اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شہادت کا چرچا کسی کےشہید ہونے کے بعد ہوتا ہے لیکن اگر ہم احادیث و آثار کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کا تذکرہ آپؓ کے شہید ہونے سے پہلے ہی ملتا ہے-زیر نظر مضمون میں ہم آپ کی شہادت کاتذکرہ چنداحادیث مبارکہ کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
حضرت ام فضل بنت حارث سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ(ﷺ)! میں نے آج رات ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا ہے-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کیا دیکھا ہے؟ انہوں نے عرض کی: میں نے دیکھا کہ گویا آپ (ﷺ) کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تم نے اچھا خواب دیکھا ہے-میری بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوگی اور وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا-پھر حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی ولادت با سعادت ہوئی تو وہ میری گود میں رہے جیسا کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تھا-ایک دن رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو آپ کی گود میں دے دیا پھر میں نے اچانک دیکھا تو آپ (ﷺ) کی آنکھوں مبارک سےآنسو بہہ رہے تھے آپؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ (ﷺ) میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں، آپ (ﷺ) کیوں اس قدر رنجیدہ ہو گئے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا میرے پاس جبرائیل امین آئے تھے اور مجھے خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی -میں نے عرض کیا اس بیٹے (حسینؓ) کو، آپ (ﷺ) نے فرمایا: ہاں! اور میرے پاس اس کے مقتل کی سرخ مٹی بھی لے کر آئے ہیں‘‘-[1]
حضرت انس بن مالک (رض اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ:
’’بارش کے فرشتے نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی زیارت سے مشرف ہو تو اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت عطا فرمائی-آپ (ﷺ) اس دن حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس موجود تھے آپ (ﷺ) نے ان سے فرمایا ہمارے لئے دروازے پر پہرہ دیں کہ کوئی ہمارے پاس نہ آئے جب وہ دروازے پر مامور تھیں تو حضرت حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) آئے اور اندر جانے میں کامیاب ہو گئے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی پشت مبارک پر اچھلنے لگے اور آپ (ﷺ) ان کو بوسے دینے لگے-فرشتے نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا ہاں!اس نے عرض کی آپ کی امت عنقریب انہیں شہید کر دے گی-اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ دکھا سکتاہوں جہاں انہیں شہید کیا جائے گا-آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے-پھر انہوں نے اس جگہ سے جہاں انہیں شہید کیا جانا تھا مٹھی بھر مٹی لی اور آپ کو وہ جگہ بھی دکھائی وہ آپ کے پاس زرخیز یا سرخ مٹی لے کر آئے، اس مٹی کو ام سلمہ نے لے کر اپنے کپڑے میں رکھ لیا‘‘-[2]
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ حضرت حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اے عائشہ ()! کیا میں تمہیں عجیب بات نہ بتاؤں ابھی میرے پاس ایک فرشتہ آیا جو کبھی میرے پاس نہیں آیا تھا اس نے کہا بے شک میرا یہ بیٹا شہید ہے اور کہا اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ مٹی بھی دکھا سکتا ہوں جس میں یہ شہید ہوگا-پھر فرشتے نے وہ مٹی اپنے ہاتھ میں لی اور مجھے وہ سرخ مٹی دکھائی‘‘-[3]
حضرت عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’ انہوں نے حضرت علی (رض اللہ عنہ) کے ساتھ سفر کیا اور وہ آپؓ کی طہارت کا برتن اٹھانے والے تھے، صفین کی طرف جاتے ہوئے راستے میں جب نینوٰی کے مقابل پہنچے تو حضرت علی (رض اللہ عنہ) نے دریائے فرأت کے کنارے ندا دی ابو عبد اللہ ٹھہر جاؤ، ابو عبد اللہ ٹھہر جاؤ-میں نے عرض کی کیا ہو ا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ایک دن آپ (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو ا جبکہ آپ (ﷺ) کی چشمان مقدس سے آنسو جاری تھے-میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ (ﷺ)! آپ کو کس نے غمناک کر دیا کہ آپ (ﷺ) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں-آپ (ﷺ) نے فرمایا ایسا کیوں نہ ہو میرے پاس سےابھی جبرائیل روانہ ہوئے ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ بے شک میرا بیٹا حسین (رض اللہ عنہ) دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا -جبرائیل نے عرض کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو ان کی شہادت گاہ کی مٹی سونگھاؤں-آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں: انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی کی ایک مشت بھری اور مجھے دی تو میں اپنی آنکھوں کو بہنے سے نہیں روک سکا‘‘-[4]
حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ :
’’ایک دن نصف النھار کے وقت میں نے رسول کریم (ﷺ) کو خواب میں دیکھا کہ آپ غبار آلودکھڑے ہیں اور آپ (ﷺ) کے دست مبارک میں شیشی ہے جس میں خون ہے-میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں ! یہ کیا چیز ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا میرے بیٹے حسین (رض اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے اور میں اسے سارا دن جمع کرتا رہا ہوں -پس ہم نے اس دن کا شمار کیا، راوی کہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہو گیا کہ ٹھیک اسی دن امام حسین (رض اللہ عنہ) شہید کئے گئے تھے‘‘-[5]
حضرت سلمٰی (رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ:
’’میں حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو وہ رو رہیں تھیں-میں نے عرض کیا آپ کس وجہ سے رو رہیں ہیں -انہوں نے فرمایا کہ میں نے (خواب میں) رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا ہے اور آپ (ﷺ) کے سر انور اور ریش مبارک پر مٹی پڑی ہے-میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کو کیا ہوا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں ابھی حسین (رض اللہ عنہ) کی شہادت دیکھ کر آیا ہوں‘‘-[6]
حضرت انس بن مالک (رض اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :
’’جب حضرت حسین (رض اللہ عنہ) کا سر مبارک طشت میں رکھ کر عبید اللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ چھڑی سے ٹھونگے مارنے لگا اور آپ (رض اللہ عنہ) کے حسن و جمال پر نکتہ چینی کرنے لگا- حضرت انس (رض اللہ عنہ) نے فرمایا وہ تو رسول اللہ (ﷺ) کے سب سے زیادہ مشابہ تھے -امام عالی مقام نے وسمہ کا خضاب استعمال کیا ہوا تھا‘‘-[7]
حضرت ابن ابی نعم(رض اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے سنا کہ کسی نے حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے احرام باندھنے والے کے متعلق مسئلہ دریافت کیا-شعبہ فرماتے ہیں میرے خیال میں جوحالت احرام میں مکھی مارے (اس کے متعلق فتوٰی پوچھا) تو آپ نے فرمایا:
’’اہل عراق مکھی مارنے کا حکم پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے رسول اکرم (ﷺ) کےنواسے حضرت امام حسین (رض اللہ عنہ) کو شہید کر دیا ہے جن کے بارے آپ نے ارشاد فرمایا وہ دونوں (حسن، حسین) گلشن دنیا کے میرے دو پھول ہیں‘‘-[8]
عمار الدہنی بیان کرتے ہیں کہ:
’’حضرت علی (رض اللہ عنہ) حضرت کعب کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا اس شخص کی اولاد میں سے ایک شخص کو ایک جماعت میں شہید کیا جائے گا-ان کے گھوڑوں کا پسینہ اس وقت تک خشک نہیں ہوگا جب تک وہ رسول اللہ (ﷺ) تک نہیں پہنچ جاتے- حضرت حسن (رض اللہ عنہ)وہاں سے گزرے تو انہوں نے کہا: اے ابو اسحاق کیا یہ ہیں-انہوں نے کہا نہیں -پھر حضرت حسین (رض اللہ عنہ) گزرے تو لوگوں نے کہا: کیا یہ ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں یہی ہیں‘‘-[9]
حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ
’’ہمیں اور اکثر اہل بیت کو اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں تھا کہ حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) کربلا میں شہید ہوں گے‘‘-[10]
٭٭٭
[1](المستدرک للحاکم، باب اول فضائل ابی عبد اللہ الحسین بن علیؓ)
(المعجم الکبیر للطبرانی، جز:1، ص:246)
[2](صحیح ابن حبان، ذکر الاخبار عن قتل ھذہ الامۃ ابن ابنۃ المصطفےٰ)
(المعجم الکبیر للطبرانی باب الحسین بن علی بن ابی طالب)
[3](المعجم الکبیر للطبرانی باب الحسین بن علی بن ابی طالب)
[4](مسند ابی یعلی الموصلی/ مسند علی بن ابی طالب)
(الشریعۃ للآجری، باب اخبار النبی بقتل الحسینؓ)
[5](فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، باب فضائل الحسن و الحسین)
(المستدرک للحاکم، کتاب تعبیر الرؤیا)
[6](سنن ترمذی، باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی و الحسین بن علیؓ)
[7](صحیح بخاری، باب مناقب الحسن و الحسینؓ)
[8](ایضاً)
[9]( المعجم الکبیر للطبرانی باب الحسین بن علی بن ابی طالب)
[10](المستدرک للحاکم، اول فضائل ابی عبد اللہ الحسین بن علیؓ)