلمان یا مذہب پسند یا ہندی نیشنلسٹ مؤرخ کے جملے نہیں بلکہ اس شخص کے ہیں جو سوویت یونین کے زمانے میں سراج مخالف انہی تجزیّہ نگاروں کی آنکھ کا تارا ، دِل کا چین اور سماعتوں کی چاشنی ہوا کرتا تھا وہ جس طرح سراج کے دشمنوں پہ کڑکا ، گرجا اور برسا ہے سراج کے سچا اور با کردار ہونے کی دلیل پہ یہی کافی ہے - چونکہ نواب آف بنگال نواب علی وردی خان کا نواسہ نواب سراج الدولہ ایک نہایت ہی قابل ، عادل اور مدبر حکمران تھا جسے ہندوئوں کا پیسہ اور انگریز کی چالیں اور شراب و شباب کے لالچ ورغلانے میں ناکام ہو گئے تو وہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے- اس بات کی تصدیق ایک انگریز مؤرخ کے ذریعے ہو جاتی ہے جو ڈوپلے اور کلائیو کا موازنہ کرتے ہوئے لارڈ کلایئو کے بارے کہتا ہے :-

’’مورخوں میں یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ ہندوستان کی فتح میں انگریزوں نے وہی طریقے اختیار کئے جو فرانسیسیوں نے اختیار کئے تھے - البتہ خوش قسمتی سے ان کے استعمال کے لیے انگریزوں کو بہتر مواقع مل گئے- یہ بہت کچھ صحیح ہے کہ بسی نے جو طرزِ عمل دکن میں اختیار کیا تھا تقریبا وہی طرزِ عمل کلائیو کا بنگال میں رہا- جو فوائد ان دونوں اشخاص نے حاصل کئے اور جو مشکلیں انہیں پیش آئیں اور جو طرزِ عمل انہوں نے اختیار کیاان میں بہت زیادہ تشابہ پایا جاتا ہے- وجہ یہ ہے کہ ایسے واقعات پیش آئے جو فطری طور سے یکساں تھے اور دونوں اشخاص کا مزاج باوجود سطحی اختلاف کے ایک دوسرے سے مشابہ تھا-‘‘ (۱۱)

پھر دکن میں بسی کے حالات کو اجمالاً بیان کرتے ہوئے یہی انگریز مصنف لکھتے ہیں:-

’’۱۷۵۰ء میں ناصر جنگ کی شہادت کے بعد ان کا خزانہ لوٹ لیا گیا- ان کے بھائی گرفتار ہوگئے اور ان کی فوج برخواست کر دی گئی - ان کے رقیب اور بھانجے مظفر جنگ کو قید خانے سے نکال کر فتح مند فرانسیسیوں نے دکن کا صوبہ دار بنا دیا- اب نواب نظام الملک کے بڑے فرزند غازی الدین کے سوا خان کے سوا ئے کوئی اور خوفناک دعویدار باقی نہ رہا لیکن وہ اس وقت دور دراز مقام یعنی دہلی میں تھے-‘‘ (۱۲)

چونکہ نواب آف بنگال نواب علی وروی خاں کے زمانہ میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کی لڑائیاں صرف دکن تک محدود تھیں- کلکتہ اور چندر نگر ان جنگوں سے بے خبر رہے- دوسری وجہ یہ کہ نواب علی وروی خان کی موجودگی میں یورپی قومیں بنگال کو اپنی حکمت عملی کا شکار نہ بنا سکتی تھیں- انہیں نئے دعویدارانِ تخت کی تلاش تھی- لیکن بنگال میں صرف ایک تاجپوش تھا، انگریزوں اور فرانسیسیوں کو علی وروی خان کی موجودگی میں تاج و تخت کے اُمیدوار میسر آنے ناممکن تھے- اپنے مضبوط جاسوسی نظام کی بدولت نواب علی وروی خان یورپی اقوام کے عزائم سے بخوبی آگاہ تھے- مرنے سے پیشتر اس نے اپنے نواسے سراج الدولہ کوان الفاظ میں وصیت کی:-

’’مغربی قوموں کی اس قوت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا جو انہیں ہندوستان میں حاصل ہے -اگر میری عمر کا پیمانہ لبریز نہ ہو چکا ہوتا تو تمہارے اس اندیشہ کو بھی ہمیشہ کے لئے ختم کر دیتا- اس کام کی تکمیل تیرے ذمہ ہے، میرے چراغ! دکن میں اُن کی سیاسی سرگرمیوں سے سبق حاصل کرو- ذاتی جنگوں میں اُلجھ کر انہوں نے مغل اعظم کی رعایا کے اموال و املاک پر قبضہ جمالیا ہے- ایک ہی وقت میں تینوں قوتوں کو تباہ کرنے کی کوشش نہ کرنا- سب سے پہلے انگریزوں کی قوت کو توڑنا ----سنو بیٹا! ا نہیں سپاہی رکھنے اور قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہ دینا- اگر ایسا ہوا تو بنگال تمہارا نہیں‘‘- (۱۳)

نواب علی وردی خان کی اس وصیت سے نواب سراج الدولہ کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے- حقیت تو یہ ہے کہ نواب علی وردی خان کے دورِ حکومت کے آخری چار سال اصل میں نواب سراج الدولہ ہی کی حکمرانی تھی اور وہ انگریز کی تمام رہ و رسمِ وفاداری سے واقفیت رکھتے تھے- سراج الدولہ سے کیا خار تھی کہ جب نواب سراج الدولہ باقاعدہ تخت نشین ہوا تو انگریزوں نے تخت نشینی کے موقع پررسمی تحائف بھی نہیں بھیجے تھے- انگریز سراج الدولہ کے خلاف سازش میں شریک ہوئے- کمپنی کے ملازم تاجرانہ مر اعات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے- سراج الدولہ کے خزانہ پر کمپنی کی ان بداعمالیوں کا بہت بڑا اثر پڑا- انگریزوں نے کلکتہ کے قلعہ کو نواب کی اجازت کے بغیر مستحکم کرنا شروع کردیا- انگریزوں نے ڈھاکہ کے دیوان راج بلب کے بیٹے کرشن داس کو اپنے ہاں پناہ دی- سراج الدولہ کے پیہم اصرار پر بھی انگریزوں نے اسے نواب کے حوالہ کرنے سے انکار کر دیا- مجرم یا ملزم کو اپنے ہاں پناہ دینا اور پھر اس بے یار و مدد گار کی حفاظت کے لئے اپنوںاور بیگانوں سے لڑنا شریفا نہ جرأت کا بلند ترین معیار ہے- لیکن کمپنی اورکرشن داس کے معاملہ میں حرص و آز کار فرما تھی - کرشن داس کو صرف اس لئے اپنے ہاں پناہ دی گئی تھی کہ اس کا باپ ڈھاکہ کا دیوان ہونے کی صورت میں انگریزوں کے مالی مفاد کیلئے بے حد مفید تھا-

ان اسباب نے سراج الدولہ کو مجبور کر دیا کہ وہ تاجروں کی بدعہد جماعت کو اپنی مملکت سے باہر نکال دے- ’’سراج الدولہ انگریزوں پر حملہ کرے-‘‘ تاریخ کا یہ فتویٰ تھا- ایک انگریز مصنف ہل ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’سراج الدّولہ کا انگریزوں پر حملہ حق بجانب تھا‘‘ - (۱۴)

انگریزوں کو اپنی مملکت سے باہر نکالنے کے بعدنواب سراج الدّولہ نے انگریزوں کی قائم کردہ قاسم بازار کی فیکٹری پر حملہ آور ہوا- فیکٹری زیادہ مستحکم اور مضبوط نہ تھی - نواب کی فوجوں کا مقابلہ ناممکن تھا- انگریز سپاہی تعداد میں بہت کم تھے- فیکٹری کی تسخیر پر نواب کے سپاہیوں کا ایک کارتوس بھی ضائع نہ ہو- سراج الدولہ اگر چاہتا تو اس وقت ہر انگریزی بولنے والی زبان کٹوا دیتا- لیکن شریف اور برد بار نواب نے برطانی چراغِ حیات بجھانے کی کوشش نہ کی- اب سراج نے کلکتہ کا رُخ کیا- بنگال کے بدترین موسم میں قاسم بازار سے کلکتہ تک کا عسکری کوچ سراج الدولہ کی قابلیت کا بہترین ثبوت ہے- اگر سراج کے فوجی افسر غدار نہ ہوتے تو اُس کا شمار ہندوستان کے بہترین جرنیلوں میں تھا (راقم الحروف تو یہ بھی کہنا چاہے گا کہ اگر مؤرّخ غدّار نہ ہوتے تو بھی سراج الدّولہ شہید کا شمار ہندوستان کے عظیم جرنیلوں میں تھا ) - سراج کی فوجوں کوآتے دیکھ کر کلکتہ کے انگریز تاجروں نے وہاں کی دیسی آبادی کا ذرہ بھر خیال نہ کیا- تحفظِ رعایا کے فرائض کو آگ کے شعلوں سے پورا کیا گیا- دیسی آبادی کے مکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا- کلکتہ کے دیسی باشندوں سے ا س قسم کا سلوک کیا جا رہا تھا- لیکن ہم مذہب آرمینیوں اور پرتگیزوں (پرتگالیوں) کے بیوی بچوں کواپنے ہاں پناہ دی گئی- (۱۵)

نواب ۱۶جون ۱۷۵۶ء کو کلکتہ پہنچا- تین دن بعد نواب کی فوجوں نے فورٹ ولیم پر حملہ کیا- نواب کے فرانسیسی اور پرتگیزی توپچیوں نے انگریزی قلعہ پر گولے برساتے وقت نمک حرامی کا بدترین ثبوت دیا- اس امر کے باوجود انگریز، نواب کی فوجوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے- قاسم بازار کی فتح پر نواب نے انگریزوں پر صلح کا دروازہ بند نہیں کیا تھا- لیکن فورٹ ولیم کے مفرور اور سرکش افسروں نے نواب سے صلح کی گفتگو کرنے سے انکار کر دیا- اب سرکشی صلح پر آمادہ تھی- انگریز خجالت کے سبب نواب کے سامنے نہیں جاتے تھے - ناچارا انگریزوں نے ایک ہندو تاجر امی چند کو ثالثی کے فرائض سرا نجام دینے پر مقرر کیا- امی چند نے اپنی گذشتہ تحقیر و تذلیل کے پیش نظر انگریزوں کی اس خواہش کو پورا کرنے سے انکار کر دیا- راہِ فرار اختیار کرنے کے علاوہ انگریزوں کے پاس اور کوئی ذریعہ نجات نہ تھا - (۱۶)

فورٹ ولیم سراج کے قدموں پر تھا- نواب سراج الدولہ برطانوی خطرہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتا تھا- لیکن اس موقع پر بھی نواب کی فطری رحم دلی جذباتِ انتقام پر غالب آئی- برطانی مؤرخوں نے نواب کی اس کا میابی کے ساتھ ایک حکایت کو اس طرح وابستہ کر رکھا ہے کہ محققین کجا تاریخ کے طلباء بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں- اس حکایت کا عنوان ’’بلیک ہول‘‘ ہے- یعنی کہانی یہ ہے کہ سراج الدولہ نے کلکتہ کی فتح کے وقت ۱۴۶ انگریزوں کو جن مرد وں کے ساتھ خواتین بھی شامل تھیں ایک بیس فٹ کی کال کوٹھری میں قید کردیا - ان میں سے صرف ۲۳ افراد زندہ بچ سکے باقی سب حبسِ دم کی وجہ سے مر گئے- اس پر بڑے بڑے مؤرخوں اور ادیبوں نے اپنی قلموں کے تازیانے نواب سراج الدولہ کی پاکیزہ شخصیت پر برسائے -مگر جب بنگالی محققین نے اس طرف توجہ کی تو ثابت ہوا کہ کال کوٹھری کا یہ واقعہ محض طبع زاد کہانی ہے جس کا عالمِ حقیقت میں کوئی وجود نہیں -

جب اہل بنگال کو سراج الدولہ کی عظمت اور شان کا احساس ہوا تو انہوں نے نہ صرف ان کی برسی منانی شروع کی بلکہ حکومت کو مجبور کیا کہ وہ بلیک ہول کی یادگار کو مٹا دے- (۱۷) - سراج الدّولہ کو بدنام کرنے کے لئے انگریزوں نے بلیک ہول کے حادثہ کوا س انداز میں پیش کیا کہ پونے دو سو سال سراج الدولہ ہندی اور غیر ہندی مؤرخوں کے تیروں کا نشانہ بنا رہا- اس واقعہ کی تغلیط کے لئے اکاثی کمار مترانے بنگالی زبان میں ’’سراج الدّولہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی- ڈاکٹر بھولاناتھ چندر ۱۸۹۵ء میں کلکتہ یونیورسٹی میگزین میں لکھتے ہیں:-

’’مجھے بلیک ہول کے واقعہ کی صحت سے انکا رہے- اس واقعہ کی سب سے پہلے نشرواشاعت کرنے والا ہال ویل ہے- مجھے ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ 146انسان 18مربع فیٹ کمرہ میں ہر گز نہیں سما سکتے- خواہ انہیں انار کے دانوں کی طرح کیوں نہ بند کیا جائے- چونکہ اس حادثہ میں اقلیدس اور ریاضی ایک دوسرے سے متضاد ہیں اس لئے اس واقعہ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں-‘‘ (۱۸)

بنگالی مؤرخ باسو اِسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے ’’ہندوستان میں نصرانی حکومت کا اقتدار‘‘ میں لکھتا ہے:-

