مکلی کا قبرستان اسلامی دنیا کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے - جوسندھ کے شہر ٹھٹھہ میں مکلی نامی قصبہ میں موجود ہے- یہ 10 مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے- اس مقام پر 500 برس کے عرصے میں تعمیر شدہ ایک ملین قبریں اور مقبرے موجود ہیں- مکلی کے قبرستان میں شاہی خاندان، صوفی بزرگ، معزز علماء، کئی دانشور و معززین کے بڑے مقبروں کے علاوہ عوام الناس کی ہزارہا قبریں موجود ہیں-1981ء میں اس مقام کو ’’ٹھٹھہ کے تاریخی یادگار‘‘ کے طور پر یونیسکو کےعالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا گیا-
مکلی کو 15ویں صدی میں سمہ خاندان (1335ء-1524ء) کے دور میں قبرستان کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، اس خاندان کے دورِ حکومت میں ٹھٹھہ سندھ کا ایک ترقی پذیر شہر اور دارالحکومت بن گیا- سمہ حکمران مکلی کے پہلے ماہر معمار تھے-
ٹھٹھہ، ایک تجارتی شہر کے طور پر ، چودہویں صدی کے وسط میں ترقی پذیر ہوا اور ترقی کا یہ سلسلہ 1739ء تک جاری رہا جب کلہوڑا حکمرانوں نے دارالحکومت کو ’’خدا آباد‘‘ منتقل کر دیا اور دریائے سندھ نے اپنا پیچیدہ رخ تبدیل کر لیا، جو کہ ڈیلٹائی علاقوں میں غیر مستحکم رہا ہے- ترقی کے اس سفر کی رفتار ذرا مدھم ہوئی لیکن مکلی کے مقبرے اور کھنڈرات ، اس شہر کا حسن اور خوشحالی بتانے کے لئے کافی ہیں -
حکمرانی کا پہیہ گھوما زیریں سندھ کی حکمرانی ارغون (1524ء-1555ء) اور ترخان (1555ء-1591ء) حکمرانوں کو منتقل ہوئی، یہ موجودہ افغانستان کے قندھار سے آئے تھے، یہ تبدیلی ٹھٹھہ اور مکلی پر بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہوئی- قبرستان اور شہر دونوں کی حیثیت برقرار رہی اگرچہ ارغون دور میں تعمیراتی سرگرمی نسبتاً کم تھی، بہر طور مکلی میں تعمیرات کا سلسلہ جاری رہا- یہ شہر زندہ لوگوں کے لیے ترقی پذیر رہا، جبکہ قبرستان فنکاروں اور معماروں کی مہارت کا کینوس ثابت ہوا، یہ معمار اور فنکار زندہ لوگوں کی مدد اور وفات پانے والوں کی عظمت کو اگلی نسلوں کیلئے برقرار رکھنے کے لئے ، ایک ساتھ کام کرتے رہے-
مکلی میں 40سے زائد مقبرے موجود ہیں جو اینٹ اور پتھر دونوں سے تعمیر کیے گئے ہیں اور مختلف طرز کی سنگ تراشی کے نمونوں، ٹائل اور پلستر کے کام سے مزین ہیں- یہ تقریباً 4 کلومیٹر لمبا اور نسبتاً سیدھا مقام ہے جو جنوبی کنارے سے مرکزی شاہراہ کے ساتھ منسلک ہے- جنوب سے شمال کی جانب سفر کرتے ہوئے، کیرتھر پہاڑی سلسلے کے ٹیلوں کے مشرقی کنارے پر، جنوب سے شمال کی سمت بڑھتے ہوئے، مختلف اقسام اور سائز کے تدفینی مقامات کا مشاہدہ ہوتا ہے جو جدید سے قدیم تر تعمیرات کی ترتیب میں ہیں- لہٰذا، وزیٹر کی پہلی ملاقات مغل اور ترخان دور کی یادگاروں سے ہوتی ہے جو 17ویں صدی کے اوائل سے تقریباً 18ویں صدی کے وسط تک کی ہیں- اس مقام کی وسعت کو عبور کرتے ہوئے اور شمال کی جانب، جہاں پہاڑی نیچے اترتی ہے، سمہ دور کے مقبرے واقع ہیں جو یہاں کی قدیم ترین تعمیرات میں شامل ہیں-
