فلسفہ فضیلت اور تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں سادات(رضی اللہ عنھم) کا مقام

فلسفہ فضیلت اور تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں سادات(رضی اللہ عنھم) کا مقام

فلسفہ فضیلت اور تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ میں سادات(رضی اللہ عنھم) کا مقام

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری جولائی 2024

اللہ تعالیٰ نے کسی بھی چیز کو فضول پیدا نہیں کیا بلکہ ہر ایک چیز کو مختلف خوبیوں اورفضیلتوں کے ساتھ نوازا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہر ایک کی خوبی اور فضیلت تک ہر ایک کی رسائی نہ ہو سکے- جب کسی چیز کی فضیلت بیان کی ہے،تو اِس فضیلت کے پسِ منظر میں متکلم کے کچھ مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں،جوقارئین کرام کیلئے خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں -اگر فضیلت کے پسِ منظر میں پوشیدہ مقاصداور حکمت کو نہ سمجھا جائے تو پھر آدمی فضیلت کے ابواب بھی پڑھے گا ،بیان بھی کرے گا، لیکن کوئی انقلابی قدم نہیں اُٹھا سکے گا اور اپنے باطن میں نہ اپنے ہم مجلس لوگوں کی زندگی میں تحرک پیدا کرسکے گا -اگر صاحب ِ فضیلت کے فیضان سے زندگی کو مسلسل متحرک اور بامقصد بنانا چاہے ہیں تو فلسفۂ فضیلت کو سمجھنا ضروری ہو گا-

اس نکتہ کو ایک مثال سے عرض کر نا چاہتا ہوں کہ ایک آدمی کو اپنے بچوں کی ٹیوشن کیلئے ایک استا د کی ضرورت تھی ، اُس آدمی نے بڑی کوشش کے بعد ایک استاد تلاش کر لیا، استاد نے پڑھانا شروع کیا، لیکن بچے اُستاد کی بات پر توجہ نہیں دیتے تھے، والد نے کافی سوچا کہ کیا کیا جائے ،کافی سوچ و بچار کے بعد ایک ترکیب ذہن میں آئی ،آخر کار ایک دن اُس نے بچوں کو بٹھایا اور فرمایا :کہ میرے پیارے بچو ! کیا آپ کو معلوم ہے؟کہ آپ کا استاد کتنا بڑا آدمی ہے؟ کتنی تعلیم ہے؟ کس کس یونیورسٹی سے اس نے گولڈ میڈل حاصل کیا ہے؟ اُستاد صاحب کی تعریف و توصیف جو کرنی شروع کی تو مُسلسل کرتا گیا اور بچے لکھتے گئے، بچے بڑے خوش ہوئے ، بچوں نے اُستاد کے فضائل بیان کرنا شروع کر دیئے، محلے میں یا جہاں کہیں جاتے، تو وہاں اُستاد صاحب کے فضائل بیان کرتے، لیکن سبق میں اُن کی روٹین نہ بدلی اور نہ ہی استاد صاحب کی کسی عادت اور وصف کو اپنایا - آپ مجھے بتائیں بچوں کے والد کی اُستاد صاحب کی فضیلت بیان کرنے کی یہی غرض تھی؟ جو بچوں نے سمجھی ؟ تو اس کا یہی جواب ہو سکتا ہے کہ نہیں !- والد محترم کا استاد کی فضیلت بیان کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا جو بچوں نے سمجھا-

 در اصل! والد کو بچوں کی کامیابی مطلوب تھی، اُن کا محنتی بننا مطلوب تھا، اُستادصاحب کے اوصاف و کمالات اور اُن کی حُسنِ سیرت میں ڈھالنا مقصود تھا، تو اُس کا صرف یہی راستہ ہی زود اثر ثابت ہو سکتا تھا کہ اُستاد صاحب کی عظمت ان کے سینوں میں بٹھائی جائے ، جو صرف تعریف و تو صیف اور کمالات و فضائل بیان کرنے سے ہی ممکن ہے-جس کے نتیجے میں اُن کے دلوں میں استاد صاحب کی محبت پیدا ہو گی، وہ استا د کے قریب ہوں گے اور اُن کے کردار کو اپنائیں گے- اُن کے نقشِ قدم پہ چلیں گے اور یقینا ً کامیاب ہوں گے –

یہ ہے فلسفۂ فضیلت کہ فضیلت بیان کرنے کا پسِ منظر کیا ہوتا ہے-جب قرآن مجید کی فضیلت بیان کی جاتی ہے تو تعلیماتِ قرآن مجید پر عمل کروانا مقصود ہوتا ہے،جو انسان کی کامیابی کی ضمانت ہے-

اِسی طرح جب اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کے فضائل و مناقب بیان کئے جاتے ہیں تو مقصد دراصل اُن کے نقشِ قدم پر چلانا اور اُن نفوسِ قدسیہ کے کردار میں ڈھالنا ہوتا ہے- تاکہ اقتداء کرنے والوں کیلئے کامیابی و کامرانی کو یقینی بنایا جائے- جیسا کہ حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’تم میں اہل ِ بیت کی مثال وہی ہے جوحضرت نوح ؑ کی قوم میں اُن کی کشتی کی تھی، جو اس میں سوار ہو گیا، وہ بچ گیااور جو اِس سے رَہ گیاوہ غرق ہوگیا‘‘- [1]

اس حدیث پاک میں کشتی میں سوار ہونے سے مُراد اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کے نقش قدم پر چلنا ہے،جو آدمی کو گمراہی سے نجات پانے کی مکمل گارنٹی فراہم کرتا ہے -

آج ہماری ساری تقریریں فضائل و کرامات پہ ہوتی ہیں،  اگر بزرگانِ دین کے اعراس بھی ہوتے ہیں تو صاحبِ مزار کی کرامات بیان کرتے کرتے سارا وقت گزار دیا جاتا ہے، کرامات بیان کرنے سے تو یہ کہیں زیادہ بہتر ہوتا کہ صاحبِ مزار کے کردار کو بیان کیا جاتا، اُس کی عبادت و ریاضت کو بیان کیا جاتا، اس کےمجاہدہ کو بیان کیا جاتا ، اس کی تحریک کو بیان کیا جاتا ، دین کے لئے اس کی قربانیوں کو بیان کیا جاتا، تاکہ مریدین اور متعلقین کیلئے ان کے کردار میں ڈھلنے کا شوق پیدا ہوتا  اور وہ ایک تحرک کی زندگی کے راستے پہ گامزن ہوتے - حق تو یہی تھا !-

اسی طرح اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کے کردار کو بیان کیا جاتا، اُن کی دین کیلئے دی جانے والی قربانیوں کو بیان کیا جاتا، تاکہ اُمت مسلمہ کے نوجوانوں میں شوقِ شہادت اور جزبۂ حُریّت پیدا ہوتا ، فضائل بیان کرنے کا مقصد تو یہ تھا ، لیکن ہم نے فضائل بیان کرنے کے مقاصد پہ توجہ نہ کی، بلکہ فضائل و کرامات بیان کرنے کو ہی فقط اپنی دینداری سمجھا-جس کی وجہ سے تحرک والی زندگی سے سینے خالی کر بیٹھے - حالانکہ اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کی پیروی میں ہی ہماری سلامتی رکھ دی گئی ہے- جیسا کہ حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ستارے آسمان والوں کے لیےسلامتی کا باعث ہیں، جب ستارے جھڑجائیں گے، آسمان والے فنا ہو جائیں گے اور ایسے ہی میرے اہلِ بیت زمین والوں کے لیے سلامتی کا باعث ہیں جب یہ نہ ہوں گے ،تواہل ِ زمین بھی ختم ہوجائیں گے‘‘- [2]

یہی وجہ ہے کہ سادات کے ساتھ محبت کرنا، محبت کا مؤدت کے درجے میں ہونا ، اُن کی وابستگی کو ہمیشہ مضبوط رکھنا اور اُن کے ادب و احترام کو بجا لانا یہ ہمارے اوپر لازم قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ ذُریّتِ مصطفے (ﷺ) ہے - زمین و آسمان کے درمیان اِن سے کوئی اعلیٰ و افضل ذُریّت نہیں ہے -

حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرما یا :

’’بے شک اللہ پاک نے ہر نبی کی ذریت کو اس نبی کی صلب سے پیدا فرمایا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے میر ی ذریت کو علی بن ابی طالب(رضی اللہ عنہ) کی صلب سے پیدافرما یا ہے‘‘-[3]

حضرت فاطمہ کُبریٰ(رضی اللہ عنہا)روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’ہر ماں کا بیٹا اپنے عصبہ کی طرف منسوب ہو تا ہے سوائے (حضرت)فاطمہ (رضی اللہ عنہا)کی اولاد کے-پس میں ا ُن کا ولی اور اُن کا عصبہ ہوں ‘‘-

ایک اور روایت میں ہے:

 ’’پس بے شک میں ا ُن کا عصبہ اور اُن کا باپ ہوں‘‘-[4]

اس لئے اولادِ علی (رضی اللہ عنہ) اولادِمُصطفٰے (ﷺ)ہے-یعنی شہزادگان حسن و حسین (رضی اللہ عنہ) شہزادگان رسول (ﷺ) ہیں -

 حضرت اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :

’’یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں اِن دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اِن سے محبت کر اور اُس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے“- [5]

حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ(رضی اللہ عنہ) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’کوئی بندہ اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ مَیں اُس کے نزدیک اُس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اہلِ بیت اُسے اُس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اُسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اُسے اپنی ذات سے بڑھ کر محبوب تر نہ ہو جائے‘‘-[6]

امیر المومنین سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم)سے محبت و عقیدت دیکھیں- سیدنا امام بخاریؒ صحیح بخاری شریف میں روایت نقل کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’ اُس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے نزدیک اللہ کے رسول (ﷺ) کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا میرے اپنے اہل قربت کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب ہے‘‘-[7]

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ:

’’جس نے حسن اور حسین (رضی اللہ عنھم) سے محبت کی پس تحقیق اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں کو ناراض کیا پس تحقیق اُس نے مجھے ناراض کیا‘‘-[8]

حضرت سلمان (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

’’حسن و حسین (رضی اللہ عنھم) میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اللہ اُس سے محبت فرمائے گا اور جس سے اللہ محبت فرمائے گا اُس کو جنت میں داخل کرے گا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اللہ اُس سے ناراض ہوگا اور جس سے اللہ ناراض ہوگا، اُسے جہنم میں داخل کرےگا‘‘-

یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے-[9]

سُلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نور الھدٰی  شریف میں لکھتے ہیں:

دشمنِ سادات دشمنِ مصطفٰیٰؐ
ہر کہ دشمن مصطفٰیٰؐ دشمن خدا

’’سادات کا دشمن مصطفےٰ (ﷺ) کا دشمن ہے اور مصطفےٰ (ﷺ) کا دشمن اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے‘‘-

دشمنِ سیّد بود اہل از بلشت
دوست دارِ سیّداں اہل از بہشت

’’سادات کا دشمن جہنمی ہے اور سادات کا دوست جنتی ہے‘‘-

ایک اور مقام پہ لکھتے ہیں:

دشمنِ سیّد بود اہل از خبیث
دوست دارِ سیّد اں اہل از حدیث

’’ سادات کا دشمن خبیث ہے اور سادات کا دوست سنت کی پیروی کرنے والا ہے‘‘-

آپؒ نور الھدی میں مزید لکھتے ہیں  کہ:

’’جو شخص سادات کو رضا مند نہیں کرتا اُس کاباطن ہرگز صاف نہیں ہوتااور وہ معرفت ِ الٰہی کو نہیں پہنچتا خواہ وہ زندگی بھر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا پھرے کیونکہ خدمت ِسادات خلق کے مخدوموں کا نصیبہ ہے -جو شخص آلِ نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام و اولاد ِعلی وفاطمۃ الزہرہ (رضی اللہ عنہا)  کا منکر ہے وہ معرفت ِالٰہی سے محروم ہے‘‘-

دوست دارم سیّداں نورِ نبیؐ
نور دیدۂ فاطمہ حضرت علی

’’ مَیں سادات سے دوستی رکھتا ہوں کہ وہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نور ہیں اور حضر ت علی اور حضرت فاطمۃ الزہرہ(رضی اللہ عنہا) کے نورِ نظر ہیں‘‘-

اہلِ بیتِ اطہار (رضی اللہ عنہ) کی عزت و تکریم:

حضرت ابوسعید خُدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور  نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’بے شک اللہ تعالیٰ کی تین حرمات ہیں جو اُن کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کے دین و دنیا کے معاملات کی حفاظت فرماتا ہے اور جو ان تین کو ضائع کر دیتا ہے- اللہ تعالیٰ اس کی کسی چیز کی حفاظت نہیں فرماتا- حضورنبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ مُبارک میں عرض کیا گیا:  یا رسول اللہ(ﷺ)! وہ کون سی تین حرمات ہیں؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : اسلام کی حرمت، میری حرمت اور میرے نسب کی حرمت‘‘ -[10]

حضرت سلطان باھوؒ نور الھدٰی میں لکھتے ہیں :

سیّداں را عزّت و شرف از خدا
دشمنِ سیّد بود اہل از ہوا

’’ بارگاہِ خداوندی سے سادات کو شرف وعزت سے نوازا گیا ہے، سادات کا دشمن کوئی ہوا پرست ہی ہو سکتا ہے‘‘- (اہل ایمان نہیں )

خلاصۂ کلام :

سادات کرام کا ادب و احترام کرنا ہمارے اوپر لازم ہے- سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نورالھدی شریف میں لکھتے ہیں :

’’یاد رہے کہ شیخ وطالب دونوں کے لئے فرضِ عین بھی ہے اور سنت ِعظیم بھی کہ وہ پورے صدق و اخلاص و ارادت کے ساتھ حضور نبی ٔکریم (ﷺ)کی اولا دِ پاک کے سامنے سر نگوں رہ کر اُن کی خدمت کریں‘‘-

بانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین شہباز عا فاں حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کا سادات کرام کے ادب و احترام کے حوالے سے عمل مبارک یہ تھا کہ جب کوئی آدمی آپ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوتا اور بیٹھ جاتا، جب تعارف کروانے کی باری آتی اور وہ کہتا کہ میں سید ہوں ، حضور مرشد کریم فوراً اُس کے لئے کرسی منگواتے ، اُس کے لئے لنگر شریف کا علیحدہ اہتمام کرواتے اور رخصت ہوتے وقت ساتھ چل کر جاتے ، خود گاڑی میں بٹھا کے آتے اور بعض دفعہ تو ایسا ہوتا کہ انہیں خالی ہاتھ بالکل نہ بھیجتے  اور گاڑی کے روانہ ہونے تک وہاں رُکے رہتے، جب اپنی نشست مبارک پر تشریف لاتے تو فرماتے ہم   ’’سید ‘‘ کی ’’س‘‘ کو سلام کرتے ہیں-

آیئے! زندگی کی کچھ مصروفیات کم کرکے آیئے ! حضور جانشین سلطان الفقرحضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کی صحبت و مجلس کا حصہ بنیئے،کیونکہ ادب اور حیا کی دولت تربیت کے فیضان سے ہی حاصل ہو سکتی ہے-آج معاشرے کو معاشی بحران اور دیگر کئی بحرانوں سے بھی بڑا مسئلہ شرم و حیا اور ادب کے بحران کا مسئلہ ہے، خوراک کی قلت کی وجہ سے تو چند فاقے گزار کر وقت نکالا جا سکتا ہے لیکن شرم و حیا اور ادب کی قلت کی وجہ سے ایک لمحہ بھی نہیں گزارا جا سکتا ہے - کیونکہ ایک لمحے کا ادب و حیا سے خالی ہونا وبال جان اور وبال ایمان ثابت ہو سکتا ہے- اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے – آمین!

٭٭٭


[1](المستدرك على الصحيحين للحاكم ،كتاب معرفة الصحابة ، الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت)

[2]( فضائل الصحابة : ج: 2 ص : 671، الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت)

[3](المعجم الكبير ،ج: 3 ، ص : 43 ، دار النشر: مكتبة ابن تيمية – القاهرة )

(مجمع الزوائد،کتاب المناقب، جلد:9، ص:172, الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة)

[4](مسند أبي يعلى، جلد:12، ص: ، 109 ، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق)

[5](سنن الترمذي ، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ ،الناشر: شركة مكتبة– مصر )

[6](المعجم الاوسط : ج : 6 ، ص : 59 ، الناشر: دار الحرمين – القاهرة )

[7](صحیح البخاری ، كِتَابُ المَنَاقِب ، بَابُ مَنَاقِب قَرَابَة رَسُول اللّهِ (ﷺ)

[8](سنن ابنِ ما جہ ،ج : 1 ، ص :51 ، الناشر: دار إحياء الكتب العربية )

[9](المستدرك على الصحيحين للحاکم ، وَمِنْ مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنِي بِنْتِ رَسُولِ اللہِ ، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)

[10](المعجم الکبیر : ج :3 ،ص : 126 ، دار النشر: مكتبة ابن تيمية – القاهرة)

(المعجم الاوسط : ج : 1 ، ص : 72 ، الناشر: دار الحرمين – القاهرة)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر