نفس کے لغوی معنی کی بحث کرتے ہوئے علامہ سیّد مرتضٰی زبیدی )المتوفی 1205ء(لکھتے ہیں کہ:
’’نفس روح کو بھی کہتے ہیں، کسی شے کی حقیقت کو بھی نفس کہتے ہیں- سانس کو بھی نفس کہتے ہیں جبکہ جسم اور روح کے مجموعے کو بھی نفس کہا گیا ہے- قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کیلئے بھی نفس کا لفظ استعمال فرمایا ہے‘‘-
لیکن جب ہم تزکیہ نفس یا اصلاحِ نفس کی بات کرتے ہیں تو اس نفس سے اصطلاح میں مراد ایک ایسی غیر مادی شے ہے جس میں خیر اور شر کی قابلیت موجود ہے- دوسری ہر قوت کی طرح اس کا استعمال اسے خیر یا شر بنا دیتا ہے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاهَا فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰهَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَاوَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ‘‘[1]
’’اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا-پھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی-بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا-اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چُھپایا‘‘-
جب انسان نفس کو انسانیت کی بلند اقدار، ان کے تحفظ اور استحکام کے لیے عمل میں لاتا ہے تو یہ خیر کا موجب ہوجاتا ہے اور جب انسان اپنی ناجائز خواہشات کے لیے نفس کو عمل میں لاتا ہے تو موجبِ زیاں بنتا ہے- صوفیاء کرام نے نفس کی چار حالتیں یا اقسام بیان کی ہیں- جس کی مختصر وضاحت درج ذیل ہے:
1- نفس امارہ:
یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیوی رغبتوں کی طرف کھینچ کر لے جانے والا نفس ہے- فواحش اور مُنکرات، لذات و شہوات اور جملہ بد کاریوں کی طرف بھی یہی نفس راغب کرتا ہے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ النَّفْسَ الاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ‘‘[2]
’’بے شک نفس یقیناً برائی کا بڑی شدت سے حکم دینے والا ہے‘‘-
2- نفس لوامہ :
اس مقام پر دل میں نور پیدا ہو جاتا ہےجو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے-جب نفس لوامہ کا حامل انسان گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے- اسی وجہ سےاسے لوامہ (سخت ملامت کرنے والا) کہتے ہیں - قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس نفس کی قسم کھائی ہے-
’’وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ‘‘[3]
’’اور میں نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں‘‘-
نفس لوامہ کی صفات میں حلال کی رغبت، لوگوں کے لیے نفع بخش، دوسروں کا بوجھ اٹھانا، لغویات سے گریز اور پسندیدہ اخلاق شامل ہیں- بُری صفات جیساکہ مکر و فریب، ہوا و ہوس، خودبینی و خود پسندی، تکبر، اعتراض، قہر و جبر اور خواہشات نفسانی شامل نہیں-
3- نفس ملہمہ:
یہ دل میں نیکی اور اطاعت کے خیالات ڈالتا ہے-یعنی الہام کرتا ہے- اسی نیک الہام کے عمل کے باعث ملہمہ کہتے ہیں-نفس ملہمہ کی نمایاں صفات قناعت، سخاوت ، علم، تواضع و انکساری، توبہ، صبر،تحمل، برداشت ، معمولی رزائل مثال میں بڑےگناہوں اور خرابیوں کی صورت میں نظر آتے ہیں-
4- نفس مطمئنہ :
نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے- جو بری خصلتوں سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے- نیک اور پاکیزہ فضائل سے متصف ہو جاتا ہے- اور بارگاہ الٰہی سے اپنا ربط و تعلق قائم کرکے حالت اطمینان پر فائز ہو جاتا ہے- اسی وجہ سےاسے نفس مطمئنہ کہتے ہیں -قرآن مجید میں اس نفس کو یوں خطاب فرمایا ہے:
’’یٰٓاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُارْجِعِیْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘‘[4]
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ‘‘-
حضرت سخی سلطان باھوؒ ’’عین الفقر‘‘ میں ان نفس کی چار حالتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’دائرہ شریعت میں آدمی کا نفس امّارہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ تمہارا دشمن ہے اِسے ماردو- الہٰی! مجھے بصارت دے کہ مَیں اِسے دیکھوں اور قتل کروں- دائرۂ طریقت میں نفس لوّامہ ہوتا ہے، اُس کی لذّات اور چاہت کو پامال کر کے آگے بڑھ جاؤ- دائرۂ حقیقت میں نفس ملہمہ ہوتا ہے، اُسے عشق و ذکر اللہ کی آگ میں موم کر دے حتیٰ کہ یہ مرنے سے پہلے مر جائے - دائرۂ معرفت میں نفس مطمئنہ ہوتا ہے جو حقیقی طور پر مطیع ، با اخلاص، موحدِ خاص الخاص، محرمِ اسرارِ محمد رسول (ﷺ) اور غیر ماسویٰ اللہ سے بیزار ہوتا ہے اور ہمیشہ استغفار کرتا رہتا ہے:’’الٰہی! ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں‘‘-
حضرت سُلطان باھوؒ نے اپنی تصانیف مبارکہ میں کثرت سے نفس کے اوصاف اور صفات کا ذکر کیا ہے - راقم نے آپؒ کی 28تصانیف مبارکہ سے استفادہ کیا ہے، جن پر تحقیق و ترجمہ سیّد امیر خان نیازی صاحب یا کے بی نسیم صاحب نے کیا ہے -
آپؒ کی ان 28 تصانیف مبارکہ میں سے 7 تصانیف مبارکہ کلیدالتوحيد كلاں، عین الفقر، امیر الکونین، محک الفقر کلاں، محبت الاسرار ، جامع الاسرار ، عين العارفين شامل ہیں- جن میں آپؒ نے نفس کے احوال و اوصاف کو بیان کرنے کے لیے با قاعدہ باب باندھا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے :
v کلید التوحید کلاں، ایڈیشن: چہارم، مترجم: سید امیر خان نیازی سروری قادری،اشاعت: جنوری 2015ء،باب: احوالِ معرفتِ وصال، فناءِ نفس، زند گیٔ قلب و بقاءِ روح صفحہ نمبر: 374سے 551-
v عین الفقر،ایڈیشن:39،مترجم: سید امیر خان نیازی سروری قادری،اشاعت: اکتوبر2019ء، باب: تجلیات و تحقیقاتِ مقاماتِ نفس و شیطان و غیر ماسوی اللہ، صفحہ نمبر: 88 سے 105-باب: در ذکرِ مخالفتِ نفس، کشتن وزیر کردن نفس بعونِ اللہ تعالیٰ (باب چہارم)،صفحہ نمبر: 128سے 169-
v امیر الْکَونینْ،ایڈیشن:اوّل،مترجم: سید امیر خان نیازی سروری قادری،اشاعت: اگست2010ء،باب : راہزنِ باطن نفس و شیطان،صفحہ نمبر: 148سے 167-
v محک الفقر (کلاں)،ایڈیشن: سوم ،مترجم : سید امیر خان نیازی سروری قادری،اشاعت:اکتوبر2011ء، باب اوّل: شرح ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ ‘‘صفحہ نمبر : 198 سے 204،باب دوم : شرحِ نفس،صفحہ نمبر : 204 سے 224-
v محبت الاسرار، مترجم : ڈاکٹر کے بی نسیم،باب: نفس امارہ کی مخالفت ،صفحہ نمبر :101 سے103-
v جامع الاسرار،مترجم : ڈاکٹر کے بی نسیم ،باب سوم: ذکر نفس، روح، شیطان اور دنیا کے بارے میں، صفحہ نمبر: 113 سے 121 -
v عین العارفین،مترجم : ڈاکٹر کے بی نسیم،باب اول: ذکر حق سے نفسانی خواہشات دور ہو جاتی ہیں،صفحہ نمبر: 45 سے 52، باب دوم:نفس کو قتل کرنا جہاد ہے،صفحہ نمبر: 53 سے 66 تک -باب سوم: نفس کی اقسام،صفحہ نمبر : 69 سے 78 تک-باب چہارم: فنائے نفس کسے کہتے ہیں؟ صفحہ نمبر: 79 سے 92-
ان ابواب کے اگر فارسی صفحات کو جمع کیا جائے تو یہ تقریباً 178 فارسی صفحات بنتے ہیں- یہ ابواب کے تحت گفتگو ہے اس کے علاوہ بھی ہر باب میں آپؒ نے کثرت سے اس موضوع پر گفتگو فرمائی ہے- اسی طرح ابیات باهوؒ (پنجابی) کل 202 ابیات پر مشتمل ہیں- ان 202 پنجابی ابیات میں آپؒ نے 13 ابیات مبارکہ میں نفس کے اوصاف کا ذکر کیا ہے- یہ وہ ابیات ہیں جہاں لفظ نفس آیا ہے اور پھر اس کے اوصاف بیان ہوئے ہیں- جہاں لفظ نفس نہیں آیا اور اس کے معانی مراد ہیں وہ متعدد ہیں- جن ابیات میں نفس کا ذکر ہے، طوالت سے بچنے کی خاطر اس مقالہ میں صرف ابیات کے نمبر پر اکتفا کیا گیا ہے: بيت نمبر: 2 ،7، 47، 54، 63، 93، 94، 98، 106، 114، 115، 116، 151
حضرت سلطان باھوؒ نے نفس امارہ کو قرب الٰہی کے راستے میں سب سے خطرناک دشمن بتایا ہے اور اس کی مثال دیو،کتے، خنزیر، ریچھ، سانپ، بچھو اور بیل و گدھے سے تشبیہ دی ہے- آپؒ نے نفس سے کس قدر خبردار کیا ہے، اس کا اندازہ چند منتخب اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے :
’’نفس دیو کی مثل ہے‘‘-[5]
’’نفس کیا چیز ہے اور اُس کے خصائل کیا ہیں؟ نفس سانپ کی مثل ہے اور اُس کے خصائل کفار جیسے ہیں‘‘-[6]
’’نفس کافر یہود سے خبردار ہو جاکہ وہ تجھے ہر حیلے بہانے مصیبت میں ڈالتا ہے‘‘-[7]
’’نفس چور کی مثل ہے اور طالب اللہ چوکیدار کی مثل جو خطراتِ چور سے خبردار کرتا ہے‘‘-[8]
’’نفس کیا چیز ہے؟ نفس فربہ خنزیر کی مثل ہے جو کفار سے دوستی رکھتا ہے اور خودی و خود پرستی میں مبتلا رہتا ہے‘‘-[9]
’’اگر کوئی سیاہ ناگ تیری آستین میں گھس آئے تو یہ اُس نفس سے کہیں بہتر ہے جو اِس وقت تیرا ہم نشین ہے‘‘-[10]
’’نفسِ امارہ کو اگر صورت و سیرت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کافر و بےحیا ہے-صورت میں یہ دیو ہے، سیرت میں یہ خبیث جن ہے‘‘-[11]
’’دونوں جہان میں نفس سے زیادہ برُی اور کمینی چیز اورکوئی نہیں- جو آدمی معرفتِ اِلہٰی حاصل کرلیتا ہے وہ نفس کو پاؤں تلے روند کر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے اور جو آدمی نفس کو اپنا دوست بنا لیتا ہے وہ نفس کا قیدی بن کر ہوا و ہوس کی مستی میں غرق ہو جاتا ہے ‘‘-[12]
’’نفس کو سرکش توسن (منہ زورنوجوان گھوڑا) کہتے ہیں، جس پر ہر وقت خود پسندی سواررہتی ہے- خَلق کی نظر میں تو وہ آدمی ہوتا ہے لیکن خالق کی نظر میں وہ خنزیر و گدھے و کتے و بندر جیسا حیوان ہوتا ہے- صورت میں آدمی لیکن سیرت میں حیوان- ایسے حیوان سے بات کرنا مناسب نہیں- یوں کہیے کہ ایسا صاحبِ نفس ہزار شیطان سے بدتر ہے، اللہ تعالیٰ اِس سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے- پس بارگاہِ حق کی حضوری حاصل کر اور اہلِ نفس آدمی سے دوری اختیار کر‘‘-[13]
’’نفسِ امارہ کو اُس کے اعمال کے مطابق کتے، خنزیر، ریچھ، سانپ، بچھو اور بیل و گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اُسے حُبِّ طمع وحرص و بغض و بخل و کذب وغیبت وعجب وکبر سے پہچانا جا سکتا ہے‘‘-[14]
آپ () فرماتے ہیں کہ نفس میں طاعت بھی ہے اور نافرمانی بھی ہے اس پر قابو پا لیا جائے تو یہ دوست بن جاتا ہے اور اگر معصیت میں لگ جائے تو سرکش ہو جاتا ہے- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’نفس کبھی وسیلۂ خدا ہوتا ہے، کبھی فتنہ انگیز و پُر ہواہوتا ہے، کبھی عادل بادشاہ ہوتا ہے، کبھی مستئ اَناَ میں گمراہ ہوتا ہے، کبھی عالم فاضل مفتی قاضی محتسب صاحبِ محاسبہ ہوتا ہے، کبھی رشوت خورو حرام خور ہوتا ہے، کبھی مرشد ہادی صاحبِ ارشاد ہوتا ہے، کبھی خود پرستی و حرص و حسد میں گرفتار ہوتا ہے، کبھی عاشق معشوق ہوتا ہے اور کبھی گدا گر و طامعِ مخلوق ہوتا ہے‘‘-[15]
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’نفس غصے کی حالت میں درندہ ہوتا ہے، گناہ کرتے وقت بچہ ہوتا ہے، فراوانئ نعمت کے وقت فرعون ہوتا ہے، سخاوت کے موقع پر قارون ہوتا ہے، بھوک کی حالت میں دیوانہ کتا ہوتا ہے اور پُر شکم ہو تو مغرور گدھا ہوتا ہے‘‘- [16]
مزید ارشاد فرماتے ہیں:
’’نفس نیک بھی ہے اور بُرا بھی ہے، ہادی بھی ہے اور اہلِ ہوس بھی ہے، عارف بھی ہے اور راہزن بھی ہے، اے باھُو! نفس کی اِن تمام صورتوں کو اپنی نگاہ میں رکھو‘‘-
’’نفس اگر نیک ہو تو دونوں جہان میں اُس سے زیادہ بزرگ و برتر اور کوئی نہیں اور اگر نفس بُرا ہو تو سارے جہان میں اُس سے زیادہ کمینہ و کمتر اور کوئی نہیں‘‘-[17]
حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں جا بجا اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اعمالِ شریعت خلاف نفس ضرور ہے جس سے نفس کی مخالفت تو ہوتی ہے لیکن اعمال شریعت کے ساتھ اعمال باطن کو اختیار کئے بغیر نفس نہیں مرتا- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’جان لے کہ نفسِ امارہ کی قوت و غذا گناہ و معصیت ہے بلکہ یوں کہیے کہ نفسِ امارہ کا تو پیشہ ہی گناہ و معصیت ہے- اگر آدمی رات دن نماز و روزہ جیسی طاعت و بندگی میں مشغول رہے- اور ہمیشہ قائم اللیل و صائم الدہر رہے تو اِس کے باوجود بھی نفسِ امارہ گناہ سے باز نہیں آتا کہ اُس کی توخصلت ہی گمراہی ہے- آدمی چاہے رات دن مسائلِ فقہ کے مطالعہ میں مشغول رہے یا ریاضتِ تقویٰ و تلاوتِ قرآن اور نص وحدیث کے مطالعہ میں مصروف رہے نفسِ امارہ گناہوں سے باز نہیں آتا کہ اُس کا یارانہ شیطان و دنیا سے ہے- آدمی چاہے خانہ کعبہ کا طواف و حج کرتا رہے یا میدانِ جنگ میں جہاد و قتال کرتا رہے یا ذکر فکر مراقبہ محاسبہ مکاشفہ کشف القلوب و کشف القبور کے مراتب حاصل کر کے غوث و قطب بن جاۓ نفسِ امارہ گناہوں سے باز نہیں آتا بلکہ ہر وقت گناہوں کی طرف مائل رہتا ہے کہ اُس کی نظر ہمیشہ مردارِ گناہ پر لگی رہتی ہے لیکن جب تصورِاسمِ اللہ ذات سے اُس کے دل میں قرب و وصالِ اِلہٰی کی تجلیات کا شعلہ بھڑکتا ہے تو وہ وحدانیتِ نور حضور کے دریا میں غرق ہو کرعارف باللہ فنا فی اللہ کے اِنتہائی مقام پر پہنچ جاتا ہے‘‘-[18]
’’زہد وتقویٰ، صوم و صلوٰۃ اور ریاضت ِ حج و زکوٰۃ خلافِ نفس ہے، کیا اِس سے نفس مر جاتا ہے؟ مَیں کہتا ہوں نہیں مرتا- ذکر فکر مجاہدہ مشاہدہ مراقبہ محاسبہ اور وصال حضور مذکور خلافِ نفس ہے، کیا اِس سے نفس مر جاتا ہے؟ مَیں کہتا ہوں نہیں مرتا- وِرد و وظائف، ذکر و تسبیح ، تلاوت قرآن اور علمِ مسائلِ فقہ خلافِ نفس ہے، کیا اِس سے نفس مر جاتا ہے؟ مَیں کہتا ہوں نہیں مرتا -موٹا کھردرا لباس پہننا، گُدڑی پہننا، مخلوق سے علیحدگی اختیار کرنا، چُپ رہنا، نیک وصال و خوب خصال ہونا خلاف ِ نفس ہے، کیا اِس سے نفس مر جاتا ہے؟ مَیں کہتا ہوں نہیں مرتا- گوشئہ تنہائی میں چلہ کشی کرنا اور ہر چیز سے بے تعلق ہو کر سرگردان پھرنا خلاف ِ نفس ہے، کیا اِس سے نفس مر جاتا ہے؟ مَیں کہتا ہوں نہیں مرتا- علم و تعلیم ، درس و تدریس اور خدا شناسی خلافِ نفس ہے، کیا اِس سے نفس مر جاتا ہے؟ مَیں کہتا ہوں نہیں مرتا‘‘-[19]
نفس کس سے مرتا ہے؟
حضرت سلطان باھوؒنے بڑی تفصیل سے اپنی کتب میں یہ وضاحت بیان کی ہے کہ نفس تصور اسم اللہ ذات اور مرشد کامل کی نگاہ سے ہی مرتا ہے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
’’جو آدمی گناہوں سے باز نہیں آتا اور نہ وہ گناہوں سے پشیمان وتائب ہوتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ اُس پر نفس غالب ہے، اُس کا علاج یہ ہے کہ وہ ہر روز اسمِ اعظم کا وِرد کرے اور دل میں تفکرِ ذکر کرے تاکہ لذّت اسمِ اعظم اور غلباتِ ذکر سے نفس معدوم ہو جائے‘‘-[20]
’’نفس آدمی کے وجود میں غائبی چیز ہے اِسے غائبی تلوار ہی سے قتل کر- غائبی تلوار ذکرِ خفیہ ہے، ذاکرِ خفیہ روٹی اِس جہان کی کھاتا ہے اور کام اُس جہان کے کرتا ہے‘‘-[21]
’’قلب جب تصورِ اسمِ اللہ ذات کی مشق سے زندہ ہوجاتا ہےاور ذکرِ ”اَللہُ“ کی مستی سے جنبش میں آتا ہے تو اسمِ ”اَللہُ“ کی تاثیر سے نفس بالکل مرجاتا ہے- بھلا یہ کیسے پتہ چلے کہ نفس مرگیا ہے؟ اِس کی نشانی یہ ہے کہ ذاکرِ قلبی کے وجود میں حرص، حسد، کبر، طمع اورہوا باقی نہیں رہتی اور وہ چوں چرا سے مکمل طور پر پاک ہو جاتا ہے- جو آدمی چوں و چرا سے نجات پالیتا ہےاُس کے دل میں خطرات پیدا نہیں ہوتے- ذاکرِ قلبی جب اِس مرتبے پر پہنچتا ہے تو اُس کا دل ہمیشہ کے لئے پاک ہو جاتا ہے اوراُسے باطن میں انبیاء واوْلیاءکی ہم نشینی حاصل ہو جاتی ہے‘‘-[22]
’’اِس نفس کو اسمِ الله ذات کی تلوار سے قتل کردے کہ جو اُسے قتل کرتا ہے وہ نجات پا جاتا ہے‘‘-[23]
’’شیخ مرشد واصل سے- شیخ مرشد واصل کسے کہتے ہیں؟ شیخ مرشد واصل دل کو زندہ کرنے والا اور نفس کو مارنے والا ہوتا ہے- بھلا کیسے پتہ چلے کہ یہ شیخ دل کو زندہ کرنے والا ہے؟ جس طرح زبان بظاہر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اُسی طرح دل بھی بظاہر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے- جس طرح زبان بلند آواز سے اللہ کا نام لیتی ہے اُسی طرح دل بھی بلند آواز سے اللہ کا نام لیتا ہے جسے بندہ خود بھی سنتا ہے اور ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ بھی سن سکتے ہیں لیکن شیخ کی پہچان یہ ہے کہ وہ سنتِ رسول (ﷺ) کو زندہ کرتا ہے اور بدعت کو مٹاتا ہے- جو دل حبِّ دنیا میں گرفتار ہوکر لذاتِ ہوائے نفس میں مشغول رہتا ہے اور دنیائے مردار سے باز نہیں آتا اُس کے لئے ضروری ہے کہ اُس پر ذکرِ اَللّٰهُ کی صیقل استعمال کی جائے تاکہ وہ طالبِ مولیٰ بن جائے‘‘-[24]
’’پس مرشد کسے کہتے ہیں؟ جو دل کو زندہ کر دے اور نفس کو مار دے اورجب طالب پر جذب و غضب کی نگاہ کرے تو اُس کے نفس کو زندہ کر دے اور دل کو مار دے‘‘-[25]
حرف آخر :
اللہ تعالیٰ کو جوانی کی عبادت اور طاعت بہت پسند ہے- بقول مولانا رومیؒ جوانی کی توبہ شیوہ پیغمبری ہے- جوانی میں انسان کا نفس بہت سرکش ہوتا ہے اور کسی طرح بھی طاعت کو اختیار کرنے سے گریز کرتا ہے - لیکن اگر جوانی میں کوئی شعیب (مرشد کامل اکمل جامع نورالھدٰی)میسر آجائے اور ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی پاکیزگی اللہ کے قلبی ذکر سے نصیب ہو جائے- تو بقول اقبالؒ:
شبانی سے کلیمی صرف دو قدم رہ جاتی ہے |
سُلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نہ صرف نوجوانوں کو نفس کی سرکشی اور سنگینی سے آگاہ کرتے ہیں بلکہ اسے قابو کر کے دوست کیسے بنایا جا سکتا ہے اس کا پورا فریم ورک بھی دیتے ہیں- آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو تعلیمات صوفیاء سے روشناس کرایا جائے جس کے باعث وہ نفس کی اصلاح کر کے قرب الٰہی کو پاسکیں-
٭٭٭
[1](الشمس : 7 – 11)
[2](یوسف: 53)
[3](القیامہ : 2)
[4](الفجر:27- 28)
[5]( عین الفقر ،ص: 91)
[6](عین الفقر، ص: 129)
[7](عین الفقر،ص:277)
[8](عین الفقر ،ص: 155)
[9](عین الفقر، ص: 139)
[10](نور الہدی ،ص: 107)
[11](نور الھدٰی ،ص: 239)
[12](محک الفقر کلاں ،ص: 175)
[13](محک الفقر کلاں، ص:177)
[14](محک الفقر کلاں ،ص: 255)
[15](عین الفقر، ص: 139)
[16]( عین الفقر، ص: 141)
[17](محک الفقر کلاں، ص:189)
[18](محک الفقر کلاں، ص: 171 – 173)
[19](عین الفقر، ص: 137)
[20](محک الفقر کلاں، ص: 295 )
[21](محک الفقر کلاں، ص: 265)
[22](محک الفقر کلاں، ص: 47)
[23](محک الفقر کلاں، ص: 107)
[24](عین الفقر ، ص:107)
[25](عین الفقر، ص: 125)