سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے تخلیق آدم سے قبل ہی انسان کو خلفیہ ارضی قرار دیا- اسی مقام بلند کے سبب انسان مسجود ملائک ٹھہرایا گیا اور کائنات رنگ و بو میں اسے مرکزیت عطا کر کے ’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ‘‘[1] کے درجہ افتحار سے نوازا گیا- تاکہ دوسری مخلوقات کو باور کرایا جا سکے کہ یہ اشرف المخلوقات ہے-انسان کو یہ شعور ودیعت کیا گیا کہ اپنے اعلیٰ و ارفع تخلیق کے پیش نظر تیری عظمت مسلمہ ہے- تاریخ گواہ ہے کہ انسان کی اعلیٰ فکری صلاحیتیں اس کی عظمت کو ثابت کرنے میں صرف ہوئیں کہ کائنات کے تمام تر مظاہر اس کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم ہیں-یوں ہر زمانے کے اہل دانش اور اہل باطن نے انسان کو "جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے" کی ذمہ داری یاد دلانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی- اہل باطن یعنی ولی اللہ کے نزدیک انسان کے لیے ’’انسان‘‘ہونے کا معیار بھی انتہائی کڑا ہے-وہ محض نسل آدم سے تعلق کو انسان ہونے کا معیار نہیں سمجھتے، کیونکہ ذریت آدم سے ہونا ’’آدمی‘‘ہونے کی دلیل تو ہے لیکن کامل انسان ہونے کی نہیں- انسان کے منصب جلیلہ پر براجمان ہونے کے لیے آدمی کو سنگلاخ ہفت خواں طے کرنا لازم ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ‘‘[2]
’’بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا فرمایا‘‘-
اسی حقیقت کے پیش نظر انسان کو پھر تکبر کس بات پہ ہے-اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کی شان نے اسے عظمت سے نوازا-اس لیے اس عظمت کے بموجب جو پہلی اور انتہائی دشوار راہ ہے وہ عجز و انکساری کی ہی ہے-آقا کریم (ﷺ) کا فرمان ہے:
’’صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، اور عفو و درگزر کرنے سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے، اور جو شخص اللہ کیلئے تواضع و انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرما دیتا ہے‘‘-[3]
عاجزی و انکساری صراط مستقیم میں پیش آنے والی مشکلات و خطرات میں قلعہ بندی کا کام دیتی ہے-اولیاء اللہ کا یہ طریق رہا ہے کہ انہوں اپنے کلام میں عاجز ی کا عملی نمونہ دکھایا اور عمل میں حلیم ہونے کا ثبوت اپنے آپ کو کم تر بنا کر پیش کیا-
عجز کی مثالیں انبیاء ؑ کی دعاؤں میں بھی موجود ہیں اور اولیاء اللہ کے کلام اور نثری تصانیف میں بھی،جن کی حقیقت یہی ہے کہ یہ انسانوں کو سیدھا راستہ دکھانے اور مالک حقیقی سے رابطے کا ذریعہ اور تعلیم ہیں-اس پس منظر کو بیان کرنے کا مدعا یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کا تاج پہنا کر عزت وعظمت جیسی کامیابی سے ہمکنار کیا-اس کامیابی کو تسلسل سے برقرار رکھنے کے لیے انبیاء اور اولیاء اللہ نے اپنی تمام حیات کو عملی طور پر پیش کیا جہاں عجز و انکساری کے درخشاں گلستاں اپنی خوشبو کے سبب مہکتے ہوئے یہ درس دے رہے ہیں کہ تکبر سے پاک اور عجز سے بھرپور زندگی ہی دوام کی علامت ہے-
حضرت سلطان باھوؒ کے کلام اور تصانیف میں عجز و انکساری:
حضرت سلطان باھوؒ کی حیات طیبہ ایک اجلے آئینے کی طرح ان کے کلام اور تصانیف کے علاوہ ان کے خانوادے کی صورت ہمارے سامنے ہے-آپؒ نے سرور کونین (ﷺ) سے رہنمائی پاکر اپنی فکر اور سخاوت کو اپنے کلام میں انسانوں کے لیے پیش فرمایا- آپؒ کی زندگی ان کے اپنے عہد اورآنے والے زمانوں کے انسانی اخلاق کیلئے عظیم ترین نمونہ ہےجو انسان کی فلاح کا ایک احسن وسیلہ ہے- آپؒ کی حیات عجز کی تمثال اور انکساری کا ہمالہ تھی-آپؒ ’’نور الھدٰی‘‘ میں فرماتے ہیں:
قتل کنُ ایں نفس را با تیغ ذات |
’’اِس نفس کو (اسمِ اللہ )ذات کی تلوار سے قتل کردے کہ جو اُسے قتل کرتاہے وہ نجات پا جاتاہے‘‘-
عجز و انکساری کے لیے عربی کا لفظ ’’تواضع‘‘استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے’’خودکو کم درجہ پر سمجھنا‘‘، جس کا متضاد تکبر ہے یعنی اپنی کسی خوبی کی وجہ سے اکڑ جانا اور دوسروں کو خود سے کم تر جاننا -حضرت سلطان باھوؒ نے اس تصور کی انتہا تک پہنچ کر فرمایا:
بَوہتی مَیں اوگن ہاری لاج پئی گَل اُسدے ھو |
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
’’جب کوئی شخص حضور اقدس(ﷺ)سے ملاقات کے وقت مصافحہ کرتا تو آپ(ﷺ) اپنا ہاتھ اس وقت تک نہیں کھینچتے تھے،جب تک دوسرا شخص اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے،آپ اپنا چہرہ اس وقت تک نہیں پھیرتے تھے جب تک ملاقات کرنے والا شخص خود اپنا چہرہ نہ پھیر لے‘‘-[4]
حضرت سلطان باھوؒ کے خاندان نے مصطفےٰ کریم (ﷺ)کے مشن کو ہر دور میں عملی مظہر بنایا-آپؒ کی تصنیفات اور کلام کو ہر عہد کی جدید زبان میں ترجمہ کا لباس پہنا کر طالبان مولیٰ کیلئے آسان فرمایا-بانیٔ اصلاحی جماعت و تنظیم العارفین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ نے اس مادیت کے دور میں تصوف کے حقیقی فلسفہ ’’عمل‘‘ کے لیے بیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی-اس جماعت کا مقصد ظاہر و باطن، تمام معاملات زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور عشق رسول (ﷺ) کو رگ رگ میں جاری کرنے کا بیڑا اٹھایا-یوں صدیوں سے سطحی مسائل میں الجھے دردمندوں میں ایک نئی روح پھونک کر انہیں عجز و انکساری کی تعلیمی استعداد سے نواز کر انسان کے حقیقی مقام یعنی علامہ محمد اقبال کی زبان میں ’’رفعت میں مقاصد کو ہم دوش ثریا کر‘‘کا مظہر بنا دیا-
آپؒ نے اس امر کا اعادہ فرمایا کہ دنیا کی محبت انسان کے لیے اس کے حقیقی مقصد حیات اور اللہ تعالیٰ کی چاہت کے درمیان کسی صورت حائل نہیں ہونی چاہیے، اس لیےاپنے آپ کو انہوں نے طالب مولیٰ کے حقیقی روپ میں ہمیشہ رکھا اور وابستگان کو بھی اس کے لیے تیار بھی کیا- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
دَلِیلاں چھوڑ وجودوں ہو ہُشیار فَقِیرا ھو |
حضور غوث الاعظمؒ اپنی تصنیف ’’سر الاسرار‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ابلیس نے جب اپنی بدفعلی کو تقدیر الٰہی کی طرف منسوب کیا تو وہ کافر و مردود ہو گیا- حضرت آدمؑ نے جب اپنی نافرمانی کو اپنے نفس کی طرف منسوب کیا تو فلاح پاگئےاور اُن پر رحم کیا گیا‘‘-
شیطان نے تکبر کیا، تکبر نیکیوں کو گناہوں اور انسانیت کو حیوانیت میں تبدیل کرنےکا شیطانی آلہ ہے-تاریخ گواہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ سے رتبہ ملا وہ اُس کے حضور عاجزی سے ملا-شکستگی اور عاجزی ہی بندگی کا نام ہے اور بندگی ہی انسان کا اعلیٰ مقام ہے-عربی زبان میں ایک مثال ہے کہ متکبر کی مثال اس شخص جیسی ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہو،اب وہ پہاڑ کے اوپر سے نیچے چلنے پھرنے والوں کو چھوٹا سمجھتا ہے اس لیے کہ اوپر سے اس کو وہ لوگ چھوٹے نظر آرہے ہیں ،اور جو لوگ نیچے سےاس پہاڑ پر دیکھنے والے ہیں وہ اس کو چھوٹا سمجھتے ہیں-باکل اسی طرح ساری دنیا متکبر کو حقیر سمجھتی ہے اور متکبر دنیا والوں کو-
شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ فرماتے ہیں:
’’جب تک خود کو سرمے کی طرح باریک نہیں کرو گے، تب تک محبوب تجھے اپنی آنکھوں میں کس طرح لگائے گا‘‘-
مولانا روم کے مطابق:
’’محبوب کے راہ میں جھکنا ہی ترقی ہے‘‘-
بقول علامہ اقبال :
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے |
حضرت سلطان باھوؒ اپنے کلام میں عجز و انکساری پر صدقے اور قربان کے الفاظ کہتے ہیں:
سَو ہزار تِنہاں تُوں صَدقے جہڑے مُنہ نہ بولن پھِکّا ھو |
حضرت سلطان باھو ؒ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ فرماتے ہیں:
’’وصال الٰہی عاجزی و انکساری سے حاصل ہوتا ہے-الٰہی، تیرا راز ہر صاحب راز (مرشد کامل) کے سینے میں جلوہ گر ہے-تیری رحمت کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھلا ہے-تیری بارگاہ میں ’’عاجزی‘‘ سے جو آتا ہے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا-خود پرستی چھوڑ کر (عاجزی اختیار کر)غرق نور ہوجا تاکہ تجھے ایسی حضوری نصیب ہو کہ وصل کی حاجت ہی نہ رہے‘‘-
لہٰذا! عجز اور انکساری اپنا کر اپنا دامن پاکیزہ کرلیا جائے کیونکہ تکبر کسی طور ہمیں زیب نہیں دیتا- خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسانیت کی معراج عاجزی اور انکساری ہے-بزبانِ حضرت سلطان باھوؒ:
ناں مَیں سیر ناں پَا چھَٹاکی ناں پوری سرساہی ھو |
٭٭٭