مسلم انسٹیٹیوٹ،ادارہ فروغ قومی زبان اور یونس ایمرے انسٹیٹیوٹ کے انعقاد سے اسلام آباد میں ’’مولانا رومی و سلطان باھو: انسان دوستی، امن و محبت اور رواداری کے پیامبر‘‘ کے عنوان سے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیاگیا- کانفرنس کے دوسرے روزتصوف پہ ایک مکالمہ (dialogue) منعقد کیا گیا جس میں تصوف سے متعلق اہم سوالات اور عمومی مباحث پہ سیر حاصل گفتگو کی گئی-دو روزہ کانفرنس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معززین، اسکالرز اور دانشوروں کا خیرمقدم کیا گیا، جو ان صوفی بزرگوں کی فکری تعلیمات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے-
اس سیشن میں صاحبزادہ سلطان احمد علی نے بطور مہمان شرکت کی اور لئیق احمد لیکچرر شعبہ اسلامی علوم، یونیورسٹی آف کراچی اس سیشن کے مہمان/ اینکر تھے-
سوال : تصوف میں ملا اور صوفی کی ایک ڈیبیٹ ہے، اور اس میں علم کے حوالے سے بات بہت ہوتی ہے کہ صوفیاء علم کی نفی کرتے ہیں- زیادہ تر جب ہم ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو حضرت سلطان باھوؒ کے بھی کئی ابیات ہیں تو اس میں ایسا تاثر محسوس ہوتا ہے جیسے وہ نفیٔ علم کر رہے ہیں؟
جواب: بنیادی طور پہ سمجھنا چاہیے کہ علم کیا ہے؟ صوفیاء کے نزدیک، علم کا نظریہ کیا ہے؟ صوفیاء کرام کا علم کا جو تصور ہے اس سے مُراد ، وہ کہتے ہیں کہ اُس علم سے مطابقت رکھنا ہے جو علمِ عرفان (divine knowledge) ہے اور ان کے نزدیک علم کا مقصود معلوم تک پہنچنا ہے- جیسے حضرت سلطان باھو ؒ کا ایک معروف قول ہے کہ ’’علم وہ ہے جو عالم کو معلوم تک پہنچا سکے‘‘ یعنی علم وہ چیز ہے جو حاصل کی جا رہی ہے، عالم وہ ہے جو حاصل کر رہا ہے اور معلوم وہ ہے جو حاصل کا نتیجہ ہے- حاصل کا نتیجہ حضرت سلطان باھو ؒکے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کا قرب، اس کی معرفت ہے- ان کے نزدیک ایسا علم جو عالم کو معلوم تک پہنچا سکے وہ حاصل کرنا چاہیے اور یہی اس علم کی افادیت ہے، لیکن ایسا علم جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کی بجائے بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دے، اس کو حجاب میں مبتلا کر دے، اس علم سے وہ اپنے مقاصدِ زندگی کے تناظر میں اختلاف کرتے ہیں کیونکہ اگر ایک آدمی کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ میرے پاس بہت ساری دولت اکٹھی ہو جائے تو وہ شایدکسی دوسرے زاویے سے سوچے گا اور اگر آپ اس کو یہ بتائیں کہ مَیں علم اس لیے حاصل کر رہا ہوں کہ مَیں اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکوں تو وہ کہے گا کہ آپ بڑے بیوقوف ہیں، وہ غیب ہے، وہ تو موجود نہیں ہے اس تک تم کیسے پہنچ سکتے ہو-اس کے نزدیک یہ مادہ پرست دنیا ہے سارا کچھ مادے کے اوپر بنا ہے-مادیت پرستی کے علاوہ آپ جو بھی محسوس کر سکتے ہیں وہ اس کا انکار کرے گا- زندگی کے بارے میں ناقدانہ سوچ (criticle thinking) سےاس نے اپنا جو ماڈل سیٹ کیا ہوا ہے اس کے اوپر آپ کو دیکھے گا کیونکہ وہ اس کے اندر اتنی گہرائی کے ساتھ داخل ہو چکا ہے کہ اس کا جینا مرنا سارا کچھ دولت کا حصول ہے جو اس نے اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے- جبکہ صوفیاء کے نزدیک زندگی بھر کا حاصل وصال ِ ذات ِحق ہے اور ان کے نزدیک وہ شخص اتنا زیادہ کامیاب ہے وہ جو اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہے اور وہ اتنا ناکام ہے جو اس سے جتنا زیادہ دور ہے- صوفیا کے نزدیک دو روایات علم کے بارے میں کہی جاتی ہیں- حضرت سلطان باھو ؒ نے بھی عین الفقر میں دونوں کو لکھا ہے، ایک ’’اَلْعِلْمُ نُوْرْ‘‘علم ایک نور ہے اور دوسرا ’’ اَلْعِلْمُ حِجَابُ الْاَکْبَرْ‘‘علم سب سے بڑا حجاب ہے- آپ یہ کیسےفرق کریں گے کہ کون سا علم نور ہے اور کون سا علم حجاب اکبر ہے-
حضرت سلطان باھو ؒکے نزدیک جو علم آپ کو معلوم کے قریب کر دے یعنی حق اور حقیقت کے قریب کر دے وہ نور ہے اور جو علم حق اور حقیقت سے دورکر دے وہ حجاب اکبر ہے- وہ نور کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں اور حجاب اکبر سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں-
سوال: بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں تصوف کے بارے میں اشکالات پیدا ہوتے ہیں،ایک علمی طبقہ ایسا ہے جو دلائل کی بنیاد پر تصوف کو متوازی دین ثابت کرنے کی بات کرتا ہے کہ مکمل دین جو قرآن و سنت سے ہمارے پاس آیا ہے وہ الگ ہے اور تصوف ،اس کی تمام تر تعلیمات الگ ہیں- وہ کہتے ہیں کہ صوفیا کا جو عقیدہ توحید ہے وہ قرآن و سنت کے عقیدہ توحید سے مختلف ہے، صوفیاء کا جو عقیدہ رسالت ہے وہ قران و سنت کے عقیدے سے مختلف ہے اسی طرح عقیدہ آخرت بھی مختلف ہے- پھر تنقید کرنے کے بعد بڑے حوصلے سے کہتے ہیں کہ ثابت ہو گیا کہ تصوف ایک متوازی دین ہے- اس کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟
جواب :اس کا تعلق ایک شدت پسندانہ رجحان سے ہے (extreme tendency) کے ساتھ ہے- بہت سے ایسے سکالرز ہیں جن کی علمی حالت بہت متشدّد ہوتی ہے - وہ نرم لہجے میں زبان سے سمجھانے کی بجائے اپنی فکر سے جھاڑتے ہیں- دوسرا یہ کہ آپ جیسےصیہونیت سے اختلاف کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ یہودیت کے بارے میں کوئی تحقیر آمیز بات کر رہے ہیں اگر آپ ہندوتوا کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں ہوتا کہ آپ ہندو دھرم کے بارے میں کوئی غلط بات کر رہے ہیں- اسی طرح جیسے انتہاپسند سیاسی عزائم کے باعث صیہونیت ایک خطرناک فلاسفی ہے- اسی طرح ہندوتوا بھی ایک بہت خطرناک نظریہ ہے-اسی طرح جو خارجی تکفیری نظریہ ہے یہ بھی صیہونی اور ہندتوا سے کم نہیں ہے- تصوف کے بارے میں اتنی متشدد رائے بنانا بھی ایک انتہا پسندی ہے- یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے پہلے کلمہ پڑھنے والوں کو اسلام سے خارج قرار دینے کی رسم سیدنا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں خوارج نے ڈالی تھی اور جس شخص نے حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا تھا اس کا نقطہ نظر بھی یہی تھا-
دوسری بات یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف تصوف کا نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ متوازی دین ہے بلکہ اس طرح کی انتہا پسندی آپ کو دین کے ہر شعبے کے بارے میں نظر آئے گی-مثلاً فقہ کے بارے میں ایک طبقے کی رائے ہے کہ فقہ متوازی دین ہے یعنی جو پورا اجتہاد کا عمل ہوا اس کو چیلنج کیا گیا اور یہ کہہ کے چیلنج کیا گیا کہ یہ تو متوازی دین ہے- یعنی دین کے برابر کوئی ایک نئی چیز لا کر کھڑی کر دی ہے، اس لئے جو قران کہتا ہے، جو سُنت کہتی ہے ہمارے لیے تو وہی سب کچھ کافی ہے- دوسری بات تھیولوجی میں خاص کر مسلم تھیولوجیکل پیراڈائم میں حدیث کے بارے میں ہمارے ہاں ہندوستان کے اندر بیسویں صدی میں کتنی بڑی ڈیبیٹ ہوئی- ابھی بھی بہت لوگ اس کے اوپر یقین رکھتے ہیں کہ حدیث کو قرآن کے متوازی کے طور پر کھڑا کیا گیاہے اور وہ ان دلائل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ حدیث کی کوئی حقیقت نہیں ہے- جب ایک آدمی انتہا پسندی پہ جاتا ہے اور خود کومتوازن نہیں کر پاتا تو کہتا ہے کہ فقہ دین کے متوازی یا دین سے باہر ہے، حدیث دین کے متوازی ہے، حدیث دین نہیں ہے، تصوف متوازی دین ہے ،دین کے برابر کوئی چیز ہے- اب آپ ان تینوں نقطۂ نظر رکھنے والوں کو سامنے رکھتے ہوئے، دین سے فقہ، حدیث اور تصوف کو نکال دیں کیونکہ یہ متوازی دین ہیں، اور جائزہ لیں کہ اس کے بعد آپ کے پاس رہ کیا جاتا ہے؟کیا حدیث کے بغیر قرآن کوسمجھنا اور اس پر عمل کرنا ممکن ہے؟ کیا تصوف یعنی تزکیہ، اخلاق و اخلاص کے بغیر قرآن کی روح کو پایا جا سکتا ہے؟ تو گویا حدیث ،تصوف اور فقہ قرآن کریم کی توضیحات و تشریحات ہیں-اخلاق آپ فقہ یا حدیث یا تصوف سے سیکھتے ہیں- ان تینوں کو اگر ختم کر دیں تو بعد میں بچتا کیا ہے- تو کیا یہ ایک انتہائی متشدد نقطہ نظر نہیں ہے ؟
یہ ایک خلاف معمول انسان کی سوچ ہو سکتی ہے- کوئی بھی (معتدل) میانہ رو آدمی کسی بھی دینی مسئلے کے بارے میں ایسی بات نہیں کر سکتا- اگر آپ ایک کو خارج کریں گے پھر سب کچھ جائے گا اس لیے چیزیں اپنی جگہ پر موجود رہنے دیں -
سوال : نوجوان جب صوفیاء کی تعلیمات پڑھتے ہیں تو متاثر ہوتے ہیں، متاثر ہونے کے بعد کہتے ہیں کہ آج کوئی زندہ صوفی دیکھنا ہے اورجب وہ خانقاہوں پہ جا کر تلاش کرتے ہیں - خانقاہوں پہ جس طرح کے معاملات آج نظر آرہے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ وہاں پر کوئی قرآن و سنت کی بات نہیں ہے- اگر جو لوگ تصوف کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اس راہ پر چلنے کے لئے کوئی عملی نمونہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ملتا نہیں ہے؟اس حوالے سے روشنی ڈالیں؟
جواب : بنیادی طور پر یہ دو الگ سوال ہیں- ایک یہ کہ جعلی لوگ آگئے ہیں اور دوسرا یہ کہ سچا آدمی ملتا نہیں ہے- پاکستان میں جعل سازی کا فروغ صرف خانقاہ تک محدود نہیں بلکہ یہ ہر شعبہ میں موجود ہے- اگر معاشرے کی نفسیات کو دیکھا جائے تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی ڈبلیو ایک مشہور جرمن خبر رساں ادارہ کی ویب سائٹ پہ خبر تھی کہ 10 ہزار کے قریب سائنس سے متعلقہ جعلی ریسرچ پیپرز مستند ویب سائٹس سے اور ریسرچ جرنل سے ہٹائے گئے ہیں اور ان میں پاکستان دوسرے نمبر پہ ہے- یہ جعلی ریسرچرز اسی معاشرے میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ جعلی ڈاکٹرز، جعلی میڈیکل سٹاف، پارلیمانی لوگوں کی جعلی ڈگریاں، ٹیکس بچانے کے لیے جعلی بزنس ادارے بھی اسی معاشرے میں موجود ہیں-اسی طرح اس معاشرے میں ہمیں جعلی ملاں،جعلی شاعر اور جعلی ڈگریاں حاصل کر نے والے لوگ مقدس اداروں میں بیٹھے نظر آتے ہیں-اس معاشرے میں جب ہر چیز جعلیت پہ مبنی ہے، تو پانچ دس بدنصیب جعلی پیر بھی درگاہوں میں گھس گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اس معاشرے کی روش ہے-اس لئے ان جعلی پیروں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی روش کو بدلنا ضروری ہے-
دوسری بات یہ کہ سچے کردار والے عملی لوگ نہیں ملتے- امام ابوالقاسم قشیری اسلامی تصوف کی تاریخ میں سب سے بڑے عملی صوفی تھیورسٹ تھے- اگر آپ تصوف کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ان کی کتاب ’’رسالہ قشیریہ‘‘ کو لازمی پڑھیں-امام قشیری نے اپنے مقدمے میں لکھا کہ مجھے تصوف کی کتاب لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ تصوف کے نام پہ بہت برائیاں ہو رہی ہیں، جن میں لوگ ہاتھوں میں بڑے مندرے پہن لینے، سبز صافہ اوڑھ لینے، ترکِ شریعت اور جتنی بھی خرافات ہیں، ان کو اپنانے کو تصوف سمجھتے ہیں- یعنی جتنی بھی خرابیاں امام قشیری نے لکھی ہیں اس رسالے کا مقدمہ پڑھ کر، آپ کو ذرا بھی نہیں لگے گا کہ آپ امام قشیری کے زمانے کے باہر بیٹھے ہیں- آج جتنی خرابیاں تصوف کی ہیں یہ سب خرابیاں امام قشیری نے بیان کی ہیں-
آج امام قشیری کو دنیا سے رخصت ہوئے کم و بیش ایک ہزار برس ہو گئے ہیں ان کی کتاب آج بھی اتنی ہی مطابقت رکھتی ہے - امام قشیری سے متاثر ہونے والوں میں امام الحرمین الجوینی، امام ابو حامد الغزالی، شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اور امام فخر الدین رازیؒ جیسے عظیم لوگ تھے- امام قشیری نے تصوف کی ساری علمی روایت کو متاثر کیا اور یہ سب لوگ امام قشیری کے بعد ہوئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے جعلی لوگ امام قشیری کے وقت میں بھی تھے اور اتنے ہی زیادہ تھے جتنے آج ہیں- لیکن شیخ عبدالقادرالجیلانی، حضرت بہاؤالدین نقشبند، خواجہ معین الدین چشتی، مولانارومی اور حضرت سلطان باھوؒ ان کے بعد ہوئے ہیں-
جعلی لوگ ہر دور میں موجود ہوتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سچے لوگ ان میں سے نکل جاتے ہیں بلکہ وہ اپنی جگہ موجود رہتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم فرمایا ہے کہ :
’’وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘[1]
’’ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ‘‘-
امام رازی ؒ نے اپنی تفسیر میں بڑی خوبصورت دلیل دی ہے کہ اگر کسی بھی وقت سچے لوگ روئے زمین سے ختم ہونے ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس قدر حکم نہیں فرماتا کہ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ- سچوں کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک قرآن پڑھنے والے رہیں گے تب تک سچے لوگ روئے زمین پہ موجود رہیں گے- چنانچہ آج اگر قرآن پاک کا حکم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سچے لوگ بھی موجود ہیں- رہی بات کہ سچے لوگ ملتے نہیں تو یہی تو انسان کا امتحان ہے- بقول حضرت سلطان باھوؒ:
عِشق سوکھالا جے ہوندا باھوؒ سبھ عاشق ہی بن بہندے ھو |
تلاشِ مرشد آسان نہیں ہے، حضرت سلطان باھو ؒ نے ایک، دو یا تین سال نہیں بلکہ اپنی زندگی کے 30 برس ایک سچے مرشد کی تلاش میں گزار دیے- یہ وہ وقت تھا، جب دنیا اسلام کا عروج تھا، ایک طرف عثمانی خلافت تھی، اورنگزیب کا دور دورا تھا،آپؒ کئی درگاہوں پہ گئے، سینکڑوں لوگوں کے پاس گئے مگر کہیں دل مطمئن نہیں ہوا- اس لئے جب بھی کوئی مرشد کی تلاش میں جائے تواس کو مرشد کے اوصاف پتہ ہونے چاہییں کہ اس کے کامل ہونے کا وصف کیا ہے؟ اگرجذبہ، طلبِ حق ہے تو پھر کامل مرشد کو ڈھونڈیں جیسا کہ حضرت سلطان باھو ؒ نے بھی 30 برس کامل مرشد کی تلاش کی-
حضرت سلطان باھو اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات آج بھی اتنی ہی مطابقت رکھتی ہیں جتنی اپنے زمانے میں رکھتی تھیں-ان تعلیمات کو زندہ رکھنے کیلئے ان پر عمل بہت ضروری ہے- ان کے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ زندگی گزارنے کا طریقہ کار جو ہم نے قرآن و سنت اور اپنی زندگی کے دیگر تجربات سےسمجھا ہے اس کو ایک عملی طور اپنایا جائے- اگر آپ مولانا رومی اور حضرت سلطان باھوؒ سے پیار کرتے ہیں تو مثنوی شریف کو اور ابیاتِ باھو کو اپنی زندگی میں عملی طور اپنائیں جس کا اثر آپ کے کردارسے جھلکے-
٭٭٭
[1](التوبہ:119)