جنہاں عشق نہ خرید کیتا باھو

جنہاں عشق نہ خرید کیتا باھو

جنہاں عشق نہ خرید کیتا باھو

مصنف: ڈاکٹر رشد اللہ شاہ دسمبر 2024

تصوف کی کوئی بھی زباں نہیں ہوتی-وہ ہر زباں میں اپنی آھنگ کے دھنک سے سالک کے باطن کو لطیف بنا دیتا ہے- ایسا حسین و جمیل کے سارے رنگ اس پر اتر آتے ہیں- ایسا لطیف کے پنکھڑیوں کے نرماہت بھی خود کو ان کے سامنے اپنا جمال بے رنگ محسوس کرے- بھلا ایسا کیوں نہ ہو- جب پوری کائنات سمٹ کر اس خاکی قباکے اندر اپنی ایک الگ ہی کائنات بنا بیٹھے، ایسی کائنات جس میں ’’وہ‘‘ خود ہی اپنا بسیرا کرے- سالک کا یہ سفر جنتا کٹھن، تکلیف دہ، جفاکشی، جد و جہد، جستجو، حیرانی پے مبنی ہوتا ہے اتنا ہی یہ سفر اپنے ایک نئیں موڑ پہ لطیف و کومل بن جاتا ہے، پھر سالک خود نہیں رہتا، وہ ’’وہ‘‘ بن جاتا ہے- عکس--- پسِ عکس!---یہ تو سالک ہی سمجھے یا مالک!

حضرت سلطان باھوؒ، تصوف کے اس منزل پہ موجود ہیں، جہاں ان کے سامنے رنگ برنگی دنیا اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھی ہے، ان کے لئے ساری خوشبوئیں، ساراحسن، اپنی محدود پیراہی میں سکڑ کر ان کے تابع بن جاتا ہے- وہ خود حسین وجمیل بن جاتے ہیں- ان کے اندر بے پناہ خوشبوؤں کا جہاں زندہ رہنا شروع کرتا ہے- وہ شگوفے کی طرح لطیف بن گئے ہیں-

سالک کا ’’لطیف‘‘ تک کا سفر متعین نہیں- کیفیات، جذبات، حالات، محسوسات، وقت کچھ بھی مقرر نہیں- خود سے خود کا سفر اتنا حیران کن بھی ہو سکتا ہے، یہ خبر اس سفر کے دوران ہی محسوس ہو شاید انسان کیفیات و جذبات کا ایک بڑا جہاں اپنے اندر دبا کر جیتا ہے- اسے وہ، معلوم نہیں کہ اس کے اندر کیا کیا ہے؟ وہ خود کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اس کے نہ ہونے سےکیا ہے؟ اس ہونے اور نہ ہونے کے بیچ کیا ہے؟ کچھ ہے بھی یا کچھ بھی نہیں-اگر وہ نہیں ہے تو بھی تو وہ ہے- اگر وہ ہے تو وہ نہیں ہے- خود کا خود تک سفر سالک کو یہ نقطہ ہی سمجھنے کے قابل بنا تا ہے- کیا سالک کو قابل بننا ہے! قابلیت کیا ہے! حروف الفاظ کی شناس،خیال تک کی دسترس، فکر و فہم کا دعویٰ، یا عاجزی، نیاز، محبت، اخلاص، قربت، احترام، ہستی کے وجود کے دعویٰ سے دستربرداری، تکبر سے دوری اتنی دوری کہ وجود اس کا متضاد نظر آنا شروع ہوجائے- کیا ہے یہ قابلیت؟ جس کے ظاہری رنگ رو سے سندھ کے صوفی شاعروں سے لے کر شاہ حسین، حضرت سلطان باھو، بابا بلھے شاہ، خواجہ فریدؒ تک کے شاعروں، عالموں نے عام ظاہری رنگ و روپ سے انکار کیا ہے-

پڑھ پڑھ عالم کرن تکبر حافظ کرن وڈیائی ھُو
گلیاں دے وچ پھرن نماٹے وتن کتاباں چائی ھُو
جتھے ویکھن چنگا چوکھا اوتھے پڑھن کلام سوائی ھُو
دوہیں جہانیں سوئی مٹھے باھُو ؒ جنہاں کھادھی ویچ کمائی ھُو

علم کا ایک یہ ظاہری روپ ہے جو انسان کو خود سے ملنے نہیں دیتا- وہ درخت میں لگے پھل کی جھکی ہوئی ٹہنی کے بجائے تکبر بن کر انسان کو خود سے دور کردیتا ہے- کیونکہ جس سفر میں محبت کا عنصر موجود نہ ہو وہ سفر تھکا دینے والا سفر ہوتا ہے اور جس میں محبت شامل ہوجائے اس سفر میں آنے والی مشکلات بھی تکلیف کے احساس سے عاری ہوتی ہیں- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں عالم ہوئے بھارے ھُو
اک حرف عشق دا پڑھن نہ جانن بھلے پھرن بچارے ھُو
اک نگاہ جے عاشق ویکھے لکھ ہزاراں تارے ھُو
لکھ نگاہ جے عالم ویکھے کسے نہ کدھی چاہڑے ھُو
عشق عقل وچ منزل بھاری سئے کوہاندے پاڑے ھُو
جنہاں عشق خرید نہ کیتا باھُوؒ اوہ دوہیں جہانیں مارے ھُو

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائیؒ (1690ء- 1752ء) فرماتے ہیں:

پڙھيو ٿا پڙھن، ڪڙھن ڪين قلوب سين،
پاڻان ڏوھ چڙھن، جئين ورق ورائن وترا

’’وہ پڑھتے تو خوب ہیں، مگر الفاظ کی معانی (جو اس کا جوھر ہے)تک نہیں پہنچتے-(وہ جانتے ہیں)جو جو صفحے الٹتے جاتے ہیں اں کے گناہ بھی بڑھتے جاتے ہیں‘‘-

صوفی شاعر سچل سرمست (1739ء-1827ء) بھی کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:

سڪ سچي کون ڪونڪو، سبق سور سکن
اکر لکن نھ دل تي، ٿا ڪاغذ ڪارا ڪن
مس ڪاري جان من کي، ٿا ڪاري ڪارو ڪن
مدعا جنھن مام جي، تنھن ويجھو ڪين وڃن
تاڏي ڪن نھ ڪن، جو فرمودو فائق جو

’’وہ علم کی حاصلات میں عشق کا درد شامل نہیں رکھتے،وہ حروف لکھتے ہیں معانی کے سوا وہ سیاہی کی طرح اپنے اندر کو بھی سیاہ کر رہے ہیں-وہ حقیقت کے قریب ہی نہیں جاتے-وہ اس طرف دیکھتے بھی نہیں جہاں سے اصل کی پہچان ہوتی ہے‘‘-

قاضی قادن (870ھ-1445ء- 958ھ-1551ء) سندھی زبان کے پہلے صوفی شاعر مانے جاتے ہیں- جو حضرت سلطان باھوؒ سے تقریباً اک صدی قبل انہیں خیالات کا اظہار کر گئے ہیں-

ڪنز قُدوري، ڪافيھ، جي پڙھي پروڙين سڀ
ڪَھ منڊي ماڪوڙي، کوھ مان ڪڇي اُڀ

’’بظاہر تم نے فقہ اور صرف و نحو کی اہم کتابیں (کنز، قدوری اور قافیہ) پڑھ لیں ہیں، پھر بھی(تمہارا علم اتنا مختصر ہے) تم کنویں کے مینڈک کی طرح اندر سے آسمان کی وسعت ناپ رہے ہو‘‘-

حضرت سلطان باھوؒ اپنی ایک تصنیف ’’رسالہ روحی شریف‘‘ میں کھتے ہیں:

گرچہ نیست مارا علم ظاہر
ز علم باطنی جاں گشتہ طاہر

’’اگرچہ ظاہری علم میں نے حاصل نہیں کیا، تاہم علمِ باطن حاصل کر کے میں پاک و طاہر ہو گیا ہوں اِس لئے جملہ علوم بذریعہ انعکاس میرے دل میں سما گئے ہیں‘‘-

برصغیر پاک و ہند میں قرآن پاک کے پہلے فارسی مترجم اور مفسر، سلسلہ اویسیہ کے بزرگ حضرت مخدوم نوحؒ (ہالا، سندہ) (1505ء-1588ء) اپنے ایک سندھی ابیات میں لکھتے ہیں:

اُپٽيان ته انڌيون، پوريون پرين پسن،
آهي اکڙين، عجب پر پسڻ جي.

’’آنکھیں کھولوں توکچھ دکھائی نہیں دیتا اور بند کروں تو محبوب کو دیکھتا ہوں-ان آنکھوں کے دیکھنے کی اس ادا پہ حیراں ہوں‘‘-

تمام صوفیائے کرام (تزکیہ کے بغیر حاصل ہونے والے) ظاہری علم کی نفی کرتے ہیں-ان کے نزدیک علم کےدو رُخ یا طبقے ہیں ظاہر و باطن- ظاہری حالت وہ جس میں چیزیں اس طرح نظر آئیں جس طرح وہ موجود ہوں- باطنی حالت: جس میں ان چیزوں کے محرکات و حرکات کا علم ہو- چیزوں کے ہونے اور نہ ہونے کے اسباب، مقاصد اور اہمیت کا پتا چلے-زباں کے سائنسی علم ساختیات کے مطابق الفاظ خود میں بے معنٰی ہے- اسے معانی کی جلا اس میں چھپے احساسات و کیفیت بخشتی ہے- یعنی الفاظ کے معانی اس کے اندر پوشیدہ ہیں- جب تک اسے کھوج کر حاصل نہیں کیا جاتا، تب تک وہ الفاظ پڑھنے والے کے لئے کچھ بھی نہیں، یعنی علم کا ظاہر سالک کو کامل نہیں بننے دیتا-سطحیت بہت بڑی رکاوٹ ہے گہرائی کے اندر جھانکنے میں- ہم جب سطحیت پر رُک جاتے ہیں تو اس کے اندر کیا ہے- ہم اس سے بے خبر ہی نہیں اس سے لاتعلق بھی بن جاتے ہیں- ایسے لاتعلق کے ہم نظر آنے والی چیزوں کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں، خیال کے جو ہر تک رسائی ہر حالت میں اہمیت رکھتی ہے- کیونکہ وہ جوہر ہی ہے جو قائم رہنا ہے- خیال کی بقا اس کے اندر موجود اس کے روح/گہرائی یا جوہر میں ہے- سالک جب تک علم کے اس درجے تک جانے کی کوشش نہیں کرے گا تب تک اس کا سفر ،اس کی حاصلات، کامیابی کبھی بھی بامقصد نہیں بن سکتی- اسے اپنے سفر کو بامقصد بنانے کیلئے اخلاص، محبت، خلوص، احترام جیسے جذبوں، کیفیتوں کو اپنے اندر سمو کر چلنا پڑے گا- کیونکہ یہ علم کے سفر کے وہ ثمر ہیں جو طالب کو علم کی جوہر تک رسائی تک والی مسافت میں آسانی پیدا کرتے ہیں-

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ فرماتے ہیں:

اکر پڙھ الف جو، ٻيا ورق سڀ وسار،
اندر تون اجار،پنا پڙهندين ڪيترا.

’’الف کا حروف پڑھ اور سارے ورق (کاغذ) بھول جا، اپنی اندر کو روشن کر ،تم کتنے ورق(کاغذ) پڑھو گے‘‘-

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے ہم عصربابا بلھے شاہ ؒ فرماتے ہیں :

الف اللہ رتا دل میرامینوں 'ب' دی خبر نہ کائی
'ب' پڑھیا مینوں سمجھ نہ آوےلذت الف دی آئی
'ع' تے 'غ' نوں سمجھ نہ جاناں گل الف سمجھائی
'بلھیا' قول الف دے پورےجیہڑے دل دی کرن صفائی!

یعنی اک الف کو پڑھ لو چھٹکارا مل جائے گا- 'الف' حروف تہجی کا پہلا حرف ہے-صوفیاء کرام 'الف' کو واحد، ذات متعلق، یکتا کی علامت کے طور پہ دیکھتے ہیں- ان کے نزدیک 'الف' حروف و الفاظ کی ابتدا ہے-اسے سمجھے اور جانے بغیر آپ علم کا سفر نہیں کرسکتے- 'الف' کا وجود یکتا ہے-وہ واحد ہے، اول سے آخر تک اور آخر سے اول تک 'الف' ہی رہناہے- صوفی 'الف' کی تحریری ساخت کو ذات باری تعالیٰ کے تصور سے جوڑتے ہیں-جس طرح وہ اپنی ذات میں یکتا ہے اسی طرح 'الف' کی شکل تبدیل نہیں ہوتی- سالک کو بھی 'الف' کی طرح یکتا بننا ہے- وہ اپنی ذات میں مکمل ہو- اپنے قول و فعل میں کامل ہو- وہ نیک عمل کا مالک ہو-

اخلاقیات فلسفہ کا اہم شعبہ ہے- تمام صوفیاء کرام، ولی اللہ نے عمل کے ساتھ اس کی تلقین کی ہے-ایک کامل انسان کا تصور اخلاقیات کے سواء ممکن نہیں- احترام انسان کے بغیر معاشرتی ترقی کا حصول ممکن نہیں- سماجی و مذہبی رواداری، سچائی، عدل، انصاف، معاشرتی شعبوں میں خاص اہمیت کے حامل ہیں جن پر عمل کے بغیر نہ تو کوئی معاشرہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی دھرتی پہ امن قائم کیا جا سکتا ہے- ان چیزوں کے حصول کے لئے انسان کے اخلاق کا اعلیٰ ہونا سب سے اہم ہے- انسان کائنات کے تخلیق کار کی سب سے معتبر اور ارفع تخلیق ہے- جس کا رتبہ کائنات کی تمام تر مخلوقات میں معتبر ہے- وہ رتبہ اس کو دانائی، حکمت اور عقل کی بنیاد پہ عطا کیا گیا ہے- حضرت سلطان باھوؒ کے نزدیک عشق کے سوا کچھ بھی حاصل کرنا ممکن نہیں-آپؒ کے نزدیک انسان کو جو کچھ بھی عطا ہوتا ہے وہ عشق ہی کی بدولت ہے- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

جیں دل عشق خرید نہ کیتا سو دل درد نہ پُھٹی ھُو
اس دل تھیں سنگ پتھر چنگے جو دل غفلت اٹی ھُو
جیں دل عشق حضور نہ منگیا سو درگاہوں سُٹی ھُو
ملیا دوست نہ انہاں باھُوؒ جنہاں چوڑ نہ کیتی ترٹی ھُو

جو عشق خرید نہیں کرسکتے وہ در در کی ٹھوکر کھاتے ہیں-وہ بڑےبد نصیب ہوتے ہیں- وہ علم و عرفان تک نہیں پہنچ سکتے، وہ مقام عرفیت سے دور ہوجاتے ہیں- وہ عام کی نظر میں پڑھے لکھے جانے جاتے ہیں- مگر وہ عالم فاضل نہیں بن پاتے- ان کے خیالات سے تازگی کا احساس پیدا نہیں ہوتا- ان میں وہ مہک نہیں ہوتی جس پہ لوگ کھینچ کر آتے ہیں- وہ تو اندر سے خالی ہوتے ہیں- اتنے خالی کے ان کو اپنے آپ سے بھی ڈر لگتا ہے- وہ تنہائی سے ڈرتے ہیں- وہ لوگوں سے ڈرتے ہیں- وہ آنے والی تبدیلی سے ڈرتے ہیں- وہ خود سے ہی ڈرتے ہیں- ایسے شخص کسی بھی طرح معاشرتی ترقی کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتے- حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

جیں دل عشق خرید نہ کیتا سوئی خسرے مرد زنانے ھُو
خنسے خسرے ہر کوئی آکھے کون آکھے مردانے ھُو
گلیاں دے وچ پھرن اَربیلے جیوں جنگل ڈھور دیوانے ھُو
مرداں تے نمرداں دی گل تداں پوسی باھُوؒ جداں عاشق بنہسن گانے ھُو

آپؒ فرماتے ہیں کہ جس نے بھی عشق کا سبق پڑھنا ہے وہ کسی صاحب عشق کے حضور حاضر ہو، کیونکہ صاحب عشق ہی صاحب ولایت ہے- صاحبِ ولایت ہی کامل انسان ہے- ان کا رتبہ کائنات میں ممتاز بن جانے کے بعد وہ اسی منصب پہ فائز ہے جو اب خلقِ خدا کے لئے راہ ہدایت کا وسیلہ ہے-

مزید آپؒ فرماتے ہیں:

رات اندھیری کالی دے وچ عشق چراغ جلاندا ھُو
جیندی سِک توں دل چا نیوے توڑیں نہیں آواز سنانُدا ھُو
اوجھڑ جھل تے مارو بیلے اِتھے دم دم خوف شیہاں دا ھُو
تھل جل جنگل گئے جھگیندے باھُوؒ کامل نینہہ جنہاندا ھُو

حضرت سلطان باھوؒ کے ہم عصر سندھی کلاسیکل شاعر حضرت شاہ عنایت رضوی (1620ء-1708ء)  لکھتے ہیں:

کامي کوري وچ ۾، پتنگ ويا پچي
اُني وٽ آتش جي، سڀڪا سُڌ سچي
موٽئو ڪو نه بچي، کامي سڀ خاڪ ڪيا

’’وہ آگ میں جل کر بھسم (مکمل) ہوگئے،(کیونکہ)وہ آگ میں جلنے کی سچی خواہش رکھتے ہیں-وہ لوٹ کر نہیں آتے، وہ جل کر خاک(فنا)ہوجاتے ہیں‘‘-

افتخار قطب اپنی کتاب ’’مجروح افکار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’انسانی زندگی میں تحرک/ حرکت خوف کے بدولت ہے- خوف ہی انسان کو اپنی شخصیت کی پہچان بھی کراتا ہے اور اس کو سنوارتا بھی ہے‘‘-

یعنی انسان کی پوری تگ و دو خوف پہ قائم ہے- صوفی بنیادی طور پہ اس دنیا میں آنے کا سبب معلوم کرتا ہے- کائنات میں اس کی حیثیت اور کارج کے متعلق جانتا ہے- وہ اس بنیادی سوال کے جواب میں سفر کرتا ہے- جس کے نتیجے میں اسے پہ عجیب و غریب باتیں عیاں ہوتیں ہیں- وہ اس سفر میں بہت سے انکشافات سے واقف ہوتا ہے- وہ مختلف کیفیات سے گزر کر اس نتیجے پہ پہنچتا ہے کہ وہ جس سوال کو جواب باہر تلاش کر رہا ہے وہ اس کے اندر ہی پوشیدہ ہے-  جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتےہیں:

ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھو،
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو،
شوق دا دیوا بال ہنیرے متاں لبھے وست کھڑاتی ھو
مرن تھیں اگےمر رہے باھوؒ جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھو

یہ راز سالک پہ تب عیاں ہوتا ہے جب وہ خود کو عشق کی آگ میں جلاتا ہےجب وہ اس آگ میں جل کر ختم ہوتا ہے تب ہی وہ اصلیت/ حقیقت کو پہچانتا ہے جو اسے مٹی سے کندن بنادیتا ہے- یہ عشق کی آگ اور اس کے دیوانے پتنگ بھی عجب ہوتے ہیں-ان کی دیوانگی ان کیلئے خوف کی حالت پیدا کرتی ہے اور جب اس خوف کی حالت سےباہر نکلتے ہیں تو بے خوف و خطر اپنے اندر اتر کر کائنات کی وسعت کو پا لیتے ہیں-

حضرت سلطان باھوؒ کے پنجابی ابیات میں جو مضامین کثرت سے پائے جاتے ہیں ان کامرکزی نقطہ انسانی اصلاحات ہے وہ انسان کو گمراہی، غفلت، برائی سے بچنے اور صراط مستقیم پہ چلنے کی تلقین کرتے ہیں- وہ عشق (سپردگی) کی حالت میں خود کو ڈھالنے کی ترغیب دیتے ہیں- وہ اسی راہِ عشق پہ چلنے کیلئے مرشد یعنی صاحبِ عشق (کامل انسان) کی صحبت اختیار کرنےکے لئے کہتے ہیں- یہ دنیا انسان کے اپنے عمل کے نتیجےمیں گل و گلزار بھی بن سکتی ہے تو وہ ہی دنیا پلیتی بن کر انسان کو رسوا و خوار بھی کرسکتی ہے- حضرت سلطان باھوؒ ’’کامل انسان‘‘ کا تصور پیش کرتے ہیں جو معاشرتی ترقی کا وسیلہ بن سکے-آپؒ فرماتے ہیں:

سبق صفاتی سوئی پڑھدے جو وت ہیٹی ذاتی ہو
علموں علم انہاں نوں ہویا جیڑے اصلی تے اثباتی ھو
نال محبت نفس کٹھونے کڈھ قضا دی کاتی ھُو
بہرہ خاص انہاں نوں باھُو جنہاں لدھا آب حیاتی ھُو

٭٭٭

ماخذ:

v    افتخار قطب، مجروح افکار،مارچ 1998ء-

v    جی- آر-پوری-  ٹی -آر شنگاری، سائیں بلھے شاہ، فکشن ہاؤس لاہور،1999ء-

v    حضرت سلطان باھو، شمس العارفین، سید امیر خان نیازی (مترجم)،العارفین پبلیکیشنز لاہور،2002ء-

v    ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ، میین شاہ عنات جو کلام، سندھی ادبی بورڈ،1963ء-

v    ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ،قاضی قادن جو رسالو،انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی،1999ء-

v    عثمان علی انصاری(مرتب)،رسالو سچل سرمست، ایڈٹ: ڈاکٹر مخمور بخاری، سندھی ادبی بورڈ،2012ء-

v    کلیان آڈوانی(مرتب)، شاہ جو رسالو، محکمہ ثقافت حکومت سندھ2012ء-

v  Dr.Z. A.Awan, Heart Deeper Than Ocean, Al-Arifeen Publications Lhore,201-7.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر