انسانی معاشرے کی ہئیتی اور نظریاتی تشکیل کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مختلف عوامل انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے رہے جن سے معاشرے کی ہئیتی اور نظریاتی ترکیب و ترتیب بدلتی رہیں ان عوامل میں سے جو نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں ان میں اہم ترین عمل اغراض و بقا کی قوتوں کا تصادم اور ارتقا ہے جس سے فرد کا فرد سے اور معاشرتی معروض سے تعلق بنتا اور بدلتا رہا- صدیوں کے اس سفر میں انسان کا اقتصادی معاشرتی اور جذباتی استحصال اپنی پوری شدت کے ساتھ ہوتا رہا جبر و استبداد کی ان استحصالی قوتوں کے خلاف انفرادی اور اجتماعی مزاحمتی جد و جہد بھی اپنے فکری ارتقا کے ساتھ مصروف عمل رہی- یہ فکری ارتقا افقی اور عمودی سمتوں میں آگے بڑھتا رہا- فکری ارتقا کی عمودی نمو کے لئے خیر کی قوتیں انسانی تاریخ کے اولین باب سے مصروف عمل رہیں- یہ خیر کی قوتیں مختلف مذاہب معاشرتی فلسفوں اور نظریوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہیں جن سے فرد کے فرد سے اور معاشرتی معروض سے ربط اور بذات خود معاشرے کی کئی جہتوں کی تشریح اور ترویج ممکن ہوئی- آج اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی انسان کے نامیاتی وجود کو غیر نامیاتی وجود میں بدلنے کی بات کر رہی ہے- مختلف سیاسی اور سماجی نظام بھی فرد کے مادی وجود کو اہمیت دیتے رہے صدیوں کے اس سفر میں ایک فکر اس بات پرزور دیتی رہی کہ فرد مادی وجود کے ساتھ ساتھ اپنی ایک روحانی شناخت رکھتا ہے جس کی بالیدگی کے بغیر حصول مسرت ممکن نہیں - روحانی مسرت اس لافانی محبت کا نام ہے جو رنگ و نسل اور جغرافیائی سرحدوں سے ماورا ہوتی ہے یہاں تک کہ یہ محبت کسی نظریاتی یا مذہبی فکر کے تابع نہیں ہوتی-
کولمین بارکس (Coleman Barks) اپنی کتاب ’’The Essential Rumi‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ مولانا رومی نے تمام مذاہب کی حدود کو تحلیل کر کے عالمی محبت کی سلطنت میں ضم کر دیا ہے اور ابھرتی مٹتی لہروں کی کثرت کو سمندر کی یکتائی کا روپ دیا ہے- علم و الہام کی دھرتی برصغیر پاک و ہند کے عظیم صوفی شاعر حضرت سلطان باھوؒ نے اس پیغام کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ الہامی مذاہب کی تکریم کے ساتھ ساتھ مقامی ثقافت یا مقامیت کی تکریم و ترویج بھی بہت ضروری ہے کیونکہ وجود کا خمیر دھرتی سے جڑا ہوتا ہے اور کائناتی شعور کا منبع فطرت اور دھرتی کی نرم مٹی سے نمو پاتا ہے -
مولانا رومیؒ کائناتی شعور یا روحانی بالیدگی کے سفر میں عشق کو اپنا امام مانتے ہیں:
شاد باش اے عشق سودائے ما |
’’اے ہمارے اچھے جنون والے عشق، شاد رہ آباد رہ کہ تُو ہی ہماری تمام علّتوں اور بیماریوں کا طبیب ہے-اے عشق تُو ہی ہماری نخوت و تکبر اور نام و ناموس طلبی کی دوا ہے، اے عشق تُو ہی ہمارا افلاطون ہے، تُو ہی ہمارا جالینوس ہے‘‘-
حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
اِک نگاہ جے عَاشق ویکھے لکھ ھَزاراں تارے ھو |
عشق وہ پُر جوش جذبہ ہے جس کا اظہار و ادراک شاعری اور موسیقی کی زبان میں پرزور انداز میں ممکن ہے- اس لئے صوفیاء نے ابلاغ کیلئے خاص ترکیبات و تشبیہات تخلیق کی ہیں جن سے پرت در پرت کائنات کے سربستہ راز کھلتے چلے جاتے ہیں- اس الہامی فکر میں عالم موجودات وجود مطلق کا مظہر ہوتا ہے جہاں سے لافانی محبت کے چشمے پھوٹتے ہیں اور عالم موجودات مطلق یکتائی کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے -
مولانا رومی اور حضرت سلطان باھوؒ کی شاعری میں یہ فکر نمایاں ہو کے سامنے آتی ہے- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
ازل ابد نُوں صحی کِیتوسے ویکھ تماشے گُزرے ھو |
تاریخ بتاتی ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی اناطولیہ کیلئے کرب و آلام کا عہد تھا- مغرب سے صلیبی جنگوں کی بربریت خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی-بازنطینی سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا، دوسری طرف چنگیز خان کی سربراہی میں منگول وحشی دنیا کے امن کو تباہ کر رہے تھے-1244ء کے اس منظر نامے میں شمس تبریز کی ایک نظر مولانا کے ظاہری اور دنیاوی جاہ و جلال کو دمان کی واچھڑ کی طرح بہا کر لے گئی اور مولانا کے اندر سے لازوال محبت کے چشمے پھوٹ پڑے اور وہ محبت، رنگ ،نسل، عقائد و جغرافیائی سرحدوں کی قید سے ماورا ہو کر روح کے تال پر رقص کناں ہوئے- دوسری طرف سترویں صدی کے عظیم صوفی شاعر حضرت سلطان باھوؒ کا عہد سیاسی و انتظامی طور پر قدرے مستحکم تھا- گو اس وقت کا ہندوستان مغلوں کے زیر تسلط تھا- ہمارے زیر بحث صوفیاء نے عشق کو ایک لا زوال اور متحرک قوت کے طور پر برتا -مولانا روم ؒکی بانسری اور حضرت سلطان با ھوؒ کی ’’ھو‘‘ کی سُر میں ایک ہی پیغام سامنے آیا کہ اس کرۂ ارض پر انسانی مسرت کا راز صرف اور صرف محبت میں پوشیدہ ہے اور ان کے نزدیک عشق کی قوت سے ہی زمان و مکان اور رنگ و نسل کی سرحدوں کے پار، فرد جلوہ حقیقت سے روشناس ہوتا ہے جہاں عاشق و محبوب اور طالب و مطلوب کی تفریق ختم ہو جاتی ہے -گو کہ عالم موجودات اور وجود مطلق ربط کی وضاحت صدیوں سے زیر بحث رہی ہے، کچھ مغربی مفکرین مثلاًسینٹ آگسٹائن اور سینٹ تھامس ایکویناس کے نزدیک خدا کے وجود کا تصور وقت کی حدود کے تصور سے ماورا ہے اور یہ تصور وقت کے لافانی اور ابدی ہونے کے تصور کے بھی برعکس ہے-اسلامی تصوف میں بھی یہ مسئلہ بہت زیر بحث رہا جس کے نتیجے میں دو نکتہ ہائے نظر سامنے آئے جنہیں ہم وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے نام سے جانتے ہیں اور دونوں فکری نظریوں نے اپنے اپنے طور پر عالم موجودات اور ذات مطلق کے ربط کی خوبصورت انداز میں وضاحت کی ہے اور کچھ صوفی شعرا کو کسی ایک فکری تحریک سے وابستہ کرنا کسی حد تک آسان بھی لگتا ہے مگر مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کی شاعری کو کسی ایک تحریک کے زیر اثر دیکھنا خاصا مشکل ہے- کسی حد تک دونوں نکتہ ہائے نظر کی تطبیق نظر آتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ دونوں صوفی شاعر عشق کی بے عمیق وسعتوں میں عالم موجودات اور وجود مطلق کے ربط کو دیکھتے ہیں- ان کے نزدیک عشق اور مرشد امکان سے لا امکان کے سفر کی تفہیم ہیں -
حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
جِس مَنزل نوں عِشق پُچاوے اِیمان نوں خَبر نہ کوئی ھو |
مولانا رومی ؒاور حضرت سلطان باھوؒ کے نزدیک مرشد کامل کی ایک نظر ہی عرفان ذات عطا کرتی ہے جس سے فرد خود پہ منکشف ہوتا ہے اور عالم موجودات کے ہر مظہر سے وہ وابستگی پیدا ہوتی ہے جس سے دشت امکانات رنگ و خوشبو سے بھر جاتا ہے - حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
الف: اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ھو |
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
دید آں مرشد کہ او ادراک داشت |
’’مرشد نے دیکھا کہ استعداد رکھتا ہے تو پاک دل کی زمین میں پاک بیج بو دیا‘‘-
ہمارے دونوں صوفی شاعروں کی فکر کے مطابق درد و فراق کی شدت منزل وصل کو قریب لاتی ہے- راہ عشق میں ریزہ ریزہ وجود نشان منزل بنتا ہے-بزبانِ مولانا رومیؒ :
سینہ خواہم شرح شرح از فراق |
’’میں ایسا سینہ چاہتا ہوں جو جدائی سے پارہ پارہ ہو تا کہ میں درد عشق کی تفصیل سنا سکوں‘‘-
حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
تَن مَن مِیرا پُرزے پُرزے جیوں درزی دیاں لِیراں ھو |
یہ عشق کا وہ مقام ہے جو دشت کر بلا میں حسین ابن علی (رضی اللہ عنہ) کی وہ آبرو مندانہ استقامت بنتا ہے جس کے آگے جبر و استبداد کی قوتیں رہتی دنیا تک سر نگوں رہیں گی- جیساکہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
سچا عشق حسین علی دا باھُوؒ سر دیوے راز نہ بھنے ھُو |
سامراجی نظام تعلیم میں صوفی کو تارک دنیا اور دنیاوی علوم کے مخالف کے روپ میں ظاہر کرنے کی کو شش کی گئی ہے- صوفی دراصل ہر اس علم کے خلاف ہے جو کسی دوسرے فرد یا قوم پر برتری کیلئے حاصل کیا جائے- مولانا رومیؒ فرماتے ہیں :
علم را بر تن زنی ماری بود |
’’علم کا ربط اگر بدن سے ہو تو سانپ ہے اگر علم کا رشتہ دل سے ہو تو یار ہے ‘‘-
حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
جاگ بناں دودھ جمدے ناہیں بھانویں لال ہون کڑھ کڑھ کے ھو |
یہاں جاگ عمل کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہے یعنی عمل کے بغیر علم کبھی بھی مقصد کے حصول کا وسیلہ نہیں بن سکتا -
حضرت سلطان باھوؒ کی شاعری میں عشق کی وہ رمز پوشیدہ ہے جو اہل دل پر علم موجودات اور وجود مطلق کے ربط کے ایسے اسرار منکشف کرتی ہے جو زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہیں- انسانی شعور جو زمان و مکان کی قید سے باہر دیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتا عشق کی لامحدود طاقت لامکاں کو امکان کے منظر نامے میں جلوہ گر کرتی ہے -آپؒ فرماتے ہیں:
کُن فَیَکُونْ جَدوں فرمایا اساں بھی کولوں ہاسے ھو |
عشق کی ابدیت حضرت سلطان باھوؒ کو لا امکان کے منظر دکھاتی ہے اور رسومات و ریا کاری پہ مبنی رسمی عبادات کی نفی کرتے ہیں اور اس نفی کیلئے آپ نئی ترکیبات تخلیق کر تے ہیں-
ناں مَیں بھج مسیتیں وڑیا ناں تسبا کھڑ کایا ھو |
ابدیت کی اہم صفت غفلت سے ماورا ہونا ہے -
جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھو |
حضرت سلطان باھوؒ نہ صرف اس صفت سے آشنا ہیں بلکہ غفلت کے پل کو کفر کا درجہ دیتے ہیں اس کی ساتھ ساتھ وہ کائنات کی لامتناہی وسعتوں کو فرد کی ذات کے اندر بھی دیکھتے ہیں- ان کے نزدیک فرد کی ذات عمیق گہرا راز ہے اور کائنات کے سر بستہ رازوں میں سے ایک ہے جس نے دل کے راز کو پا لیا اس نے ذات مطلق کو پا لیا-جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :
دِل دریا سمندروں ڈُوگھے کون دِلاں دیاں جانی ھو |
٭٭٭