’’ہم عصر مؤرخین اس واقعہ کا ذکر تک نہیںکرتے- ’’سیر المتاخرین‘‘ کا مصنف خاموش ہے- مدراس کونسل کے مباحث میں اس کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا کلائیو اور واٹسن کے اُن خطوط میںجو انہوں نے نواب کو لکھے، اس واقعہ کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا- علی نگر کے عہد نامہ میں اس واقعہ کا کوئی تذکرہ نہیں- سراج الدّولہ کی تخت سے علیحدگی کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے جوخطوط کلائیو نے کورٹ آف ڈائر یکٹرز کو لکھے، اُن میں اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں - انگریزوں نے میر جعفر سے جو معاہدہ کیا اس میں بلیک ہول کے حادثہ میں مرنے والوں کے پسماند گان کی اعانت کاکوئی تذکرہ نہیں ملتا--- ہال ویل نے سیا لکوٹ کمپنی کے سامنے جو یادداشت پڑھی اس میں بھی اس واقعہ کا ذکر نہیں ملتا-‘‘ (۱۹)

اب اَندازہ لگانا مُشکل نہیں کہ سوائے کردار کُشی کے ایسے جھوٹے واقعات بھلا کیونکر مانے جا سکتے ہیں جب حیاتِ سراج کے کسی گوشے سے بردباری و صِلہ رحمی کے علاوہ کچھ نہ نکلا تو اُسے ظالم ثابت کرنے کیلئے جھوٹ کے پلندوں کا سہارا لینا پڑا جن کا کوئی مستند تاریخی حوالہ موجود نہیں - ظالم سراج الدّولہ شہید نہیں تھا بلکہ ایسے جھوٹے ، زر پرست اور مفاد پرست مؤرخین ظالم ہیں جنہوں نے بلیک ہول جیسے جھوٹے واقعات تراشے اور برِّ صغیر پاک ہند پر دو صدیوں پہ مشتمل فرنگی قبضے کو جواز مہیّا کیا اور اس قوم کو غُلامی کا طوق گلے میں سجائے رکھنے پہ مجبور کیا -

سراج الدّولہ نے کلکتہ کو علی نگر میں تبدیل کرتے ہوئے راجہ مانک چند کو حاکم اعلیٰ مقرر کیا- نواب سراج الدولہ اگر چاہتا تو انگریزوں کا کام تمام کر دیتا - قلعہ میں پناہ گزین انگریزوں کی طرف توجہ کرنا سراج الدولہ نے اپنی توہین خیال کیا- ان کے خیال میںتھا کہ انگریز ہوائوں کے موافق ہوتے ہی مدراس چلے جائیں گے- سراج الدولہ ۲۴ جون ۱۷۵۶ ء کو روانہ ہو کر ۱۱جولائی ۱۷۵۶ ء کو مرشد آباد پہنچا-قاسم بازار اور کلکتہ کی شکستوں نے مدراس کونسل میں ہیجان پیدا کر دیا- ارکان کونسل نے نہ صرف بنگال میں تاجرانہ مراعات واپس لینے کی سعی کی بلکہ انہوںنے فیصلہ کرلیا کہ وہ کثیر فوج سے کلکتہ فتح کرنے کے بعد نواب کے خلاف سازش کا بازار گرم کر دیں گے- چنانچہ یکم اکتوبر ۱۷۵۶ء کو آٹھ سو یورپی اور تیرہ سو دیسی سپاہی بنگال کی طرف روانہ ہوئے- بحری اور بری فوجوں کے کمانڈر واٹسن اور کلائیو تھے- دسمبر ۱۷۵۶ ء میں انگریزی فوجیں منزل مقصود پر پہنچ گئیں-

۱۷ دسمبر ۱۷۵۶ء کو واٹسن اور کلائیو نے نواب کو نیم تحکمانہ اور نیم صلح جو یانہ خطوط لکھے - ان خطوط مین بلیک ہول کا ذکر تک نہیں کیا گیا- واٹسن اور کلائیو نے مانک چند سے سازش کی - چنانچہ ڈم ڈم کے مضبوط اور مستحکم قلعہ سے اُس کا نصف گھنٹہ لڑنے کے بعد بھاگ جانا اس امر کا بہت بڑا ثبوت ہے- ۲۹دسمبر ۱۷۵۶ ء کو انگریزوں نے ڈم ڈم کا قلعہ فتح کرلیا- اب مانک چند کی غیر حاضری میں کلکتہ کی فتح بہت آسان تھی- فاتح انگریزوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی- جب انہوںنے فورٹ ولیم میں اپنے تجارتی مال واسباب کو بالکل اسی طرح پایا جس طرح وہ چھوڑ گئے تھے- مفرور باغیوں کے املاک و اسباب کی حفاظت اُسی سراج الدولہ کے حکم سے ہو رہی تھی- کیا جنگوں کی تاریخ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش کر سکتی ہے؟ (۲۰)

ہُگلی میں نواب کی عسکری قوت کم دیکھتے ہوئے کلائیو اور اُس کے شرکائے کارنے ہُگلی پر حملہ کر کے لوگوں کے مال ومتاع پرقبضہ کر لیا- کمپنی کے سپاہی نواب کی نیکیوں کا صلہ اس کی رعایا کے خون کی صورت میں ادا کر رہے تھے - کمپنی کی ان جارحانہ حرکات سے سراج کی آنکھوں میں خون ا تر آنا یقینی تھا - وہ اگر اس موقع کو بنائے مخاصمت قرار دیتے ہوئے بنگال میںہر انگریز تاجر کی جائیداد ضبط کر لیتا تو عسکری اخلاقیات کی قطعاً خلاف ورزی نہ ہوتی لیکن نواب نے ہر بار سوداگروں کی قوم سے شریفانہ سلوک روا رکھا- اب پھر نواب سراج الدّولہ اس کوشش میں تھا کہ تمام معاملہ خوش اُسلوبی سے طے پا جائے- چنانچہ سراج نے مندرجہ ذیل سطور ایک مکتوب کی صورت میں امیر البحر واٹسن کو بھیجیں:-

’’آپ نے ہگلی پر قبضہ کرنے کے بعد میری رعایا کے مال و اسباب کو لوٹا- یہ حرکات سوداگروں کے لئے ٹھیک نہیں- میں مرشد آباد سے روانہ ہو کر ہُگلی کے قریب پہنچ چکا ہوں- میں اپنی فوجوں سمیت دریا عبور کررہا ہوں- میری فوج کا ایک مختصر حصہ آپ کے معکسر کی طرف روانہ ہو چکا ہے- ان اُمور کے باوجود اگر آپ صلح پر راضی ہیں توگفت وشنید کے لئے ابھی ایک نمائندہ میرے ہاںبھیج دیں- میں کمپنی کو سابقہ مراعات دینے کیلئے تیار ہوں- میرے مقبوضات میں بسنے والے انگریز اگر میرے احکام کی اطاعت کریں اور مجھے تنگ کرنے کی حکمت عملی چھوڑ دیں توآپ یقین جانیں کہ میں ان کے نقصان کی تلافی مد نظر رکھتے ہوئے اُن کی تسلی کر دوں گا- آپ خوب جانتے ہیں کہ سپاہیوں کو لوٹ مار سے نہیں روکا جا سکتا- تاہم آپ سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لئے میں ان نقصانات کی بھی تلافی کر دوں گا- آپ عیسائی ہوتے ہوئے خوب جانتے ہیں کہ جنگ کے شعلوں کو سرد کر دینا انہیںہوا دینے سے بہتر ہے - لیکن اگر آپ جنگ کے ذریعہ کمپنی اور اس کے افراد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں تو اس میں میری کون سی خطا ہے؟ اس قسم کی تباہ کن جنگ کو ختم کرنے کیلئے میں اپنا مکتوب بھیج رہا ہوں-‘‘ (۲۱)

گو کہ نواب سراج الدّولہ سمجھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں اور یقینی طور پہ اُن کی رعایا اور قوم اُن کے ساتھ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ نواب کو اس بات کا اندازہ بھی ہو چکا تھا کہ دربار میں غدار پیدا کئے جا چکے ہیں- ان حالات میں نواب کا انگریزوں سے عہدہ برآہونا مشکل تھا- کمپنی کا سفیر، امی چند کی مدد سے نواب کے لئے مصیبتوں کا پہاڑ تیار کر رہا تھا- چنانچہ چند دنوں میں کمپنی نے لطف خان، میر جعفر، مانک چند، راج بلب اور درلاب ایسے سازشی پیدا کر لئے ان حالات میں سراج الدولہ کا زندہ رہنا بہت مشکل تھا- اب انگریز یہ چاہتا تھا کہ ایک مسلمان نواب کی جگہ مسلمان ہی کو نواب بنائے جانے کا لالچ دیا جائے تاکہ عام مسلمان رِعایا سے متوقّع طور پہ اُٹھنے والی بغاوت ناکام نہ ہو لہٰذا اُنہیں ایسے کام کیلئے دولت ، عورت اور حکومت کا جھانسہ قبول کرنے والے غدّار مسلمان کی تلاش تھی جو اُنہیں جلد ہی میسّر آگیا - اور وہ غدّارِ مُلک و مِلّت تھا ’’میر جعفر‘‘- 

امی چند کے ذریعہ جعفر کے کانوں میں تاج وتخت کی داستان دہرائی گئی- میر جعفر سازش میں شریک ہو گیا- میر جعفر نے وعدہ کیا کہ اگر اُسے نواب بنایا گیا تو وہ انگریزوں کو جنگی اخراجات کے علاوہ ایک کروڑ پچھتر لاکھ روپیہ دے گا- سازش کو کامیاب بنانے کے صلہ میں امی چند نے بھی تیس لاکھ روپیہ کا مطالبہ کیا- کلائیو کا پُرفریبی ذہن پھر کام آیا- اس نے دو اقرار نامے تیار کئے- جعلی اقرار نامہ میں امی چند کے مطالبات کا ذکر کیا گیا- کلائیونے چاہا کہ واٹسن بھی اس جعل سازی میں شریک ہو، لیکن بیسود- کلائیو نے واٹسن کے جعلی دستخط کرنے کے بعد امی چند کو مطمئن کر دیا- (۲۲)

یہ ہے کلائیو کی سیرت کا ایک پہلو جسے اُس کے ہم وطنوں نے ’’بہت بڑا جرنیل‘‘ بنا رکھا ہے او ر جس کا مجسمہ لندن کے پر شکوہ حصہ میں اس لئے نصب کر رکھا ہے کہ ہرراہ گیر کے دل ودماغ کو کلائیو بننے کی دعوت دی جائے- نوآبادیاتی دور کی تاریخ پڑھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے مغربیوں سے بڑا جھوٹا مکار اور تاریخ سے بد دیانتی کرنے والا اور کوئی نہیں گزرا -

نواب سراج الدولہ کے خلا ف سازش مکمل ہو چکی تھی- مرشد آباد میں مقیم انگریز شکارکے بہانہ سے شہر چھوڑ کر چلتے بنے- اگلے روز واٹسن اور امی چند بھی غائب تھے- سراج الدولہ اس سازش سے باخبر ہو چکا تھا- اس نے میر جعفر سے اس کی باز پرس بھی کی لیکن اس نے حلف اٹھا کر اپنی وفا داری کا یقین دلایا - ادھر میر جعفر نے کلائیو کو پلاسی کی طرف کوچ کرنے کے لئے کہا- نواب کی فوج میں سازش کا بیج بویا جا چکا تھا- پلاسی کے میدان میں دونوں فوجیں برسر پیکار ہوئیں- نواب سراج الدولہ کا شیر دل جرنیل ’’میر میدان‘‘ جنگ میں کام آیا لیکن میر جعفر انگریز فوج کے قریب ہونے اور بہت بڑی نفری کا کمانڈر ہونے کے باوجود بے حس و حرکت تماشہ دیکھتا رہا - پلاسی کے لوگ آج تک میر جعفر کو غدار کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں- وہ صبح کے وقت میر جعفر کا  نام لینا یا سننا پسند نہیں کرتے - لیکن اُن کے سر ’’میرمیدان‘‘ کی شجاعت اور شہادت کے تذکرہ پر جھک جاتے ہیں- میر جعفر کی غداری، جرنیلوں کی سازش ،کلائیو کی ہوشیاری اور میر میدان کی موت نے سراج کو میدان جنگ میں شکست کامنہ دکھایا-

 شکست خوردہ نواب سراج الدولہ ایک ہاتھی پر سوار ہو کر مرشد آباد کی طرف چل پڑا- اس شکست کی خبر بنگال میں آگ کی طرح پھیل گئی- نواب بے یار و مدد گار تھا- ا س کے درباریوں نے نواب سراج الدولہ کو خود کو انگریزوں کے حوالہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن سراج اس بات کو برداشت کرنے کی جگہ تاج و تخت سے علیحدہ ہونا بہتر خیال کرتا تھا- اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے جی بی میلسن (G.B. Mallesun)نے  ’’The Decisive Battles of India‘‘ میں یوں کیا ہے:-

Whatever may have been his faults, Sirajud daulah had neither betrayed his master nor sold his country. Nay more, no unbiassed Englishman, sitting in judgment on the events which passed in the interval between the 9th February and 23rd June, can deny that the name of Sirajud daulah stands higher in the scale of honour than dose the name of Clive. He was the only one of the principal actors in that tragic drama who did not attempt to deceive.(23)

’’خواہ اس میں کچھ بھی نقائص ہوں مگر سراج الدولہ نے نہ تو اپنے مالک سے نمک حرامی کی اور نہ اپنے وطن کو فروخت کیا- کوئی انصاف پسند انگریز ان واقعات کا فیصلہ کرتے وقت جو ۹ فروری سے ۲۳ جون کے درمیان ظہور پذیر ہوئے، اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ (در حقیقت) عزت کے ترازو میں کلائیو سے سراج الدولہ کا پلڑا زیادہ بھاری ہے- اس المیہ میں وہ (سراج الدولہ) واحد کردار ہے جس نے دھوکہ دینے کا اقدام نہیں کیا-‘‘

میر جعفر مرشد آباد کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سراج فقیر کے بھیس میں مرشد آباد سے رخصت ہو رہا تھا۔ غدار سوئے تخت! اور بادشاہ سوئے بیابان لیکن مقدر میں شہادت لکھی تھی سو نصیب ہوئی-

 میر جعفر کے کردار کی عکاسی کرتے ہوئے مؤرّخین لکھتے ہیں:-

’’میر جعفر جس میں جاہ وجلال نام کو نہ بلکہ اس کی حرکات سے شودھا پن ٹپکتا تھا- وہ نواب نہیں بلکہ ایک بازاری لُقّہ معلوم ہوتا تھا چنانچہ اس نے عظیم آباد کی رنڈیوں ، بھانڈوں کے ساتھ جو ہولی منائی اور ایک دوسرے پر رنگِ عبیر اور راکھ اچھالی تو لوگ اسے اس حالت میں دیکھ کر لاحول پڑھنے لگے- اس پر غضب کہ شاہی جلوس میں رنڈیاں ہاتھی پر سوار ہوتی تھیں اور جب میر جعفر چاہتا راستے میں ہی مجرا شروع ہو جاتا -‘‘(۲۴)

اس قدر عیاشی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نواب سراج الدولہ سے حلفِ وفاداری اٹھا کر بھی غداری کرنے والا میر جعفر مسند شاہی پرایک دن بھی چین سے نہ بیٹھ سکا - وہ نہایت ہی ذلت کے ساتھ انگریزوں کی فرمانبرداری کرتا رہا کیونکہ انگریز اپنے بقایا جات کے لیے اس کے ناک میں ہروقت دم کرتے رہے تھے- (۲۵)

اس کے دمِ واپسیں پر کسی مسلمان نے اس کے ساتھ ہمدردی یا افسوس کا اظہار نہیں کیا- غلام حسین خاں اپنی کتاب میں میر جعفر پر کفر کا فتویٰ صادر کرتا ہے- (۲۶)

علامہ اقبال نے بھی میر جعفر کے مکمل کردار کو تین ترکیبوں سے لعنت کا ایسا طوق پہنایا ہے کہ میر جعفر کی قباحت کی پوری تصویر سامنے آجاتی ہے- جیسا کہ’’ جاوید نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں:-

جعفر از بنگال و صادق از دکن

ننگِ آدم، ننگِ دین، ننگِ وطن (۲۷)

اس کے علاوہ

’’الاماں از روحِ جعفر الاماں

الاماں از جعفرانِ ایں زماں‘‘

لکھ کر میر جعفر کو غداری کی ضرب المثل بنا دیا اور فرمایاکہ 

ملتی را ہر کجا غارت گری است

 اصلِ او از صادقی یا جعفری است (۲۸)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ ملت اسلامیہ میں جہاں کہیں بھی غارت گری ہو رہی ہے اس کی بنیاد میں کہیں میر جعفر کی روح کار فرما ہے اور کہیں میر صادق کی روح موجود ہے- میر جعفر سے اس درجہ شدت نفرت کا اظہار اس بات کی غمازی ہے کہ علامہ اقبال کے دل میں نواب سراج الدولہ کی کتنی قدر منزلت تھی- حضرت علامہ اقبال کے سراج الدولہ کے متعلقہ ایک ایسا اظہارِ خیال جسے صاحبزادہ محمد عمر نے اپنی کتاب کی تمہید میں درج کیا ہے ،صفحاتِ تاریخ پر زریں حروف سے لکھنے کے لائق ہے- دورانِ تحقیق اُنہوں نے جب حضرت علامہ اقبال کے سامنے نواب سراج الدولہ کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا:-

’’سراج الدولہ کو ابھی ہندوستان نے نہیں پہچانا نہیں تو مرشد آباد دوسرا اَجمیر بن جاتا- حقیقت یہ ہے کہ سراج الدولہ کے آخری سانس کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کا چراغ گُل ہوگیا-‘‘ } علامہ اقبال{  (۲۹)

اس لیے بلا شبہ ہم سراج الدولہ کو جنگِ آزادی کا ایک ایسا مجاہد کہہ سکتے ہیںجو بعد میں مجاہدینِ آزادی کے لیے ایک رول ماڈل بنتا گیا اور دئیے سے دیا جلتا گیا اور ہمیں پاکستان نصیب ہوگیا- لیکن اس ملک کی ترقی و کامرانی کے لیے ہمیں مفکرِ پاکستان حضرت علامہ اقبال کی یہ تنبیہ بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ:-

کی شبِ ہندوستان آید بروز

مُرد جعفر، زندہ روحِ او ہنوز(۳۰)

کہ چاہے ہندوستان کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے ،جب تک میر جعفر جیسے غداروں کی ارواح ان میں موجود رہیں گی حقیقی آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوسکتا-

٭٭٭

حوالہ جات:

(۱) (مفتی انتظام اللہ شھابی، ’’ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء‘‘ دینی بک ڈپو اردو بازار دہلی، ص:۵)

(۲) (باری علیگ، کمپنی کی حکومت، نیا ادارہ لاہور طبع چہارم ۱۹۶۹ء ، ص: ۶۹)

(۳) (کارل مارکس، ’’ایسٹ انڈیا کی تاریخ اور اس کی کارروائیوں کے نتائج‘‘)نوٹ :کارل مارکس نے 24 جون 1853 کو تحریر کیا ’’ نیو یارک ڈیلی ٹربیون ‘‘کے شمارے 3816 میں 11 جولائی 1853 کو کارل ما رکس ہی کے نام سے شائع ہوا- مزید تفصیلات کے لیے وزٹ کریں:-

https://www.marxists.org/urdu/index.htm

(۴) (ایضاً،)

(۵)Edward Said , Culture and Imperialism, Kitab Mahal Urdu Bazar Lahore, Edition 2014,15, P:43

(۶) (The Tribune Lahore, 19 Sep, 1929)

(۷) (محمد عمر صاحب بمع منشی نور الٰہی، ’’سراج الدولہ‘‘، انجمن ترقی ٔ اردو (ہند) دہلی، اشاعت اوّل ۱۹۴۶ء، ص:۲۵، ۲۶)

(۸)(ایضاً،تمہید)

(۹)کتاب کا عکسی نسخہ دیکھنے کے درج ذیل لنک وزت کریں:-

https://rekhta.org/ebooks/tareekh-e-bangal-ebooks?lang=Ur

(۱۰) کارل مارکس، ہندوستان میں برطانوی راج کے آئندہ نتائج،

(کارل مارکس نے 22 جولائی 1853 کو تحریر کیا ۔’’نیو یارک ڈیلی ٹربیون ‘‘کے شمارے 3840 میں 18 اگست 1853 ء کو مارکس ہی کے نام سے شائع ہوا- مزید تفصیلات کے لیے وزٹ کریں: https://www.marxists.org/urdu/index.htm

(۱۱)ہنری ڈادول، ڈوپلے اور کلائیو، اردو ترجمہ مولوی مسعود علی صاحب بی اے (علیگ) ، ادارہ طبع جامعہ عثمانیہ سرکاری حیدر آباد دکن، ۱۹۲۷ء

(۱۲) (ایضاً)

(۱۳)(باری علیگ ، ’’کمپنی کی حکومت‘‘ ، نیاادارہ لاہور، اشاعت چہارم :۱۹۶۹ء، ص:۱۰۳)

(۱۴)(ایضاً، ص:۱۰۴)

(۱۵)(ایضاً، ص:۱۰۴)

(۱۶)(ایضاً، ص:۱۰۵)

(۱۷)(محمد عمر صاحب بمع منشی نور الٰہی، ’’سراج الدولہ‘‘، انجمن ترقی ٔ اردو (ہند) دہلی، اشاعت اوّل ۱۹۴۶ء، ص: ۱۵۹)

(۱۸)(باری علیگ ، ’’کمپنی کی حکومت‘‘ نیاادارہ لاہور، اشاعت چہارم :۱۹۶۹ء، ص:۱۰۶)

(۱۹)(ایضاً، ص:۱۰۷)

(۲۰)(ایضاً، ص:۱۰۷)

(۲۱)(ایضاً، ص:۱۰۸)

(۲۲)(ایضاً، ص:۱۱۰)

(۲۳)((G.B. Mallesun)  ’’The Decisive Battles of India‘‘ )

(۲۴) (محمد عمر صاحب بمع منشی نور الٰہی، ’’سراج الدولہ‘‘، انجمن ترقی ٔ اردو (ہند) دہلی، اشاعت اوّل ۱۹۴۶ء، ص:۲۲۲)

(۲۵)(باری علیگ ، ’’کمپنی کی حکومت‘‘ نیاادارہ لاہور، اشاعت چہارم :۱۹۶۹ء، ص:۱۳۱)

(۲۶) (محمد عمر صاحب بمع منشی نور الٰہی، ’’سراج الدولہ‘‘، انجمن ترقی ٔ اردو (ہند) دہلی، اشاعت اوّل ۱۹۴۶ء، ص:۲۴۲)

(۲۷) (علامہ اقبال، جاوید نامہ، فلک زح?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر