گ:گودڑیاں وچ جال جنہاں دی اوہ راتیں جاگن اَدھیاں ھو
سِک ماہی دی ٹِکن نہ دیندی لوک انھے دیندے بَدیاں ھو
اندر میرا حَق تَپایا اساں کھَلیاں راتیں کڈھیاں ھو
تَن تھیں مَاس جُدا ہویا باھوؒ سوکھ جھلارے ہڈیاں ھو
Those who dwell in rags, they observe midnight vigil Hoo
Passion of beloved wouldn’t give respite blind people rebut Hoo
My inner is heated by Haqq and we remain standing in night vigil Hoo
Ones flesh leaves the body Bahoo when skinny bones are staggering Hoo
‘Gud’Riya’N wich jal jinha’N di oah ratai’N jagan adhiya’N Hoo
Sik mahi di ‘Tikkan nah daindi lok anhay dainday badiya’N Hoo
Andar mera ‘Haq tapaya asa’N khalya ratai’N ka’Dhiya’N Hoo
Tan thi’N mas juda hoya Bahoo sokh jhalaray ha’Diya’N Hoo
تشریح :
1:جو لوگ گودڑی پوش(صوفی اور فقیر) ہوتے ہیں یعنی جن کا گذر اوقات اور انحصارِ زندگی اپنے محبوبِ حقیقی کی یاد پر ہوتا ہے وہ آدھی آدھی رات جاگ کر یعنی سحر گاہی اُس کی یاد میں گزار تے ہیں -اُن کا یہی وصف قرآن یوں بیان کرتا ہے :
’’اور اُن کے پہلو جدا ہوتے ہیں خواب گاہوں سے اور وہ اپنے ربّ کو پکارتے ہیں ڈرتے ہوئے اور اُمید کرتے ہوئے‘‘-(السجدہ:16)
وہ دراصل اللہ کے حبیب مکرم (ﷺ) کی اس سُنت کو ادا کررہے ہوتے ہیں جس کے بارے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے چادر میں لپٹنے والے ! رات کو قیام کیا کرو مگر کبھی کبھی آدھی رات یا اِس سے کچھ کم یا زیادہ کرلیا کر و‘‘-(المزمل :1-3)
2: عاشقانِ الٰہی تو اللہ عزوجل کے عشق ومحبت میں ہرچیز سے بے نیاز ہوکر اس کی طلب میں سرگرداں چلتے رہتے ہیں اوررات دن ایک ہی فکر میں رہتے ہیں کہ ہمار امالک و خالق ہم سے راضی ہوجائے لیکن اس راز کو بیگانے نہیں جانتے جس کی وجہ سے وہ انہیں طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ وہ انہیں دیوانے لگتے ہیں اور حقیقت میں وہ ہیں ہی دیوانے-جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ عزوجل کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں‘‘-(مسند احمد)
حضرت سُلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں :
’’ واصلانِ حق تو سوتے جاگتے ہر حال میں خوش رہتے ہیں، یہ بے خبر لوگ بھلا اِن مستوں کے حالات کو کیا جانیں؟‘‘(عین الفقر)
3: اسم اللہ ذات کے مشاہدے سے تجلیات ِنور کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جس سے طالب اللہ کا قلب و قالب سر سے لے کر قدم تک نور ہی نور بن جاتا ہے اور اسم اللہ ذات کی تپش اُسے دن رات جلائے رکھتی ہے جس طرح کہ آگ خشک لکڑیوں کو جلاتی ہے اور یہ آگ سرد نہیں ہوتی سوائے اس محبوبِ حقیقی کے درشن کے ، اس کے شوق وصال کی شدت میں ساری ساری رات قیام میں گزار دیتے ہیں -
4: اُس کے ہجر و فراق اور اُس کے حصول کی مشقت نے انتہائی لاغر اور نحیف کر دیا ہے، حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
’’جب ذکر ِخفیہ کیا جاتا ہے تو ذاکر کے وجود کا سارا گوشت ریزہ ریزہ ہو کر جدا ہو جاتا ہے - اِس طرح کے ذکر ِجہر اور ذکر ِخفیہ سے آنکھوں سے خون جاری ہو جاتا ہے - مصنف کہتا ہے کہ اِس فقیر کی والدہ محترمہ اِسی طرح کا ذکر ِخفیہ کیا کرتی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے خون جاری رہا کرتا تھا - ایسے ذاکر کو حضور الحق فقیر کہتے ہیں- جس ذاکر کا ذکر ِجہر و ذکر ِخفیہ اِس معیار کا نہیں اُسے ذاکر و ذکر ِحقیقی نہیں کہا جاسکتا- (محک الفقرکلاں)
آپؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
’’ مجھ پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا جسے چنگاری کے شعلہ نے جلا کر راکھ کر دیا -اب مَیں بہت خوش ہوں کہ اُس پردے کی راکھ کے پاس بیٹھا ہوں‘‘-(محک الفقرکلاں)