سیدنا حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) : نظریہ توحید کے پیامبر

سیدنا حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) : نظریہ توحید کے پیامبر

سیدنا حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) : نظریہ توحید کے پیامبر

مصنف: میاں محمد ضیاء الدین جولائی 2024

اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی توفیقِ خاص سے جب آدمی مُسلمان ہوتا ہے، توحید و رسالت کا اقرار کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ایک طرف تو یہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور اس کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی ہے اور دوسری طرف مَعبودان باطلہ کے باطل ہونے کا اقرار ہے اور ساتھ باطل اور باطل پرست نظریات سے برسرپیکار ہونے کا اعلان بھی ہے -

در اصل یہی وہ آزادی ہے جو اللہ  تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکنے سے بے نیاز کر دیتی ہے- علامہ اقبال نے ’’رموز بے خودی‘‘  میں ’’درمعنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا‘‘ کے نام سے جو کر بلا کا عنوان باندھا ہے اس کاآغاز ہی اسی فکر سے کیا ہے، لکھتے ہیں :

ہر کہ پیماں با هو الموجود بست
گردنش از بند ہر معبود رست

جس شخص نے بھی زنده و جاوید خدا تعالیٰ سے عبودیت کا رشتہ استوار کر لیا - یقیناً اُس کی گردن ہر معبودِ باطل کی بندش سے آزاد ہو گئی اور وہ ظالم و جابر آقاؤں کی خدائی کیلئے قیامت ثابت ہوا -

علامہ اقبال کا کربلا کے عنوان کو ایسے فکر انگیز شعر سے آغاز کرنا،دراصل یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکیم الامت واقعہ کربلا کےحوالے سے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں -یہ بہت ہی اہم بات ہے -

ناچیز کا مشاہدہ (observation) یہ ہے کہ نباض قوم علامہ اقبال واقعہ کربلا میں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو نظریہ توحید کے پیامبر کے طور پر دیکھتے ہیں ،جو اللہ  تعالیٰ کی زمین پر اللہ کے قانون کی بالادستی کو دیکھنا چاہتے تھے اور شریعتِ محمدی (ﷺ) سے ٹکر انے والی کسی بھی ظالم و جابر قوت کو تسلیم نہیں کرتے تھے -

یہ بات تو اظہرمن الشمس ہے کہ نظریہ توحید کے ابلاغ کیلئے ہر معبودِ باطل چاہئے وہ پتھر کی مورتی کی صورت میں ہو یا گوشت و پوست اور ہڈیوں کے مجموعے کی شکل میں ہویا کسی کے ذہنی اور تصوراتی تخیلات کی صورت میں ہو اُس کے غلبے سے آزاد ہونا ضروری ہے - اس کے بغیر نظریہ توحید کا ابلاغ ممکن نہیں کیونکہ حق بات کہنے کے لئے آدمی کا ذہنی اور فکری طور پر آزاد ہونا شرط ہے - آزادی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور یہ انسان کا بنیادی حق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے -

انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف عطا کیا جانا، زمین میں موجود تمام اشیاء کا انسان کیلئے بنایا جانا، زمین و آسمان کی اشیاء کو انسان کیلئے مسخر کیا جانا ، انسان کو عزت و تکریم والا بنایا جانا ، یہ سب قرآنی شہادتیں انسان کی آزادی پر دلالت کرتی ہیں-جہان میں انسان کو کائنات کے سربراہ کی حیثیت سے بھیجا گیا ہے لیکن اس کی سربراہی اور آزادی کو ایک غلامی کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے یعنی انسان کی حقیقی آزادی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اُس کی سچی غلامی سے شروع ہوتی ہے کہ جب بندے کے دل و دماغ میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلی کا تصور جانگزیں ہو جاتا ہے تو وہ ہرباطل قوت کے خوف و ڈر سے آزاد ہو جاتا ہے پھر وہ کسی ظالم و جابر کو خاطر میں نہیں لاتا -

مرد حر کی حریت نعمتِ خدا داد

 علامہ اقبال ’’ پس چہ باید کرد ‘‘ میں لکھتے ہیں :

مرد حر از لاالہ روشن ضمیر
می نہ گردد بندہ سلطان و میر

’’مرد حر لاالہ سے روشن ضمیر ہے ، وہ کسی بادشاہ اور امیر کا غلام نہیں ہوتا ‘‘-

مرد حُر اپنی روشن ضمیری کی وجہ سے ہرآنے والے فتنے کو جو ہمدردی اور خیرخواہی کے روپ میں وارد ہوتا ہے، اُسے بھانپ لیتا ہے اور اہل ایمان کو اُس کے دام فریب میں آنے سے بچا لیتاہے- اُمت کو ایسے بھیڑیوں سے بچانے کیلئے مرد حر کی رہنمائی کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی- بھلا جو خود نفسانی خواہشات کے بندھنوں کا اسیر ہو،جو خواہشاتِ نفس کے ہاتھوں کھلونے کی سی حیثیت رکھتا ہو ،وہ دین اور عزت کا محافظ بن سکتا ہے نہ اُمت کی باگ ڈور اُس کے حوالے کی جا سکتی ہے -اِسی تناظر میں حکیمُ الامت نے فرمایا ہے :

بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

اس آب و گل کے جہان میں فتنوں کو مردانِ حر کی آنکھ سے ہی پہچانا جا سکتا ہے اور ان سے بچا جا سکتا ہے اور مرد حر ہی قوم کی رہنمائی کرسکتا ہے -

اُمت کی دستگیری کرنے والے کیلئے نصاب یہ ہے کہ وہ بارگاہِ مصطفٰے(ﷺ) کا تربیت یافتہ ہو اور مرد حر بنتا ہی بارگاہِ مصطفٰے(ﷺ) سے ہے - علامہ اقبال ’’پس چہ باید کرد‘‘ میں لکھتے ہیں :

ما کلیسا دوست، ما مسجد فروش
او ز دست مصطفی پیمانه نوش

’’ہم کلیسا کے دوست اور مسجد فروش ہیں، جبکہ وہ (مردحر) حضور نبی کریم (ﷺ)کے دست مبارک سے شرابِ (الست) پیتا ہے ‘‘-

مرد حر محکم ز وِرد ’’لاتخف‘‘
ما بہ میدان سر بجیب او سر بکف

’’مرد حر لا تخف کے وِرد سے قوی ہے ، ہم تو میدان میں سرجھکائے آتے ہیں ،لیکن وہ موت سے بے خوف سر ہتھیلی پر رکھے نکلتا ہے ‘‘-

پای خود را آن چنان محکم نہد
نبض ره از سوزِ او بر می جہد

’’وہ اپنا پاؤں اس مضبوطی سے رکھتا ہے کہ اِس کی گرمی سے راستے کی نبض تیزی سے چلنے لگتی ہے ‘‘-

دارد اندر سینه تکبیر امم
در جبین اوست تقدیر امم

’’اُس کے سینے کے اندر قوموں کی عظمت اور سربلندی ہے اور اُس کی پیشانی پر اقوام کی تقدیر لکھی ہے ‘‘-

علامہ اقبال ’’رموز بے خودی‘‘میں لکھتے ہیں :

آں امام عاشقاں پور بتول
سرو آزادے ز بستانِ رسول

’’وہ عاشقوں کے امام و پیشوا حضور سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزھرہ (رضی اللہ عنہا)کے فرزند ارجمند جنھیں رسول اللہ (ﷺ)کے باغ میں سرو آزاد کی حیثیت حاصل تھی‘‘-

عشق را آرام جان حریت است
ناقه اش را ساربان حریت است

’’عشق کیلئے حریت (آزادی) آرام ،سکون اور راحت کا باعث ہے اور اس کے ناقے(اونٹنی) کی ساربان حریت (آزادی) ہے ‘‘-

علامہ اقبال ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں فرماتے ہیں :

در نوای زندگی سوز از حسین
اہل حق حریت آموز از حسین

’’حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے نوائے زندگی میں سوز پیدا ہوا اور اہلِ حق نے آپ سے حریّت (آزادی) کا سبق سیکھا ‘‘-

’’سرو آزادے‘‘  کی گہرائی میں اگر جایا جائے کہ وہ کن اوصاف سے متصف ہوتا ہے، کس شان کا مالک ہوتا ہے اور وہ اپنے ارادوں اور فکر میں کتنی طاقت رکھتا ہے تو حکیم الامت نے’’ رموز بے خودی‘‘ میں اس کی ترجمانی کچھ ان الفاظ میں کی ہے :

درمیانِ اُمت آں کیواں جناب
ہمچو حرفِ قُل ھُوَ اللہ در کتاب

’’حضرت امام عالی مقام کو اُمت میں وہی حیثیت حاصل ہے جو سورۃ اخلاص کی حیثیت قرآن مجید میں ہے ‘‘-

پھر اسی رموز بے خودی میں علامہ آگے چل کر سورۃ اخلاص کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’آب و تاب از سورۃ اخلاص گیر ‘‘

’’سورۃ اخلاص سے چمک اور تابش حاصل کر ‘‘-

علامہ کیا سمجھانا چاہتے ہیں کہ سورۃ اخلاص سے آب و تاب حاصل کر ، اس آب و تاب سے علامہ کی کیا مراد ہے؟ در اصل علامہ سورۃ اخلاص کو مرد حر کا نصاب قرار دیتے ہیں اور ’’آب و تاب از سورۃ اخلاص گیر‘‘ سے علامہ کی مراد یہ ہے کہ سُورۃ اخلاص میں بیان کی گئیں صفاتِ باری تعالیٰ سے متصف ہونا لازمی ہے -کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک آدمی کثرت سے وحدت کی طرف نہیں آئے گا یعنی اپنی سوچ میں، اپنی فکر میں، اپنے خاندان سے، اپنی معاشرت سے حتی کہ ہر ایک چیز سے منقطع ہو کر فکری اور ذہنی طور پراپنے باطن میں اُس واحد ذات کے ساتھ اس کی بندگی اور غلامی میں واحد نہیں ہو جاتا، تو وہ مرد حر نہیں بن سکتااور نہ وہ کسی وقت کے یزید اور فرعون کو للکار سکتا ہے -

علامہ اقبال سورۃ اخلاص کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں :

رنگ او بر کن مثال او شوی
در جهان عکس جمال او شوی

’’تم بھی اُسی(خدا) کا رنگ پیدا کرو ، یعنی اُسی کی صفات سے متصف ہو جاؤ ،اُسی کا آئینہ بن جاؤ گے اور جہان میں اُسی کے عکس جمال کا آئینہ دار ہو جاؤ گے ‘‘-

آنکہ نام تو مسلماں کردہ است
از دوئی سوئے یکی آوردہ است

’’جس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے وہ تجھے کثرت سے وحدت کی طرف لایا ہے ، یعنی یہ تمہارے لئے پیغام ہے کہ وہ تجھے کثرت سے وحدت کی طرف لانا چاہتا ہے- تاکہ تم خالص اُسی کے بندے بن جاؤ اور اس کے دین کے ابلاغ کا سبب بن سکو ‘‘-

گر به الله الصمد دل بسته ‌ای
از حد اسباب بیرون جسته ‌ای

اگر تو نے خدائے بے نیاز سے دل وابستہ کر لیا ہے- تو سمجھ لینا چاہئے کہ تو اسباب کے دائر ے سے نکل گیا ہے- اس لئے کہ خدا کا بندہ(کسی صورت میں بھی) اسباب کا بندہ نہیں ہو سکتا -اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آدمی اللہ تعالیٰ کی صفت بے نیازی اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے ، تو اسباب خود بندے کے غلام بن جاتے ہیں -

مسلم استی بی نیاز از غیر شو
اهل عالم را سراپا خیر شو

’’اگر تو مسلمان ہے تو خدا کے سوا ہر شئے سے بے نیاز ہو جا یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت بے نیازی سے متصف ہو جا اور دنیا کے لئے خیر و برکت کا سر چشمہ بن جا‘‘-

رشتهٔ ئی با لم یکن باید قوی
تا تو در اقوام بے همتا شوی

’’خدا کی اس صفت سے رشتہ مستحکم کر لینا چاہئے جو لم یکن لہ کفوا احد میں بیان ہوئی ہے - یعنی اس کے برابر کوئی نہیں- جب یہ رشتہ مستحکم ہو جائے گا تو دنیا کی قوموں میں بے مثال بن جائے گا‘‘-

آنکه ذاتش واحد است و لاشریک
بنده اش هم در نہ سازد با شریک

’’وہ پاک ذات ہے جو اکیلی ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں، اس کا بندہ بھی کوئی شریک ( یعنی باطل کا مدمقابل ہونا )گوارا نہیں کر سکتا‘‘-

مؤمن بالای هر بالا تری
غیرتِ او برنتابد هم سری

’’مومن ہر بلندتر سے بلند ہے - اس کی غیرت کسی ہمسر (یعنی باطل مدمقابل) کو برداشت نہیں کر سکتی‘‘-

خرقهٔ ’’لا تحزنوا‘‘ اندر برش
’’انتم الاعلون‘‘ تاجے بر سرش

’’وہ لا تحزنوا(یعنی غم نہ کھاؤ)  کا خرقہ پہنے ہوتا ہے یعنی اسے کسی چیز کا غم نہیں ہوتا اور انتم الاعلون (یعنی تم ہی غالب آؤ گے) کا تاج اس کے سر پر ہوتا ہے‘‘-

در فضای این جهان های و هو
نغمه پیدا نیست جز تکبیر او

’’ہائے وہو کے اس جہان کی فضا میں مومن کی تکبیر کے سوا کوئی نغمہ پیدا نہیں ہو سکتا ‘‘-

در گره صد شعله دارد اخگرش
زندگی گیرد کمال از جوهرش

’’اس کے انگارے کی گرہ میں سینکڑوں شعلے ہیں اور زندگی کو اسی کے جوہر سے درجہ کمال حاصل ہوتا ہے‘‘-

علامہ  اقبال’’ پس چہ باید کرد‘‘میں لکھتے ہیں:

مردے آزادے چو آید در سجود
در طوافش گرم رو چرخ کبود

’’جب کوئی آزاد مرد سجدے میں گرتا ہے تو یہ نیلا آسمان اس کے طواف میں گرم ہو جاتا ہے ‘‘-

در نداری خونِ گرم اندر بدن
سجدہ تو نیست جز رسم کہن

’’اور اگر تواپنے جسم میں خون گرم نہیں رکھتا تو پھر تیرا سجدہ محض ایک پرانی رسم کے اور کچھ نہیں ‘‘-

 

میراثِ مسلمانی کیا ہے؟

مسلمان قوم کی میراث دراصل سرمایہ شبیری ہے اور سرمایہ شبیری یہ ہے پہلے خود کو اللہ کیلئے خالص کر لینا بعد ازاں نظریہ توحید کے ابلاغ کیلئے خود کو میدان کار زار میں اتار دینا تاکہ اللہ  تعالیٰ کی زمین پر اللہ  تعالیٰ کے قانون کی بالادستی ہو جائے -  پھر ساری زندگی اُسی کی ترجمانی و محافظت کرتے رہنا ، اسی کیلئے لڑنا اسی کیلئے جینا، یہی حسینیت ہے اور یہ یہی سرمایہ شبیری ہے- علامہ اقبال حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی حقانیت و صداقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

مدعایش سلطنت بودی اگر
خود نہ کردی با چنین سامانِ سفر

’’اگر ان کا مقصود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے ساز و سامان کے ساتھ سفر اختیار نہ کرتے‘‘-

تیغ بہر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس

’’تلوار صرف عزتِ دین کے لیے ہےاس کا مقصد صرف شریعت کی حفاظت ہے‘‘-

 علامہ اقبال اسرار خودی میں لکھتے ہیں :

بہر حق در خاک و خون غلتیدہ است
پس بنائے لا الہ گردیدہ است

’’سید نا حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) حق کی خاطر خاک و خون میں لوٹے اس لیے وہ لاالہ کی بنیاد بن گئے‘‘-

تیغِ لا چون از میان بیرون کشید
از رگ ارباب باطل خون کشید

’’جب آپ نے ’’لا‘‘ کی تلوار میان سے باہر نکالی تو اہلِ باطل کی رگوں سے خون نچوڑ لیا‘‘-

نقش الا اللہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت

’’انہوں نے صحرا کی سرزمین پر ’’الا اللہ‘‘ کا نقش رقم کیا؛ اور ان کی لکھی ہوئی سطر ہماری نجات کا عنوان بنی‘‘-

یہی وجہ تھی حضور نبی کریم (ﷺ)نے انہیں دین مبین کی قوت قرار دیا ہے علامہ اسرار خودی میں لکھتے ہیں :

قوت دین مبین فرمودہ اش
کائنات آئین پذیر از دودہ اش

’’حضور  نبی اکرم (ﷺ) نے انہیں دین مبین کی قوّت فرمایا ہے ان کے خاندان سے کائنات کو قانون ملا ہے‘‘-

یہی قوت و آئین سرمایہ شبیری ہے اور مسلمان قوم کی میراث ہے - اسی کی حفاظت کرنا ہمارے اوپر لازم ہے-

خلاصہ کلام :

 حضرت علامہ اقبال ’’پس چہ باید کرد‘‘میں لکھتے ہیں :

آنکه زیر تیغ گوید لا اله
آنکه از خونش بروید لا اله

’’(ایسا مسلمان چاہئے) جو تلوار کے نیچے بھی لا الہ کہے ، جس کے خون سے لا الہ کی فصل اُگے ‘‘-

یعنی ایسے مرد مومن کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے اور رہے گی کیونکہ ایسا ہی مرد حر نظریہ توحید کا پیامبر ہوتا ہے-

علامہ اقبال ’’زبورعجم ‘‘میں لکھتے ہیں :

ریگ عراق منتظر، کشت حجاز تشنه کام
خون حسین باز ده کوفه و شام خویش را

’’عراق کی ریت انتظار کر رہی ہے اور حجاز (مکہ و مدینہ ) کے کھیت پیاسے ہیں، کوفہ و شام کو پھر سے خون ِ حسین کی ضرورت ہے، یعنی حق کی آواز بلند کرنے والے کی ضرورت ہے ‘‘-

علامہ کہتے ہیں کہ واقعۂ کربلا کے بعد یہ قانون بنا دیا گیا ہے کہ کھیت کو خون حسین سے سینچے بغیر کھیت سے حاصل نہیں لے سکتے - علامہ ارمغان حجاز میں لکھتے ہیں :

از آن کشت خرابی حاصلی نیست
که آب از خون شبیری ندارد

’’اس ویران کھیت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جس کو خون شبیر سے نہ سینچا گیا ہو ‘‘-

آئیے! صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب کے قافلے کا سنگ بنئے تاکہ اپنے ایمان و ایقان کے کھیتوں کو خون شبیر سے سینچنے کا سلیقہ سیکھئے اور وقت کے فرعونوں اور یزیدوں کے سامنے حرفِ کلیمی اور حرفِ حسینی کے انداز میں بات کرنا سیکھئے اور دورِ حاضر کے فتنوں کی شناخت پا کر ان سے بچنا سیکھئے- کیونکہ اگر فتنے لباسِ رہزن میں آتے تو پہچان آسان ہوتی ، لیکن فتنہ ہمیشہ خیر خواہی اور ہمدردی کے روپ میں آتا ہے، اِس لئے اِس کو پہچاننا ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہے-اس لئے ان فتنوں سے بچنے کیلئے ’’کونوا مع الصادقین‘‘ کا حکم دیا گیا ہے- تاکہ حق اور باطل میں تمیز کرنے کے قابل ہو جائیں-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر