محبت، الفت، عشق، برداشت، انکساری، رواداری اور تحمل، اگر بازار میں بکتے تو خرید کر شخصیت کا حصہ بنا لیے جاتے اور پھر قوموں کی تشکیل بھی آسان ہو جاتی - بحالی امن کے لیئےبھی اطمینان ہوتا -بقول غالب :
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا |
مگر ایسا نہیں-کائنات میں اگر کچھ محیر العقول شے ہے، تو وہ انسان ہے- آپ کے سامنے چلنے پھرنے گفتگو کرنے والا انسان ایک تو وہ ہے جو آپ کو نظر آتا ہے اور دوسرا وہ جو آپ کے اندر آپ کا ہمزاد ہے-
ظاہری انسان کی ساری زندگی باطنی انسان کو سمجھانے، سدھارنےاور اس کی نشو ونما کرنے میں بسر ہوتی ہے- یہ اضطرابی عمل تاحیات جاری و ساری رہتا ہے-
ہمارے صوفیاء کرام نے فکر و تدبر کی روشنی سے جانا کہ انسان کو اپنے منفی رویوں کو مثبت روئیوں میں بدلنا ہے، کیونکہ وہ اس دنیا کو بدصورت نہیں، خوبصورت بنانے کے لئے آیا ہے-دنیا کی خوبصورتی انسانیت کی بھلائی اور خدمت میں ہے-جیسا کہ بابا بلھے شاہ ؒ نے بھی کہا :
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھادے جو کجھ ڈھیندا |
جب انسان کے اندر انسانیت کا درد اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہونے کا اہل ہو جاتا ہے-
ہمارے صوفیاء کرام کا بنیادی مقصد اسی نکتہ نظر کی تبلیغ ہے- اگرچہ مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کے ادوار میں چار صدیوں سے زائد کا فرق ہے لیکن دونوں صوفیاء میں گہری فکری مماثلت ہے -ان صوفیاء نے اپنے دائرہ محبت سے کسی کو دور نہیں کیا- فتوے نہیں لگائے- تضادات کو سامنے رکھتے ہوئے سب کو ساتھ ملایا- ان کی تعلیمات میں کسی قسم کا نسلی و علاقائی تاثر نظر نہیں آتا- حالانکہ دیکھا جائے تو مولانا رومی نے اپنی ساری زندگی میں خون ریزی ہی دیکھی- مگر ان کی تمام شاعری میں کہیں نفرت کا ذکر نہیں، صرف محبت اور امن کا پیغام ہے- مولانا نے اپنی شاعری میں تاریکی کی بجائے اُجالے کی بات کی ہے-
ان کے خیال میں ’’تعلیم کو اگر ظاہری وجود کے لیے حاصل کیا جائے تو یہ سانپ کی مانند ہے- علم اگر روح کے لیے حاصل کیا جائے تو یہ یار بن جاتا ہے ‘‘-
اسی طرح حضرت سلطان باھوؒ نے بھی نفس کو سانپ کی مثل قرار دیا اورفرمایا:
’’جس طرح سانپ کو منتر سے قابو کیا جاسکتا ہےاس طرح نفس کو بھی ذکر اللہ سے قابو کیا جا سکتا ہے‘‘-
اُن کے مطابق منفی خیالات مثلاً نفرت، لالچ وغیرہ تشدد کی جانب لے جاتے ہیں اور اپنے اصل تک پہنچنے کی انسانی صلاحیت کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں -ایسے منفی خیالات، جنہیں انسانی قلب کی تاریکی بھی سمجھا جاتا ہے، مٹا دینے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی زندگی کے اصل معنی کو سمجھا جا سکے-حدیثِ قدسی ہے :
’’اے مسلمانو تم اپنے اندر خدا کی صفات کا رنگ پیدا کرو- اس طریقے سے انسان اپنے اندر جس قدر اُس یکتا ترین ذات سے مماثلت پیدا کرتا ہے اسی قدر وہ خود بھی بے مثل اور یکتا ہو جاتا ہے ‘‘-
مولانا رومی اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کشادگی اور انکساری ہونی چاہیے وہ عالمانہ خود پسندی کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جو جمود کی طرف لے جاتا ہے اس کی بجائے یہ عظیم بزرگ اپنے پیروکاروں کو لوگوں کے درمیان مشترکات تلاش کرنے کی تعلیم دیتے ہیں-اُن کا کہنا ہے کہ انسانوں کے درمیان یہ تمام جھگڑے ، زندگی کے مادی پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے ہیں-
مولانارومی اس بات کا بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنے مخرج سے دوبارہ ملنے کے لئے، انسانی روح کو خدا اور اس کے بندوں سے مضبوط رشتہ قائم کرنے کی ضرورت ہے-خالق سے محبت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس کی تخلیق سے محبّت کرنا سیکھیں- یعنی انسانوں اور نوع انسانی سے محبّت کیے بغیر، کسی کو فیض الٰہی حاصل نہیں ہو سکتا-
مولانا رومی نے اپنی مثنوی کا آغاز، انسانی روح کی علامت کے طور پر ایک بانسری کی کہانی سے کیا -مثنوی معنوی میں شاعری اور حکایات رومی میں نثر کو ذریعہ اظہار بنایا- انہوں نے حکایات میں بھی زندگی کے اسرارو رموز سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ عوام الناس کی اخلاقی تربیت بھی کی -
مولانا رومی اور حضرت سلطان باھوؒ نے نہ تو رہبانیت کا درس دیا نہ قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کی اتباع سے غافل ہوئے اور نہ ہی فرقہ واریت کو ہوا دی-بزبانِ حضرت سلطان باھوؒ:
ناں مَیں سُنی ناں مَیں شِیعا میرا دوہاں تُوں دِل سَڑیا ھو |
ان بزرگان کی اپنی زندگیاں بے عملی سے متصف نہیں-انہوں نے عام لوگوں کے درمیان زندگیاں گزاریں- حالات جیسے بھی رہے، اپنے نفس کو ہر قسم کی آلائش سے پاک رکھا- اگر اُن کے قول و فعل میں تضاد ہوتا تو ہم آج انہیں نہ تو اتنی محبت سے یاد کر رہے ہوتے اور نہ ہی مایوسی اور تنزلی کے اس دور میں ان کی فکر سے روشنی حاصل کرکے اُسے آگے بڑھانے کی بات کر رہے ہوتے-
خلقِ خدا سے محبت کرنا، اُن کے دکھ درد بانٹنا، اُن سے محبت کے ساتھ پیش آ نا اور اپنی ذات کی مضبوطی کے ساتھ رہنمائی کرنا ہی اُن کا بہت بڑا کارنامہ تھا- اللہ تعالیٰ نے اُن کی شاعری اور نثر کو روحانی قوت بخشی اور اثر انگیزی بڑھا دی اور ایک عالَم اُن سے فیض یاب ہوا-
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اُن انسانوں کی عقل پر افسوس کرتے ہیں جنہیں قریب رہنے والا بہت دور نظر آتا ہے اور اسے ہمیشہ باہر تلاش کرتے رہتے ہیں- آپؒ اس ساری باگ ڈور کو بے معنی اور بے سود قرار دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنے ہی اندر تلاش کرنے کی تاکید کرتے ہیں- آپؒ فرماتےہیں:
دِل دریا سمندروں ڈُوگھے کون دِلاں دیاں جانے ھو |
عشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتاہے- اس کے متعلق حضرت سلطان باھوُؒ نور الہدیٰ میں فرماتے ہیں:
’’مرتبۂ فقر مرتبۂ معشوق ہے- معشوق جو بھی چاہتا ہے عاشق اسے دیتا ہے بلکہ معشوق کے دل سے جو بھی خیال گزرتا ہے عاشق اس سے آگاہ ہو جاتا ہے اور اپنی نگاہ سے ہی اسے تمام مطالب سے بہرہ ور کر دیتا ہے‘‘-
آپؒ کی تعلیمات کے مطابق عشق وہ روحانی جذبہ ہے جو مخلوق کو خالق سے ملا دیتا ہے- یہ عشق ہی ہے جس کی بنا پر انسان اپنی نفسانی کدورتوں، شیطانی وہمات اور کبیرہ وصغیرہ گناہوں سے کنارہ کش ہوکر اﷲ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے -بزبانِ حضرت سلطان باھوؒ:
عِشق جِنہاندے ہَڈیں رَچیا اوہ رَہندے چُپ چُپاتے ھو |
حضرت سلطان باھوؒ کی رباعیات کا ترجمہ ہے:
’’مسلمان اسے کہتے ہیں جو اپنا مال اولاد اور جان اللہ کے نام پر صدقہ کر دے یہی جوہر ایمان ہے‘‘-
آپؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’اپنے دل میں کبر و ہوا کا ذرہ بھی نہ آنے دے کہ کبر سے کبھی کوئی معزز مرتبہ پر نہیں پہنچ سکا ہے- تُو زلف محبوب کی طرح شکستہ دلی کو اپنا شیوہ بنا لے تاکہ تُو بھی ہزار ہا دلوں کو اپنا دیوانہ بنا سکے‘‘-
حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
پَڑھ پَڑھ عِلم مَشائخ سَداون کَرن عِبادَت دوہری ھوؔ |
ایک اور مقام پہ آپ فرماتے ہیں:
’’باھو فقر کا طالب ہے اور فقر ہی کا مُقرب ہے -باھو کو یہ فقر حبیب خدا (ﷺ) سے نصیب ہوا ہے ‘‘-
مولانا رومؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات سے استفادہ نہ کرنا اپنے علمی ورثے کی ناقدری کے مترادف ہے -صوفیاء کرام کی تعلیمات سے تعلق کمزور پڑ جانے کے باعث معاشرے میں شدت،منافرت اور تعصب بڑھ رہا ہے چنانچہ ہمیں اپنی اسی بنیاد کی جانب واپس لوٹنا چاہیئے-
زبان کے حوالے سے دیکھا جائے تو مولانا رومی ؒ کا کلامِ سر تا سر فارسی زبان میں ہے جبکہ حضرت سلطان باھو صاحب (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی مادری زبان پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کو بھی ذریعہ اظہار بنایا- دونوں عارفانِ کامل نے زبان و بیان کی تمام ترشعری نزاکتوں کے تقاضے بھرپور فنی مہارت کے ساتھ نبھاتے ہوئے اپنے افکارِ عالیہ کو شعری روپ میں پیش کیا- درج بالا موضوعات جو دونوں عارفانِ کامل کے ہاں مشترک پائے جاتے ہیں اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو جو سب سے بڑا درس ان میں ملتا ہے وہ ’’وحدت انسانی‘‘کا تصور ہے-
آئیے ہم سب مل کر امن ، محبت اور رواداری کے اس پیغام کو عام کریں تاکہ ہماری نسلیں بھٹکنے سے بچ جائیں-
آخر میں ایک تجویز اس فورم کے ذریعے قارئین تک پہنچانا چاہوں گی کہ ہمارے صوفیاء کرام کی فکر کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جانا چاہیئے- اُن کے کلام کے تراجم ہونے چاہیئں، ڈاکومینٹریز بننی چاہیئں- ان کے کلام کی موسیقی کے ذریعے بھی عام لوگوں تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے-دیگر ڈیجیٹل ذرائع میں بھی اُن کے پیغام کو برتا جا سکتا ہے- تاکہ ان کی فکر کو عام کرکے نوجوان نسل کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو جلا بخشی جا سکے-
٭٭٭