نسلِ نو کی کردار سازی : تعلیماتِ مولانا روم ؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کے تناظر میں

نسلِ نو کی کردار سازی :  تعلیماتِ مولانا روم ؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کے تناظر میں

نسلِ نو کی کردار سازی : تعلیماتِ مولانا روم ؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کے تناظر میں

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری دسمبر 2024

مولانا جلال الدین رومی  اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کا زمانی اعتبار سے سوا چارصدیوں سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے اور مکانی اعتبار سے بھی ہزاروں میلوں کا فاصلہ - لیکن احساسات کو دیکھا جائے تو ایک جسم کے اعضا کی طرح دکھائی دیتا ہے- بلکہ اُن کی فکر اور تعلیمات میں بہت ہی زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے- آخر کیوں ؟

اس کی وجہ اُن کا مشن،مقصد، تحریک اور منزل ایک ہے- مقصد اور منزل ایک ہونے کی وجہ سے فکر میں ہم آہنگی آجاتی ہے، چاہے زمانی اور مکانی اعتبار سے جتنا بھی فاصلہ کیوں نہ ہو-

کردار سازی دراصل ماڈل اور نمونہ کا موضوع ہے اور کردار سازی کی اہمیت اگر ہم دین اسلام کی روشنی میں جاننا چاہیں تو جب حضورنبی کریم(ﷺ) نے اعلان نبوت فرمایا تو بعد از اعلان نبوت قریش مکہ کی طرف سے وحی الٰہی اورتوحید الٰہی پراعترا‍‍‌ضات کئے گئے، تو سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے حکم الٰہی سے اپنا 40 سالہ کردارِ زندگی اُن کے سامنے پیش کیا -ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ‘‘[1]

’’تو میں اس سے پہلے تم میں اپنی ایک عمر گزار چکا ہوں تو کیا تمہیں عقل نہیں‘‘-

بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کی بنیاد کردار پر ہے- اگر کردار (عمل) کو اسلام سے نکال دیا جائے تو پھرتھیوری باقی رہ جائےگی، جو دینِ اسلام کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہے-

یہاں پر مختلف جہتوں اور فکر و نظر کے لحاظ سے کئی سوال و جواب  ہو سکتے ہیں،لیکن یہاں پر دو سوالات کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں-

  1. 1.     کردار پر کیوں زور دیا گیا؟
  2. 2.      کردار سازی کا اصول کیا ہے؟

ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے کہ باکردار انسان بننے کیلئے اُسے ایک نمونہ چاہئے ، کردار سازی یا باکردار آدمی بغیر ماڈل اور نمونہ کے نہیں بن سکتا-اس لئے انبیا و رسلؑ  کو مبعوث فرمایا گیا-جن کا مقصد ہی یہی تھا کہ لوگوں میں ماڈل اور نمونہ پیش کیا جائے ، تاکہ لوگ اس نمونہ میں ڈھل جائیں -

ایک کامل نمونہ کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟

اِس کی وضاحت یہ ہے کہ دراصل یہ اللہ کے نور کے ظہور کی ڈیمانڈ ہے کہ جب تک ایک نمونہ کامل نہ ہو اس وقت تک وجود سے نور الٰہی کا ظہور ممکن نہیں ہے - قرآن کریم میں دو مقام پہ اسی نظریے کو بیان کیا ہے- پہلا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ ‘‘[2]

’’پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لئے سجدے میں گرنا ‘‘-

اس کی بہت ساری تشریحات کےساتھ ایک وضاحت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ انسان کامل کی طرف اشارہ ہے- یعنی اللہ تعالیٰ کے نور کا ظہور انسان کامل کی صورت میں ہوتا ہے-

قرآن نے دوسرے مقام پر آدمی کو کلی اور عملی طور پر انسان کامل ہونے کا حکم فرمایا ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً ‘‘[3]

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہو ‘‘-

یہ دراصل انسان کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ انسان کی اکملیت علم سے ناممکن ہے- اگر انسان کی اکملیت علم سے ممکن ہوتی تو اللہ تعالیٰ انبیا ورسلؑ کو مبعوث نہ فرماتا بلکہ لٹریچر کی صورت میں صرف دین نازل کیا جاتا- یاد رکھیں! علم سے معلومات میں اضافہ ضرور ہوتا ہے- لیکن کردار میں ڈھلنے کیلیے ایک نمونہ چاہیے فقط علم نہیں- ایک عملی نمونہ چاہیے جس کو دیکھ کر انسان اس کے کردار میں ڈھل سکے - اس لئے انسان کامل کی صورت کو وجود میں لایا گیا-جب کردار کی تکمیل ہوتی ہے یعنی جب ہر صفت اپنے کمال کو پہنچتی ہے،تو آدمی انسان کامل بن جاتا ہے تووہ وجود مبارک اللہ تعالیٰ کے نور کے ظہور کے اظہار کے لائق بن جاتا ہے ، یہی وجہ تھی کہ صوفیاء کرام نے دوغلے پن کو قبول نہیں کیا کہ ظاہر کچھ ہو اور باطن  کچھ-کیونکہ یہ انسان کے کامل ہونے میں رکاوٹ ہے- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا دل دا پڑھدا کوئی ھو

یہ اس دوغلے پن کی نفی ہے کہ ظاہر اور باطن میں تضاد ہو کیونکہ صوفیاء کا موضوع  یہ ہے کہ انسان کے وجود سے اللہ تعالیٰ کے نور کا ظہور کیسے ممکن ہے؟ باقی جتنی بھی نیک اور  اچھی باتیں ہیں وہ سب اس طرح ہیں جس طرح آدمی حج اور عمرے کیلئے جائے تو اس کے ذیل میں آدمی کو بہت سی عبادات اور زیارات میسر آجاتی ہیں- لیکن اصل مقصد، قربِ خداوندی اور انوار و تجلیاتِ  الٰہی کا مشاہدہ  حاصل نہیں ہوتا -

حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

تَسبی پھِری تے دِل نہیں پھِریا کی لیناں تسبی پھَڑکے ھو

الغرض!صوفیاء کی تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو،زبان جس بات کا اقرار کرے دل اس کی تصدیق کرے-اگر انسان کا ظاہر تو پاک ہو لیکن باطن میں پلیدی ہو، تو اس دوغلے پن کی نفی کی گئی ہے-جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ ’’عین الفقر ‘‘میں فرماتے ہیں:

با ھو! نفس پلید بر تن جامه پاک چه سود
در دل همه شرک است سجدہ بر خاک چه سود

’’اے باھو! نفس اگر پلید ہے تو تن پر پاکیزہ لباس پہننے کا کیا فائدہ ہے؟ دل میں شرک ہی شرک ہے یعنی دل شرک سے بھرا ہوا ہے تو خاک پر سجدہ کرنے کا کیا فائدہ؟ ‘‘

ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں:

بر زبان تسبیح در دل گاؤ خر
ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر

’’اگر زبان پر تسبیح جاری ہو اور دل گاؤ خر (خیالات دنیا) میں غرق ہو تو ایسی تسبیح کیا اثر دکھائے گی؟ ‘‘

مولانا رومؒ نے مثنوی شریف دفتر دوم میں مسجد ضرار کا واقعہ بیان کیا ہے-مسجد ضرارجو ایک سازش کے تحت بنائی گئی تھی- چونکہ اس کا باطن یعنی نیت اور مقصد ویرانی تھا ،وہ اخلاص اور نیک نیتی کی بنیا د پہ وجود میں نہیں آئی تھی- اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کوارشاد فرمایا:

’’ لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا‘‘[4]

’’اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا ‘‘-

یعنی آپ(ﷺ) نے اس  مسجد میں کبھی تشریف نہیں لے جانا-اس کے برعکس جو  دوسری مسجد  جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے اس کے متعلق  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہ‘‘[5]

’’وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو ‘‘-

یعنی آپ(ﷺ) نے اس میں تشریف لے جانا ہے وہ کھڑے ہونے کے زیادہ حقدار ہے -مولانا رومؒ مسجد ضرار کا واقعہ بیان کرکے یہ بتلا رہےہیں کہ دیکھو ظاہراً تو مسجدضرار بھی مسجد تھی اور جس کی بنیاد تقوٰی پہ رکھی گئی تھی وہ بھی مسجد تھی-گویا  ظاہر کے اعتبار سے تو دونوں مسجد ہیں، لیکن دونوں کے باطن میں فرق ہے-مسجد ضرار کا باطن ویران ہے - بنانے کا مقصد اور نیت درست نہیں ہےاس کی جانب جانے سے روکا جا رہا ہے اور دوسری مسجد جس کا ظاہر بھی درست تھا اور باطن بھی، نیک نیتی اور تقویٰ کی بنیاد پہ بنائی گئی تھی وہاں پہ رسول اللہ(ﷺ) کو ترغیب دی جا رہی ہے  کہ وہ مسجد اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ (ﷺ)وہاں پہ تشریف لے جائیں- نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جہاں ظاہر اور باطن کا تضاد ہے، اگرچہ ظاہر درست ہے لیکن باطن ویران ہے تو وہاں نور مصطفٰے(ﷺ) کی جلوہ گری نہیں ہو سکتی- صوفیاء کرام نے یہ تصوّر دیا ہےکہ اللہ تعالیٰ اور آقا کریم (ﷺ) کے نور کا ظہور کا اصول یہی  ہے کہ ظاہر کے ساتھ ساتھ با طن بھی پاکیزہ ہو-کیونکہ جب یہ دونوں پاکیزہ ہوتے ہیں تو  انسان اپنی اکملیت پہ پہنچ جاتا ہے - اس میں دوئی اور غیریت ختم ہو جاتی ہے-جیسا کہ حدیث قدسی میں فرمایا گیا ہے :

كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِيْ يَسْمَعُ بِهٖ وَبَصَرَهُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِهٖ وَيَدَهُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِيْ يَمْشِيْ بِهَا [6]

’’میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہےاور میں اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہےاور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہےاور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘-

 اب وہ وجود مبارک اس لائق بن گیا ہے کہ اس سے نور الٰہی کا ظہور ہوسکے- مولانا رومؒ نے مسجد ضرار کی مثال دے کر اس مسئلہ کو سمجھایا ہے-

مولانا رومیؒ فرماتے ہیں :

’’ حضرت بایزید بسطامیؒ جب حج کیلئے جا رہے تھے تو ایک شیخ کامل نے کہا کہ میرے گرد سات مرتبہ طواف کر لے –

وین نِکو تر از طوافِ حج شمار

’’اور اس کو حج کے طواف سے بہتر سمجھ ‘‘-

وجہ کیا تھی ؟ اس کی وجہ شیخ صاحب نے خود بتا دی کہ :

چوں مرا دیدی خدا را دیده ای

’’جب تو نے مجھے دیکھا تو (گویا) خدا کو دیکھ لیا ‘‘-

یعنی میرے دیکھنے سے تجھے اللہ تعالیٰ کی ذات کے انوارو تجلیات دیکھنے نصیب ہو جائیں گے-

چشم ‌نیکو باز کن در من نگر
تا بہ بینی نورِ حق اندر بشر

( اے بایزید! ) تو اچھی طرح آنکھ کھول اور مجھے دیکھ تاکہ توبشر (کے باطن میں چھپا) اللہ تعالی کا نور دیکھے ‘‘-

حضرت سلطان باھوؒ نے اسی مسئلے کی وضاحت میں متعدد باب رقم کئے ہیں -کیونکہ درحقیقت صوفیا کرام کی تعلیمات کا اصل موضوع یہ ہے کہ آدمی کے وجود سے نور الٰہی کو کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟صوفیا کرام کا دودھ سے گھی کو نکالنے کا عمل بیان کرنا اسی مسئلے کی وضاحت میں ہے -

حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :

هر که بیند رُوئے من شد اولیاء
روئے من با رُوئے رحمت مصطفےٰؐ

’’جس نے بھی مجھے دیکھا وہ اللہ کا ولی ہو گیا ،کیونکہ میرےچہرہ پر حضور نبی کریم (ﷺ) کے رُخِ رحمت کا نور چھایا ہوا ہے‘‘-

جس طرح آقا کریم (ﷺ) کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے – اس لئے جب تک کوئی ماڈل اور نمونہ نہ ہو ،اس وقت تک کردار سازی نہیں کی جاسکتی-یہی وجہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے انبیا کرامؑ کو بطور نمونہ مبعوث فرمایا ہے اور انبیاء کرامؑ کے بعد جتنے بھی صوفیا کرام ہیں، یہ وہ ماڈل اور نمونہ ہائے انوار ہیں جن کے وجود سے اللہ تعالیٰ کے نور کا اظہار ہوتا ہے- یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں اتنے فنا ہو جاتے ہیں اور اتنا قرب پا لیتے ہیں کہ وہ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے ،ان کی آنکھیں بن جاتا ہے - لیکن یہ سارا سفر بغیر استاد (مرشد کامل)کے نہیں ہو سکتا- جیسا کہ  مولانا رومؒ فرماتے ہیں:

هیچ چیزے خود بخود چیزے نشد
هیچ آهن خود بخود تیغے نشد
مولوی هر گز نشد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نشد

’’کوئی چیز خود بخود کوئی خاص چیز نہیں بن جاتی، کوئی بھی لوہا خود بخود تلوار نہیں بن سکتا- مولوی کبھی بھی مولانا روم نہیں بن سکتا جب تک کہ شمس تبریزی کی غلامی اختیار نہیں کرتا ‘‘-

الغرض! جس کو بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرفان نصیب ہوتا ہے وہ شیخ کامل کی صحبت اور توجہ سے نصیب ہوتا ہے-

٭٭٭


[1](یونس:16 )

[2](سورۃ ص:72)

[3](البقرہ: 208)

[4](التوبہ : 108)

[5](التوبہ : 108)

[6](صحیح البخاری، کتاب الرقاق)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر