اسلامی فن تعمیر میں منبرو محراب کی اہمیت

اسلامی فن تعمیر میں منبرو محراب کی اہمیت

اسلامی فن تعمیر میں منبرو محراب کی اہمیت

مصنف: سمیرا اشرف جنوری 2025

دنیا میں مختلف اقسام کے فنون رائج ہیں لیکن ان میں سب سے نامور اور قدیم فن دو طرح کے ہیں،  فنون لطیفہ اور فنون کثیفہ- وہ فنون جن کا تعلق انسانی عقل سے ہو، اسے فنون لطیفہ قرار دیا جا رہا ہے- جیسے مصوری، موسیقی اور خطاطی وغیرہ اور اسی طرح اگر ان فنون کا تعلق دیگر اعضا ئے جسمانی سے ہو تو اسے فنون کثیفہ کہا جاتا ہے- فن تعمیر بھی فنون کثیفہ میں شامل ہے- یہ بنیادی فن ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت قدیم بھی ہے اتنا ہی قدیم جتنا کہ حضرت انسان- کیونکہ انسان کے مسکن اور رہائش کیلئے اسی فن کی ضرورت پیش آتی ہے- ہر قوم کی ترقی اور تنزلی کا انحصار اس کے فن تعمیر پر ہی ہوتا ہے - یہی وجہ ہے کہ آثار قدیمہ سے ملنے والے فنی نوادرات  سے اس قوم کی ترقی اور معیار زندگی کے بارے میں رائے پیش کی جاتی ہے-  قرآن کریم نے بھی قوم ثمود کا تذکرہ فرمایا تو ان کے فن تعمیر ہی کو بنیاد بنایا- ارشادِ باری  تعالیٰ ہے:

’’وَ ثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ‘‘ [1]

’’اور ثمود جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے‘‘-

فن تعمیر میں مختلف مذاہب اور اقوام کے انداز جداگانہ  طرزکے ہوتے ہیں اور ان کے تعمیری فن پارے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں- ان فن پاروں  میں ان کے مذہب اور ثقافت کے اثرات جھلکتے ہیں- اسلامی اور غیر اسلامی دونوں طرزِ تعمیر میں ثقافت اور مذہب کا رنگ بہت نمایاں ہوتا ہے- جس کے سبب وہ ایک دوسرے پر امتیازی حیثیت رکھتے ہیں- پروفیسر محمد مجیب لکھتے ہیں:

’’کسی قوم کا فن تعمیر اس کے ذہن اور مزاج کی صحیح عکاسی کرتا ہے- مساجد کے کھلے صحن مسلمانوں کی وسعتِ قلب اور اونچے منارے ان کے بلند حوصلوں کی غمازی کرتے ہیں- دہلی کاقطب مینار وہی قوم تعمیر کر سکتی ہے جس کا عزم و حوصلہ بھی اتنا ہی بلند ہو- جامع مسجد دہلی اور بادشاہی مسجد لاہور کے کشادہ صحن وہی قوم بنا سکتی ہے جس کا دل بھی اتنا ہی کشادہ ہو‘‘-  [2]

اسلامی فن تعمیر (Islamic Architecture)کی ابتدا اس وقت ہوئی جب رسول اللہ(ﷺ)نے اسلام کی پہلی مسجد ’’ مسجد نبویؐ‘‘ کی تعمیرفرمائی- بظاہر یہ مسجد سادہ اینٹوں اور گارے سے تیار کردہ تھی لیکن اس میں مسلمانوں کی حالت اور حیثیت کا عکس جھلکتا تھا- یہی طرز خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی ملتا ہے کہ جب دور فاروقی میں مسجد نبوی کی دوبارہ تعمیر کی گئی تو تعمیر میں سادگی کو برقرار رکھا گیا-  [3]

   اسلامی فن تعمیر ایک منفرد اور خوبصورت طرزِ تعمیر ہے جو اسلامی ثقافت، مذہب اور فنون کے اثرات کو نمایاں کرتا ہے- یہ طرزِ تعمیر بنیادی طور پر مساجد، مدارس، محلات، اور دیگر عمارات میں نظر آتا ہے اور اس میں مختلف خطوں اور ادوار کی خصوصیات شامل ہیں-اسلامی فن  تعمیرات اپنے آغاز سے لے کر آج تک پوری دنیا میں بہت مشہور ومعروف ہے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ دنیا بھر کے ماہر تعمیرات اس سے متاثر اور معترف ہیں-

اسلامی فن تعمیر  میں مساجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے- یہ دین کی عبادت و ریاضت  کا بنیادی ستون اور مرکز ہیں- مسلمان دن میں کئی بار اس گھر کی حاضری دیتے اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں- گنبد، محراب اور مینار ہر مسجد کا خاصہ ہوتے ہیں- قدیم اسلامی مساجد میں مسجد الحرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ قبا اور مسجدِ اقصیٰ شامل ہیں- یہ مساجد اسلامی اقدار کی پہچان ہیں اور آج بھی دنیا بھر میں تعمیر کی جانے والی مساجد ان ہی کے طرزِ تعمیر سے جڑی ہیں- وہ تمام مساجد فن تعمیر میں اپنی مثال آپ ہیں جن کو دیکھنے اور زیارت کرنے کے لیے سیاح دور دور سے آتے اور اسلام کے فن پاروں سے فیض یاب ہوتے ہیں- اسلامی فن تعمیر کا یہ ایک مخصوص مزاج ہے- اسی فن کے تحت مساجد اور محلات کے صحن کھلے اور کشادہ  رکھے جاتے ہیں، جہاں مختلف تہوار اور عبادات کے لیے لوگوں کا جم غفیر سما سکے اور یہی اسلامی روایات اور ثقافتی اقدار کا منہ بولتا ثبوت ہے-  [4]

اسلامی فن تعمیر کی خصوصیات: 

اسلامی فن تعمیر بہت سی خصوصیات کی حامل ہے- اس میں نہ صرف تہذیب و ثقافت کا مکمل عکس ملتا ہے بلکہ مذہبی اقدار اور روایات بھی پائی جاتی ہیں- مساجد کے منبر و محراب میں بہترین خطاطی اور نقش و نگار میں لکھی گئی قرآنی آیات اور اسلامی نقوش کی کاریگری روحانیت پیدا کرتی ہیں- یہ آرائشی خطاطی قرآنی آیات، عربی خطاطی اور اسلامی نقوش کی صورت میں  مسجدوں  کی دیواروں اور چھتوں پر خوبصورتی سے کندہ کیے جاتے ہیں-یہ منبر و محراب مرکزیت کی علامت بھی ہیں جن سے علم و حکمت کے بیش قیمت موتی لوگوں تک پہنچتے ہیں-اس کے علاوہ ان مساجد میں جیومیٹریکل اشکال اور پیچیدہ ڈیزائن بہت نمایاں ہیں جو توازن اور ہم آہنگی کی علامت ہیں-یہ تمام نمونے اسلامی فن تعمیر کی خوبصورتی، تاریخ اور ثقافت کی عظیم وراثت کو نمایاں کرتے ہیں-مسلمانوں نے مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کی بے شمار عمارتیں مسلم دنیا میں تعمیر کیں اور ان دونوں طرح کی عمارتوں میں اسلامی فن تعمیر کا بھرپور اظہار ہے-

منبر و محراب کی اہمیت:

منبر اور محراب اسلامی فن تعمیر کے ایسے لازمی اجزاء ہیں جو نہ صرف عبادت میں مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ اسلامی ثقافت اور دینی شعائر کی عکاسی بھی کرتے ہیں- یہ دونوں عناصر مساجد کی روحانی اور عملی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں-منبر ایک بلند جگہ یا سیڑھی دار ساخت ہے، جہاں امام جمعہ، عیدین اور دیگر مواقع پر خطبہ دیتے ہیں- یہ عموماً محراب کے ساتھ یا اس کے قریب بنایا جاتا ہے- جبکہ محراب مسجد کی دیوار میں ایک محرابی ساخت ہوتی ہے جو ہمیشہ قبلہ (مکہ مکرمہ) کی سمت میں تعمیر کی جاتی ہے-

منبر و محراب  کے مقاصد:

منبر سے خطبہ دینا سنت نبوی (ﷺ) ہے- امام منبر پر کھڑے ہو کر عبادات، تعلیم اور رہنمائی کے فرائض انجام دیتے ہیں-اس کی بلندی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ امام کی بات تمام نمازیوں تک بآسانی پہنچے-اس پر کھڑے ہو کر امام لوگوں کو دینی احکام، سماجی مسائل اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں-یہ مسلمانوں میں اتحاد اور قیادت کی علامت ہے، جہاں سے امام دین اور دنیاوی معاملات میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں-یہ اکثر اسلامی نقش و نگار اور خطاطی سے مزین ہوتا ہے، جو مسجد کے جمالیاتی حسن میں اضافہ کرتا ہے-

جبکہ محراب کا بنیادی مقصد نمازیوں کو قبلے کی سمت کی طرف متوجہ کرنا ہے- اس کے سامنے امام کھڑا ہو کر نماز کی امامت کرتا ہے- اس کی ساخت اور اس پر کی گئی تزئین و آرائش عبادت گزاروں کیلئے خشوع و خضوع پیدا کرتی ہے-محراب کا ڈیزائن امام کی آواز کو ارتکاز دیتا ہے، خاص طور پر ان مساجد میں جہاں مائیکروفون موجود نہیں ہوتا- مسلمانوں نے اپنی ترقی اور عروج کے زمانے سے ہی مسجدوں کو خوبصورت منبر و محراب سے مزین کیا ہے- اسلامی فن تعمیر نے دنیا کے مختلف خطوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں - عرب، فارس، ترکی، ہندوستان اور اندلس میں اس فن کے مختلف انداز دیکھنے کو ملتے ہیں، جو ہر علاقے کی ثقافت اور مقامی روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں-یہ طرزِ تعمیر نہ صرف روحانی اہمیت رکھتا ہے بلکہ انسانی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی عکاس ہے-

اسلامی فن تعمیر میں منبر اور محراب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، خاص طور پر مساجد میں- یہ دونوں عناصر نہ صرف دینی عبادات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ فن تعمیر اور آرٹ کے لحاظ سے بھی نمایاں ہیں-مسلمانوں کو فتوحات کے بعد جو قدیم ورثے ملے ان میں مختلف  فن تعمیر کے نمونے  بھی شامل ہیں جس کو اسلامی طرز میں ڈھال کر مسلمانوں نے اپنے عبادت گاہیں تعمیر کیں جو کہ مسلم امہ کی ترقی اور خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں- نہ صرف مساجد بلکہ ہر طرح کی عمارتوں کو منبر و محراب  سے مزین کیا جانا اسلامی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے- خواہ وہ مقبرہ ہو، قلعہ ہو، مزار ہو یا کوئی اور عمارت- ہر ایک کی تعمیر کے وقت اس کی خوبصورتی اور آرائش کیلئے گنبد و مینار لازمی اجزاء میں شمار کیے جاتے  ہیں-

فن تعمیر میں منبر و محراب کے روحانی پہلو:

منبر اور محراب نہ صرف عباداتی  مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں بلکہ ان کے گہرے روحانی پہلو بھی ہیں، جو مسلمانوں کے دینی اور روحانی تجربے کو تقویت دیتے ہیں- یہ دونوں عناصر مساجد کی ساخت میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور عبادت گزاروں کو اللہ کے قریب ہونے کا احساس دلاتے ہیں- منبر اور محراب اسلامی فن تعمیر کی ایسی علامتیں ہیں جو دین کی روحانی گہرائی اور اسلامی ثقافت کی فنی بلندی کو ظاہر کرتی ہیں- یہ دونوں عبادت گاہ کے وقار اور جمالیاتی کشش کو بڑھاتے ہیں اور مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے پرچار میں  اہم کردار ادا کرتے ہیں-

محراب کے روحانی پہلو:

مسجد کا بنیادی حصہ محراب روحانیت کا عظیم مرکز اور محور ہے- یہ  نمازیوں کی رہنمائی کرتا ہے کہ وہ نماز کے دوران کعبہ کی سمت رخ کریں، جو اللہ کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی علامت ہے-یہ مسلمانوں کو اتحاد کی یاد دہانی کراتا ہے، کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ہی سمت میں نماز پڑھتے ہیں-اس کی آرائش، جیومیٹریکل ڈیزائن اور قرآنی آیات نماز کے دوران سکون اور خشوع پیدا کرتی ہیں-اس کی ساخت عبادت گزار کو ایک مقدس اور روحانی ماحول فراہم کرتی ہے-محراب امام کی آواز کو مسجد کے اندر پھیلانے  اور نمازیوں تک پہنچانے میں مدد دیتا ہے، جس سے اللہ کے کلام کی گونج دلوں میں اثر پیدا کرتی ہے-بعض اسلامی روایات میں محراب کو جنت کے دروازے سے تشبیہ دی گئی ہے، جو نمازی کو خدا کی قربت کا احساس دلاتی ہے-

منبر کے روحانی پہلو:

منبر، امام کے خطبہ دینے کی جگہ، اسلامی فن تعمیر میں قیادت اور روحانیت کی علامت ہے- یہ وہ مقام ہے جہاں سے امام قرآنی تعلیمات اور احادیث بیان کرتے ہیں- یہ مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا ذریعہ ہے-گویا یہ علم و ہدایت کا مرکز سمجھا جاتا ہے-خطبہ کے ذریعے مسلمانوں کو دینی احکام، اخلاقی اصول اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کی جاتی ہے-اتحاد اور مساوات کی علامت ہونے کے سبب مسلمانوں کو ایک امام کی قیادت میں جمع ہونے اور اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کا درس دیتا ہے-  اسی طرح اس کا استعمال حضور نبی اکرم (ﷺ) کی سنت کو زندہ رکھتا ہے، جنہوں نے مسجد نبوی میں خطبے کے لیے منبر کا استعمال کیا- منبر روحانی اور سماجی قیادت کی علامت ہے، جہاں سے امام معاشرتی اور دینی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں- منبر سے دیے جانے والے خطبات عبادت گزاروں کے دلوں میں تقویٰ، خشیت اور ایمان کو مضبوط کرتے ہیں-

خوش آں مسجد و مدرسہ و خانقاہے
کہ در وے بود قیل و قال محمدؐ

’’مبارک ہے وہ مسجد اور مدرسہ اور خانقاہ، جہاں قیل و قال محمدؐ ہوتا ہے (یعنی احادیث کا درس ہوتا ہے اور تصفیۂ قلوب میں اعمال و افعال نبوی کی روشنی میں حقیقت و معرفت کی راہ دکھائی جاتی ہے)‘‘-

الغرض! ہرفنی ورثہ میں گنبد و مینار کو خاص انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ یہ اسلامی عمارات کا مرکز ہیں- منبر اور محراب نہ صرف اسلامی فن تعمیر کی جمالیاتی خوبصورتی کو نمایاں کرتے ہیں بلکہ ان کے گہرے روحانی پہلو مسلمانوں کے  عباداتی  تجربے کو مزید موثر اور بامعنی بناتے ہیں- یہ دونوں عناصر اللہ کے ساتھ بندے کے تعلق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں اور مساجد  اور دیگر تعمیرات اسلامیہ کی روحانی فضا کو جلا بخشتے ہیں-

٭٭٭


[1](الفجر:9)

[2](مالک رام، نذر عرشی،  ص:109)

[3](خورشید پرویز صدیقی، ص:7)

[4](سر سید احمد خان، آثار الصنادید،ج:1،  ص:34)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر