حضور نبی کریم (ﷺ) کو اللہ عزوجل نے نبوت و رسالت کا آخری پیغمبر بناکر مبعوث فرمایا- آپ (ﷺ)پر نبوت کا اتمام ہوا- تو دین ِمحمدی (ﷺ) کے اتمام کی ایک نئی جہت متعین ہوگئی- رسالت ونبوت کے آخری درخشندہ ستارے نے عظیم فریضہ نبوت کے باب کو مقفل (بند) فرما دیا-ختم نبوت کے ابدی فیضان نے فقر محمدی(ﷺ)کے باب کو قیامت تک طالبین و سالکین کے لئے کشادہ فرما دیا- فقر ِ حقیقی کے اس منہج میں اعلیٰ انسانی اخلاق، اقدار، حکمت، آداب ، معاشرت ،الہامی و قرآنی اصول وضوابط پر عمل واضح اور نمایاں پہلو کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے دورخلافت میں ملتِ اسلامیہ اگرچہ مختلف چیلنجز سےنبردآزما ہوتی رہی-مگر نبوت و رسالت کے تعلق، نسبت اور فراست باطنیہ نے دینی، مذہبی، سیاسی، سماجی و معاشرتی استحکام کوقابلِ قدر فروغ دیا جس کے نظائر ہمیں صحابہ کرام اور اہلِ بیت نبوت (رضی اللہ عنھم) کی بے مثال ولازوال قربانیوں سے ملتے ہیں جبکہ ملوکیت میں جب مادیت اور عیش پسندی نے زور پکڑا تو عالم اسلام میں روحانی اقدار اور عقائد بتدریج زوال پذیر ہوئے اورجس فکر سےفتنہ و فساد نےجنم لیا جس کے نتیجے میں مذہب اور سماج کو جدا کرکے فرقہ پسندی اور طبقائی گروہ بندی میں منقسم کردیا -خاندان اہلِ بیت قرآن مجید اور سنت مبارکہ کے عملی پیکر اور سراسر وحدت کے علمبردار تھے اور ہیں- اس کی وجہ یہ ہے کہ امام عالی مقام سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو نبوت کے ازلی فیض سےفقر بطورِ ورثہ ملا جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْن ‘‘[1]
’’حسین ؓ مجھ سے ہے اور مَیں حسینؓ سے ہوں‘‘-
امام عالی مقام سیدناحضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا علو مرتبت ایک جہت سے نسبت محمدی (ﷺ) سے ہے تو دوسری طرف اولادِ مرتضٰی و نور نظر سیدہ زہرا سلام اللہ علیھا ہے- فقرِ شبیری فی الحقیقت فقرِ محمدی (ﷺ)کا تسلسل ہے-شہادت عظمیٰ کے ساتھ ہی ظہور فقر کی پہلی کرن نوک سنان پر تلاوتِ قرآن پاک آپؓ ہی کی انفرادیت ہے -
کیا عظمت ہے اس ہستی کی جن پہ آکر سب اصول و قانون اور ضابطے ٹھہر جاتے ہیں- آپؓ ایسے امتیازی اوصاف و کمالات سے نوازے جاتے ہیں کہ دنیا ورطہ حیرت میں چلی جاتی ہے کہ بیٹا تو باپ دادا کی اولاد قرار پاتا ہے مگر نواسہ نانا جان سے کیسے منسوب ہوا- تو قرآن کریم نے اس بات کو یوں ذکر فرمایا کہ اگر بات نور کے ظہور کی ہو یا فقر کے اتمام کی تو وہاں معاملہ مخلوق کی بجائے خالق کی طرف سے تائید اور تصدیق سے جا ملتا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْقف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ‘‘[2]
’’آپ ان سے فرما دیں کہ آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ڈالیں ‘‘-
وہ نفوس قدسیہ جن کا انتخاب قرآن کریم و سنت مبارکہ سے نمایاں ہے ان کے بارے میں حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ:
’’اَنْفُسَنَا‘‘سے مراد رسول اللہ(ﷺ)اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) ہیں اور ’’ اَبْنَآءَنَا ‘‘ سے مراد حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) ہیں اور ’’نِسَآءَنَا‘‘سے مراد حضرت فاطمۃ الزہرہ (رضی اللہ عنہا) ہیں ‘‘-[3]
حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں:
’’جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی تو رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی اور حضرت فاطمۃ الزہرہ اور امام حسن اور امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو بُلایا اور فرمایا: اے اللہ! یہ سب میرے اہل ہیں ‘‘-[4]
گویا کہ حضرت امام عالی مقامؓ کو قرآن کریم نے ’’اَبْنَآءَنَا‘‘ کے ضمن میں فرزند رسول (ﷺ) پکارا ہے-حقیقت تو یہ ہے کہ پنجتن پاک سے جڑی نسبت نور نبوت کی لڑی میں پروئی ہوئی تسبیح کے وہ دانے ہیں جو ہر کسی کا نصیبہ نہیں ہوتے نور ازلی کا فیض اور فیضان انہی کی ذوات قدسیہ سے منسلک نظر آتا ہے -
والدین کا انتخاب ہو چاہے اسماء کی تجویز:
خاص نفوس قدسیہ محض حسن اتفاق ہی نہیں بلکہ حسن انتخاب ہوا کرتے ہیں- جیسا کہ امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) کا ظہور فرما ہونا مقصود ٹھہرا تو آپ کے والدین کا انتخاب بھی خالق لم یزل نے فرمایا اور اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو حکم فرمایا- جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول پاک (ﷺ) نے فرمایا :
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکمِ خاص فرمایا ہے کہ میں فاطمۃ الزہرہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح علی (رضی اللہ عنہ) سے کروں ‘‘-[5]
حضرات ِ حسنین کریمین کے نام حسنِ انتخاب :
روایات میں جھانکنے سے واضح ہوتا ہے کہ فقرِ شبیری محض اتفاقی نہیں بلکہ تخلیقِ روح سے ظہورِ بدن تک کا سارا سفر حسن انتخاب سے طے ہوتا ہے- ولادت کے ساتھ ہی جنتی جوانوں کی سرداری کا شرف بھی بخش دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی شہادتِ عظمیٰ جیسی نعمت کی بشارت بھی عطاء کردی گئی - حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
’’جب حسن (رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو ان کا نام حمزہ رکھا اور جب حسین (رضی اللہ عنہ)کی ولادت ہوئی تو ان کا نام اپنے چچا کے نام پہ جعفر رکھا- پس مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے طلب فرمایا اور فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان دونوں کے نام تبدیل کروں تو میں نے عرض کی ’’اللہ و رسولہ اعلم‘‘تو آپ (ﷺ) نے دونوں کے نام حسن اور حسین (رضی اللہ عنہ) رکھے ‘‘-[6]
یاد رہے بچپن میں جنتی جوانوں کے سردار ہونے کی بشارت بھی فقرِ شبیری کا وہی تسلسل ہے جسے آپ کی ولادت سے پہلے والدین کا انتخاب اور ولادت کے ساتھ نام مبارک کا انتخاب اور شہادت سے 50 برس قبل شہادت کی خبر اور قیامت کے برپا ہونے اور دخول جنت سے ہزاروں برس پہلے جنتی جوانوں کی سرداری کا یہ عظیم مژدہ بھی دولتِ فقر اور فیضان ِفقر کے ظہور کی وہی حقیقت ہے جسے ’’حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْن‘‘ میں واضح کیا گیا -
حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
حسن اور حسین (رضی اللہ عنہ) جنتی جوانوں کے سردار ہیں-[7]
’’حسین منی‘‘ اور ’’الفقر منی‘‘:
’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں- اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے ‘‘-[8]
الغرض! امام عالی مقام سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) میں وہ تمام خوبیاں حسن وجمال موجود ہیں جو آقا کریم (ﷺ) میں تھی- آقا کریم (ﷺ) کے فضائل و کمالات کا ظہور امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) کے وجود مبارک سے ہو رہا ہے- ہر دور میں عشاقانِ مصطفٰے(ﷺ)اور محبانِ اہلِ بیت نے محبت و مؤدت نواسہ رسول (ﷺ) جگر گوشہ بتول (رضی اللہ عنہا) سے علم و حکمت، ورع وتقوٰی عشق و معرفت کے ساتھ ساتھ حمیت و غیرت اور شجاعت و بہادری اور بالخصوص فقر و عرفان کی وہ دولت پائی جس کی مثال نہیں ملتی-
صوفیاء کرام نے اسی مشن پر اپنی کاوش جاری رکھی اور عشقِ مصطفٰے (ﷺ) سے لبریز فکر کو بطور تلقین طالبانِ مولیٰ اور سالکین کے سینوں میں منتقل کرتے رہے -
علامہ محمد اقبال اس فکر کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ہر کہ عشقِ مصطفٰے سامان اوست |
جس کے پاس عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کا سامان موجود ہو کائنات کی ہر خشک و تر چیز سمٹ کر اس کے دامان میں آجاتی ہے -
دورِ حاضر میں فقرِ شبیری سے نسبت کے تقاضوں کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ہم پہ لازم آتا ہے کہ ہم گفتار کے غازی بننے کی بجائے رسم شبیری کو ادا کرنے کیلیے ’’میں‘‘ اور ’’انا‘‘ کا خول اتار کر دو رکعت کی امامت کی بجائے قوموں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیں – اقبال کے بقول اُمت کو ’’فی سبیل اللہ فساد‘‘کی بھول بھلیّوں میں بھٹکنے کی بجائے ’’فقر کی نگہبانی‘‘ کرنی چاہئے -آپؓ کو محض مظلوم بنا کر پیش کرنے کی بجائے آپؓ کی جرأت و بہادری، ہمت و حوصلہ، صبر و استقلال، غیرت و حمیت، دشمن کے مدِمقابل ڈٹ جانا، نہ جھکنا نہ بِکنا اور آپؓ کی استقامت کو اپنا کر معاشرے میں ایک عملی نمونہ قائم کریں- فقرِ شبیری در اصل فقرِ محمدی (ﷺ) کے جلال و جمال کا آئینہ دار ہے جس میں قرآن وسنت، منشاءِ خداوندی، رضائے الٰہی اور مزاجِ دینِ مصطفوی (ﷺ) کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے- فقرِ شبیری جمود و تعطل اور تشدّد و تفرقہ سے بیزار کرکے جہدوتحرک اور صلح و یگانگت کا درس دیتا ہے– فقرِ شبیری ؛فتنہ و فساد کا دافع اور امن و آشتی کا داعی ہے، دشنام طرازی و زبان درازی کا قاطع اور اخلاق و آداب کا باغبان ہے -
’’پس چہ باید کرد‘‘ میں علامہ اقبال فقر کا نصاب یوں بیان کرتے ہیں :
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا است |
اُسوۂ شبیری کو اپناتے ہوئے متشدد ملائیت کی جگہ میدان عمل میں اتر کر فقر و عرفان کے علم کو تھام کر دور حاضر کی یزیدیت کےناپاک عزائم کا قلع قمع کریں- اکیونکہ شبیر و یزید دو افکار کا نام ہے دل کی زندگی اور روح کی بیداری کا نام فکر حسین ہے جس کے مد مقابل فکر یزید ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
’’آدمی کے وجود میں نفس یزید کی مثل ہے اور روح بایزید کی مثل ہے، اگر صاحب ِ روح خدا تعالیٰ کے ساتھ مشغول رہے اور اپنے ہاتھ میں تصورِ اسم اﷲ ذات و تصورِ کلمہ طیبات ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کی تلوار ہاتھ میں پکڑے رہے تو گویا وہ رات دن شداد و نمرود و قارون و فرعون و ہامان علیہم اللعنت جیسے کفار کو قتل کر رہاہے- لیکن اِس کے برعکس اگر وجود کے اندر نفس ِ یزید زندہ اور دل مردہ ہے اور خدائے تعالیٰ سے غافل ہے اور اُس نے غفلت کی تلوار ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے تو گویا وہ پیغمبروں کو قتل کر رہا ہے-اہل ِ نفس ِیزید اور اہل ِروحِ بایزیدکا آپس میں کوئی جوڑ نہیں،تُوخود اِن میں سے کون ہے اہل ِ بایزید یااہل ِیزید؟ [9]
فکرِ حسین اپنے پیروکار سےجن چیزوں کا تقاضا کرتی نظر آتی ہے ان میں خاص کر غیرت ہے کہ حسینی کٹ تو سکتا ہے مگر باطل کے سامنے جھک نہیں سکتا- جس مقام پرحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ فرماتے ہیں:
شاہ ست حسین بادشاہ ست حسین |
اس کی ترجمانی علامہ محمد اقبال یوں کرتے نظر آتے ہیں:
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی |
حق کی خاطر جان لٹانے کا جذبہ اور زبان پہ حق گوئی و بے باکی محض زبانی جمع خرچ، تعصب و حسد و انتہا پسندی کی آگ میں جل کر کوئلہ ہونے سے نہیں بلکہ طریق تربیتِ کامل اور فیضانِ نظر سے عطا ہوتی ہے- جو بندے کو اعزاز و امتیازات سے نواز رہی ہوتی ہے جو گود سے گور تک چاہیے ہوتی ہے جس کی لازوال مثال تربیت شبیری سے ملتی ہے-
٭٭٭
[1](سنن الترمذی، باب مناقب الحسن و الحسین)
[2]( آل عمران : 61)
[3](قاضی الشوكانی، محمد بن علی تفسیر فتح القدیر ،زیر آیت آلِ عمران:61)
[4]( سنن الترمذی ، جلد : 5 ، ص :225)
[5]( المعجم الکبیر للطبرانی ، باب من مناقب ابن مسعود)
[6]( مسند احمد ، مسند علی بن ابی طالب)
(المستدرک علی الصحیحین ، الباب حدیث سالم بن عبید النخعی)
[7]( سنن الترمذی، باب مناقب الحسن و الحسین)
[8](ایضاً)
[9]( کلید التوحید کلاں ، شرح ازل و ابد و کل مخلوقات درجات بہ درجات)