حضرت سلطان باھُو کا نظریہ تحرک و عملیت پسندی

حضرت سلطان باھُو کا نظریہ تحرک و عملیت پسندی

حضرت سلطان باھُو کا نظریہ تحرک و عملیت پسندی

مصنف: وسیم فارابی دسمبر 2024

حضرت سُلطان باھُو ؒ ان صوفیا میں سے ہیں جو جہد و تحرک پہ یقین رکھتے ہیں اور ان کی تعلیمات میں جمود و تعطل کی کوئی گنجائش نہیں ہے -وہ چیلنجز سے لڑنا سکھاتے ہیں - لگن اور عشق کے سفر میں انتہا پہ جانا سکھاتے ہیں- مسلسل چلتے چلے جانے کی ترغیب دیتے ہیں - خود بھی زندگی بھر اسی بات کے پیکر رہے کہ 30 برس مرشد تلاش کیا، حالانکہ بیسیوں پیرانِ طریقت سے ملے ان کی کرامات بھی دیکھیں اور کمالات بھی دیکھے مگر رُکے نہیں یہاں تک کہ جو چاہتے تھے وہ پالیا -

جِس مَنزل نوں عِشق پُچاوے اِیمان نوں خَبر نہ کوئی ھو

مفہوم:جس منزل تک عشق لے جاتا ہے ایمان کو اس منزل کی کوئی خبر نہیں ہے-

ایمان درجات میں ایک بلند درجہ ہے- انہوں نے اسے آزمایا اور اس میں کمال حاصل کیا لیکن یہاں رُکے نہیں بلکہ اس سے اگلی منزل دریافت کرنا چاہی تو معلوم ہوا عشق اس سے بھی آگے ہے جسے حدیث جبریل میں مرتبہ احسان بھی کہا گیا ہے- عشق کے سمندر میں جَست لگا دی تو وہاں دل نے ایسے سر بستہ رازوں کو پہچانا جو ایمان کے درجے میں رہتے ہوئے نہیں پائے جا سکتے تھے- اس لئے کہا کہ ایمان بھی ضروری ہے مگر عشق ایمان سے بھی آگے کی منزل ہے- مزید غور کریں کہ:

لُوں لُوں دے مُڈھ لَکھ لَکھ چَشماں ہِک کھولاں ہِک کجّاں ھو
اِتنیاں ڈِٹھیاں صَبر ناں آوے ہور کِتے وَل بھجّاں ھو

یہاں بیقراری کی کیفیت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اتنی کہ وہ محبوب کا دیدار صرف ظاہر کی دو آنکھوں سے کر کے خوش نہیں ہوتے بلکہ اندر کی دو آنکھیں بھی روشن کر لیتے ہیں پھر اس پہ بھی دل مطمئن نہیں ہوتا تو اپنے مشاہدے کو مزید وسعت دیتے ہیں اور زیادہ پھیلا دیتے ہیں یہاں تک کہ پورا وجود ہی آنکھ بنا لیتے ہیں اور اپنے ہونے کی تمامیت سے رُخِ یار کا مشاہدہ شروع کرتے ہیں یعنی ’’ایک کھولوں اور ایک ڈھانپوں‘‘-اس کیفیت کے بعد جب جسم کے لاکھوں بالوں کے نیچے لاکھوں کروڑوں آنکھیں بن چکی ہیں لاکھوں آنکھیں کھول کر اس کا رُخِ زیبا دیکھ رہے ہیں مگر سیر نہیں ہو رہے- اگر جمود زدہ عارف ہوتا تو دل کی دو آنکھوں سے مشاہدہ کر کے سیر ہو گیا ہوتا- زیادہ سے زیادہ یہاں تک آتا کہ ہونے کی تمامیت سے مشاہدہ کر لیا اب راضی ہوں- لیکن حضرت سُلطان باھُو، چونکہ جمود و تعطل سے پاک عارف ہیں ؛ جہد و تحرک پہ اور مسلسل آگے بڑھنے پہ یقین رکھتے ہیں ، اس لئے آپ نے اپنے ہونے کی تمامیت سے مشاہدہ کر لیا، پھر اس پہ اکتفا نہیں کیا ، یہاں رُکے نہیں بلکہ اس پر بھی عدمِ اطمینان کا اعلان کیا کہ میری طلب مجھے یہاں بھی نہیں بیٹھنے دے رہی اس سے آگے اب میں کہاں کس طرف کو بھاگوں- جن کی زبان پنجابی/سرائیکی/ہندکو نہیں ہے شاید وہ ’’ہور کدے وَل بھجاں‘‘ میں بیقراری کی لاانتہا ہوتی ہوئی کیفیت کومحسوس نہ کر سکیں مگر قریب قریب کے معنوں سے لطف اندوز ضرور ہو سکتے ہیں- یہ بات صرف ایک اس مقام پہ نہیں بلکہ حضرت سُلطان باھُوؒ کی ہمیشہ رہنے والی کیفیات میں ہے اور وہ کئی جگہ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا جسے انتہا سمجھ بیٹھے کہ اب اس سے اوپر کیا ہو سکتا ہے؟ آپ کے نظریہ میں انتہا کو کوئی دریافت نہیں کر سکا ، کسی مقام کو انتہا سمجھنا خام و ناتمام مرتبہ ہے اس لئے آپ کے نزدیک کسی جگہ رکنا نہیں، تھمنا نہیں، ٹھہرنا نہیں-اقبال جسے کہتے ہیں ’’حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں ‘‘ کہ زندگی آگے بڑھتے چلے جانے کا نام ہے، حضرت سُلطان باھُوؒ کے نزدیک جو تشنہ سیراب ہو جائے در حقیقت وہ تشنہ تھا ہی نہیں، تشنگی کو بجھانے والی چیز در اصل تشنگی کو بڑھاتی ہے - اس مصرعے کی کیا قیمت ہو سکتی ہے بھلا، جس میں حضرت سُلطان باھُوؒ کہتے ہیں :

دَریا وحدت دَا نوش کِیتوسے اَجاں بھی جِی پِیاسَا ھو

مفہوم: وحدت کا دریا پی لیا مگر جی اسی طرح پیاسا ہے -

اپنی ذات پر یقین ، اپنے اندر کی قوتوں کو بیدار کرنا :

ناں کر مِنّت خَواج خِضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو

ہیومنسٹوں(Humanists) کا بھی یہی خیال ہے اور مغرب کے جدید طرزِ زندگی کا یہی فلسفہ ہے کہ اپنے اندر کی حدود (Limits) کو پہچانو تو تم جانو گے کہ تم اَن حد (Limitless) بھی ہو سکتے ہو،کسی کی احتیاج نہ رکھو، اپنا جہان خود تعمیر کرو -

اپنی ذات پر یقین سے متصل ایک دوسرا تصور خود اعتمادی ہے جسے اپنے چاہنے والوں میں حضرت سُلطان باھُو ؒ اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ اگر تو اندر سے مضبوط ہے تو  باہر میں اسباب کی کمیاں تیرے اندر کی پختگی سے پوری ہو سکتی ہیں :

توڑے تَنگ پُرانے  ہووَن گجُھے نہ رَہندے تَازی ھو
مَار نَقارہ دَل وِچ وَڑیا کھیڈ گیا اِک بازی ھو

مفہوم:اگر تو اَسپِ تازی (اعلیٰ نسل کا عربی گھوڑا) ہے تو اپنی زین/کاٹھی کے پرانا ہونے کا غم نہ کر - جب میدان میں نقارہ بجے گا تو بازی میں تیرا ہنر اونچا ہی رہے گا -

یعنی تیری زین کا پرانا ہونا (ظاہری اسباب کی قِلت ہونا) تیرے اندر کے اصیل ہونے(اندر کے حقیقی جوہر ) کے ہنر کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے - حضرت سُلطان باھُوؒ کے نزدیک دنیا کے میدان میں جیت اندر کی اصلیت پر منحصر ہے نہ کہ نمود و نمائش کے سامان پہ- لہٰذا اگر اپنے اندر کی قوت پہ یقین ہو، اعتماد ہو تو تجھے نہ تو خواجہ خضر سے ہمیشہ کی زندگی والے پانی کی احتیاج ہے نہ ہی دنیا کے میدان میں بازی جیتنے کیلئے اپنی پشت پہ نئی کاٹھی کی- اگر تجھے اپنے آپ پہ اعتماد اور یقین نہیں تو حضرت خضرؑ سے مل بھی لے تو بھی آبِ حیات نہیں ملے گا، پشت پہ نئی اور عمدہ کاٹھی سجا لے تو بھی فاتحِ میدان اَسپِ تازی نہیں بن سکتا -

شوق دا دیوا بال ہَنیرے مَتاں لَبھی وَست کھَڑاتی ھو

اس میں پہلا احساس تمنا اور شوق کا دیا روشن کرنے کا ہے- دوسرا احساس اپنی کھوئی ہوئی چیز کے ادراک کرنے کا ہے- دونوں کو جوڑیں تو یہ حاصل ہے کہ تم نے جو کھویا ہے اس کا حصول ناممکن نہیں مگر سوال تیرے شوق و طلب کے پیمانے کا ہے؟ کیا اپنی طلب سے اتنے مخلص ہو کہ اس کے حصول کیلئے جان گنوا سکو؟ اتنی دلیری اور ہمت ہے تو جو چاہو پا سکتے ہو، اگر رسک (Risk)نہیں لے سکتے، جان ہارنے کا خوف ہے تو اس دنیا میں تمہاری کوئی جگہ نہیں -

حضرت سُلطان باھُو اپنے مقصود کو حاصل کرنے کی راہ میں جان کی بازی لگانے والوں کو بہت تحسین کرتے ہیں - ان کے چند ایک مصرعوں سے یہ تصور بہت نمایاں ہے-

نام فقیر تَد تھِیندا باھوؒ جَد وِچ طَلب دے مَرئیے ھو

مفہوم: تمہیں فقیر( یعنی اپنے ہنر میں "گُرو") کا خطاب تب ملے گا جب اس جدوجہد میں تمہاری جان چلی جائے-

تَدوں فقیر شتابی بن دا جَد جَان عِشق وچ ہارے ھو

مفہوم: فقیر ایک آتش گیر شعلہ تب بنتا ہے جب عشق کی بازی میں اپنی جان گنوا دیتا ہے-

مَیں قُربان تِنہاں توں باھوؒ جِنہاں خُون بَخشیا دِلبر نوں ھو

مفہوم: میری جان ان لوگوں پر قربان ہو جائے جنہوں نے اپنے محبوب کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا-

عَاشقاں دے گَل چھُری ہمیشہ باھوؒ اگے محبوب دے کُسدے ھو

مفہوم:عاشق ہمیشہ اپنے گلے میں چھُری لٹکا ئے ( جان ہتھیلی پر لیے ) پھرتے ہیں کہ جہاں محبوب کا اشارہ ہو وہیں خود کو قُربان کر دیں-

جِس مرنے تھیں خَلقت ڈردی باھوؒ عاشِق مرے تاں جیوے ھو

مفہوم: کسی مقصد میں جان گنوانے سے لوگ عموما ڈرتے ہیں جبکہ عاشق ایسی موت ہی کو اپنی حیات سمجھتے ہیں کہ اسی موت کے بعد ان کو اصل زندگی ملے گی-

حضرت سلطان باھو ؒمشکل پسندوں کو پسند کرتے ہیں :

اوسے راہ وَل جَائیے باھوؒ جِس تھِیں خَلقت ڈَردی ھو

مفہوم: اے باھو! چل اس راہ کی طرف چلتے ہیں جس پر چلنے سے ساری دنیا ڈرتی ہے-

آپ تن آسانی اور تساہل پسندی کی نفی کرتے ہیں - عام لوگ، عام جذبے (passion) اور عام حوصلے کے لوگ انہیں راہوں پہ چلتے ہیں جن پہ نشانِ پا موجود ہوتے ہیں اور کامیابی کی کئی مثالیں موجود ہوتی ہیں - مگر نئی دنیائیں تلاشنے والے لوگ عمومی راہوں سے ہٹ کر چلتے ہیں وہ وہاں سے راہیں ڈھونڈ نکالتے ہیں جن کھائیوں اور گھاٹیوں سے عام لوگ گزرتے ہوئے خوف کھاتے ہیں - اسی تصور کو ایک اور جگہ یوں بیان کرتے ہیں:

جِس دُکھ تھِیں سُکھ حاصِل ہووے اُس دُکھ تھِیں نہ ڈَرئیے ھو

مفہوم: جس دُکھ (مشکل) سے سُکھ (آسانی) حاصل ہو، ایسے دکھ سے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے-

نئی دنیاؤں کی تلاش نئی راہیں کھوج کر ہی کی جا سکتی ہے، جو راستوں کی ناہمواریوں اور چھوٹے چھوٹے خوف دلوں میں پال کر بیٹھے رہتے ہیں وہ بس بیٹھے ہی رہ جاتے ہیں- حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنے مقصد کی دُھن میں مشکل راستوں کو چننے والوں کو بہت زیادہ داد دی اور ان کی ہمت کو مثال بنا کر جگہ جگہ پیش کیا ہے - ایک جگہ کہتے ہیں کہ عام لوگوں میں اور سچی لگن یعنی ’’عشق‘‘والوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ ایک زخم ملنے پر راستہ چھوڑ دیتے ہیں جبکہ سچی لگن والے لوگ لاکھوں زخم اٹھا کر بھی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں - جہاں گرنے اور پھسلنے کا خطرہ ہوتا ہے ان کشتیوں پر سوائے لگن والوں کے کوئی سوار نہیں ہوتا- عاشق وہ ہیں جو اپنی کشتیاں پختہ ارادوں کے ساتھ طوفانوں اور گھمن گھیروں سے ٹکرا دیتے ہیں کہ:

ہِکی ہِکی پِیڑ کولوں کُل عالم کُوکے عاشقاں لَکھ لَکھ پِیڑسَہیڑی ھو
جِتھے ڈَھہن رُڑھن دا خطرہ ہووے کون چَڑھے اُس بَیڑی ھو
عاشق چڑھدے نال صلاحاں دے اونہاں تار کپر وچ بھیڑی ھو

تساہل پسندی، راحت طلب ہو جانے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ زندگی میں نئے راستے نہ ڈھونڈے جائیں، طوفانوں سے نہ ٹکرایا جائے - اس سے خطرہ مول لینے کی ہمت آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے - انسان صرف پھلوں اور پھولوں کے رَس کا عادی ہو جاتا ہے اور ستاروں پہ کمند ڈالنے کے تحرک سے محروم ہو جاتا ہے - یہی فرق ہے مکھی اور شاہین کی پرواز میں کہ مکھی باغ کی قید میں ہے اور شاہین کے آگے کوئی سرحد یا حد نہیں ہے - حضرت سلطان باھُو ؒفرماتے ہیں :

مَکھی قید شہد وِچ ہوئی کیا اُڈسی نال شہبازاں ھو

مفہوم: جو مکھی شہد کی مٹھاس پر عاشق ہو کر اسی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا بیٹھتی ہے اسے بھلا کیا خبر کے آسمانوں کی سیر میں کیا لذت ہے- ایسی مکھی شاہین کے ساتھ بھلا کب پرواز کرے گی؟

حضرت سلطان باھُوؒ طفل تسلیوں کی بجائے عزم و ہمت کا درس دیتے ہیں :

بھَار بھَریرا منزل چوکھیری اوڑک ونج پَہیتُوسے ھو

مفہوم:بوجھ بہت زیادہ تھا ، منزل بہت مشکل بھی تھی اور دور بھی ، بالآخر ہم منزل پر پہنچ ہی گئے -

اس مصرعہ سے بھی واضح ہے کہ حضرت سُلطان باھُوؒ کے فلسفہ حیات میں زندگی کی ذمہ داریوں سے فرار یا سہل پسندی اختیار کرنے کی کوئی راہ نہیں- حضرت سُلطان باھُوؒ زندگی کی ذمہ داریوں سے فرار نہیں ہونے دیتے بلکہ بار بار احساس دلاتے ہیں کہ انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک ہر ایک ذمہ داری کو ادا کرنے کا بوجھ تمہارے کندھوں پہ ہے جس سے انکار یا فرار کی کوئی راہ نہیں ہے- اگر تسلی مانگتے ہو کہ کوئی بات نہیں منزل قریب ہے یا راستہ آسان ہے تو ایسی کوئی طفل تسلی زندگی میں نہیں ہوتی-ولیم ارنسٹ ہینلے (William Ernest Hanley) کی نظم انوِکٹس  (Invictus) کا اختتام بھی اسی فلسفے پہ ہوتا ہے کہ

“I am the master of my fate, I am the captain of my soul”.

’’اپنی قسمت کا معمار میں خود ہوں اور اپنی زندگی کا کپتان میں خود ہوں‘‘-

 ارنسٹ ہینلے کی اسی نظم سے متاثر ہو کر مغرب میں اس فلسفۂ زندگی کو مقبولیت ملی کہ:

“Be the captain of your own ship”

یعنی اپنے زندگی کے جہاز کی ساری ذمہ داری تمہارے اپنے اوپر ہے - بھاری بوجھ مشکل راستے ، ایک ہی طریقہ ہے کامیابی کا کہ دلیری سے اس بوجھ کو اٹھاؤ اور مشکل راستے طے کرتے جاؤ، طوفانوں، قزاقوں، رہزنوں اور دشمنوں سے لڑتے ہوئے آگے جاؤ تبھی منزل کو پا سکتے ہو - آپ نہ صرف زندگی کو ہمت اور دلیری سے گزارنے کا سبق دیتے ہیں بلکہ آزمائشوں کی گلہ مندی اور شکوے سے بھی منع کرتے ہیں کہ :

بَر سر آیاں دَم ناں ماریں جاں سر آوے سَختی ھو

یعنی زندگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے جب سختی سر پہ آن پڑے تو دَم نہ مارنا یعنی شکوہ نہ کرنا - کیونکہ راہِ عشق و حیات میں شکوہ کرنا کم ہمتی اور ارادے کی ناپختگی کی دلیل ہے - اقبال کے الفاظ اسی تصور کولے کر دلوں میں ہمت کا رَس گھولتے ہیں :

جو فقر ہوا تلخیءِ دوراں کا گلہ مند
اُس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

کسی مقام پہ نہ ٹھہرنا، کسی چیز پہ اکتفا نہ کرنا، کسی درجے کو انتہا نہ جاننا، کسی جگہ پائے ہمت کو نہ روکنا حضرت سلطان باھُوؒ کے اصولوں میں سے ایک نمایاں اصول ہے - آپ نے اپنے ابیات میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے کی ترغیب دی ہے- اس پنجابی مقولے کے مصداق کہ ’’رُک ویسیں تاں مُک ویسیں‘‘ یعنی اگر رُک جاؤ گے تو ختم ہو جاؤ گے - اقبال کا بھی یہی فلسفہء حرکت ہے کہ’’ہستم اگر می رَوَم، گر نہ رَوَم ، نیستم‘‘ اگر میں آگے بڑھ رہا ہوں تو میں ہوں اگر رک جاؤں تو میں نہیں ہوں -حضرت سلطان باھُوؒ بھی ایسے ہی لوگوں کی تحسین کرتے ہیں جو اقبال کی ’ہستم اگر می رَوَم‘ کی پیروی کرتے ہیں- دو مختلف ابیات سے دو مصرعے دیکھئے کہ انہوں نے کیسا شاندار اور قابلِ تقلید تصور ِ زندگی دیا ہے :

میں قربان تنہاں توں باھو، جنہاں رکھیا قدم اگیرے ھُو

مفہوم:میری جان ایسے لوگوں پر قربان جو منزل کی طرف قدم بڑھاتے رہے اور پیچھے مُڑ کر بھی نہیں دیکھا-

ثابت صِدق تے قَدم اگیرے تائیں رَبّ لبھیوے ھو

مفہوم: اگر تم خدا کو پانا چاہتے ہو تو اپنے مقصود و منزل کے ساتھ اپنا دِلی تعلق پختہ رکھو اور اسکی طرف گامزن رہو-

حضرت سلطان باھوؒ کے فلسفہ و تصوف میں جمود، تعطل ، ٹھہر جانے، رک جانے اور حرکت و عمل سے غافل ہونے کا نشان تک نہیں ملتا ، آپ کا فلسفۂ حیات ان خرافات سے پاک ہے- آپ کے خیال میں لگن کی راہ میں کچھ رکاوٹیں انسان کے اندر سے اٹھتی ہیں اور کچھ رکاوٹیں انسان کے باہر سے، جسے اپنے کام کی لگن سچے دل سے لگی ہو وہ ان دونوں کو عبور کر جاتا ہے- اس کیلئے اندر کی رکاوٹیں دن رات، بھوک ، پیاس ، نیند حتیٰ کہ موت وغیرہ بھی کوئی رکاوٹ نہیں رہ جاتے :

راتیں رَتی نِیندر نہ آوے دِہاں رہے حیرانی ھو

مفہوم: میرا دن اپنے مقصود کی جستجو کےلئے فکر و تدبر میں تو گزرتا ہی ہے لیکن میں اس فکر میں اتنا غرق ہوتا ہوں کہ مجھے رات کو ایک پل کیلئے نیند بھی نہیں آتی-

عاشقاں نِیندر بھُکھ ناں کائی عاشق مُول نہ مَردے ھو
مِثل سکندر ڈُھونڈن عَاشِق اِک پَلک آرام نہ کردے ھو

مفہوم: عاشق اپنے مقصود کی تلاش میں اس طرح غرق رہتے ہیں کہ دنیوی ضروریات مثلاً کھانا،پینا،سونا،جاگنا وغیرہ ان کی جستجو کے آڑے نہیں آتیں- جس طرح سکندر نے آبِ حیات کو پانے کیلئے دن رات ایک کر کے اپنی نیندیں قربان کر دیں اسی طرح عاشق بھی اپنے مقصود کی تلاش میں ان آسائشوں سے بے نیاز ہو کر سرگرادان رہتے ہیں-

درج بالا تو ہمارے اندر کی رکاوٹیں تھیں ، اگر شوق اور لگن میں سچائی ہو تو باہر کی رکاوٹیں بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتیں :

اوجھڑ جھل تے مارُو بیلے اِتھے دم دم خوف شیہاں دا ھو
تھَل جَل جنگل گئے جھَگیندے باھوؒ کامل نِینْہہ جِنْہانْدا ھو

مفہوم: گہرے جنگل، خوفناک صحرا اور دریائی گزرگاہیں جن میں ہر وقت شیروں یعنی درندوں کا خوف ہے، مگر اے باھُو جس کا شوق کامل ہو وہ تھل یعنی صحراؤں سے، جل یعنی دریاؤں سے اور جنگلوں سے کامیابی سے پار نکل گئے -

گویا سچی لگن اور مسلسل محنت و ہمت ایسے ہتھیار ہیں جو اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کے دشمنوں کو مٹا دیتے ہیں -

سچائی ثابت کرنے کیلئے جان کی بازی لگانا:

اپنے علم و ہنر میں جان کی بازی لگائے بغیر کمال حاصل نہیں کیا جا سکتا- اس لئے وہ کئی مقامات پہ نصیحت کرتے ہیں کہ جس راہ کو تم نے اپنے زندگی کے مقصد کیلئے چن لیا ہے اس راہ میں جان کی پرواہ نہ کرو - عین ممکن ہے تمہیں اپنا سچ جان کی بازی لگا کر ثابت کرنا پڑے- حضرت سلطان باھوؒ نے کئی جگہ کہا ہے کہ جب ایسا موقع آ جائے تو پیچھے نہ ہٹو ، دیر بھی نہ کرو ، خوف بھی نہ کھاؤ بلکہ دلیری اور شجاعت کے ساتھ سر اونچا رکھے سینہ تانے اپنے مقصد کیلئے نثار ہو جاؤ –

سِر دِتیاں جے سرّ ہتھ آوے سَودا ہار نہ توہاں ھو

مفہوم: اگر سر دے کر ( جان دے کر ) مقصود حاصل ہوتا ہے تو اس سودے بازی میں ہرگز نہیں ہارنا بلکہ جان دے کر اپنا مقصود حاصل کر لینا-

جِے سر ِدتیاں حق حاصل ہووے باھوؒ اُس مَوتوں کی ڈَرناں ھو

مفہوم: اگر سر دے کر ( جان دے کر ) حق حاصل ہوتا ہے تو ایسی موت سے ہرگز نہیں ڈرنا –

باھوؒ جے صَاحب سر مَنگے ہَرگِز ڈِھل نہ کرئیے ھو

مفہوم: اے باھو! اگر محبوب جان مانگے تو ہم نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرنی-

عِشق دی بازی اُنہاں لئی جِنہاں سر دِتیاں ڈِھل ناں کیتی ھو

مفہوم: عشق کی بازی وہ لے گئے جنہوں نے جان دینے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کی-

حضرت سلطان باھُوؒ کے اس تصور کی گونج فیض احمد فیض کے اس شعر میں واضح سُنائی دیتی ہے ، بلا شبہ جو اردو زبان کے بہت معروف شعروں میں سے ایک ہیں -

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

حضرت سلطان باھُوؒ کی رائے میں اپنی لگن کو اس خوف سے ادھورا مت چھوڑو کہ کہیں راستے میں تہہِ تیغ نہ کر دیئے جاؤ، آپ کہتے ہیں بھلے تہہِ تیغ ہی ہونا پڑے مگر لگن سے منہ نہ موڑو - جس میں لگن کی تکمیل ہو رہی ہے اس سمت بلا خوف و خطر اپنا سفر جاری رکھو - اس میں رول ماڈل کے طور پہ حضرت امام حسین ؓ کی مثال دیتے ہیں کہ جیسے وہ حق کیلئے شہید ہو گئے تم بھی امر ہونا چاہتے ہو تو اپنے مقصد سے کبھی پسپا نہ ہونا -

عاشِق سوئی حقیقی جِہڑا قَتل معشوق دے منّے ھو
عِشق نہ چھوڑے مُکھ نہ موڑے توڑے سے تلواراں کھَنّے ھو
جِت وَل ویکھے راز ماہی دے لگے اوسے بنّے ھو
سچّا عِشق حسینؑ علیؑ دا باھوؒ سِر دیوے رَاز نہ بھنّے ھو

مفہوم: سچا عاشق وہی ہے جو معشوق کیلئے قتل ہو جانے کو دل و جان سے قبول کرے، چاہے وہ زخموں سے چُور چُور ہوجائے لیکن وہ نہ ہی اپنا عشق چھوڑے اور نہ ہی اپنے مقصد سے نگاہیں ہٹائے بلکہ جس طرف اسے اپنے مقصد کی جستجو لے جائے وہ اسی راہ کی طرف بھاگ دوڑے-اس لیے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا عشق سچا عشق تھا جنہوں نے اپنا سر کٹوا دیا لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے-

راحت طلبی و آسائش پسندی کی نفی:

راحت طلبی اور آسائش پسندی کو حضرت سلطان باھُوؒ کے فلسفے میں زہرِ قاتل سمجھا جاتا ہے - وہ جب فقیر کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر حق کی راہ میں کمال حاصل کرنا ہے تو اسے یہی مشکل پسندی، جفا کوشی اور جان گدازی کا مشورہ دیتے ہیں - اس تصور پہ ایک بیت دیکھیں :

دُودّھ تے دَہی ہر کوئی رِڑکے عاشق بھَا رِڑکیندے ھو
تَن چَٹُورا مَن مَندھانی، آہِیں نال ہَلیندے ھو
دُکھاں دا نیترا کڈھے لِسکارے غماں دا پانی پَیندے ھو
نام فقیر تِنہاں دا باھوؒ جیہڑے ہَڈاں توں مکھن کڈھیندے ھو

مفہوم: دودھ اور دہی تو ہر کوئی بلوہ لیتا ہے، سچی لگن تو ان کی ہوتی ہے جو آگ بلوہتے ہیں- (جس طرح دودھ اور دہی بلوہنے کیلئے خارج میں برتن ہوتا ہے اسی طرح ) آگ بلوہنے کیلئے اپنے جسم کو بڑا برتن بناتے ہیں اور اس میں اپنے من کو مندھانی بناتے ہیں (یعنی تن من سے وہ اپنی لگن کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں ) - جب دکھوں اور مشکلوں سے گزر کر وہ آگ کا مکھن سامنے آنے لگتا ہے تو پھر اس میں اپنی آہوں کا پانی شامل کرتے ہیں - اے باھُو! فقیر تو کہتے ہی اس کو ہیں جو (تن آسانی ترک کر کے) اپنی ہڈیوں سے (آگ کا) مکھن نکالتے ہیں -

حضرت سلطان باھُو کا فلسفہ تحرُک اور علمی جستجو:

حضرت سلطان باھُوؒ تصوف کے عالم بھی تھے اور عامل بھی، ان کی نصیحت بظاہر اسی راہ پہ چلنے والوں کو مخاطب کر کے ہے - لیکن ، یہ نصیحت علم کی ہر برانچ میں آگے بڑھنے والوں کیلئے ایسی ہی کارگر ہے کہ جب تک کسی علم میں ہمت اور مشقت کے ساتھ جان گدازی کے مراحل سے نہ گزرا جائے اس کی آگ کی تپش پیدا نہ ہو تب تک اس علم میں کمال حاصل نہیں کیا جا سکتا - اگر سائنس یا فلسفہ کی بات کریں تو بھی کیسی سَچی اور سُچی مثال ہے کہ ’’ہڈیوں سے مکھن نچوڑ‘‘ کر ہی کسی ہنر کا گُرو بنا جا سکتا ہے -

اس گزشتہ بیت میں حضرت سلطان باھُو ؒنے ہڈیوں سے مکھن نکالنے کے استعارے سے مشکل پسند ہونے کا درس دیا ہے - ایک جگہ پہ آپ نے اپنے فن میں کمال کو پہنچے ہوئے شخص کی نشانی یہ بیان کی ہے کہ اس کے جسم سے گوشت الگ ہو جاتا ہے اور کمزوری کے باعث صرف ہڈیاں جھول رہی ہوتی ہیں :

تَن تھیں مَاس جُدا ہویا باھوؒ سوکھ جھلارے ہڈیاں ھو

ایک اور مقام پہ آپ نے کہا ہے کہ سچی لگن والا شخص وہ ہوتا ہے جو اپنی لگن کی آگ میں اپنی ہڈیوں کو ایندھن کی طرح جلاتا رہتا ہے ، اپنی جان اور جگر کو محنت کی آری چلا کر کباب بناتا ہے ، اپنی لگن کی تکمیل میں دنیا اور اہلِ دنیا سے بے نیاز ہو کر ہر وقت سرگردان لگا رہتا ہے اپنے جگر کا خون پیتا رہتا ہے - بیت ملاحظہ ہو :

عِشق دی بھَاہ ہَڈاں دا بَالن عَاشِق بیھ سِکیندے ھو
گھت کے جان جِگر وچ آرا ویکھ کباب تَلیندے ھو
سرگردان پھِرن ہر ویلے خُون جِگر دا پِیندے ھو

’’خونِ جگر‘‘ کی ترکیب سے اقبال کی مسجد قرطبہ یاد آگئی کہ ’’معجزۂ فن کی ہے خُونِ جگر سے نمود‘‘ اور اسی نظم کے اختتام میں ہے کہ ’’نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر‘‘-

جگر کو خُون کئے بغیر مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا، جسم و جان کو پگھلا دینے والے مراحل سے گزرے بغیر انسان اپنے ہنر میں کمال نہیں پا سکتا-اسے روز مرّہ کی کئی عام فہم مثالوں سے حضرت سلطان باھُو نے واضح کیا ہے - وہ کہتے ہیں کہ جب تو لوہے کہ طرح لوہار کی بھٹی اور ہتھوڑے کی مار کھا لے گا تب تلوار بنے گا - جب لکڑی کی طرح تیرے جسم کو بار بار چیز کر باریک کیا جائے گا تب تو محبوب کی زلف میں پھیری جا سکنے والی کنگھی بن سکے گا- مہندی کے پتوں کے طرح تجھے پیس پیس کر چھوٹے چھوٹے ذرات میں بدل دیا جائے گا تب تجھے محبوب کی ہتھیلی پہ لگایا جائے گا - کپاس کی طرح جب تک تجھے کات کات کر دھاگہ دھاگہ کرکے نئے سرے سے بُنا نہیں جائے گا تب تک بادشاہ کے سر پہ باندھے جانے والی دستار نہیں بن سکتا :

لوہا ہوویں پِیا کُٹیویں تاں تلوار سَڈیویں ھو
کنگھی وَانگوں پِیا چِریویں تاں زُلف مَحبوب بھَریویں ھو
مِہندی وَانگوں پِیا گھُوٹیویں تاں تَلّی مَحبوب رنگینویں ھو
وَانگ کَپاہ پِیا پنجیویں تاں دَستار سَڈیویں ھو

ایک دوسرے مقام پہ آپ نے سونے کے زیورات سے مثال دی کہ جب تک سونا تیزاب میں دھو نہ لیا جائے تب تک تو محبوب کے کان کا بُندا نہیں بن سکتا (اس مصرعہ میں کھٹہ سے مراد تیزاب ہے سناروں کی پنجابی اصطلاح میں ’’کھٹہ‘‘تیزاب کو کہتے ہیں) –

کَنیں خُوباں دے تَدوں سُہاون جَدوں کَٹھے پا اُجالے ھو

حضرت سلطان باھُوؒ کہتے ہیں کہ ہمت و شجاعت کے ساتھ لگن اور شوق کے سمندر میں تیراکی کیلئے اترنا چاہئے- اور جس جگہ ’’اونچی لہریں اور غضب کی ٹھاٹھیں‘‘پڑ رہی ہوں وہیں پہ قدم جا کر رکھو اور وہیں اپنی ہمت آزماؤ وہیں اپنا آپ ثابت کرو - اپنے مقصد کے حصول کیلئے خوفناک جنگلوں ، ان میں رہنے والے درندوں اور دریائی گزرگاہوں کی خوفناکیوں کو دیکھ کر ڈرنا اور گھبرانا نہیں چاہئے - گُرو تو تم تبھی کہلا سکتے ہو جب اپنی لگن کی راہ میں ہی مارے جاؤ !

عِشق دَریا محبّت دے وِچ تھِی مَردانہ تَرئیے ھو
جِتھّے لہر غضب دِیاں ٹھَاٹھاں قَدم اُتھائیں دھرئیے ھو
اوجھڑ جھَنگ بَلائیں بَیلے ویکھو ویکھ نہ ڈرئیے ھو
نام فقیر تَد تھِیندا باھوؒ جَد وِچ طَلب دے مَرئیے ھو

اختتامیہ:

حضرت سلطان باھُوؒ کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی مقام پہ رکنا طلب کا عیب سمجھتے ہیں - ان کے نزدیک زندگی ایک جہدِ مسلسل سے عبارت ہے- انسان کو اللہ پہ توکل کرنا چاہئے اور اپنا زورِ بازو آزمانا چاہئے کہ یہ دنیا ہمت والوں کی دنیا ہے - کسی بھی ہنر میں تب تک کمال حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ شوق اور عشق کے ساتھ اس ہنر کی تہوں میں نہ اتر جایا جائے- آپ کے نظریہ کے مطابق ایک عظیم شخصیت کی تعمیر کیلئے سخت مراحل اور کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے جیسے تلوار بننے کا عمل لوہے کو کان سے نکال کر آگ اور ہتھوڑے کی اذیت سے گزارتا ہے، اگر لوہا اس سے فرار اختیار کرے تو وہ تلوار نہیں بن سکتا-یہی حالت کسی بھی قوم یا طبقے کے رہنما کی ہوتی ہے- آپ کے نزدیک زندگی میں کامیاب وہی ہوتے ہیں جو عمل ِ پیہم اختیار کرتے ہیں اور بے عملی سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں کرتے - اپنی لگن میں سچے ہوتے ہیں، اپنے مقصد کے حصول کیلئے ان کے دل میں کوئی خوف نہیں ہوتا ، حتیٰ کہ اگر موقع آ جائے تو ایسے لوگ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے اپنی جان کو مقصد پر قربان کر دیتے ہیں -  

پر صادق دین تنہاں دے باھوؒ جو سِر قُربانی کردے ھو

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر