ذبح عظیم کے واقعہ سے کون واقف نہیں، اسلام کے جھنڈے کی سربلندی اور شجر اسلام کی آبیاری کے لیے امام عالی مقام سیدنا امام حسین(رضی اللہ عنہ) نے اپنے خون اور سر مبارک کی قربانی پیش کی-اس واقعہ کو ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں اپنے کتب میں درج کیا-
ہمارا آج کا موضوع سندھ کے مشہور شاعر اور صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی (رضی اللہ عنہ) کی شاعری میں واقعہ کربلا کو قارئین کرام کے سامنے پیش کرنا ہے- گو کہ شاہ صاحب نے اپنے کلام میں پورا ایک 'سر' جس کا نام شاہ صاحب نے سر ’’کیڈارو‘‘ رکھا ہے جو میدان کربلا اور شہدائے کربلا پر باندھا ہے اسی سر میں اختصار کے ساتھ ابیات رقم کرتے ہیں-
شاہ عبد اللطیف بھٹائی (رضی اللہ عنہ) کا مختصر تعارف:
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ولادت 1102ھ بمطابق 1689ء، ضلع حیدر آباد کی تحصیل ہالا حویلی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوئی اور آپ کا وصال 1167ھ بمطابق 1752ء میں ہوا-آپ کے والد گرامی کا نام سید حبیب اللہ شاہ تھا-کہا جاتا ہے کہ شاہ حبیب اللہ کو پہلے اولاد نہیں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے دو شادیاں کی، پھر کسی درویش سے دعا کروائی جس نے دلجوئی کی کہ آپ کو بیٹے کی اولاد ہوگی اور وہ زمانے کا قطب ہوگا لیکن اس کا نام ’’عبداللطیف‘‘ رکھنا-اللہ کے فضل و کرم سے سید حبیب اللہ شاہ کے ہاں پہلی زوجہ میں سے بیٹا پیدا ہوا جو بچپن میں ہی فوت ہو گیا- پھر دوسری زوجہ میں سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جمال شاہ رکھا- پھر پہلی زوجہ میں سے بیٹا پیدا ہوا جس کا نام’’عبداللطیف‘‘ رکھا جس کو آج ہم شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے نام سے جانتے ہیں- شاہ عبداللطیفؓ کے پیدا ہونے کے بعد آپ کے والد گرامی ہجرت کر کے ہالا حویلی کے گاؤں کو چھوڑ کر کوٹڑی میں رہائش پذیر ہوئے-
محققین کے مطابق شاہ صاحب کے پاس تین کتابیں جس میں قران کریم، مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی شریف (جو میاں نور محمد کلہوڑو نے آپ کو تحفے میں دی تھی) اور شاہ کریم کا رسالہ اکثر ساتھ ہوا کرتا تھا-
دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہ صاحب کی شاعری چونکہ سروں پر مشتمل ہے، اس لیے مشہور ہے کہ آپ کا وصال بھی سماع کی محفل میں سر ’’کیڈارو‘‘ ہی کی سماعت کے دوران ہوا، سر ’’کیڈارو‘‘ کی شاعری بھی حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)، واقعہ کربلا اور ماہ محرم الحرام پر ہی مشتمل ہے اور ’’کیڈارو‘‘ کی معنی ہے جنگ یا میدان جنگ-
ماہ محرم الحرام کی آمد پر ابیات:
ڏٺو محرَّم ماھ، ٿئو سنڪو شھزادن ۾، |
’’جب سے ماہ محرم الحرام کا چاند نظر آیا ہے، تب سے سادات کے شہزادوں کو انتظارہے- وہ وحدہ لا شریک ہی جانتا ہے جو اسے پسند ہے وہ کرتا ہے‘‘-
ڏٺو محرَّم ماھ، سنڪو شھزادن ٿئو، |
’’جب سے ماہ محرم الحرام کا چاند نظر آیا ہے سادات کے شہزادوں کو انتظار ہے، مکہ شریف اور مدینہ شریف کے لوگ اس راستے پر روتے ہیں، تمام تعریفیں اس وحدہ لا شریک کیلئے جو ایسے احکام کو جاری فرماتا ہے‘‘-
آيو محرم ماھ، عزت ٿي اميرن کي، |
’’ماہ محرم الحرام آگیا، سادات کے سرداروں کو بلند و بالا مقام و مرتبہ عطا ہوا ہے، سادات نے اپنے گزر سفر کا مختصر سا اسباب ساتھ لیا اور سفر کے لیے نکل پڑے ہیں، وہ وحدہ لا شریک ہی جانتا ہے،انہوں (سادات) نے رب کی رضا کو مان لیا ہے‘‘-
محرم موٽي آيو، آيا تان نه امام، |
’’محرم الحرام تو واپس آگیا پر نہ آئے تو امام پاک نہیں آئے، اے میرے اللہ مجھے مدینے کے سرداروں سے ضرور ملانا‘‘-
محرم موٽي آيو، موٽيا تان نه امير مديني |
’’ماہ محرم الحرام تو واپس آگیا پر واپس نہ آئے تو سادات، اے میرے اللہ مجھے مدینے کے سردار دکھانا‘‘-
امام عالی مقام کو کوفیوں کے طرف سے لکھے ہوئے خطوط پر ابیات
ڪوفين خط لکئو، وچ وجھي ﷲ |
’’کوفیوں نے خط لکھا واسطہ خدا دے کر کہا کہ ہم آپ کے تابع ہیں اور آپ ہمارے سردار ہیں ایک دفعہ آپ ہمارے پاس آئیں تاکہ یہ تخت آپ کے حوالے کریں‘‘
ڪوفي ڪربلا ۾، پاڻي نه پيارين |
’’کوفیوں نے کربلا میں سادات کو پانی تک نہ پلایا، میدان کربلا میں سادات کے شہزادے مولا علی سرکار (رضی اللہ عنہ) کو یاد کرتے رہے، خیموں سے نکل کر فرماتے ہیں اے رسول پاک شہ لولاک (ﷺ)آپ ہمارے حامی و ناصر ہیں ‘‘-
میدان کربلا میں سادات کی آمد اور بہادری کے جوہر
ڪربلا جي پڙ ۾، خيمان کوڙيائون |
’’سادات نے کربلا کے میدان میں اپنے خیمے نصب فرمائے، یزیدی لشکر کے سامنے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ جنگ لڑی، تلواروں کی تاب کو دیکھتے ہوئے پھر بھی پسپائی اختیار نہ کی‘‘-
ڪربلا جي پڙ ۾، مرڪي اُڀا مير |
’’میدان کربلا میں اپنا سر فخر سے اونچا کر کے دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کی، بڑی تیزی کے ساتھ تیر چلائے یہ تو تقدیر کا لکھا ہوا اٹل فیصلہ تھا جو امام حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) اور آپ کے رفقاء ساتھ پیش آنا تھا‘‘-
ڪامل ڪربلا ۾، آيا جنگ جوان، |
’’میدان کربلا میں سادات کے سردار تشریف لائے جو جنگوں کے بہت بڑے بہادر شاہ سوار تھے، بڑی شان سے وہ شیر جوان بہادر بہادروں کے ساتھ آ ملے، زمین کانپنے لگی آسمان لرزنے لگا، یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ میدان عشق کا دیکھنے والا منظر تھا‘‘-
ڪامل ڪربلا ۾، آيا سيد شير، |
’’میدان کربلا میں سادات کے شیر تشریف لے آئے، سورج غروب ہو گیا اور شام ہو گئی اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، آگے بڑھ کرایسا حملہ کیا، پہلوانوں اور بہادروں کو ایسی ضربیں لگائیں ایسی تیز تلواریں چلائیں کہ لاشوں کے انبار لگا دیئے، حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا ایسا حملہ دیکھ کر بڑے سے بڑے بہادر جنگجو بھی لرز گئے‘‘-
ڪامل ڪربلا ۾، سورھ ساماڻا، |
’’میدان کربلا میں مشہور بہادر سردار تشریف لائے وہ شہزادے جنگ کے صدائیں بلند کرتے ہوئے آئے جو میدان جنگ کا شوق رکھتے تھے (جو جذبہ جہاد کے شوق سے سر شار تھے)‘‘-
بھادر گڏئا بھادرين، کڙڳ کلول ڪن، |
’’بہادر بہادروں کے سامنے تلواروں کی روشنی میں مقابل ہوئے، دھڑ کو سر سے الگ کر کے اچھالتے اور صدا بلند کرتے ہوئے چوٹیں لگاتے، پہلوانوں کے بدن بغیر سر کے پھڑکتے، کربلا کے اس بیابان میں رونے کے ساتھ آہ و فغاں کی فلک شگاف آوازیں تھیں- (حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) اور آپ کے رفقاء نے یزیدی لشکر کے سپاہیوں کی یہ حالت کر دی تھی)‘‘-
ڪامل ڪربلا ۾، اھلبيت آيا |
’’میدان کربلا میں اہل بیت تشریف لے آئے، جنہوں نے اپنی تلواروں سے یزیدی لشکر کے سپاہیوں کو ہلا کر رکھ دیا، بے شک اماں خاتون جنت (رضی اللہ عنہا) نے ایسے بہادر جنم دیئے جو محبوب بھی تھے‘‘-
حضرت حُر کا امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) کے لشکر میں شامل ہونا:
ھئي ھدايت حر کي، اصل ۾ امران، |
’’حضرت حر (رضی اللہ عنہ) کو اصل میں امر ربی کی طرف سے ہدایت نصیب ہونی تھی جو جنگ کے آخری حصے میں امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی طرف سے یزیدی لشکر کے سامنے جنگ کرنے آگئے، آتے ساتھ ہی حضرت حر (رضی اللہ عنہ) نے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے عرض کی کہ آپ کی عزت و ناموس پر میں قربان، (اس سطر میں قران کریم کی سورہ بقرہ کی آیت شاہ صاحب نے بڑے خوبصورت انداز سے بیان فرمائی ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، حضرت حر (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی کہ میں اپنی پوری طاقت استعمال کروں گا، حضرت حر (رضی اللہ عنہ) کو دوران جنگ مسلسل زخم لگتے رہے بالاخر وہ بہادر شیر دین حق کی سربلندی کے لیے راہ خدا میں شہید کر دیئے گئے‘‘-
حر ھلي آيو ھن پاران، مانجھي مردانو، |
’’بہادری اور طاقت سے لبریز حضرت حر(رضی اللہ عنہ) میدان جنگ میں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی طرف سے جنگ کرنے آ گئے، حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے روبرو آ کر لگاتار پشیمانی کا اظہار کرتے رہے (یعنی معافی کی عرض کرتے رہے) یعنی وہ عاشق پروانے کی طرح عشق کی آگ میں جلنے کیلئے آگئے، حضرت حر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بھائی بیٹے اور اپنے غلام اور خادم سب کو راہ خدا میں قربان کر دیا کہ رسول اللہ (ﷺ) کا رب اور نبی پاک (ﷺ) اے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) آپ کے نانا جان ہیں وہ مجھ سے راضی ہو جائیں، اے میرے خوبصورت سردار(حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ) میں یہ اپنا سر بھی آپ پر قربان کر کے عزت والا بن جاؤں گا‘‘-
اللہ کی رضا:
دوست ڪھائي دادلا، محب مارائي |
’’اپنے ناز و نخرے والے دوست ذبح کروا دیتا ہے اپنے محبوب مروا دیتا ہے اپنے خاص دوستوں کو تکلیفیں برداشت کرواتا ہے، اے اللہ تو بے نیاز ہے جو چاہے سو کرے اسی میں ہے وہ گہرے اسرار رموز کی بات‘‘-
شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے اپنے شاعری میں واقعہ کربلا کو بڑے بہترین پیرائے میں بیان فرمایا ہے جو ماہ محرم الحرام اور میدان کربلا میں سادات کی طرف سے بہادری کے جو جوہر یزیدی لشکر نے دیکھے ان کو بیان فرمایا حالانکہ آپ کے ابیات سر کیڈارو میں اور بھی بہت ہیں پر یہاں بہت اختصار کے ساتھ قارئین کرام کے سامنے پیش کیا گیا ہے-
٭٭٭
ماخوذ از: کتاب: شاھ جو رسالو(جلد نمبر1)، مرتب: بانھوں خان شیخ، شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر کراچی یونیورسٹی، مئی 2000ء
٭٭٭