سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ سترہویں صدی عیسویں کے ایک مقبول اور مشہور صوفی ہیں-آپؒ اپنے پنجابی ایبات کی وجہ سے عارفانہ شاعری میں ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتے ہیں-ان کے ابیات خواص وعوام میں یکسا ں مقبول ہیں-آپؒ کی تصانیف سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فارسی اور عربی زبان میں قابلِ قدر استعداد رکھتے تھے- علمِ باطنی میں بھی آپؒ بام ِ عروج پرفائز تھے ا س علم ِ باطن کو علمِ لدنی بھی کہاجاتا ہے-
اگرچہ آپؒ سالکین کےلیے عرفان و معرفت کا خصوصی علم رکھتے تھے اور فرماتے تھے ’’طاب بیا، طالب بیا‘‘(طالب آجا ،طالب آجا) لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عام دیہاتی اور دہقانی عوام کوبھی اپنے فیضانِ عرفان سے محروم نہیں رکھا –پنجابی ابیات میں ان کو تزکیہ نفس،دل کی صفائی،حسنِ نیت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبِ مکرم (ﷺ) سے عشق و محبت کی تعلیم دی اور اپنے زورِ بیان سے ان کے قلب وجگر کو مسخّر کرلیا-
آپؒ نفس ِ امّارہ کی ترغیبات سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں، نفسِ امارہ سے مغلوب ہونے کی بجائے اس پر سواری کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ بڑے بڑے عالم نفسانی خواہشات کے اسیر ہوجاتے ہیں- آپؒ مزید فرماتے ہیں کہ فقر کا مقام پانا کافی مشکل ہے- ان کا اس موضوع پر جھنگ، شورکوٹ اور دریائےراوی کے کنارے بسنے والی لوگوں کی زبان میں یہ بیت ملاحظہ کریں:
ایہوں نفس اساڈا بیلی جو نال اساڈے سِدّھا ھو |
یہی ہمارا نفس ہے جو ہمارا دوست ہے اور اس کی دوستی آہستہ آہستہ پکی ہو جاتی ہے-اس نفس نے زاہدوں اور عالموں کو بھی جھکادیا ہے یہاں تک وہ جہاں روٹی کا کوئی ٹکڑا گھی سے چپڑ ا ہوا (یعنی مال و دولت ) دیکھتے ہیں وہ اس طرف مائل ہو جاتے ہیں-جو نفس پر سواری کے قابل ہو جائے وہ اللہ کے اسم کو ڈھونڈ لیتا ہے-فقر کا راستہ کافی مشکل ہے- یہ نہ سمجھو کہ یہ اس طرح آسان اور مزیدار ہے جس طرح گھر میں ماں نے حلوہ بنایا ہو-
حضرت سلطان باھوؒ خلوص اور فقر کو اصلِ تصوف قرار دیتے ہیں اور یہ مقام ریاضت اور مرشد کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا-جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:
اَللہ پَڑھیوں پڑھ حافظ ہویوں نَاں گِیا حِجابوں پردا ھو |
اللہ اللہ کا ورد کرتے کرتے آپ حافظ ہوجاتے ہیں لیکن باطن پر پردہ پڑا رہتا ہے (وہ پردہ خلوص کے بغیر نہیں ہٹتا)-تم بے شک کتابیں پڑھ پڑھ کر عالم اور فاضل کہلاتے ہو لیکن تم مال و دولت کے طلبگار ہوئے-بے شک ہزاروں کتابیں پڑھ لی جائیں لیکن ظالم نفس اس سے نہیں مرتا-فقیر (مرشد کامل) کے بغیر یہ نفس جو اندر کا چور ہے کبھی نہیں مرتا-
ہر زمانے میں علمائے حق کے ساتھ ساتھ علمائے سوء بھی رہے ہیں-حضرت سلطان باھوؒ کے زمانے میں بھی ریاکار،طالبِ دنیا اور متکبر عالم تھے -وہ فرماتے ہیں:
پڑھ پڑھ عالم کرن تکبر حافظ کرن وڈیائی ھو |
عالم اپنی پڑھائی اور تعلیم پر تکبر کرتے ہیں جبکہ قرآن مجید کے حافظ اپنی بڑائی پر اتراتے ہیں –
ایسے عالم اور حافظ بے کس گلیوں میں پھرتے رہتے ہیں اور کتابوں کو اٹھائے پھرتے ہیں-جہاں ان کو وافر کھانا یا مال و زر نظر آئے وہاں وہ نہایت شوق اور سُر کے ساتھ کلام پڑھتے ہیں- اے باہو! یہ عالم اور حافظ دونوں جہانوں میں تباہ و برباد ہوگئے کیونکہ انہوں نے دین کو بیچا اورا پنی کمائی ہوئی نیکیوں کو بیچ کر کھاگئے-
تصوف کا اصل مقصد دل کو غیر اللہ سے خالی کرکے اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں بسانا ہے اور مقصود آدھی رات کی عبادت و ریاضت اور اپنے اندر کے اصل انسان کو جگائے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا-پھر آپؒ فرماتے ہیں:
ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھو |
یہ تن سچے رب کا حُجرا(مکاں) ہے (انسان کے باطن میں رب رہتا ہے) - اے فقیر! اس کے اندر جھانک -خواجہ خضرؒکی منت نہ کر،تیرے اندر ہی آبِ حیات ہے-اندھیر ے میں شوق کا چراغ روشن کر، ممکن ہے تجھے گمشدہ خزانہ (کنز مخفی) مل جائےاور تیری دست گیری ہوجائے-جن سائلوں نے حق کا راز پہچان لیا وہ مرنے سے پہلے مر چکے-
قرآن حکیم نے تزکیہ نفس اور قلب کی صفائی پر یوں زور دیا ہے:
’’فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘‘[1]
”تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینو ں میں ہیں‘‘-
صوفیاء کرام کے نزدیک قلب تب جاری ہوتا ہے جب عشقِ الٰہی میں بندہ اپنے آپ کو رنگ لے-دل کی دنیا بہت وسیع اور گہری ہے –اس میں ہی خواہش پیدا ہوتی ہے ،اُمنگیں ابھرتی ہیں اور کئی خواہشیں دم توڑ جاتی ہیں -محبت دل میں ہی پیدا ہوتی اور پروان چڑھتی ہے- محبت کے جھگڑے اور جھیڑے ختم نہیں ہوتے، دل میں عشق کا تلاطم دریا کے تلاتم کی طرح جاری رہتا ہے اور اس میں سمندر کی طرح مدو جزر ہوتا رہتا ہے- حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں:
دِل دریا سمندروں ڈُوگھے کون دِلاں دیاں جانے ھو |
دل دریا ہے جو سمندر سے بھی گہرا ہے -دل کے بھید کون جان سکتا ہے، اسی دل میں کشتیاں ہیں، اسی میں ملاح ہیں اور اسی میں محبت کے قصے اور محبت کے جھگڑے ہیں -دل کے اندر ہی چودہ طبق ہیں جہاں عشق نے جاکر خیمے گاڑھے ہیں- جو دل کا محرم ہو وہی رب کو پہچان سکتا ہے-
سلوک کے مقامات طے کرنے اور منازل کے حصول کے لیے مرشد کی ہدایت اور نگرانی ضروری ہے - حضرت سلطان باھوؒ کے دوابیات اس بارے میں ملاحظہ کیجئے!
اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو تَسبی پھِری تے دِل نہیں پھِریا کی لیناں تسبی پھَڑکے ھو |
تسبیح کے دانے پھیرنے سے اگر دل نہیں بدلتا تو پھر تسبیح پکڑے کا کیا فائدہ؟ علم حاصل کرلیاجائے ادب (مرشد اور بڑوں کا) نہ سیکھاجائے تو علم حاصل کرنا لاحاصل ہے(اس کا کیا مقصد ہے؟) -40 روز تک کسی جگہ مراقبہ کیا جائے لیکن انوار و تجلیات الٰہی کا مشاہدہ نہ کیا جائے تو ایسے چلوں کی دنیا میں جانے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ جاگ کے بغیر (دودھ میں تھوڑی سی دہی ملانا) دودھ کبھی نہیں جمتا یعنی اس قابل نہیں ہوتا کہ اس سے مکھن بنالیا جائے-لہذا! چاہے دودھ کو اتنا گرم کردیں کہ وہ پک پک کر لال ہوجائے لیکن وہ دہی نہیں بن سکے گا اسی طرح مرشد کامل کی توجہ کے بغیر عرفانِ حق نصیب نہیں ہوتا-
٭٭٭
[1](الحج:46)