نواسہ رسول(ﷺ) شانہ رسول(ﷺ) پر

نواسہ رسول(ﷺ) شانہ رسول(ﷺ) پر

نواسہ رسول(ﷺ) شانہ رسول(ﷺ) پر

مصنف: محمد ذیشان دانش جولائی 2024

انسان کا ظاہری وجود اپنے تخلیقی مراحل میں تھا ، جب اللہ  تعالیٰ نے عظمتِ انسان کا اعلان کیا -اس حکم کے عام ہونے پر دو فکروں نے جنم لیا ایک تسلیم و رضا کی فکر تھی، دوسری بغاوت و سرکشی کی-اول الذکر کو ’’فکرِ جبرائیل ‘‘ کہتے ہیں جو عزت کی پوشاک پہنے ، اخلاص سے آراستہ ، محبت کی خوشبو سے دھل کر اپنے مالک و خالق کے حکم کی بجا آوری کے لئے تیار ہوئی اور وجود انسان میں ’’من روحی‘‘ کے امر کی منتظر ہوگئی کہ کب مالک حکم دے اور ہم اپنی اطاعتوں کے پھول نچھاور کریں - دوسری فکر ’’فکرِ ابلیس‘‘ کہلائی، جو غضب کا چولا پہن کر ، حسد کی بھٹی میں پکتے ہوئے غرور اور تکبر سے مالک کے سامنے کھڑی ہو گئی اور برملا اعلان کروانے لگی کہ میں تیرے بنائے ہوئے انسان کو گمراہ کروں گی- اس وقت سے چلا یہ سلسلہ آج تک قائم و دائم ہے بس اس فکر کے نام بدلتے رہے  اور ان دونوں افکار کے نمائندے دنیا پر اپنے حصے کا کام کر تے رہے- جوں جوں وقت گزرتا گیا فکر جبرائیل کے نمائندگان کا امتحان سخت سے سخت ہونے لگا، یہ دونوں افکار کبھی ہابیل و قابیل کی صورت میں سامنے آئے تو کبھی ابراہیمؑ و نمرود کو ان کا نمائندہ دیکھا گیا، موسیؑ و فرعون نے اس فکر کو آگے بڑھایا اور پھر آقا دوجہاں حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ)  کے سامنے ابو جہل آیا جو ابلیس کی مانند اپنے علم و حکمت پر مغرور تھا -گو کہ حق و باطل کے اس ازلی معرکہ میں سلسلۂ حق کا سفر جاری رہا لیکن ہر پڑاؤ پر حق کے نمائندگان کا نام و عزم پوری قوت سے جھلکتا رہا - لیکن 61 ھ میں نواسۂ نبی آخری الزمان (ﷺ) امام عالی مقام حضرت ا مام حسین (رضی اللہ عنہ) نے وہ داستان رقم کی، کہ حق و باطل کے لئے استعمال کی جانے والی ’’اصطلاحات کا سفر‘‘ اب ’’حسینیت ‘‘ اور ’’یزیدیّت‘‘ پر اختتام پذیر ہوا- فکر جبرائیل کا ہر نمائندہ تا قیامت اب آپؓ کی نسبت سے ’’ حسینی‘‘ کہلائے گا اور باطل کا پیروکار ’’یزیدی‘‘- امام عالی مقام حضرت حسین ابن علی (رضی اللہ عنہما) کی پیدائش سے قبل ہی آپؓ کی پیدائش کی بشارت دے دی گئی – آپؓ نے ِرسالت (ﷺ) کی گود میں تقریباً 6 برس اور کچھ ماہ کا عرصہ گزارا، لیکن اس مختصر عرصہ میں تاجدار کائنات (ﷺ)  نے آپؓ کی کیا ہی شان بیان کی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے- آپؓ پیدا ہوں تو آقاِ دو جہان (ﷺ)  آپ کے کان میں اذان و اقامت پڑھیں، اپنے لعاب مبارک کی گھٹی دیں ، آپؓ کے لبوں کو چومیں ، آپؓ سے دل بستگی کریں ، آپؓ روئیں تو رحمت اللعالمین(ﷺ) کو تکلیف پہنچے ، آپؓ خوش ہوں تو آقاپاک(ﷺ) کا چہرہ مبارک متبسم ہو جائے، آپؓ کو آغوشِ رسالت (ﷺ)  میں دیکھا گیا ، منبر پر خطبہ دیتے زانو ِ رسالت(ﷺ)  پر آپ موجود، دوران نماز پشتِ رسالت (ﷺ) پر آپؓ  کی موجودگی کے باعث حضور (ﷺ) سجدہ طویل کردیں تاکہ حسنین کریمین (رضی اللہ عنہما) کی خواہش پوری ہو - سینہ رسالت (ﷺ) پر آپؓ نظر آئیں، شانۂ رسالت  (ﷺ) پر آپؓ سوار ہوں- حدیث کساء میں آپؓ کا ذکر ملے،  مباہلہ میں آپؓ، جنت کے سرداروں میں آپؓ، جنت سے آپؓ دونوں بھائیوں کے جوڑے سل کر آئیں ،’’حسین منی و انا من الحسین ‘‘ کا تاج آپؓ کے پاس- الغرض! کہ سوچ کو معراج و بلندی حاصل نہیں زبان گنگ ہے، ہاتھ لکھنے سے قاصر ہیں، قلم کانپ جاتا ہے کہ کیسے آپؓ کی شان کو اس کے مطابق بیان کیا جائے کہ جو شان آپؓ سمیت اہل بیت  اطہار (رضی اللہ عنہم) کی ہے-

 حضرت سلطان باھو(رحمۃ اللہ علیہ) اپنے پنجابی کلام میں اہل بیت کو ایسے ہدیۂ عقیدت پیش کرتے ہیں:

پَنجے مَحل پَنجاں وِچ چَانن  ڈِیوا کِت وَل دَھرئیے ھو

پَنجے مَہر پَنجے پَٹواری حاصِل کِت وَل بھَرئیے ھو

پَنجے اِمام تے پَنجے قِبلے سَجدہ کِت وَل کرئیے ھو

باھوؒ جے صَاحب سر مَنگے ہَرگِز ڈِھل نہ کرئیے ھو


آپؓ نوجوانانِ جنت کے سرداران میں سے ایک ہیں جبکہ دوسری شخصیت امام حسن مجتبی (رضی اللہ عنہ) آپؓ کے بڑے بھائی ہیں- یہ بات سب خوب جانتے ہیں کہ سردار کی ذمہ داری اپنے قبیلے کی دیکھ بھال اور نشوونما کرنا ہے وہ اپنے قبیلے کا محافظ اور رہنما ہوتا ہے تو جنت میں مسلمانوں کو دیکھنے کی خواہش اور اپنے نانا کے دین کی حفاظت کی غرض سے آپؓ نے یزید ناپاک کی حکومت کے خلاف ’’قیام ‘‘کیا- یہاں ایک بات کرتا چلوں کہ کبھی اپنے ذہن میں لاشعور کے نہاں خانوں میں بھی اس بات کا شائبہ تک نہ آنے دینا کہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے خروج کیا، کربلا کا جہاد قیام تھا، غاصبیت کے خلاف، کفر کے خلاف، تاریکی کے خلاف، منافقت اور فسق کے خلاف ، یہ دو شہزادوں کی نہیں دو سوچوں کی جنگ تھی، یہاں مسئلہ صرف حکومت کا نہیں تھا بلکہ اسلام کی زندگی کا تھا، جس کی آبیاری امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) نے اپنے، اپنے گھر والوں اور ساتھیوں کے خون سے کی اور ایسی کی اب تا قیامت اسے زوال نہیں ہو گا -بقولِ اقبالؒ:

مدعایش سلطنت بودی اگرخود نہ کردی با چنین سامان سفر


سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ)  کا مقصد یہ نہیں تھا کہ خود سلطنت حاصل کریں- اگر وہ سلطنت کے خواہاں ہوتے تو اتنے تھوڑے ساتھیوں اور معمولی سامان کے ساتھ کیوں مکّہ معظمہ سے کوفہ کی طرف جاتے ؟

آپؓ نے کربلا کو آباد کیا، اپنے قافلے کے ساتھ جو چند نفوسِ قدسیہ پر مشتمل تھا جن میں چھ ماہ کے حضرت علی اصغر (رضی اللہ عنہ) سے لے کر سن رسیدہ حبیب ابن مظاہر(رضی اللہ عنہ) اور خاندان نبوت(ﷺ)کی باپردہ و باعصمت خواتین شامل تھیں- چند دنوں کے لئے بسائی گئی اس بستی نے فکرِ انسانی اور تاریخ کے دھارے کو بدل دیا-تاریخ گواہ ہے کہ کربلا کا معرکہ ایک قافلے اور ایک لشکر کے مابین ہوا، آج چند لوگ امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ)  کی اسلام کی خاطر، حق و سچ کی خاطر دی ہوئی لازوال قربانی کو ملوکیت پرستی میں انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ شہزادوں کی جنگ بتانے کی کوشش کرتے ہیں-ان کے دامِ فریب میں مت آئیے گا اور یہ سوچ لیجیئے گا کہ حکومت کے حصول کی جنگ کے سپاہی چھ ماہ کے نہیں ہوتے-

 کربلا عشق کی بستی ہے، کربلا حریت کی وادی ہے ، کربلا استقلال کا پیغام ہے، کربلا جبر و ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی وجہ ہے، کربلا وفا کی درسگاہ ہے ، کربلا شجاعت کا رستہ ہے ، کربلا شوقِ شہادت کا مدرسہ ہے ، کربلا عزم کا عنوان ہے، کربلا عمل کا درس ہے ، کربلا تقوٰی کی اعلیٰ مثال ہے، کربلا رہنما ہے ، کربلا صبر کی اذان ہے ، کربلا تسلیم کا آستان ہے، کربلا اک مکمل جہان ہے جو تا قیامت صاحبان ِ فکر کے لئے حیرت اور رہنمائی کے دفتر ہا دفتر فراہم کر سکتا ہے - ایک ایک شہید کربلا کی داستان عزم و حریت کی چٹان ہے اور ان سب کے سرخیل امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) ہیں - صوفیاء نے امام ِ عالی مقام (رضی اللہ عنہ)  کو ایسے خراج عقیدت پیش کیا کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے دربار پر ان کے اپنے عرس کب منعقد ہوتے ہیں زیادہ تر لوگ یہی جانتے ہیں کہ یکم محرم سے دس محرم کے درمیان صوفیاء کے عرس ہوتے ہیں- ایسی سینکڑوں خانقاہیں ہیں جہاں زائرین یکم محرم سے دس محرم کے تک عرس کی تقریب میں شرکت کے لئے آتے ہیں کیونکہ صوفیاء نے امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) کی فکر کو زندہ رکھنے کے لئے محرم کے دس دن آپؓ اور آپؓ کے رفقاء کے نام کی محافل سجائیں تاکہ آپؓ کی عظیم قربانی اور فکر سے عوام روشناس ہو سکیں- اس داستان حرم، جس کی ابتداء حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور انتہا حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) ہیں کے بیان کو صوفیاء نے اپنا شعار بنائے رکھا اور اس عظیم عمل کو اتنی محبت سے کیا کہ ان کی شناخت ہی ’’حسینیت‘‘ بن گئی -

امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ)کی ذات مبارکہ استعارہ عشق ہے- کربلا عشق کی وہ داستان ہے کہ اس کے بعد کوئی کربلا برپا ہو نہیں سکتی - بقول اقبال :

صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق،

صبر حُسینؓ بھی ہے عشق،

حضرت ابراہم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے بھڑکتی آگ کے الاؤ کو سامنے دیکھ کر بھی استقامت و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اس میں جلنے کو تیار ہو گئے جسے گل و گلزار بنا دیا گیا لیکن کربلا کے تپتی ریت پر اپنے 70 سے زائد رفقاء جن میں خاندان کے 22 افراد جن میں جوان سال فرزند جو مشابہہ رسول(ﷺ) بھی ہو کو باری باری اپنی آنکھوں کے سامنے راہ خدا میں قربان کر دینا واقعی انتہاء عشق ہے –

سچّا عِشق حسینؑ علیؑ دا باھوؒ سِر دیوے رَاز نہ بھنّے ھو

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر