تاریخِ اسلام میں دِین مصطفوی پہ کئی بار ایسے نازک ادوار آئے کہ جن کو فیصلہ کُن لمحات کہا جا سکتا ہے اور اُن مواقع پہ صرف مسلمانوں کی زندگی ہی خطرات سے دوچار نہیں تھی بلکہ اُن کی تہذیب و تمدن اور اُن کا نظریاتی ثمرہ بھی دائو پہ لگا ہوا تھا- پہلا فیصلہ کُن مرحلہ غزوہ بدر کے موقع پہ آیا کیونکہ اس سے پہلے مشرکین مکہ نے مظالم کی آتش جتنی تیز بھڑکائی مسلمانوں کے قلوب میں دین اسلام اُتنا ہی کندن ہوتا گیا، بت پرستی و شرک کو نظریۂ توحید شکست پہ شکست دے رہا تھا، دریں اثنائ مدینہ طیبہ کی جانب کامیاب ہجرت نے مشرکین مکہ کے دست ظلم کو تختۂ مشق بنائے جانے والوں سے محروم کردیا- مشرکین مکہ اپنی خفتوں کو مٹانے کے لیے مسلمانوں پہ چڑھ دوڑے اورمقامِ بدر پہ دونوں افواج کا آمنا سامنا ہوا - لسانِ نبوت سے ادا ہونے والے الفاظ ﴿کہ اگرآج یہ مٹھی بھر مسلمان نیست ہوگئے تو قیامت تک خدا کا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا﴾ اِس امر کا بین ثبوت تھے کہ دِین مصطفوی کے مستقبل کے لیے یہ معرکہ فیصلہ کُن ہے اور صرف فتح ہی دِین کے مستقبل کے تحفظ کی واحد ضمانت ہے- امیر المؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگ یرموک بھی ایک ایسا ہی فیصلہ کُن مرحلہ تھا کہ جس میں بھی فتح کی صورت ہی اسلام کے روشن چراغ کو رومیوں کی تند و تیز آندھیوں سے بچا سکتی تھی اور اسی دور میں مقامِ قادسیہ پہ ہونے والا معرکۂ حق وباطل بھی دین کی بقائ کے لیے فیصلہ کُن تھا کہ فتح کی صورت میں پورا فارس اسلام کے زیر نگیں ہوجائے گا اور شکست کی صورت میں فارسی سپہ سالار رستم مسلمانوں کو وادیٔ حجاز سے نکالنے کی ٹھان کر بیٹھا تھا -
اِسی طرح فلسطین و شام میں ۵۹۰۱ئ سے شروع ہونے والی صلیبی جنگیں بھی دِین اسلام کے لیے فیصلہ کن لمحات سے لبریز تھیں- تاریخِ عالَم بالخصوص اسلامی تاریخ میں اِن صلیبی جنگوں کی اہمیت و حیثیت مسلّم ہے- اِدھر یعنی مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق ناپید ہو رہا تھا اور اُن کی مرکزیت معدوم ہو رہی تھی تو اُدھر یورپ کی عیسائی اقوام بیت المقدس اور سرزمینِ شام و مصر سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے اور اُن کا استیصال کرنے کے لیے متحد ہو رہی تھیں- پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائی بہ حیثیت فاتحین بیت المقدس میں داخل ہو رہے تھے تو کیا اُس وقت دِین اسلام کی بقائ ایک بار پھر تاریخ کے نازک ترین دور میں داخل نہیں ہو رہی تھی؟
خاص طور پہ پہلی تین صلیبی جنگوں میں فرزندانِ اسلام نے وہ کمال دِکھائے کہ مؤرّخین انگشت بدنداں رہ گئے- سقوطِ بیت المقدس کے زخم کو اپنی متاع بناکر جب یہ غازیانِ دِین میدان عمل میں اُترے تو فاتحین کو فتح کے جشن بھول گئے اور اُن کو اپنی جان کے لالے پڑگئے- دِین کی محافظت کے جذبے جب ہاتھوں میں اُترے تو اُن کی تلوار بازی میںایسی سُرعَت آئی کہ جس سے برق بھی شرما گئی اور تہذیب و تمدن کے پیکر، اِن مجاہدین نے محض نو عشروں کی قلیل مدت میں نہ صرف بیت المقدس صلیبیوں سے واپس لے لیا بلکہ پورے یورپ کی متحدہ مہیب عسکری قوت کے پائوں بھی اسلامی سرزمین سے اُکھاڑ دئیے اور ۱۹۲۱ئ تک فلسطین ،شام ومصر سے تمام صلیبی ریاستیں ختم کردئیں اور سرزمینِ اسلام کی ایک بالشت جگہ بھی ان کے قبضے میں رہنے نہیں دی- یورپی مؤرّخین کے مطابق دو صدیوں پہ محیط ان صلیبی جنگوں میں ساٹھ لاکھ کے قریب انسانی جانیں لقمۂ اجل بنیں-
عہدِ فاروقی میں جب اسلامی فتوحات کا سیلاب رومی سلطنت کے ایک بڑے علاقے پہ چھا گیا تب سے ہی عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوگیا تھا- یہ حقیقت ہے کہ اِن دونوں اقوام کے مابین موازنہ کرنے کے لیے صلیبی جنگوں کے زمانے سے بہتر اور کوئی دَور تاریخ میں نہیں ملتا- بلاشبہ اُس وقت مسلمان دُنیا کی شائستہ اور مہذب ترین قوم تھی جو انسانیت کی قدر کرنا باقی اقوام سے بہتر جانتی تھی -اس قوم کی شمشیر بے گناہوں کے خون سے داغ دار نہیں ہوتی تھی- اسلامی فتوحات میں اس امر کے بارے میں شہادتیں آسانی سے مل جاتی ہیں- خلیفۂ ثانی سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب ۸۳۶ئ میں بیت المقدس پہلی بار فتح ہوا تو تاریخ سے پوچھئے کہ اس شہر کے اقتدار کی منتقلی میں کتنی خون ریزی ہوئی؟ کتنے سر قلم کیے گئے؟ کتنی خواتین کے سروں سے دوپٹہ کھینچا گیا؟ تاریخ کے پاس صرف ایک جواب ہے کہ ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا- کیرن آر مسٹرانگ لکھتی ہیں کہ:
’’ ۸۳۶ئ میں یونانی پیٹریاک سوفرونئیس مقدس شہر کا مجسٹریٹ تھا اور اس نے سفید اونٹ پر سوا ر خلیفہ حضرت عمر(رض) کو’’ یروشلم‘‘ کا دورہ کروایا تھا- حضرت عمر(رض) گرجا گھر میں تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا-سوفرونیئس نے اخلاقاً آپ(رض) کو وہیں نماز ادا کرنے کی دعوت دی لیکن آپ(رض) نے شائستگی کے ساتھ اس دعوت کورد کردیا- آپ(رض) نے فرمایاکہ اگر وہ گرجا گھر میں نماز ادا کریں گے تو مسلمان اس واقعے کی یاد میں وہاں مسجد تعمیر کرلیں گے- ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ کرنا مسلمانوں کا فرض ہے- حضرت عمر(رض) نے گرجا گھر سے تھوڑی دور جاکر نماز ادا کی‘‘ -﴿مقدس جنگ ،ص۱۷﴾
لیکن ۹۹۰۱ئ میں جب صلیبی لشکرنے بیت المقدس پہ قبضہ کیا تو صلیب کے بیٹوں نے ایسے ایسے مظالم کا ارتکاب کیا کہ زمین و آسماں کانپ اُٹھے، بچوں کو مائوں کی چھاتیوں پہ قتل کیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرڈالے، بوڑھوں اور اپاہجوں تک کے اعضائ کاٹ کاٹ کر ہوا میں بکھیرے گئے- عیسائی مؤرّخ ملز ﴿Mills﴾ اور وان سِبل ﴿Von Sybel﴾کے اعترافات ملاحظہ ہوں کہ :-
’’عیسائی افواج کے کیمپوں میں مسلمانوں کا گوشت دن دہاڑے بکتا تھا لیکن ان سب باتوں کے باوجود یورپی تاریخوں میں ان لڑائیوں ﴿صلیبی جنگوں ﴾کے گرد رومان کا ہالہ کھینچ دیاگیا ہے‘‘- ﴿تاریخِ نور الدین زنگی ،ص:۹۳﴾
یعنی صلیبی جنگجو مذہبی پیشوائوں کی اندھی تقلید میں اس قدر بدمست ہو گئے کہ انہیں مسلمانوں کا گوشت کھانا بھی ثواب کا کام محسوس ہوتا تھا - صلیبی بدمستوں کے مظالم سے نقاب کشائی کرتے ہوئے کیرن آرمسٹرانگ خامہ فرسائی کرتی ہیں کہ: -
’’صلیبی ۵۱ جولائی ۹۹۰۱ئ کو شہر ﴿بیت القدس ﴾ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے- اُنہوں نے دو دِن تک ’’یروشلم‘‘ کے مسلم اور یہودی باشندوں کا قتل عام جاری رکھا- اُنہوں نے مرد وزن کی تمیز کیے بغیر ہر کسی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا- صلیبی مسجد الاقصیٰ کی چھت پر چڑھ گئے اور اُنہوں نے وہاں پناہ لینے والے مسلمانوں کا قتل عام کیا--- صلیبی مسلمانوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح فنا کررہے تھے- صلیبی مسلمانوں کے لیے گند کا لفظ استعمال کرتے تھے اس قتل عام کے ایک عینی شاہد نے لکھا ہے کہ’’ بڑے زبردست مناظر دیکھنے کو ملے ہمارے کچھ سپاہیوں نے ﴿رحم کرتے ہوئے﴾ اپنے دشمنوں کے سر کاٹ دئیے دوسروں نے اِنہیں تیروں کا نشانہ بنایا اور کچھ نے اِنہیں شعلوں کی نذر کر کے طویل اذیت دی- شہر کی گلیوں میں سروں، ہاتھوں اور پیروں کے ڈھیر دیکھے جاسکتے تھے تاہم’’ ہیکل سلیمانی ‘‘میں جو کچھ ہوا وہاں کیا ہوا ؟ اگر میں سچ بیان کروں تو تمہیں یقین نہیں آئے گا لہٰذا اتنا کافی ہے کہ ’’ ہیکل سلیمانی‘‘ کے اندر اور اس کے دلان میں ﴿مسلمانوں کا ﴾اتنا خون بہایا گیا تھا کہ گھڑ سواروں کے گھٹنوں اور گھوڑوں کی لگاموں تک انسانی خون آگیا تھا ---اِس فتح میں یسوع کے سپاہیوں نے دودِن میں ۰۴ ہزار ﴿دوسری روایت کے مطابق۰۹ ہزار﴾ مسلمانوں کو قتل کر ڈالا تھا‘‘- ﴿ایضاً،ص:۰۹۱﴾
اِن بے رحم اور سنگ دِل واقعات کے قریب قریب ۰۹ سال بعد اسلامی فوج فرزندِ فاروقِ اعظم ، ظلِّ ابو عبیدہ حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں ۷۸۱۱ئ بیت المقدس پہ پھر اسلامی پرچم لہراتی ہے لیکن اب منظر بالکل تبدیل ہوجاتا ہے کسی کو قتل کیا جارہا ہے نہ کسی کا مال لوٹا جارہا ہے -صلیبی بھیڑیوں نے ۰۹ ہزار بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا کر فتح کا جشن منایاتھا لیکن اب سُلطان صلاح الدین ایوبی اپنے ساتھ مسلسل جنگ کرنے والے صلیبی فوجیوں کو نہ صرف جان کی امان دے رہا ہے بلکہ انہیں بیت المقدس کی عیسائی مقدسات کی زیارت کی اجازت بھی مرحمت فرمارہاہے - نامور مؤرّخ ہیرالڈ البرٹ لیمب سلطان کی رحم دِلی اور فیاضی کو یوں بیان کرتاہے کہ :-
’’روشن ضمیر سلطان ﴿صلاح الدین ﴾ شہر کو برباد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا-اُس نے اہل’’ یروشلم‘‘ کو باحفظ وامان شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی، انہیں اسلحہ اورساز و سامان ساتھ لے جانے کی بھی کھلی چھٹی دی ، نقدی کے سوا وہ ہر چیز لے جانے کے حق دار تھے البتہ ہر مرد دس اشرفیاں، ہر عورت پانچ اشرفیاں اور ہر بچے کو ایک اشرفی بہ طور فدیہ ادا کرنا لازمی تھا --- صلاح الدین کے سامنے انسانوں کا جلوس گزر رہا تھا پھر اسقف اعظم ہرقلیس اپنا خزانہ بوریوں میں بھر کر لے جا رہا تھا لیکن سلطان نے اس سے کوئی تعرض نہیں کیا- سُلطان نے نادار لوگوں کو ﴿جو زرِفدیہ ادا کرنے سے قاصر تھے ﴾ سینٹ لاذرس کے بغلی دروازے سے نکل جانے کی اجازت دے دی‘‘- ﴿ صلیبی جنگوں کی تاریخ ص:۲۹﴾
بلاشبہ یہ صلیبی جنگیں جو قریب قریب دو صدیوں تک جاری رہیں اس مدت کے درمیان ان دونوں قوموں کا موازنہ اور تقابل کیا جا سکتا ہے- اس دوران ان قوموں کے تمام محاسن و اوصاف، عیوب و نقائص، عادات و اطوار، خصائص انسانیت، انصاف و رحم اور شجاعت وغیرہ جیسے وصف کھل کر سامنے آگئے تھے اور تاریخ کا طالب علم بغیر کسی دِقّت کے ان کا موازنہ کر سکتا ہے اس موازنہ کے لئے صلیبی جنگوں میں سے ایک اور واقعہ تجزیہ کے لئے بہترین مثال بن سکتا ہے-
تیسری صلیبی جنگ۷۸۱۱ ئ تا۲۹۱۱ ئ کے دوران یورپی بادشاہوں کے عظیم الشان لشکر نے سلطنت ایوبی میں واقع ’’عکہ‘‘ بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا متحدہ یورپی صلیبی لشکر کی کمان انگلستان کے بادشاہ رچرڈ کے ہاتھ میں تھی یاد رہے کہ رچرڈ یورپی اقوام کے لئے ایسا بے عیب ہیرو ہے کہ جس سے انگریز بچپن سے ہی رومانس رکھتے ہیں اور اس کے کردار کے گرد دیو مالائی ہالہ بُن لیتے ہیں- یہ بھی یاد رہے کہ رچرڈ نے’’ عکہ‘‘ والوں کو تلوار کے ذریعے شکست نہیں دی بلکہ’’ عکہ‘‘ والوں نے بڑی کڑی شرائط پہ ہتھیار ڈالے تھے- رچرڈ شیر دل کے ہاتھ قریب قریب تین ہزار مسلمان قیدی آئے تھے دوسری جانب صلاح الدین ایوبی کے پاس بھی ہزاروں کی تعداد میں صلیبی جنگی قیدی محصور تھے- سلطان معاہدے کی شرائط کی تکمیل کرنا چاہتا تھا لیکن رچرڈ نے ماسویٰ چند ایک امرائ کے تمام مسلمان قیدیوں کو صلاح الدین ایوبی کے دستوں کے سامنے قتل کر دیا- آفرین ہے کہ اگر سلطان صلاح الدین ایوبی چاہتا تو اُس کے ہزاروں جنگی قیدیوں کے سر قلم کرکے اس ظالمانہ فعل کابدلا لے سکتا تھا لیکن ہیرا لڈ البرٹ لیمب اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے:-
’’ رچرڈ نے مجلس مشاورت کے بعد ایک نہایت خونی فیصلہ کیا- ۰۰۶۲ مسلمان اسیران جنگ کو ہانک کر کھلے میدان میں لے جایا گیا جہاں کھمبوں سے رسیاں باندھ کر اُن پر کمبل لٹکا دیے گئے تھے، یہ مقتل تھا- مسلمان قیدیوں کی مشکیں کس کر ان کے سر قلم کر دیے گئے اور باقی ماندہ قیدیوں کو مسلمانوں کے گشتی دستوں کی نظروں کے سامنے سولی پہ لٹکادیا --- بلاشبہ سلطان کو اس بربریت کی توقع نہ تھی- مسلمانوں کے قتل عام کا اِسے بہت صدمہ ہوا لیکن سلطان نے اس قتل عام کے جواب میں عیسائی اسیرانِ جنگ سے جو اس کے قبضے میں تھے کوئی تعرض نہ کیا- اِس غیر ضروری کشت و خون سے رچرڈ کے ناموس و عزت ہمیشہ کے لیے داغ دار ہوگئی- سلطان صلاح الدین ایوبی پر صد آفرین کہ اُس عالی حوصلہ انسان نے صرف علانیہ جنگ میں دشمن سے ﴿مسلمان اسیرانِ جنگ کے قتل﴾ بدلہ لیا‘‘- ﴿ایضاً ص:۱۶۱﴾
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مسلمان اُس دور کی مہذب ترین قوم تھی اس لیے اُس کی سپاہ اعلیٰ تہذیبی اقدار کی حامل تھی اور اعلیٰ نصب العین اور شریف و کریم روایات کی امین تھی- مسلمانوں نے اُس دَور میں انسانی حقوق کی پاسداری کی اعلیٰ روایات قائم کیں کہ جب اقوامِ عالَم کے بیچ نہ صرف کسی بھی انسانی حقوق کی دستاویز پہ باضابطہ اتفاقِ رائے نہیں تھا بلکہ در حقیقت وہ وحشت و درندگی کی بد ترین مثالیں قائم کرتے تھے - اُس وقت کا مسلمان علم و ہنر و فنون اور جدید سائنسی ایجادات و دریافتوں کا وارث تھا جب کہ مسلمانوں کے مقابل آنے والی یورپی اقوام جاہل اور وحشی تھیں جن کا مذہبی جنون ہمہ قسم کے اعلیٰ مقاصد سے عاری تھا کیونکہ متعصب و مکار رہنماؤں نے اَن پڑھ عوام کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا تھا اس لیے صلیبی جنگجو انسانیت کی پست ترین سطح پہ اُتر آتے تھے- یورپ معاشی لحاظ سے پسماندہ اور معاشرتی لحاظ سے زبوں حال تھا جب کہ سماجی اور معاشرتی نُقطۂ نظر سے مساوات، اخوت اور عدل انصاف کے جن اصولوں کو مسلمانوں نے اپنے ہاں رواج دیا تھا- یورپ کا عیسائی معاشرہ ابھی تک ان اقدار سے محروم تھا- یورپ میں جاگیردار اور مذہبی نمائندے دونوں مل کر عوام کا خون چوس رہے تھے اور انہوں نے عوامی منافرت کا رخ اپنی بجائے مسلمانوں کی جانب موڑ دیا تھا- ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم کی صحبت سے جو جو فائدے حاصل ہوسکتے ہیں یورپ نے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے قریب رہ کر وہ فوائد بھی حاصل کیے جیسے کیرن آرمسٹرانگ لکھتی ہیں کہ :-
’’چنانچہ صلیبی جنگوں کے زمانے میں کچھ عیسائی خدا کے نام پر عربوںکو تہِ تیغ کرنے کی بجائے ان سے علم حاصل کررہے تھے- اس ثمرآور مثبت تعاون سے یورپ میں ایک نئی دانش ورانہ حیات جنم لے رہی تھی- عرب تو بالخصوص مغرب کے لیے مینارۂ نور تھے تاہم اس احسان کو بہت کم تسلیم کیا گیا ہے--- یورپ ابن سینا اورابن رشد کی تعریف میں تو رطلب للسان ہے لیکن وہ ان کے مذہب اسلام کو رد کردیتا ہے- اب تو یہ تعصب یورپ کے شعور میں گہرا اُتر گیا ہے‘‘- ﴿مقدس جنگ ص:۲۰۲﴾
یہی وجہ ہے کہ جب صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوا تو یورپی عوام نے مذہبی رہنمائوں کی اندھی تقلید کرنے سے جان چھڑائی اور بتدریج جاگیرداروں اور مطلق العنان طرزِ حکومت کے اثرات سے باہر آتے گئے اور اہل یورپ میں مسلمانوں کی شاندار تہذیب اور تمدن سے مسابقت کا جذبہ پیدا ہوگیا-
دوسری جانب ان لڑائیوں میں ایک بات بڑی نمایاں تھی وہ یہ کہ عیسائیوں نے جب بھی مسلمانوں پر حملہ کیا پورے یورپ نے متحد ہو کر جارحیت کی لیکن اس کے برعکس مسلمان طاقتیں اُس نازک صورتِ حال میں بھی متحد نہ ہوسکیں اور ان لڑائیوں میں ہر مسلمان سلطنت اکیلی اکیلی ہی عیسائی حملوں کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے- لیکن کچھ ایسے مسلمان حکمران ہیں جو اپنے ہم عصر مسلم فرمانروائوں کی حمایت سے بے نیاز ہوکر محض اللہ کے بھروسہ و توکل پہ یورپ کی مہیب عسکری قوت سے بھڑ گئے او راُس کو لوہے کے چنے چبوا دیئے- اُن کی عالیٰ حوصلگی اور عظمت کا لامحالہ اعتراف کرنا پڑتا ہے اور اِس فہرست میں شہید سُلطان عماد الدین زنگی، سُلطان نورالدین محمود زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی ایسے عظیم مجاہدین اسلام کے نام شامل ہیں- اُن مجاہدوں کے کردار کی عظمت اور رفعت جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلی تین صلیبی جنگوں پہ ایک طائرانہ نظر ضرور ڈال لی جائے-
پہلی صلیبی جنگ : ۶۹۰۱ئ تا ۶۴۱۱ئ
پوپ اربن دوم نے ۵۹۰۱ئ میں کونسل آف کلیر مونٹ میں پہلی صلیبی جنگ کا اعلان کیا-کیرن آرمسٹرانگ کے بقول یورپ سے یروشلم کی زیارت کے لیے جانے والے ان زائرین﴿صلیبیوں﴾ کو ایک تلوار دے کر پوپ اربن نے عام عیسائیت کو ایسی جارحیت عطا کی جس سے اس ﴿مغربی عیسائیت﴾ نے کبھی پوری طرح چھٹکارا نہ پایا- پوپ کے اعلان جنگ کے بعد یکے بعد دیگرے چار عظیم الشان لشکر بیت المقدس کی فتح کا عزم لے کر یورپ سے نکلے-راہب پیٹر کی زیرِ قیادت تیرہ﴿۳۱﴾ لاکھ عیسائیوں کا ایک اَنبوۂ عظیم قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوا- اس لشکر نے اپنے راستے میں آنے والے ہم مذہبوں اور غیر جانبداروں کو قتل و غارت اور لوٹ مار کانشان بنایا- جب یہ ایشائے کوچک ﴿اناطولیہ ﴾ کے اسلامی علاقے میں داخل ہوئے تو سلجوقی حکمران قلج ارسلان نے ان کے لشکر کو تہہ وبالا کردیا اور ان کی کثیر تعداد قتل ہوگئی عیسائیوں کی اس مہم کا مقدر صریح ناکامی بنا-
صلیبیوں کا دوسرا اور تیسرا گروہ ’’بیت المقدس‘‘ کو فتح کرنے کے لیے عازم سفر ہوئے لیکن دونوں گروہ اپنی بدکاریوں کی وجہ سے ’’ہنگر ی‘‘ سے آگے نہ جاسکے اور ان دونوں کو اہل’’ ہنگری‘‘ نے کیفرِ کردار تک پہنچایا - ۷۹۰۱ئ میں صلیبیوں کا سب سے زیادہ منظم، زبردست لشکر کہ جس میں دس لاکھ پیشہ ور فوجی شامل تھے ’’بیت المقدس‘‘ کی جانب روانہ ہوا- اُس میں انگلستان، سسلی، فرانس اور جرمنی کے شہزادے بھی شامل تھے اور اس متحدہ لشکر کی قیادت ایک فرانسیسی گاڈ فرے کررہا تھا- یہ ٹڈی دَل لشکر ایشائے کوچک کے راستہ پہ روانہ ہوا اور اِس لشکر نے مسلمان حکمران قلج ارسلان کے دارلخلافہ’’ قونیہ‘‘ کا محاصرہ کرلیا- یہاں اسلامی فوج کو شکست ہوئی اور صلیبی لشکر نے کامیاب پیش قدمی جاری رکھی اور نو ﴿۹﴾ ماہ کے محاصرے کے بعد ’’انطاکیہ‘‘ پر بھی قبضہ کرلیا، انطاکیہ کی تمام مسلمان آبادی کو تہ تیغ کردیا اور قریباً ایک لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا- ’’حمص‘‘ پر قبضہ کرنے کے بعد صلیبی لشکر ۷جون ۹۹۰۱ئ کو بیت المقدس کی فصیل کے باہر پہنچ گیا اور اُس کا محاصرہ کرلیا ۵۱جون ۹۹۰۱ئ کو اُن مذہبی جنونیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور قابض ہونے کے بعد اُنہوں نے جس سنگ دِلی وبے رحمی اور بے ضمیری کا مظاہر کیا یورپی مؤرّخین بھی ان شرمناک مظالم کی حقیقت و صداقت تسلیم کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ کا تذکرہ گزشتہ سطور میں ہوچکا ہے -
پہلی صلیبی جنگ کے اَواخر میں کہ جب صلیبیوں کی چیرہ دستیاں حد سے تجاوز کرچکی تھیں تو ایسے آزمائش کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سُطان عماد الدین زنگی کی صورت میں ایک باکمال، جرّی و دلیر اور باہمت مردِ مجاہد عطا کیا جس نے زنگی حکومت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں کو پہلی صلیبی جنگ کے اختتام کے نزدیک فتوحات سے سرشار کیا - یہی وجہ ہے کہ مسلمان بیت المقدس اور انطاکیہ وغیرہ کی شکست کا زخم بھول کر ایک بار پھر دشمن پر فتح پہ فتح حاصل کرنے لگے- ۷۲۱۱ئ میں عماد الدین زنگی نے موصل کی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور اگلے برس ۸۲۱۱ئ میں اُس نے سنجار، خابور، الرحبہ، نصیبین، حران اور حلب کو زنگی سلطنت میں شامل کرلیا- سُلطان عماد الدین زنگی نے جس جرأت اور حوصلہ مندی سے صلیبیوں کا مقابلہ کیا اور اُن کو زبردست شکستوں سے دوچار کیا وہ تاریخ اسلام کا ایک قابل فخر باب ہے-
انطاکیہ کے راستے پہ قلعۂ اثارب صلیبی جنگجوں کا بہت بڑا گڑھ تھا- ۰۳۱۱ئ میں سُلطان عماد الدین زنگی نے اِس قلعہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا- مقبوضہ بیت المقدس سے قلعۂ اثارب کے صلیبی جنگجوں کے لیے بہت بڑی فوج مدد کے لیے بھیجی گئی لیکن سُلطان عماد الدین نے ایک خون ریز جنگ میں صلیبی لشکر کو شکست فاش سے دوچار کیا اس مردِ مجاہد نے مصر اور شام کے محاذ پہ بھی صلیبیوں کے دانت کھٹے کیے- ایڈیسہ ﴿الرہایا اعزاز ﴾ جو کہ مشرق وسطیٰ میں صلیبیوں کی پہلی ریاست کا مرکز تھا اور مذہبی تقدس کے لحاظ سے اسے عیسائی دُنیا میں پانچواں درجہ حاصل تھا اُس بے خوف مردِ کامل سُلطان عمادالدین زنگی نے ۴۴۱۱ئ میں ایڈیسہ کا محاصرہ کرلیا اور ۳۲ دسمبر ۴۴۱۱ئ کو عماد الدین کی فوج نے اس شہر پہ قبضہ کرلیا اور یوں پہلی صلیبی جنگ کے اختتام پہ مسلمانوں کو ایک شاندار فتح کا تحفہ ملا-
دوسری صلیبی جنگ :۶۴۱۱ئ تا ۸۴۱۱
۴۴۱۱ئ میں سُلطان عماد الدین زنگی کی شہادت کے بعد چھٹی صدی ہجری کا مجاہدِ اعظم سلطان نورالدین محمود زنگی اپنے شہید والد کے بعد زنگی سلطنت کا جانشین بنا- ایڈیسہ کی فتح کے بعد اس کا سابق حکمران جوسلین ثانی ﴿Joscelin ii﴾جو کہ فرار ہوکر دریائے فرات کے مغرب میں واقع تلّ باشر کے شہر میں مقیم ہوگیا تھا لیکن عماد الدین کی شہادت کے بعد اُس نے موقع غنیمت جان کر ایڈیسہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کی غرض سے چڑھائی کردی مگر قلعہ کے مسلمان محافظ بروقت خبردار ہوگئے اور قلعہ بند ہو کر جنگ کرنے لگے دوسری جانب سُلطان نورالدین زنگی کوجب یہ خبر ملی تو وہ بھی دس ہزار سواروں کو لے کر طوفان کی طرح ایڈیسہ آیا اور صلیبی فوج کو عبرتناک شکست دی اور یہی شکست دوسری صلیبی جنگ کا بڑا سبب بنی -
۱۳ مارچ ۶۴۱۱ئ کو پوپ یوجینئس اور فرانس کے کنگ لوئیس ہفتم نے دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کردیا اور پوپ نے فرانسیسی بیرنوں ﴿Barons﴾ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے صلیبیوں کو حوصلہ دیا کہ سُلطان نورالدین زنگی کی فتوحات خدا کے منصوبے کا حصہ ہیں اور یہ بھی کہا کہ آخری فتح عیسائیوں کی ہوگی- ۸۴۱۱ئ میں جرمنی کے بادشاہ کانرڈ ﴿Conard﴾ اور فرانس کے حکمران لوئی ہفتم کی قیادت میں نو﴿۹﴾ لاکھ افراد پہ مشتمل فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے یورپ سے روانہ ہوئی- اِس صلیبی لشکر نے بھی خوب اخلاق سوز حرکتوںکا ارتکاب کیا جو کہ صلیبی لشکر کی روایات بن چکی تھیں- لوئیس ہفتم ﴿Louis vii﴾ کی فوج کا گزر جب ایشائے کوچک کی اسلامی سرزمین سے ہوا تو سلجوقیوں نے فرانس کی فوج کے ایک بڑے حصے کو تباہ کردیا اور ہزاروں صلیبی فوجیوں کو قتل کیا- چنانچہ جب لوئی ہفتم انطاکیہ پہنچا تو اس کی تین چوتھائی فوج برباد ہوچکی تھی آرچر کے بقول ’’کروسیڈروں ﴿صلیبیوں﴾ کے لیے یہ ایک مہلک صدمہ تھا کہ فرانس کا پھول دمشق تک پہنچنے سے پہلے ہی مرجھاگیا تھا‘‘- جرمن بادشاہ کانرڈ، فرانس کے شاہ لوئی ہفتم اور مقبوضہ بیت المقدس کی متحدہ فوج نے دمشق کا محاصرہ کرلیا، امیرِ دمشق نے سُلطان نورالدین زنگی سے مدد مانگی تو وہ اپنے بھائی سیف الدین زنگی کے ساتھ ایک زبردست لشکر لے کر دمشق کی طرف روانہ ہوا جب فرنگیوں نے ایک عظیم الشان اسلامی لشکر کی آمد کی خبر سُنی تو وہ حوصلہ چھوڑ بیٹھے اور مجبوراً دمشق کا محاصرہ اُٹھالیا -
سُلطان نورالدین زنگی نے لوئی ہفتم اور کانرڈ کو دوبارہ یورپ کی سرحدوں میں دھکیل دیا یوں دوسری صلیبی جنگ یورپ نے جس جوش وخروش سے شروع کی تھی اُس کا انجام اُن کے لیے اُس سے زیادہ تباہ کن اور افسردہ ہوا- دونوں یورپی بادشاہوں کے ماتھے پہ بدنامی کا ایسا داغ لگا کہ پھر اُنہوں نے دوبارہ مقدس جنگ کانام نہیں لیا-
مصر کی فاطمی خلافت میں اتنی ہمت و صلاحیت نہ تھی کہ وہ صلیبی طوفان کو روک سکے-فاطمی خلافت کے وزیر شاور سعدی نے سُلطان نورالدین زنگی کو مصر پہ حملہ کرنے کی دعوت دی تو سُلطان نورالدین زنگی نے اپنے جانثار سپہ سالار اسدالدین شیرکوہ کو حکم دیا کہ وہ مصر میں داخل ہوجائے اور عیسائی سازشوں کا قلع قمع کرئے اسدالدین شیر کوہ نے سُلطان کے حکم کی تعمیل کی لیکن فاطمی خلافت وزیر شاور سعدی غداری پہ اُترآیا اور اندورنِ خانہ صلیبی فوج کے ساتھ ساز باز کرلی اس لیے اسدالدین شیرکوہ نے مصر پہ دوبارہ یلغار کی اور شاور سعدی کو سنگین جرائم کی وجہ سے قتل کردیا گیا فاطمی خلفیہ عاضد نے شیرکوہ کو مصرکا وزیر بنادیا لیکن شیر کوہ جلد وفات پاگیا تو فاطمی خلفیہ نے صلاح الدین کو ملک الناصر کا خطاب دے کر مصر کاوزیر بنا دیا - فاطمی خلیفہ عاضد کی وفات کے بعد سُلطان نورالدین زنگی نے مصر میں فاطمی خلافت کو ختم کردیا اور خطبہ میں عباسی خلیفہ المستضی باامراللہ کانام پڑھا جانے لگا- سلطان صلاح الدین ایوبی نے مصر کا خود مختار حکمران بننے کے بعد صلیبیوں کے خلاف جہاد اور بیت المقدس کی آزادی کو اپنی زندگی کانصب العین بنالیا- ۲۸۱۱ئ تک مصر کے علاوہ شام، موصل، حلب وغیرہ بھی سُلطان صلاح الدین ایوبی کی سلطنت کا حصہ بن چکے تھے-
دریں اثنائ صلاح الدین اور صلیبی سردار ریجنالڈ کے مابین چارسالہ صلح کامعاہدہ ہوگیا لیکن صلیبی سردار ریجنالڈ بدستور معاہد ہ کی خلاف ورزی کرتا رہا اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹتا رہا- عیسائیوں کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ جسارت کی بہت سے دیگر عیسائی اُمرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی غرض سے حجازِ مقدس کی جانب روانہ ہوا لیکن عاشقِ رسول سُلطان صلاح الدین ایوبی نے ریجنالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے اُسے ’’حطین‘‘ کے مقام پہ جالیا-ہیرالڈالبرٹ لیمب نے بھی ریجنالڈ کی اسی جسارت کا ذکر کیا ہے کہ:-
’’ جب صلاح الدین نے جہاد کا اعلان کیا تو ریجنالڈ نے فوراً مکہ یعنی حرمِ اسلام کو تباہ کرنے کی غرض سے فوج کشی کردی--- ایک مرتبہ تویہ من چلے مدینہ منورہ سے ایک دن کی مسافت کے فاصلہ پر پہنچ گئے تھے اس مقدس شہر کی سلامتی خطرے میں تھی- لیکن مسلمانوں کے بحری بیڑے کی بروقت آمد نے انہیں ناکام بنا دیا‘‘- ﴿صلیبی جنگوں کی تاریخ ص :۱۷﴾
سلطان صلاح الدین ایوبی کے احتجاج اور اپنے آدمیوں کی رہائی کے مطالبے کو بھی ریجنالڈ نے سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ حاجیوں کے ایک اور قافلہ لوٹ کر صلاح الدین ایُّوبی کو نہایت سفاکانہ دلیری سے جواب دیا- سلطان صلاح الدین ایوبی نے ریجنالڈ اور اس کے لشکر کا تعاقب کیا اور اُسے ’’حطین‘‘ کے ٹیلے پہ جالیا- ۴جولائی ۷۸۱۱ئ میں دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا - سُلطان صلاح الدین ایُّوبی کے مجاہدین نے صلیبی لشکر کو چاروں اطراف سے گھیر لیا اور اس کے سوار چہار اطراف سے صلیبی فوج پر پے بہ پے یورش کرنے لگے- صلیبی فوج نے ایک حد تک مزاحمت کی کوشش کی لیکن دریں اثنائ مسلمانوں نے اُن کے گرد خاردار جھاڑیوں کو آگ لگادی تواُنہوں نے ہتھیار پھینک دئیے اِس جگہ صرف قیدی ہی زندہ بچے باقی تمام صلیبی فوج تہ تیغ ہوگئی اور یوں یروشلم کے بہادر نائٹوں کی قوت کا خاتمہ ہوگیا اور جنگ ’’حطین‘‘ اپنے انجام کو پہنچی-
’’ حطین‘‘ کی فتح کے بعد سلطان صلاح الدین اَیُّوبی نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا اور ایک ہفتہ کی خون ریزجنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور رحم کی درخواست کی- سلطان کی رحم دِلی اور فیاضی کا تذکرہ گزشتہ سطور میں ہوچکاہے- سلطان صلاح الدین اَیُّوبی نے قریب قریب سولہ سال کی سخت جدوجہد کے بعد اپنی زندگی کے نصب العین کو پالیا اور بیت المقدس کو اسلامی سلطنت کا حصہ بنالیا- سلطان کایہ عدیم المثال اور شاندار کارنامہ تاریخِ اسلام کا قابلِ فخر باب ہے اور اُس کی جدوجہد سنہری حروف میں درج کیے جانے کے قابل ہے- بیت المقدس کی یہ عظیم الشان فتح اہل یورپ کو ہضم نہ ہوسکی او راُنہوں نے پورے یورپ میں تیسری صلیبی جنگ کے ہنگامہ برپا کردیا اور تیسری صلیبی جنگ کے نتائج کے بارے میں ہیرالڈ البرٹ لیمب لکھتا ہے کہ :-
’’یہ قسمت کا فیصلہ تھا کہ صلاح الدین سرزمین مقدس ﴿بیت المقدس﴾ سے دست کش نہ ہو- دُنیائے مسیحیت کی کُل عسکری طاقت دو لاکھ لوگوں کی قربانی دے کر بھی سلطان کو دیارِ مقدس سے نہ ہلا سکی- کئی برسوں کی خون ریزی کے بعدوہ صلاح الدین کے فلسطین کا صرف ایک معمولی حصہ فتح کرسکے اور اپنے مقامات مقدسہ میں سے کسی کو بھی حاصل نہ کر سکے -صلاح الدین کا ارادہ مکمل فتح کا تھا وہ صلح کے حق میں نہ تھا لیکن بعد میں صلح ہی دُنیائے اسلام کی سلامتی کی بہترین ضمانت ثابت ہوئی ‘‘ - ﴿صلیبی جنگوں کی تاریخ ص:۶۱۲﴾
اقوام اور اُمتوں کی زندگی میں فتح و شکست، عروج وزوال اور نشیب و فراز معمول کی بات ہے- یہ امر یورپی اقوام کے حق میں جائے گا کہ اُنہوں نے صلیبی جنگوں میں پے بہ پے شکستوں سے دوچار ہونے کے باوجود ملت اسلامیہ کے عروج سے علم و حکمت اور تہذیب و تمدن کے جواہر اپنے دامن سے باندھ لیے اور بعدازاں خود بھی عروج کی جانب گامزن ہوئیں - لیکن ملتِ اسلامیہ کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ تو صلیبی جنگوں کے فاتحین تھے تو آج اُن کے زوال و پستی کی کیا وجوہات ہیں؟ صلیبی جنگوں کے دوران جب بیت المقدس پہ صلیبی قابض ہوئے تو مسلمان حکمرانوں نے کمالِ حکمت سے دمشق اور قاہرہ کو اپنے کنٹرول میں لے کر مقبوضہ بیت المقدس کو چکی کے دوپاٹوں کے درمیان رکھ لیا اور جلد ہی بیت المقدس کو آزاد کروالیا- عصرِ حاضر میں اسرائیل ایسی ناجائز ریاست کا محل وقوع بھی ماضی جیسا ہے لیکن اگر کمی ہے تونور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی ایسے مجاہدوں کی اور آج بھی بیت المقدس ان جیسے کاملین کی تلاش میں ہے جو اِسے اسرائیل کے قبضے سے چھڑواسکیں- اِسی جذبہ سے سرشار تھی وہ عظیم قیادت ، جس نے پاکستان کے قیام کی جد و جہد کی - خاص کر حکیم الامت علامہ محمد اقبال ، قائدِ اعظم محمد علی جناح اور شہیدِ مِلّت نوابزادہ لیاقت علیخان -
اسرائیل لابی کی طرف سے دورۂ امریکہ کے دوران نوابزادہ لیاقت علی خان کو بڑی بڑی مراعات کی پیشکش کی گئی کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو ہم یہ دیں گے - لیکن شہیدِ ملت نے ایک دو ٹوک جواب دیا کہ ’’جنٹلمین ، میں یہاں اپنی ﴿فلسطینی﴾ روحوں کا سودا کرنے نہیں آیا -
﴿ایک قلبِ شوریدہ کی ندا ﴾
آج بھی سرزمینِ بیت المقدس کی خاک کے ذرے اُن بوسوں کی چاہ میں ہیں جو سُلطان صلاح الدین ایوبی نے آنکھوں کے لبوں سے دیئے ، بیت المقدس کی آنکھیں اِس ملت کے جوانوں میں سلطان نورالدین زنگی اور سُلطان عماد الدین زنگی کو ڈھونڈتی ہیں تلاش کرتی ہیں ، بیت المقدس کی سر زمین سالارِ لشکر ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ٹاپوں کی منتظر ہے - مسجدِ اقصیٰ اُس ساربان کا انتظار کرتی ہے جس کا غلام اونٹ کی پشت پہ تھا اور وہ ساربان ، وہ امیرِ کاروان مرادِ رسول امیر المؤمنین فاروقِ اعظم سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اونٹ کے آگے آگے اپنے ہاتھوں میں مہار تھامے زیارتِ قبلۂ اوّل کو آئے تھے ، آج بھی صحنِ اقصیٰ کے فرش کی اینٹیں قدم دھرتے ہر زائر سے سوال کرتی ہیں:
’’وہ ساربان کہاں ہے ؟ کیا وہ ساربان دوبارہ نہیں آئے گا؟ کیا اُس ساربان کے جذبوں کی میراث کے وارث دُنیا میں نہیں رہے ؟کیا اُس ساربان کے دردِ دروں کے راز دار ماضی کا قصّہ بن چکے ؟ کہیں اُس ساربان کی روحانی اولاد ہم سے اپنے رشتے ناطے منقطع تو نہیں کر چکی؟ کہیں مادیت کی فریبی چمک دمک نے میرے راز دان ، اُس ساربان کی روحانی اولاد کے دلوں سے میری یاد چھین تو نہیں لی‘‘؟
مسجدِ اقصیٰ کے در و دیوار اُس کا خوبصورت گنبد ، وہ جلوہ گہِ جبرائیل ، اُس امام ِ عظیم ﴿w﴾ کی اُمت کو پکارتے ہیں کہ :-
’’مسلمانو! میں وہی مسجدِ اقصیٰ ہوں جسے تمہارے رسول کی پیشانی اور سجدوں نے قبلۂ اوّل ہونے کا شرف عطا کیا - ہاں ! میں وہی قبلۂ اوّل ہوں جہاں ایک خاص امام نے ایک خاص رات خاص مقتدیوں کی جماعت کی امامت کروائی ، بھول گئے ہو کیا ؟ وہ امام ، امام الانبیا ﴿w﴾تھے، وہ رات شبِ دیدار یعنی شبِ معراج تھی وہ جماعت انبیائے عالَم علیہم السلام کی جماعت تھی - مومنو ! میں وہی مقامِ عظیم ہوں جہاں سے جبرائیل کی رفاقت میں تمہارے محبوبِ پاک شہہِ لولاک ﴿w﴾ نے براق کی رکاب میں پائے اقدس رکھے اور جہانِ آسمانی کی طرف سفرِ عروج فرمایا ‘‘-
’’فرقہ پرستی میں ڈوبے مسلمانو! میری حرمت کون قائم کرے گا؟ کیا میرے فرزند، کیا کالی کملی والے ﴿w﴾ کی اُمت کا نصیب ایک دوسرے کی گردنیں مارنا رہ گیا ہے؟ کیا تمہارا فریضہ اب صرف ایک دوسرے کو کافر کافر کہنا رہ گیا ہے؟ میں، میں مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کے ضمیر پہ سب سے بڑا سوالیہ نشان ہوں، سب سے بڑا سوال ہوں- میں، میں مسجدِ اقصیٰ تم سے پوچھتی ہوں کہ دولت و تعیّش کے دلدادو ! میں ، میں مسجدِ اقصیٰ صہیونی ناجائز قبضے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہوں اور تم ! تم نیند کیسے کرتے ہو ؟ تم راحت کیسے لیتے ہو ؟ میں ، میں مسجدِ اقصیٰ ، جسدِ اسلامی کا دل ہوں ، دِل جب تک گھٹن میں ہے قید میں ہے جسد آزاد نہیں ہوسکتا ، جسد سکون نہیں پا سکتا ‘‘-
عشقِ الٰہی میں ڈوبی روحیں ، محبتِ مصطفی ﴿w﴾ سے سرشار قلوب اور دردِ دین سے لبریز سینے ، آج بھی اپنے آقا و مولیٰ تاجدارِ مدینہ ﴿w﴾کو پکار کے کہتے ہیں- فداک امی و ابی یا سیّدی یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !
اِک بار پھر بطحا سے فلسطین میں آ!!!
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا