واقفِ رمزِ جلی، اے حضرت باہو سخی جو بھی ذوق و شوق سے پڑھ لے تیرے افکار کو ہم پہ بھی ہو منکشف یہ رمزِ ھُو کیا چیز ہے میری نسلیں عارفوں کے فیض سے لبریز ہوں معرفت کی فقر کی اور علم و عرفاں کی یہاں تیری تُربت ! تیرے کُوچے تیرے مئے خانے کی خیر یہ مرا رنگِ عقیدت، یہ مری ادنیٰ فغاں میرے جیسے کتنے دیوانے یہاں موجود ہیں لے کے آنکھوں میں نمی، اے حضرتِ باہو سخی اسم اللہ نقش ہو، لوحِ جبیں پُرنور ہو جامیؔ تیری بارگاہِ خاص میں موجود ہے |
٭٭٭