مستشرقین اور واقعہ کربلا کا سیاسی تجزیہ

مستشرقین اور واقعہ کربلا کا سیاسی تجزیہ

مستشرقین اور واقعہ کربلا کا سیاسی تجزیہ

مصنف: وسیم فارابی جولائی 2024

مستشرقیت (Orientalism) 18 ویں اور 19 ویں صدی کا مغربی(Western) علمی و تحقیقی نظام تھا جس میں ایشیائی معاشروں بالخصوص مشرقِ وسطیٰ(Middle East) اور برِ صغیر کے زبان ، ادب ، مذہب ، فلسفہ ، تاریخ، آرٹ اور قوانین کا مغربی محققین کی طرف سےمطالعہ کیا گیا-ان محققین کو آج مستشرقین/استشراقی مفکرین (Orientalists Scholars) کا نام دیا جاتا ہے- اس تحقیق میں یورپ کے کئی ملکوں سے محققین نے حصہ لیا جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نام بہت نمایاں ہیں- موجودہ مفکرین کے مطابق، ان کی اس تحقیق کا مقصد مشرقی معاشروں کے طور طریقوں کو سمجھ کر ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا تھا جسکی بہترین مثال یورپی نوآبادیاتی نظام ہے جس میں یورپی ممالک نے نہ صرف ایشیاء بلکہ افریقہ اور امریکہ کی قوموں پر غاصبانہ قبضہ جمایا اور ان قوموں پر طرح طرح کے ظلم ڈھا کر ان کے وسائل کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا-

حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں مسلمانوں میں ایک تو عقیدت کا پہلو پایا جاتا ہے اور دوسرا تاریخ میں نقطہ نظر کے اختلاف کاپہلو پایا جاتا ہے - استشراقی مفکرین کو پہلے نقطہ نظر سے تو غرض اتنی نہیں ہے البتہ فرقہ وارانہ پہلو پہ مسلم دنیا کے مطالعے میں اس واقعہ کو کئی جگہ بیان کرتے ہیں- ان میں سے اکثر نے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کے سیاسی تدبر کو بہت سراہا ہے خاص کر ان کی اپنے نظریے پہ یہاں تک استقامت کہ سب کچھ قربان کر دیا مگر پیچھے نہیں ہٹے، اس پہلو سے غیر مسلم ہو کر بھی مستشرقین آپ کے بہت معترف ہیں – ان کی سبھی آراء تو اس مختصر مضمون میں شامل نہ کی جا سکیں گی اس لئے مختصر مطالعہ ہی ہوگا-

اکثریت مستشرقین کی رائے کے مطابق حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) حق پر تھے اور انہوں نے آپ کے ساتھ کیے گئے ظلم کی شدید مذمت بھی کی-

ماربِن: (Marbin)

ماربِن جرمنی کے استشرقی ماہر تھے - وہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’حسین بن علی(رضی اللہ عنہ)، محمد (ﷺ) کے نواسے، جو آپ (ﷺ) کی پیاری بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے پیدا ہوئے تھے، وہ واحد شخص ہیں جو غیر منصف اور ظالم حکومت کے خلاف کھڑے رہے- وہ اخلاقیات اور خصوصیات جو عرب میں پسند کی جاتی تھیں اور احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ، وہ علیؓ کے بیٹے میں دیکھی گئی تھیں-حسینؓ کو اپنے والد سے ہمت اور بہادری وراثت میں ملی تھی، انہیں اسلام کے احکام اور اصولوں پر مکمل عبور حاصل تھا ، وہ اپنی فراخدلی اور سخاوت میں بے مثال تھے ، وہ تقریر اور کلام کرنے میں عظیم تھے اور انہوں نے اپنے بیانات سے ہر جگہ مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا -حسین کی خوبیوں پر بہت سی کتابیں مسلمانوں کی طرف سے لکھی گئی ہیں اور ان کے اچھے کاموں کے بارے میں بات کی گئی ہے - جس مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ حسین پہلے سیاست دان تھے جنہوں نے ایک مؤثر سیاسی پالیسی اختیار کی تھی - اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں اسلام سے پہلے کی تاریخ پر توجہ دینی چاہیے - بنو امیہ اور بنی ہاشم دو قبیلے تھے جن کا ایک دوسرے سے تعلق تھا، کیونکہ امیہ اور ہاشم عبد مناف کے بیٹے تھے اور اسلام سے پہلے ان کے درمیان دشمنی تھی- وہ اکثر ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے - دولت اور قیادت کے لحاظ سے بنو امیہ اور عُلوم اور روحانیت کے لحاظ سے بنو ہاشم مشہور تھے- اسلام کے آغاز میں بنو ہاشم اور بنو امیہ کی رنجش اس وقت بڑھ گئی جب محمد(ﷺ)نے مکہ فتح کر لیا اور اس طرح بنو ہاشم کو برتری حاصل ہو گئی اور بنو امیہ کو بنو ہاشم کی اطاعت کرنی پڑی - اور(کربلا میں) انہوں (بنو امیہ) نے بنو ہاشم سے بدلہ لینے کی کوشش کی ‘‘- [1]

کَرٹ فِشلر :(Kurt Frischler)

کِرٹ فِشلر جرمنی استشراقی ماہر تھے جنہوں نے ’’Hussain (RA) and Iran‘‘ کے نام سے اپنی کتاب میں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی زندگی کے حالات اور کربلا کے واقعہ پر بات کی ہے- ان کے نزدیک، حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کا عظیم قربانی کا فیصلہ کسی جلد بازی کا نتیجہ تھا نہ ہی یکدم بے سوچے سمجھے تھا اور نہ ہی یہ ان کے وہم کا نتیجہ تھا- وہ اس عظیم قربانی کیلئے اس لیے پُر عزم تھے تاکہ وہ اپنے عقائد اور بلند نظریات کے خلاف کام کرنے پر مجبور نہ ہوں- [2]

اینے مَری شِمل : (Annemarie Schimmel)

اینے مَری شِمل جرمنی سے تعلق رکھنے والی استشراقی ماہر تھیں جنہوں نے اسلام بالخصوس تصوف پر بہت کچھ لکھا ہے- وہ ایک مقام پر لکھتی ہیں :

’’(یزید کی) ظالمانہ حکومت کے خلاف حسین کی جدوجہد کو مذہبی تحریروں، ادب اور لوگوں کے مذہبی عقیدوں میں عوام کی آزادی اور (ظالم) حکمرانوں کے ہاتھوں سے رہائی کی خواہش کا اظہار قرار دیا گیا ہے - جسے بعد کے دور میں غیر ملکی نوآبادیاتی حکومتوں کے مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں دیکھا گیا ہے‘‘-

وہ اپنی کتاب Mystical Dimensions of Islam میں یزید کو مسلمانوں کی لعنت کے لائق بھی سمجھتی ہیں اور اسے کربلا کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں -

’’دوسرا اموی حکمران جو 680ء میں کربلا کے واقعہ کا ذمہ دار تھا ، جس میں نبی (ﷺ) کے نواسے کو ان کے خاندان کے افراد کے ساتھ شہید کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے ، اس کا نام تمام سچے مسلمانوں کے لیے لعنت کا موضوع بن گیا ‘‘-

روبرٹ ڈیورے اوسبرن (Robert Durey Osborn):

روبرٹ ڈیورے اوسبرن ایک برطانوی فوجی افسر تھے جو برِ صغیر میں پیدا ہوئے اور یہیں وفات پائی- وہ اپنی کتاب ’’Islam Under the Arabs‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’پیاس سے نڈھال اور زخموں سے چور حسینؓ اپنے کئی مخالفین کو مارتے ہوئے، انتہائی ہمت کے ساتھ لڑے- آخرکار ان پر پیچھے سے وار کیا گیا اور اسی لمحے ان کی پیٹھ کی طرف ایک بھالا پھینکا گیا اور انہیں زمین پر پھینک دیا گیا -جب اس آخری وار کرنے والے نے اپنا ہتھیار کھینچ لیا تو علی کا بیٹا (نیچے پڑی) ایک لاش پر جا گرا- ان کے سر کو دھڑ سے کاٹ دیا گیا تھا اور دھڑ کو فاتح گھوڑوں کے سُموں کے نیچے پامال کیا گیا اور اگلی صبح زندہ بچ جانے والی خواتین اور ایک ننھے بچے کو کوفہ لے جایا گیا- حسینؓ اور اس کے پیروکاروں کی لاشیں اس جگہ پر بغیر دفن کیے چھوڑ دی گئیں جہاں وہ گرے تھے‘‘- [3]

وہ واقعہ کربلا پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بڑی تقسیم اب مکمل ہو چکی تھی- شہیدوں کا خون ایک نئی تحریک کا بیج بن گیا- اسلام کے بدن کو ایسے بکھیر دیا گیا جو پھر کبھی متحد نہیں ہوا اور ’’قتل شدہ حسین‘‘ اب انتقام کا ایک چوکیدار لفظ تھا جس نے بار بار (اموی) خلفاء کی حکومتوں کو خون سے بھر دیا اور بالآخر انہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا‘‘- [4]

ایڈورڈ گِبن (Edward Gibbon):

ایڈورڈ گِبن ایک برطانوی تاریخ دان تھا جو کہ اپنی مشہور کتاب’’The History of the Decline and Fall of the Roman Empire‘‘ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں- وہ اپنی کتاب میں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کو یوں بیان کرتے ہیں:

’’بے غیرت شمر، ایک ایسا نام جس سے مسلمان نفرت کرتے ہیں، نے محمد (ﷺ) کے نواسے کو بھالے اور تلواروں کے 33 واروں سے قتل کر دیا - جب انہوں نے اُن کے جسم کو پامال کر لیا تو ان کا سر لے کر کوفے کے قلعے میں گئے اور ظالم عبید اللہ نے ان کے منہ پر لاٹھی سے مارا- تو ایک ایک بوڑھے مسلمان نے کہا! افسوس! میں نے ان ہونٹوں پر اللہ کے رسول (ﷺ) کے ہونٹ دیکھے ہیں! صدیوں تک حسینؓ کی موت کا المناک منظر بے رحم اور سفاک لوگوں میں بھی رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرے گا‘‘-[5]

رینالڈ الین نکلسن (R A Nicholson):

رینالڈ الین نکلسن برطانوی استشراقی ماہر تھے جو کہ اسلامی ادب، تصوف اور بالخصوص مولانا رومی پر اپنی ماہریت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے- ان کی دوسری مشہوری کی وجہ یہ ہے کہ وہ علامہ اقبال کے فلسفے کے استاد تھے- لیکن وہ اس جدو جہد میں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کو حق بجانب مانتے ہیں- وہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی شہادت سے متعلق لکھتے ہیں:

’’غیر مساوی جدوجہد جلد ہی ختم ہو گئی- حسین ایک تیر سے شہید ہو گیا اور اس کے بہادر پیروکار اس کے بغل میں آخری آدمی تک لڑتے ہوئے کاٹ دیئے گئے-اسلامی روایت، جو غیر معمولی امتیاز کے علاوہ اموی خاندان کے خلاف یکساں طور پر مخالف ہے، حسینؓ کو شہید اور یزید کو اس کا قاتل مانتی ہے‘‘- [6]

حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی جدوجہد پر اپنی رائے دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’مسلمانوں کے نزدیک یہ سوال(کہ کیا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی یزید کے خلاف جدوجہد صحیح تھی یا نہیں) بنو امیہ کے اسلام سے تعلق سے طے ہوتا ہے- (یزید) اسلام کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا اور اس کے نظریات کی مخالفت کرنے والاتھا تو وہ ظالم کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تھا اور ظالم ہونے کی وجہ سے اُسے ان مسلمانوں کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں تھا جو ان کے غاصب اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے- جب ہم تاریخ کے اس نام نہاد فیصلے کا جائزہ لیتے ہیں تو اسے مذہب کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے یعنی کہ عرب سامراج پر اسلام کی مذہبی فکر کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے-اس بنیاد پر یزید کی مذمت کرنا بالکل منصفانہ عمل ہے- لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کی نظر میں کلیسا (یعنی دین) اور ریاست کے درمیان فرق موجود نہیں ہے - یزید ایک بُرا چرچ مین(مذہبی پیشوا) تھا- لہٰذا وہ ایک ظالم تھا‘‘-[7]

سائمن اوکلے(Simon Ockley):

سائمن اوکلے ایک برطانوی استشراقی ماہر تھے جنہوں نے اسلامی تاریخ پر ایک کتاب ’’The History of Saracens‘‘ کے نام سے لکھی- وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں:

’’ اگر(یزیدی علماءکی) ایک مخصوص تعداد نے حسینؓ کے خلاف فتوی دیا ، تو بھی انہیں حسینؓ کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں تھا، بلکہ انہیں حسینؓ کی تین تجاویز میں سے ایک کو قبول کرنا چاہیے تھا- ‘‘-[8]

اس کے بعد سائمن اوکلے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت کے بارے میں لکھتا ہے:

’’اب یقیناً ہر مسلمان کو ان کی موت کے افسوسناک حادثے پر فکر مند ہونا چاہئے (خدا انہیں قبول کرے) کیونکہ وہ مسلمانوں کے سرداروں میں سے ایک سردار تھے ، معاشرے کے عالموں میں سے ایک عالم تھے، اللہ کے رسول(ﷺ) کی بلند رتبہ بیٹی کے بیٹے تھے اور اس کے علاوہ ، وہ متقی، بہادر اور مہربان تھے‘‘- [9]

حرفِ آخر:

اس مطالعہ کے دوران ایک دلچسپ امر یہ سامنے آیا ہے کہ وہ نو آبادیاتی مغربی مصنفین جو کہ کسی نہ کسی اسلامی علاقے میں مغربی نو آبادیات کے اعلیٰ عہدوں پہ فائز تھے، اُن میں سے کچھ نے تو تائید کی اور کچھ نے مخالفت میں لکھا ہے-

 مثال کے طور پہ ’’سر ولئیم مائر‘‘ جوکہ سکاٹش برطانوی تھا اور ہندوستان کے صوبوں میں گورنر وغیرہ بھی رہا - ایسے مخالفینِ حسین کا مقدمہ سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں قابض نو آبادیاتی حکومت کا افسر یا گورنر ہوتے ہوئے یہ خوف بہر حال لاحق رہتا تھا کہ حسین کی داستانِ شجاعت و حریت میں ایسا اثر ہے کہ اگر ہند کے مسلمانوں نے اس حریت نامہ کربلا کو اپنا رہنما اصول مان لیا تو برطانوی راج کے خلاف بغاوت بپا ہو سکتی ہے -

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں استشراقی مفکرین کی رائے پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ استشراقی مفکرین، باوجود اس کے کہ ان کو اسلام اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے کوئی قلبی لگاؤ نہیں تھا، ان کی اکثریت کے نزدیک حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)حق پر تھے اور جو ان کے ساتھ کربلا میں ہوا وہ ظلم تھا- اگر کسی نے آپؓ کی سیاسی مہم جوئی کی مخالفت کی بھی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یزید کی غیر اسلامی و غیر اخلاقی حرکتوں پر بھی کڑی تنقید کی ہے جو کسی بھی طرح اسلامی اقدار کا پاسدار یا محافظ ثابت نہیں ہوتا- انہوں نے سانحۂ کربلا کے عالمِ اسلام پر دور رس نتائج کو بھی بیان کیا ہے-

مستشرقین کے ماہرین کی تحقیق پڑھ کر صحیح یا غلط سے ماورا ہو کر جو بات مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ جس طرح مغرب نے ایک ٹیم تشکیل دی، جنہوں نے اسلامی تاریخ پر ایک ادارے کی سطح پر اسلام مخالف سوچ پر مبنی تحقیق کی، مسلمانوں میں بھی ایک ادارے کی سطح پہ ٹیم ہونی چاہئے، جو تاریخ اسلام پر اُٹھائے گئے اعتراضات کے تسلی بخش جواب دے-انفرادی طور پر تو یقیناً کام ہے لیکن ایک ادارے کی سطح پر ایک ٹیم کی صورت میں کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے-تاکہ نوجوان نسل کو اسلام پر کئے گئے اعتراضات کے منطقی جواب دے کر اسلام کا محافظ بنایا جا سکے-

 اسلام میں قوانین سازی کا بنیادی ذریعہ قرآن کریم ہے اور اس کے بعد احادیثِ نبوی (ﷺ) ہیں- اسلام میں ریاست کے قوانین احادیث کی بنیاد پر فقہاء نے اخذ کیے ہیں جبکہ اہلِ بیت (رضی اللہ عنھم) کی محبت قرآن کی نص سے مسلمانوں پر واجب ہے اور احادیث میں بھی اس طرح کے واضح احکامات موجود ہیں-

٭٭٭


[1]Analysis and criticism of the researches of German orientalists about the Ashura movement of Imam Hussein (peace be upon him) by Bagher Riahimehr. https://jcis.ut.ac.ir/article_96677.html

[2]I.b.i.d.

[3]Islam under the Arabs by Robert Durey Osborn, p:126

[4]I.b.id., p:127

[5]The decline and fall of Roman Empire by Edward Gibbon, p:2178-2179

[6]A literary history of Arabs, p:197

[7]I.b.i.d.

[8]History of Saracens by Simon Ockley, p:494-495

[9]I.b.id., p:495

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر