مولانا رومؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کا تصور ِ زمان و مکاں

مولانا رومؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کا تصور ِ زمان و مکاں

مولانا رومؒ اور حضرت سلطان باھوؒ کا تصور ِ زمان و مکاں

مصنف: ڈاکٹر ادریس آزاد دسمبر 2024

علامہ اقبال اپنے خطبات میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے زمان ومکاں کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ فلسفہ ہو یا تصوف، ہردو کا نصب العین ایک ہی ہے کہ وہ لامتناہی تک رسائی (approach) کرناچاہتے ہیں-یادرہے کہ اہلِ تصوف کے نزدیک یہ لامتناہی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے-صوفیاء میں اسے مشاہدۂ حق کے نام سے جانا جاتاہے-

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ’’زمان و مکاں‘‘ فلسفے اور تصوف کا مشترکہ موضوع ہےاوریہ بھی حقیقت ہے کہ فلسفے اورتصوف میں فرق بھی، زمان و مکاں کی وجہ سے ہی ہے- دونوں کا حقیقی منہج زمانہ ہی ہے- بالفاظِ دگردونوں ایک ہی گلی کےمسافر ہیں-یا زیادہ بہتر الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ دونوں زمانے کی گلی میں اس طرح کھڑے ہیں کہ ایک کا رُخ گلی کے ایک سرے کی طرف ہے اوردوسرے کا رُخ گلی کے دوسرے سرے کی طرف-اقبال کے بقول:

حیراں ہے بُو علی کہ میں آیا کہاں سے ہُوں
رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کِدھر کو مَیں

اس شعر میں اقبال نے بوعلی، بوعلی سینا کو کہاہے-یعنی بوعلی سینا فلسفی ہے اور وہ ، یہ جاننا چاہتاہے کہ میں آیاکہاں سے ہوں؟ مطلب، میری ابتداء کیاہے؟ میرا آغاز کیسے ہوا؟ کائنات کیسے وجود میں آگئی؟ زندگی کیسے وجود میں آئی؟ وغیرہ وغیرہ- اس کے برعکس رومی جو ایک صوفی ہے، اسے اس بات سے کچھ مطلب نہیں کہ میں کہاں سے آیاہوں- اسے مطلب ہے تو فقط اس بات سے کہ مجھے جانا کس طرف ہے؟اقبال کے اورکئی اشعار بھی اسی خیال پر مشتمل ہیں- مثلاً یہ شعرکہ:

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے

 یعنی فلسفے کے سامنے ابتدا (beginning) کا سوال ہے تو تصوف کے سامنے منزل مقصود (ultimate destination)  کا، لیکن دونوں کا منہج زمان و مکاں ہی ہے-تاہم اس بات سے خود فلسفی متفق نظر آتے ہیں کہ فلسفہ تو حُدودِ زمان و مکاں کو عموماً عبورنہیں کرتا جبکہ تصوف عالم ِ ہست وبود کی تمام فصیلیں عبورکرتا ہوا بالآخرلازمان و لامکان تک جاپہنچنے کا دعویٰ بھی کرتاہے-

حضرت سلطان باھوؒ کے وہ مشہور ابیات کس کو نہیں آتے ہوں گے، جس میں آپ فرماتے ہیں کہ:

کن فیکون جدوں فرمایا، اساں وِی کولے ہاسے ھُو

گویا ہم زمانِ خالص میں وجود رکھتے تھےجوخدا کا زمانہ ہے-زمان و مکاں کے اس عالم کو سلطان باھوؒ "ھاھویت" کا عالم کہہ کر پکارتے ہیں-پھر فرمایا ہمارا مکان بھی وہی تھا جو خدا کا مکان ہے- یعنی کہ لامکان-

ہکے لامکان مکان اساڈا، ہکے آن بتاں وِچ پھاسے ھُو

بالفاظِ دیگر حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ انسان کا حقیقی زمان و مکاں، زمانِ خالص اور مکان خالص ہی ہے- لیکن چونکہ ہمیں نفس عطاکردیاگیا اور اس نفس میں یہ صلاحیت بھی رکھ دی گئی کہ وہ ہمیں گمراہ کرسکے تو اس لیے وقتی طورپر ہم اپنے اصل زمان ومکاں سے جدا ہوکرزمانِ متسلسل یعنی ماضی، حال اور مستقبل والے زمانے اورمکان میں پھنس گئے ہیں-

یہاں میں اپنا ایک شعر بھی قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا جو گفتگو کے اس مقام پر میری بات کی وضاحت میں مدد دے سکتاہے-

میں جس میں دفن ہوں اک چلتی پھرتی قبرہے یہ
جنم کے وقت ہی دراصل مر گیا تھا میں

مُراد فقط یہ ہے کہ مَیں عالمِ ارواح میں زندہ تھا، لیکن حیاتِ عارضی کے آغاز پہ وہ زندگی مجھ سے عارضی طورپر چھین لی گئی اور مجھے بھول گیا کہ میں کون ہوں اور میں نے ’’قالو بلٰی‘‘ کہہ کر گویاکسی کے ساتھ کوئی وعدہ کررکھاہے-

ڈاکٹرحسن فاروقی اپنی کتاب ’’میٹافزکس آف سلطان باہو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:حضرت سلطان باھوؒ اپنے آپ کو ابن عربی کے تنزلات سے متفق پاتے ہیں‘‘-

بالفاظِ دیگر دونوں بزرگ صوفیائے کرام کا تصورِ زمان و مکاں ایک ہی ہے-یہاں تنزلاتِ ستہ کی تفصیل کا وقت نہیں اس لیے میں صرف یہ کہہ کر آگے بڑھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہرطرح کے زمان ومکاں سے ماورأ ہے، لیکن صفاتِ اِلٰہی کا ظہور و شہود زمان و مکاں میں ہی ہوتاہے-اور اس لیے ہمیں زمانے کے، کم سے کم دوتصورات لازمی طور پر ماننے پڑتے ہیں- ایک وہ جسے حضرت سلطان باھوؒ لازمان و لامکان کہہ کرپکارتے ہیں اورجسے اقبال زمانِ خالص کہہ کر پکارتے ہیں-دوسرا وہ جس میں صفاتِ اِلٰہی کا ظہور و شہود ہوا-زمانِ خالص سبحان ہے- یعنی قرآنی آیت، ’’سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ‘‘[1] کے مصداق تمام تر صفات سے پاک ہے-جبکہ دوسرا زمانہ جو بقول کانٹ علیّت کی جان ہے، جو وجود میں آتا ہی تب ہے جب صفات، مشہود یا مینی فیسٹ (manifest) ہوتی ہیں-انسان کاخمیران دونوں زمانوں سے اٹھایاگیاہے-جسمانی طورپر وہ زمان متسلسل میں مبتلا ہےجبکہ روحانی طورپروہ زمانِ خالص کے ساتھ وابستہ ہے-اقبال نے پہلے خطبے میں لکھاہےکہ:

’’جب صوفی کو خدا کی ذات سرمدی کیساتھ گہری وابستگی نصیب ہوجاتی ہے تو اُس وقت اُسے زمانِ متسلسل کے عدمِ حقیقت کا احساس ہوتا ہے‘‘-

حضرت سلطان باھوؒکے نزدیک خدا کی معیت میں وقت کا تصورہی کچھ اورہے- حضرت سلطان باھوؒ نے عین الفقر میں ایک حدیث پاک درج کی ہے، جس کے الفاظ ہیں:

’’لِیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَایَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ‘‘

’’یعنی خدا کے ساتھ یا خُدا کی معیت میں میرا ایک ایسا وقت بھی ہے جس میں کسی مقرب فرشتے یا نبی رسول کی کوئی گنجائش نہیں‘‘-

یہ حدیث پاک جہاں رسولِ اطہر (ﷺ) کے بلند مرتبے اورمقام کو واضح کرتی ہے، وہیں زمانِ خالص کی ماہیت پر بھی روشنی ڈالتی ہے- ’’لِیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ‘‘ کے الفاظ، نہایت واضح ہیں- خدا کی معیت میں زمانہ، یقیناً زمانِ ظاہری تو نہیں ہوسکتا کہ سُورج کا طلوع و غروب تو ہمارے لیے ہے- خُدا کا نہ تو کوئی سورج طلوع ہوتاہے اورنہ ہی غروب کہ وہ اپنے گزرے دنوں کا شمار کرے-خدا کا کوئی ماضی یا مستقبل نہیں ہے- خدا تو ابدی حال (eternal present) ہے-ظاہر ہوا کہ خُدا کی معیت میں گزرے وقت کا شمارچاندسورج کی گردش سے ماوراہے-بالفاظِ دیگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’لِیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ‘‘ میں وقت کا دورانیہ کتنا تھا؟

حضرت سلطان باھوؒ نے عین الفقر میں ایک روایت بیان فرمائی ہےکہ:

’’قیامت کے روز جب عاشقوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے بُلایاجائےگا تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ عاشقو! اب ہمارا دیدار کرلو! ہرفقیرپرتجلی ہوگی اور وہ سترہزارسال تک بیہوش پڑا رہے گا اور جب اسے ہوش آئے گا تو وہ پکارے گا ’’ھل من مزید‘‘ مجھے اور دیدار چاہیے-اسے دوبارہ دیدار ملے گا اور وہ پھر سترہزارسال کے لئے بے ہوش ہوجائےگااور ایسا بار بار ہوتارہےگا‘‘-

معلوم ہوتاہے کہ ’’لِیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ‘‘ کے الفاظ میں وہ وقت جو رسولِ اطہر(ﷺ)نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ گزارا وہ زمانِ متسلسل کے اعتبار و شمار سے کسی اور ہی مقدارکاحامل ہے کہ آپ تو بے ہوش بھی نہ ہوئے-بقول ِ شاعر:

موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوۂ صفات
تُو عین ذات می نگری در تبسمی

’’موسیٰ کے ہوش تو ایک جلوۂ صفات سے ہی اڑگئے تھے، اورآپ نے عین ذات کو دیکھا اورمسکراتے رہے‘‘-

مولانا رومؒ کی طرح حضرت سلطان باھوؒ بھی زمانِ خالص کو ہی ذاتِ حق اور ذاتِ انسانی کا حقیقی زمانہ سمجھتے ہیں-لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصوف کے اس تصورکوفلسفیانہ سطح پر بھی سمجھاجاسکتاہے یااس کا تعلق محض روحانی تجربے کے ساتھ ہے اور فلسفہ اس کی تصدیق میں ناکام ہے؟ اس سوال کا جواب زمانِ متسلسل کی تفہیم میں پوشیدہ ہے- ڈاکٹر وحید عشرت کے بقول مولانا روم کے الفاظ میں، ماضی اور مستقبل تمہارے اورخدا کے درمیان ایک پردہ ہے، اس پردے کو ہٹادو تو تم پر حقیقت آشکار ہو جائے گی-ڈاکٹر وحید عشرت ’’مولانا روم‘‘ کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ :

’’ماضی اور مستقبل دراصل ایک ہی چیز ہیں جسے ہم دو سمجھتے ہیں- جسم ایک ہوتاہے کوئی اسے باپ کہتاہے کوئی بیٹا- چھت ایک ہے لیکن اس کے نیچے والے اس کواُوپر کہتے ہیں اوراُوپر والے اس کو نیچے کہتے ہیں‘‘-

اقبال کے بقول:

شاید کہ ’’زمیں‘‘ ہے یہ کسی اور جہاں کی
تُو جس کو سمجھتا ہے ’’فلک‘‘ اپنے جہاں کا

لیکن ماضی اورمستقبل کا پردہ کیسے ہٹایاجاسکتاہے؟رومی کے مطابق ابلقِ ایام پر تصرف سے-ابلق گھوڑے کو کہتے ہیں- ابلقِ ایّام یعنی زمان و مکاں کا گھوڑا-چنانچہ زمان و مکاں کے گھوڑے پر تصرف سے مُراد ہے کہ اِس حیاتِ عارضی میں ابلقِ ایّام کےپیروں تلے روندے جانے کی بجائے ابلقِ ایّام پر سواری کرنا ہوگی-علامہ اقبال اسے اشہبِ دوراں کہہ کر پکارتےہیں- اشہبِ دوراں کامعنی بھی زمانے کا گھوڑاہے-اوریہ گھوڑا رام ہوتاہے تو صرف قوتِ عشق سے-سقراط سے لے کر اقبال تک کتنے ہی فلسفیوں اور کتنے ہی صوفیا نے اِسی اشہبِ دوراں کی سواری ذاتِ انسانی کیلئے لازم قراردی ہے- غوث الاعظمؒ ’’فتوح الغیب ‘‘میں فرماتے ہیں کہ:

’’ بندہ جب عشق میں مقامِ فنا کو پہنچ جاتاہے تو اسے کونیات میں تصرف حاصل ہوجاتاہے‘‘-

لیکن عاشق کاظاہری وجودچونکہ زمانِ متسلسل کازندانی ہے اس لیے ماضی اورمستقبل کا نفسیاتی وجود عاشق کا امتحان ہے-حقیقی زمانہ ماضی اورمستقبل سے نیاز ہے-زمانہ ایک ہی ہے اور وہی حقیقی ہے-یہ ہماری نظر کا دھوکا ہے کہ ہم اسی حقیقی زمانے کو ماضی، حال اورمستقبل کے ٹکڑوں میں بٹا ہوا سمجھتے ہیں-یہ توفقط ہماری جسمانی آنکھوں کا بھینگاپن ہے کہ ہم ایک حقیقت کو ایک سے زیادہ حقیقتوں کی شکل میں دیکھتے ہیں-لیکن اگرہم ماضی اورمستقبل سے بے نیاز ہوجائیں-یعنی ماضی سے صرف سبق سیکھیں، نہ اس کے گُن گائیں اورنہ اس میں مبتلارہیں توہماراحال بہتر سے بہتر ہوتاچلاجائےگا-حال ہی ابدی حال سے وصال کا متحمل ہوسکتاہے-حال ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے-

خدا کا مقرب ہونے کیلئے ہمیں اصحابِ شمال یا اصحابِ یمین نہیں بننا-ہمیں صرف السابقون السابقون بنناہے-یعنی ہمیں دائیں بائیں نہیں مُڑنا بلکہ صراطِ مستقیم پر سیدھا آگے جاناہے-السابقون السابقون قرآن کے الفاظ ہیں-جس کا ترجمہ ہے، آگے بڑھنے والوں کے کیاکہنے، وہ تو ہیں ہی آگے بڑھنے والے-حضرت سلطان باھوؒ کے الفاظ میں:

میں قربان تنہاں توں باھو، جنہاں رکھیا قدم اگیرے ھو

اسی طرح ’’عین الفقر‘‘ میں بھی حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ:

’’ذاتِ انسانی ایک کشتی کی مانند ہے جودنیا کے پانیوں پر تیررہی ہے-اسےسفرکرناہے لیکن سفرکے دوران اس بات کا خیال رکھناہے کہ پانی کشتی کے اندر نہ داخل ہونے پائے‘‘-

یہ حضرت سلطان باھوؒ کا نظریۂ حرکت ہے-اسی تصورکو اقبال نےبھی اختیار کیا اور زندگی کو ایک جُوئے رواں قرار دیا جس میں انسان ایک کشتی میں سوار ہے-اسی کو اقبال نے دمادم رواں ہے یم ِ زندگی کے الفاظ سے بھی بیان کیا ہے-

زمانے کے گھوڑے کی سواری سے ایسا عشق ہرگز مراد نہیں جودنیاتیاگ دینے کا درس دیتاہو-زمانے کے گھوڑے کی سواری کی اصطلاح سے ہی ثابت ہورہاہے کہ اِسی مشکلات سے بھری زندگی کا شیروں کی طرح مقابلہ کرنا ہی دراصل عشق کی شناخت ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے عشق کے اس تصور کو مزید وسعت بخشی ہے اورفرمایاکہ، ’’فقرعلمِ کیمیاپر تصرف کا خزانہ ہے‘‘-بالفاظِ دیگر حضرت سلطان باھوؒ یہ فرمارہے ہیں کہ علمِ کیمیا بھی علمِ تصوف کا ہی پرتَو ہے-اسی بات کو رومی نے بُوئے ناف اورمنزل و گام و طواف کے فرق سے سمجھایا اوراسی بات کی تفصیلی وضاحت کے بعد اقبال نے یہ جملہ لکھاکہ:

The scientific observer of Nature is a kind of mystic seeker in the act of prayer.”

جبکہ محک الفقراء میں حضرت سلطان باھوؒ  لکھتے ہیں کہ:

’’خدا کا جاننا اور اس کی صفات کو پہچاننا ہرشخص پراپنی عقل کے موافق لازم ہے- اس کے لیے کسی کی تقلید ضروری نہیں‘‘-

 یہاں جاننا اور صفات کا پہچاننا عالمِ فطرت کا مطالعہ ہے-اسی لیے عقل سے جاننااورپہچاننا لازم قراردیا-گویا سائنسدان بھی صوفی ہی ہے جوزمان و مکاں کے مشاہدے میں غرق تو ہے لیکن اس طرح کہ وہ فقط زمانِ متسلسل کا مشاہدہ کرتاہے-سوار تو وہ بھی اشہبِ دوراں کا ہی ہے،لیکن وہ حقیقت کے ادھورے مشاہدے پر قناعت کر لیتا ہے- رومی تو دنیا کی زندگی کو حدیثِ رسولِ اطہر(ﷺ) کی روشنی میں مزرعۂ پاک کہہ کر پکارتاہے-

در این خاک در این خاک در این مزرعه پاک
بجز مهر بجز عشق دگر تخم نکاریم

اس خاک میں، اس مزرعہ پاک میں، عشق و محبت کے سوا کوئی بیج نہ بونا-بہرحال مولانا رومیؒ اورحضرت سلطان باھوؒ کے افکارکے تحت زمان و مکاں پر تصرف کے اُصول پر ایمان لازمی ہے-

ہم زمانِ عارضی یا زمانِ متسلسل پر تصرف حاصل کر لیتے ہیں تو زمانِ خالص تک رسائی ہمارے لیے ممکن ہوپاتی ہے اوریہ تصرف فقط استحکامِ خودی سے ہی ممکن ہے-جب خودی مستحکم ہوجاتی ہے تو اس کے لیے زمین و آسمان کے فاصلے ایک جست پر موقوف ہوتے ہیں-وہ خودی حقیقتِ سرمدیہ کا دیدار کر کے بھی اپنے ہوش نہیں کھوتی-بالفاظِ دیگراپنی ذاتی انفرادیت کے ساتھ قائم رہتی ہے-

علامہ اقبال نے خواجہ عبدالقدوس گنگوہیؒ کا ایک قول اسی ضمن میں نقل کیاہے کہ:

’’محمدِ عربی برفلک الافلاک رفت و باز آمد وللہ اگر من رفتمے ہرگز بازنیامدے‘‘

’’یعنی محمدِ عربی (ﷺ) تو فلک الافلاک پر گئے اور واپس آگئے وللہ اگر میں گیا ہوتا تو کبھی واپس نہ آتا‘‘-

مُراد یہ ہے کہ دیدارِ اِلٰہی کے بعد واپس اِس دنیا میں لوٹ آنا ہرکسی کے لیے ممکن نہیں ہے- صرف اسی ذات کے لیے ایسا ممکن ہے جس کی خودی مقامِ محمود تک مستحکم ہوچکی ہو، جو لامتناہیت کا مشاہدہ کرکے فنا نہ ہوجائے-

سید نذیر نیازی نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ایک بار ڈاکٹر سید عابدحُسین نے خط کے ذریعے علامہ اقبال سے سوال کیا کہ متناہی خودی کے لیے کیونکر ممکن ہے کہ وہ لامتناہی خودی کے سامنے ٹھہرسکے؟ اقبال نے جواب دیا کہ جیسے دن کی روشنی میں اگر چراغ کو باہر لایاجائے تواس کی روشنی سُورج کی روشنی میں ضم ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی چراغ جلتارہتاہے، بالکل ویسے متناہی خودی اگر مستحکم ہوتو لامتناہی خودی کے سامنے بہ استقرارٹھہرسکتی ہے-

٭٭٭


[1](الصافات:159)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر