دینِ اسلام کی اساس اُس نظریہ پر ہے جو انسان کو ’’ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ‘‘ کا مستحق بناتی ہے اور حضرت انسان(مومن) خوفِ خدا کے سوا کسی کا خوف نہیں رکھتا- اس کا علم اور اس کا عمل حق ہوجاتا ہے اور محض حق کے لئے (ہی) ہوتا ہے اور وہ باطل کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر آخری سانس تک توکل الی اللہ کی لاٹھی لئے کھڑا رہتا ہے- دینِ اسلام کی محافظت و مدافعت ہمیشہ علمائے ربانییّن کا خاصہ رہی ہے اور ایسے علمائے اہلِ حق ہر دور میں موجود رہے ہیں- سنن ابن ماجہ میں حدیث رسول (ﷺ) ہے :
’’قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے: انبیاء (علیہم السلام)، علماء اور شہداء ‘‘-
انہی علمائے حق کیلئے اللہ کے رسول (ﷺ) کا فرمان ہے کہ :
’’تمام بھلائیوں میں اعلیٰ درجہ کی بھلائی علما کا خیر ہے‘‘-
اس کی سب سے بڑی مثال معنیٔ ذبحِ عظیم، نواسۂ رسول (ﷺ)، جگر گوشہ بتول، سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا حسین بن علی(رضی اللہ عنہ) کی ذات پاک ہے جنہوں نے اپنے علم اور عمل سے واضح فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی بقا ہی عین علم و عمل ہے اور جو اس کے مخالف ہو اس کا علم اور عمل بے مقصد، بے معنی اور بے کار ہوتا ہے-
عاشق و مؤدبِ سادات سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے اس عظیم فلسفہ کے موتیوں کو اپنے عارفانہ کلام کے ہار میں اس انداز سے پرویا ہے:
جے کر دین عِلم وِچ ہوندا سر نیزے کیوں چَڑھدے ھو |
علمائے خیر و حق کے بر عکس علمائے سو کی روش نفاق، نفرت، تشدد، تعصب اور تفریق و تقسیم بالفاظِ دیگر دینی اَساس کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن ان کے لاکھ جتن کر لینے کے بعد بھی حق ہمیشہ بلند رہتا ہے-
دینِ متین کے عالمی و آفاقی تصور کو سیاسی و ریاستی عہدوں کے لالچ کیلئے خود ساختہ تفرقوں کے دائروں میں قید کرنا اور اعمال کی حقیقی چاشنی و لذت اور قرب و معرفتِ حق کی جستجو سے خالی منطقی مباحث میں الجھانا ہمیشہ سے علمائے سوء کا کردار رہا ہے -جو کچھ علمائے حق نے خدمت کی مثلاً اما ابو حنیفہ، امام بخاری ، امام غزالی امام نسفی وغیرہم )اُس کا خیر آج تک موجود ہے - جو کچھ علماءِسو نے کیا اس کا خمیازہ ماضی میں بھگتا گیا اور حال میں بھی اس کے کربناک اور اندوہ ناک نتائج کا امتِ مسلمہ کو سامنا ہے- علمِ حجابِ اکبر، رعب و دبدبے کا سقت، طاقت اور اقتدار کا نشہ، دنیا کی لالچ، حکومت کی چاہت اور نفس پرستی کی عادت انسان کو راہِ حق سے ہٹا دیتی ہے اور اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا- علماءِ سو حضرت امام حسین کے مخالف یزیدی لشکر میں موجود تھے جن کے دل کی آنکھیں نابینا اور سر کی آنکھیں بینائی رکھنے کے باوجود بھی چندھیائی ہوئی تھیں-
واقعہ کربلا نے کئی جہات سے اُمتِ مسلمہ کو متاثر کیا ہے، جن میں ایک خاص پہلو علمائے سُوء کے کردار کا بھی ہے - علامہ اقبال نے اپنے معروف خطبات ’’تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ میں اس بات پہ روشنی ڈالی ہے کہ دنیائے اسلام میں اپنے کئے دھرے کے احتساب سے چھٹکارا پانے کیلئے اس زمانے کے یزیدی علماء نے تقدیر پرستی کی بنیاد ڈالی کہ جب خاندانِ نبوت پہ توڑے گئے مظالم پر دنیائے اسلام میں اموی بادشاہ کے خلاف جذبات ابھرے، تو یزیدی علماء نے تعبیر پیش کی کہ اس میں بادشاہ کا کیا قصور؟ یہ تو اللہ نے تقدیر میں ایسا ہی لکھ رکھا تھا لہٰذا یہ تو ہوکر ہی رہنا تھا- اقبال کے نزدیک یہ تعبیر دنیائے اسلام کو احتسابِ عمل کے بجائے تقدیر پرستی کی طرف لے گئی جس سے بے عملی نے فروغ پایا– اس فکر پہ اقبال نے اردو میں بھی کلام کیاہے :
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی |
حضرت سلطان باھُو کے درج بالا بیت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ’’دین‘‘ علم پڑھنے پڑھانے سے نصیب ہوتا تو یزیدی لشکر میں ہزاروں علماء کی موجودگی میں خاندانِ نبوت کے سر نیزوں پہ کیوں چڑھائے جاتے؟
جے کر دین عِلم وِچ ہوندا سر نیزے کیوں چَڑھدے ھو |
دوسرا مصرعہ کثیر المعانی ہے جس میں ’’عالم‘‘ اور ’’اگے‘‘ کے الفاظ قابلِ غور ہیں –
اَٹھاراں ہَزار جو عَالم آہا اوہ اگے حسینؑ دے مَردے ھو |
بعض کے نزدیک یہ ’’عالَم‘‘ بمعنی جہان کے ہے یعنی ذبحِ عظیم کے وقت اٹھارہ ہزار جہانوں کی مخلوقات موجود تھیں مگر کوئی بھی حسین سے سبقت نہ لے سکا- یہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی روح مبارک تھی جس نے عالمِ ارواح میں قربانیٔ اسماعیل کی تکمیل کا وعدہ کیا-بعض کے نزدیک یہ ’’عالِم‘‘ بمعنی علم رکھنے والے کے ہے کہ محاورۃً فرمایا کہ یزیدی فوج میں اٹھارہ ہزار علماء گھسے بیٹھے تھے مگر امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے پہلے کسی نے ظلم و فسق کے خلاف جان کا نذرانہ نہیں دیا - اس مصرعہ میں ’’اگے‘‘ کا لفظ بھی بہت ذو معنی ہے ؛ ایک معنی ہے پہلے اور دوسرا معنی ہے کہ اٹھارہ ہزار تعداد تھی ان ملاؤں کی، وہ اگر دین جانتے ہوتے تو وہ نہتے اور بے سر و سامان سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہو جاتے اور ان کی خاطر جان تک دے دیتے - کیونکہ امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا ساتھ دینے کا مطلب اہلِ جنت کے سردار کا ساتھ دینا تھا تو ’’اگر دین علم میں ہوتا‘‘ تو وہ جنت کے سردار والی روایت کو جاننے کے باوجود اس کے مخالف کیسے کھڑے رہے؟ مگر علماء سو کو صرف اپنے عہدوں اور مناصب سے غرض تھی اس لئے انہوں نے نہ تو شبابِ جنت کے سردار کا ساتھ دیا ، نہ ہی ’’امت کی کشتیٔ نوح‘‘ کو تھاما اور نہ ہی ’’کتاب و سنت و عترت‘‘ سے اعتصام کیا –
جے کجھ مُلاحظہ سرورؐ دا کردے تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ھو |
یعنی اگر ان علمائے سو کی آنکھوں میں نبی پاک سرورِ دو عالم (ﷺ) کا ذرا سا بھی لحاظ ہوتا تو جہاں خانوادہء نبوت کی پاکیزہ پردہ دار بیبیاں قیام پذیر تھیں ان طنبو اور خیموں کو تو نہ جلانے دیتے -
جے کر مَندے بیعت رَسُولیؐ پانی کیوں بندے کردے ھو |
یہ علماء سو سیاست و ریاست کے عہدوں، منصبوں اور انعامات کے اس قدر پجاری بن گئے اور حق سے ایسے دور ہو گئے کہ وہ یزید کی بیعت تو مانتے تھے مگر نبی پاک کی بیعت کو ٹھکرا دیا ، اور نبی پاک (ﷺ) کی بیعت وہ بیعت ہے جسے سورہ فتح میں اللہ کریم نے اپنی بیعت فرمایا ہے ، علمائے سوء نے اگر بیعتِ محمدی کو نہ ٹھکرایا ہوتا تو محمد رسول اللہ (ﷺ) کی شریعت کے کس اصول کے تحت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی عترت کا پانی بند رکھا؟ بیت کے آخری مصرعہ میں حضرت سلطان باھُوؒ نے حضرت امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ)کا ساتھ دینے والے اور ان کی حفاظت و مدافعت میں شہید ہونے والے شہدائے کربلا کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے :
پر صادق دین تنہاں دے باھوؒ جو سِر قُربانی کردے ھو |
یعنی ایک ’’دینی نمونہ‘‘ علماء سو نے پیش کیا کہ نہ نبی پاک کا لحاظ کیا ، نہ نبی پاک کی بیعت کا لحاظ کیا اس کے بر عکس ایک "دینی نمونہ" امام عالی مقام کے رفقاء نے پیش کیا کہ اپنے سر حسین کی اطاعت میں قربان کر دیئے ، ان میں سچے وہی ہیں جنہوں نے سروں کے نذرانے پیش کر دیئے نہ کہ وہ جنہوں نے عہدوں ، پوشاکوں اور سیاسی ریل پیل کو حاصل کیا-
یزیدی لشکر کے علماء اور ان کے پیروکار، ملائیت کے علمبردار، تسبیح کھڑکانے اور بزدل علماءِ سو کے متعلق سلطان العارفین علیہ الرحمہ اپنی تصنیف محک الفقر کلاں میں بیان فرماتے ہیں:
علم نہ علم است کہ بر ارباب جاہ |
’’وہ علم، علم نہیں جو عزت و مرتبہ چاہنے والے بادشاہ کو تسخیر کرنے کیلئے ہو‘‘-
ابیاتِ باھُو میں جہاں جہاں علمائے سُوء کا محاسبہ کیا گیا ہے وہاں اگر تاریخی جائزے کی کوشش کی جائے تو سارے اشارے یزیدی دربار سے وابستہ علماء کی طرف ہی جاتے دکھائی دیتے ہیں - مثلاً ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
پَڑھ پَڑھ عِلم مَلوک رَجھاون کیا ہویا اُس پَڑھیاں ھو |
یعنی ملاں علم کے ذریعے بادشاہوں کے دل موہنا چاہتے ہیں ، اس پہ حضرت سلطان باھُوؒ تشبیہ قائم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جتنی مرضی کوشش کر لی جائے خراب دودھ سے مکھن نہیں نکالا جا سکتا -مراد یہ ہے کہ علماء سو کا علمِ دین حاصل کرنے کا مقصد لوگوں کو حقیقت کا متلاشی بنانا نہیں ہوتا، معرفتِ حق کی طرف راغب کرنا نہیں ہوتا، معبودِ حقیقی کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی طرف لے جانا نہیں ہوتا، کمالِ بندگی کو حاصل کرنے کی تمنا پیدا کرنا نہیں ہوتا ، لوگوں کے شعور کو آفاقی شعور سے متصل کرنا نہیں ہوتا، سینوں کو روشنی اور نور سے منور کرنے کی راہ بتانا نہیں ہوتا- بلکہ ان کا مقصد حکمرانوں کی نظروں میں مقام اور توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے اس کیلئے وہ کبھی سریلےاور کبھی بھڑکیلے وعظ فرماتے ہیں، اس مقصد کیلئے وہ اپنے مقتدیوں اور شاگردوں کو استعمال کر کے عہدوں، منصبوں اور دیگر مراعات کو حاصل کرتے ہیں جس سے کبھی بھی خیر کا چشمہ نہیں پھوٹے گا - اس سے ہمیشہ تفرقے پھوٹتے ہیں ، نفرتوں کی تجارت ہوتی ہے ، تشدد پہ اکسایا جاتا ہے ، مارکٹائی اور جلاؤ گھراؤ کی ترغیب دی جاتی ہے، اپنی سستی شہرت اور اقتدار کیلئے جتھے بنا کر ریاستوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے ، ایسی حرکتوں سے بھلا اسلام کو کیا فروغ ملے گا ؟ اس لئے سلطان باھوؒ اپنے کلام میں جا بجا یزیدی علماء کی روش پہ گامزن علمائے سو کا کڑا محاسبہ کرتے ہیں اور ایک مقام پہ فرماتے ہیں:
جِتھے ویکھن چنگا چوکھا اُتھے پڑھن کلام سوائی ھو |
کہ جہاں ’’ویلیں‘‘ زیادہ ملیں وہاں زیادہ اچھا وعظ کرتے ہیں اور میزبان کیلئے زیادہ دل و جان سے دعائیں مانگتے ہیں - یہی عمل یزیدی علماءسو کا تھا کہ مال و دولت کی لالچ میں پڑ گئے اور ’’عترت‘‘سے اعتصام ترک کر دیا -
علمائے سوء کی نفسیات کو عارفِ لاہوری علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے جابجا بیان کیا ہے:
دل ملا گرفتار غمی نیست |
’’ملا کا دل (بقائے اُمت کے) غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے اس میں نمی نہیں- اس کے مکتب سے مَیں اس لیے نکل آیا ہوں کہ ملاں کے حجاز کی ریت میں کوئی زمزم کا چشمہ نہیں ہے- ‘‘-
فلسفہ شہادتِ امام حسین دین اسلام کی حقانیت کے مقدمہ پر قائم ہے اور اس فلسفہ کا ایک رخ اہلِ تحقیق اور اہلِ شعور کو علمائے حق اور علمائے سو میں تمیز و تفریق، ملائیت اور حقیقت میں امتیاز اور ورد و وظائف والے صوفی اور جہادِ زندگانی والے صوفی کے درمیان فرق کرنا سکھاتا ہے-جیسا کہ اقبال نے اس فرق کو واضح کیا ہے:
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن |
میدانِ کربلا میں یوں تو بظاہر دونوں طرف کلمہ گو، عالمِ دین موجود تھے لیکن ایک جانب وہ عالم تھے جو ’’العلماء ورثاء الانبیاء‘‘ تھے جن کے فقہ نے انہیں ثقہ کیا تھا اور ایک طرف دنیا کی چاہت رکھنے والے علماء سو تھے کہ جن پر اقبال ضرب کلیم میں کاری ضرب مارتے ہوئے لکھتے ہیں:
خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں |
علم کی حقیقت الف میں پنہاں ہے اور وہ الف اسم اَللہُ ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کے علم کو جان لیا، اس نے علم سے معلوم کو پالیا- کربلا کی ریت پر حسینیت اسی علم الف کا عَلم بلند کئے تھی جسے اہلِ نظر کے سوا کوئی کیونکر دیکھ سکتا تھا- حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)بائے بسم اللہ کے علم کے مظہر و امین اور قرآن کی رو سے ذبیح عظیم ہیں- جیسا کہ اقبال نے آپ کو مخاطب کرکے کہا:
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر |
’’اللہ اللہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے والدِ ماجد بسم اللہ کی باء تھے اوربیٹایعنی حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) ’’وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ‘‘ کامطلب و مفہوم بن گئے‘‘-
دین کو خشک علم میں پنہاں سمجھنے والوں کو سلطان العارفین نے وعید سنائی تھی کہ اگر دین علم میں ہوتا تو اہلِ بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کے مبارک سر نیزوں پر کیوں چڑھائے جاتے- وہ علم جو معلوم سے ناآشنا کیے رکھے اور کوفیوں کی طرح بزدل اور دنیا کی حرص اور لالچ کا قیدی بنادے وہ علم کبھی بھی ’’العلم فریضۃ‘‘ نہیں ہوسکتا ہے- اقبال اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں:
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری |
حضرت سلطان باھوؒ کے ابیات میں قطعاً نہ نفی علم ہے اور نہ ہی علمائے حق کی نفی بلکہ ان علمائےسو کی نفی ہے جنہوں نے یزید سے دنیاوی مفاد حاصل کرنے یا اس کے خوف سے امام حسین اور اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کے مناقب، فضائل اور عظمت کو جاننے کے باوجود یزید کی حمایت کی- جنہوں نے صرف دنیاوی مفاد کی خاطر دین کو بیچ ڈالا - یہی وہ یزیدی سوچ ہے جو آج بھی دین کا لبادہ اوڑھے اغیار کی غلامی کو اور ان کی غلامانہ سوچ کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتی ہے - وہ سوچ آج بھی عوام کو نفرتوں اور تشدد میں الجھاتی ہے اور پارلیمنٹ میں پہلے اپنے لئے ایک عدد کرسی کی خواستگار ہوتی ہے- پھر اپنے فرزند کے لئے جو عالم ہو یا نہ ہو اور خاندان کے لئے چاہئے وہ قابل ہوں یا نہ ہوں - ایسوں کے لئے آقا کریم (ﷺ) کا فرمان ہے جسے مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ مسند احمد نقل کیا گیا ہے:
’’جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا‘‘-
یہ علماء سو آج بھی اپنے سیاسی مفادات کے تحت امت کو تقسیم در تقسیم کرتے ہیں- جنہوں نے تکبر و عناد، حسد اور بغض اور دشنام طرازی کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے -
امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا کردار پورے واقعہ کربلا میں ایک مصلح کا تھا - آپ کی ساری جدو جہد امت کی اصلاح اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے تھی- اسی لئے سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) جب اہلِ بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کے ہمراہ حجاز مقدس سےکوفہ کی جانب چلے تھے تو آپ (رضی اللہ عنہ) اپنے وصیت نامہ میں اپنے برادر محترم محمد حنفیہ کو لکھتے ہیں کہ:
’’اِنّی ما خَرَجتُ اَشرًا ولا بَطرًا و لا مُفسدًا و لا ظالمًا، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فی اُمَّهِ جدّی، اُریدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهی عن المنکر و اُسیر بسیرهِ جدّی و اَبی علیّ بن اَبی طالب‘‘
’ ’میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے‘‘-
اگر آپ کی چاہ علماء سو کی طرح دنیا ہوتی تو آپؓ جنگی ساز و سامان کے ہمراہ ہوتے- اقبال کہتے ہیں:
مدعایش سلطنت بودے اگر |
’’اگر ان کا مقصد سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے سازو سامان کے ساتھ یہ سفر اختیار نہ کرتے‘‘-
الغرض! کوفیوں کی وعدہ خلافی اور دھوکا دہی پر آپؓ نے اُسے نصیب کے ہاتھوں نہ دیا بلکہ الف کی تلوار بن گئے اور باطل کے آگے سر نہ جھکایا- اقبال کہتے ہیں کہ مومن ہر حال میں اپنی نگاہ مالک پر رکھتا ہے اور تقدیر کا بہانہ بنا کر مایوس و بے بس نہیں بن جاتا- اقبال کے ہاں فقرِ غیور اسی مومن کی نشانی ہے جو سنتِ حسین کا پیرو ہے- وہ دنیا کی فکر اور چاہ و طلب میں اپنے دل کو گرفتار نہیں رکھتا بلکہ اس کا دل اَللہُ بس ماسوی اللہ ہوس کی آماجگاہ ہوتا ہے، پسپائی و رسوائی کا سبب اور کوئی نہیں لیکن یہ ہے کہ ہم نے اپنے کردار، گفتار، علم و عمل، ظاہر و باطن میں فقرِ شبیری کی بجائے روایتی ترش و شیرینی کی علمیت اور ملائیت کو اختیار کر لیا ہے-بقول عارفِ لاہوری :
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند |
’’واعظ لوگ جب محراب و منبر پر جلوہ فرما ہوتے ہیں، وہاں جو باتیں کرتے ہیں، خلوت میں جاکر ان کے برخلاف کام کرتے ہیں، میری ایک مشکل ہے، محفل کے دانشمند سے ایک دفعہ پھر پوچھ کر بتائیں کہ جو لوگ توبہ کرنے کا فرماتے ہیں وہ خود توبہ کیوں نہیں کرتے‘‘-
حضرت سلطان باھوؒ نے اپنے ابیات میں اسی حقیقت کو واضح کیا ہے کہ وہ تمام علماء جو لشکرِ باطل لشکرِ یزید میں تھے ان کے کسبِ علم کا انہیں کا کچھ فائدہ نہیں ہونا کہ وہ علم انہیں بچا نہیں سکا بلکہ ان کی ہلاکت کا سبب بن گیا- ایسوں کا علم زمین پر فساد بپا کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا- بقول اقبال :
دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد |
اس لئے فساد اور تشدد کی راہ کو ترک کر کے علمائے حق کی راہ کو یعنی امن و استقامت کو اختیار کرنا چاہئے - علامہ اقبال نصیحت کرتے ہیں کہ ’’روم را در آتشِ تبریز سوز‘‘ کہ جب تک روم کو تبریز کی آگ میں پگھلایا نہیں جاتا بدی پہ اکسانے والے نفس کو زیر نہیں کیا جا سکتا- امام مالک کا قول ہے کہ:
’’جس نے تصوف (تزکیہ) سیکھا اور فقہ چھوڑ دی وہ گمراہ ہوا اور جس نے فقہ سیکھی مگر تصوف (تزکیہ) حاصل نہ کر سکا وہ فسق (و فساد) میں مبتلا ہوا جبکہ جس نے دونوں (یعنی فقہ و تصوف کو) جمع کر لیا وہ صاحبِ تحقیق ہو گیا ‘‘-
امام مالکؒ کے قول کا اقبالیاتی ترجمہ کہ ’’روم و تبریز‘‘ کو جمع کر لیا جائے تو مسائل حل ہو جاتے ہیں -فی زمانہ اُمت کو ایسے ہی علماء کی ضرورت ہے جو علمِ ظاہر اور علمِ باطن کا حسین امتزاج رکھتے ہیں،یہی انبیاء (علیھم السلام) کے حقیقی وارث ہیں- کیونکہ انبیاء (علیھم السلام) کی وراثت میں دونوں علوم پائے جاتے ہیں اور یہی علمائے ربانیین ہیں جو اُمت کیلئے سرا سر خیر کا سر چشمہ ہیں-جن کا سوچناخیر، جن کا دیکھنا خیر، جن کا لکھنا خیر، جن کا پڑھنا خیر،جن کا پڑھانا خیر اور جن کا بولنا خیر پر مبنی ہوتا ہے-
حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
”ہر عالم کے پاس مت بیٹھو، سوائے اس عالم کے جو تمہیں پانچ چیزوں سے پانچ چیزوں کی طرف بلائے، شک سے یقین کی طرف، دشمنی سے خیر خواہی کی طرف، تکبر سے تواضع کی طرف، ریاکاری سے اخلاص کی طرف اور دنیا کی رغبت سے ،بے رغبتی کی طرف“-
یہ علماء خیر سے ہی ممکن ہو سکتا ہے -ا
٭٭٭