جنوبی اور شمالی کنارے کے درمیان، بادشاہوں، معروف و غیر معروف اشرافیہ کے مقبرے ، یادگاری قبریں ، احاطے اور پویلینز موجود ہیں جبکہ پہاڑی کے مشرقی جانب بزرگوں اور ان کے خاندانوں کی درگاہیں پھیلی ہوئی ہیں-
تاریخ اپنے اوراق پلٹتی رہی ٹھٹھہ نے گزرتے وقت کے ساتھ کئی حکمرانوں کو دیکھا، چونکہ مکلی کے نصیب میں ’’شہر خموشاں‘‘ کے طور پر پذیرائی لکھی تھی اس لئے مکلی کو ہر دور میں تدفینی مقامات ملتے رہے، جس کے نتیجے میں تعمیراتی سرگرمیاں جاری رہیں اور یہاں کچھ مزید بہترین مقبرے تعمیر کیے گئے-
زیادہ تر مقبرے گنبد نما چوکور کمروں پر مشتمل ہیں، لیکن اس زمرے میں بھی ترتیب کے مختلف انداز پائے جاتے ہیں- ان میں کھلی قبروں اور چھتری والے پویلین کے ساتھ احاطے، الگ چھتری والے پویلین، تنہا کھڑی قبریں، مغربی دیوار میں محراب کے ساتھ چبوترے اور مختلف ترتیب کے حامل علیحدہ علیحدہ مقبرے شامل ہیں-
اہم سلطنتیں یا دور درج ذیل ہیں:
- سمہ (1352ء-1524ء)
- ارغون (1524ء-1555ء)
- ترخان (1555ء-1591ء)
- مغل (1592ء-1739ء)
مکلی اور وسیع تر زیریں سندھ کی تعمیرات سلطنت دور اور بعد ازاں مغل دور میں تیار کردہ علاقائی طرزِ تعمیر کے مطابق تھیں- مکلی کا قبرستان اسلامی، ہندی، فارسی اور مقامی تعمیراتی اثرات کا امتزاج پیش کرتا ہے جو خطے کے متنوع ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے-
مکلی کو صوفیاء خصوصاً شیخ حماد جمالی ؒسے منسوب کیا جاتا ہے، جو اس علاقے کے ایک مشہور صوفی بزرگ تھے- ان کی روحانی تعلیمات اور اثر و رسوخ نے لوگوں کو اسلام و تصوف کی طرف مائل کیا، جس کے نتیجے میں مکلی ایک مقدس تدفینی مقام کے طور پر اُبھرا-
فنِ تعمیر کی اہمیت:
مکلی کا فنِ تعمیر صدیوں کے دوران مختلف طرزوں کے امتزاج کا مظہر ہے- یہاں کے مقبرے اور یادگاریں سادہ اینٹوں کی تعمیرات سے لے کر انتہائی نفیس پتھر کی نقش و نگاری پر مشتمل ہیں ، جن پر جیومیٹریکل ڈیزائن، خطاطی اور پھولوں کے نقوش شامل ہیں- رچرڈ ایف برٹن کے مطابق یہاں ہر قسم کی نقش نگاری میں انتہائی نزاکت اور نفاست نظر آتی ہے جو سارے مقبرے پر اُبھری ہوتی ہے- یہاں کے ہر پتھر پر، چھینی سے تراشیدہ (Carved relief) دکھائی دیتا ہے- دیکھنے والے کی آنکھ کو یقین ہی نہیں آتا کہ اِس ساری نقش و نگاری نے ان بے جان پتھروں میں جان ڈال دی ہے- [1]
یہاں کے اہم تعمیراتی شاہکار درج ذیل ہیں:
سمہ حکمرانوں کے مقبرے :
مکلی کے قبرستان میں سمہ خاندان کے حکمرانوں کے مقبرے سندھ کی تعمیراتی اور ثقافتی تاریخ کے اہم نمونے ہیں- سمہ حکمرانوں نے 14ویں سے 16ویں صدی کے دوران سندھ پر حکومت کی اور اپنے دور میں نہ صرف سیاسی استحکام فراہم کیا بلکہ فن و ثقافت کو بھی فروغ دیا- ان کے مقبرے ان کی حکمرانی کے عظیم ورثے کا اظہار کرتے ہیں اور سندھ کے مخصوص طرزِ تعمیر کی نمائندگی کرتے ہیں-
سمہ حکمرانوں کے مقبرے وقت کے ساتھ خستہ حالی کا شکار ہو چکے ہیں- موسمی اثرات، انسانی مداخلت اور دیکھ بھال کی کمی کے باعث ان مقبروں کی حالت بگڑتی جا رہی ہے- کئی مقبرے جزوی طور پر منہدم ہو چکے ہیں اور ان کی اصل حالت برقرار رکھنے کے لیے فوری بحالی کی ضرورت ہے-
جام تمچی کا مقبرہ:
جام تمچی ایک مشہور حکمران تھا جس کا تعلق سندھ کی سمہ سلطنت سے ہے-اس کا مقبرہ مکلی کے تاریخی قبرستان میں واقع ہے- اس مقبرے کی عمارت میں اس دور کی تعمیراتی خصوصیات اور سندھ کے ثقافتی ورثے کی جھلکیاں نظر آتی ہیں-
جام تمچی کا پویلین پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے، جس میں مزین ستون ہیں- یک سنگی کالم پر مختلف قسم کے کندہ کردہ نقوش ہیں،چھت کے بیرونی حصے کی پروفائل میں چھجہ، کانگورہ طرز کے بیٹلمنٹس اور ایک فنئل شامل ہے-
سمہ کلسٹر میں کم از کم چار پویلین ہیں، جن میں سے تین ہشت پہلو اور ایک چھ پہلو ہے- سمہ کلسٹر میں موجود جامتمچی، دریا خان راہو، قاضی عبد اللہ اور ایک غیر معروف پویلین، جس پر فارسی خطاطی ہے، یہ سب چھت دار مقبرے ہیں- یہاں پیش کی جانے والی خصوصیات تمام سمہ چھتوں میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ یکساں ہیں، جو ان کی تعمیراتی یکجہتی اور منفرد انداز کو ظاہر کرتی ہیں-
جام نظام الدین کا مقبرہ:
جام نظام الدین کا مقبرہ سمہ دور کا واحد مربع مقبرہ ہے، جو اس وقت کے فنِ تعمیر کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے- سمہ دور کے سب سے مشہور حکمران، جنہیں ’’سندھ کا ہارون الرشید‘‘ کہا جاتا ہے، ان کا مقبرہ ان کے اعلیٰ مقام کی عکاسی کرتا ہے- یہ مقبرہ اپنے وقت کی گجرات کی عمارتوں سے مشابہت رکھتا ہے اور سندھ، گجرات،راجستھان کے وسیع سنگی طرزِ تعمیر سے منسلک ہے-
مقبرے کی بیرونی سطح کو مختلف اقسام کی نقوش والی لکیروں سے مزین کیا گیا ہے، جن میں کنول کے پھول، ہیرے کے شکل کے ڈیزائن، کنول کی بیلیں اور ایک منفرد خطاطی کی پٹی شامل ہیں- مغربی دیوار پر ’’جھروکہ‘‘ سب سے نمایاں خصوصیت ہے، جس میں سانپ جیسی بریکٹس اور کنول کے میڈلین جیسے نقوش شامل ہیں-
یہ مربع ڈھانچہ گنبد کے لیے بنایا گیا تھا، جو کبھی تعمیر نہ ہو سکا- مقبرے میں چاروں اطراف دروازے ہیں، سوائے مشرقی دیوار کے اور ان دروازوں کے دہانوں پر چاند کی شکل کے خوبصورت پتھر لگے ہوئے ہیں- اندرونی حصے میں مغربی دیوار پر نہایت خوبصورت نقش و نگار کے ساتھ ایک محراب موجود ہے، جو اس مقبرے کی فنکارانہ اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے-
ترخانوں کے مقابر:
مکلی کے قبرستان میں موجود ترخان دور کے مقابر اپنی تعمیراتی مہارت، فنکارانہ نقش و نگار اور ڈیزائن کی منفرد خصوصیات کے باعث نہایت اہمیت کے حامل ہیں- یہ مقابر اس دور کے اعلیٰ تعمیراتی ذوق اور مہارت کی عکاسی کرتے ہیں- یہ مغل اثرات کے ساتھ مقامی تعمیراتی روایات کا امتزاج پیش کرتے ہیں-
مقبرہ عیسٰی خان ترخان اول :
عیسیٰ خان ترخان، ترخان خاندان کے بانی حکمران اور ’’بزرگ‘‘ کہلاتے ہیں، انہوں نے 1554ء میں اقتدار سنبھالا-ٹھٹہ سے 10 برس سے زیادہ عرصہ حکمرانی کے بعد، وہ 1565ء میں وفات پا گئے- ان کا مقبرہ مکلی کے مشرقی کنارے پر واقع ہے، جو عبداللہ اصحابی کی موجودہ درگاہ کے قریب مشرقی جانب کے احاطے میں ہے-
مقبرے کا احاطہ ایک بلند چبوترے پر واقع ہے، جس تک رسائی مشرقی جانب پانچ سیڑھیوں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے- یہ احاطہ مستطیل شکل میں ہے اور اس کی مغربی دیوار کے مرکز میں ایک نیم ہشت پہلو محراب موجود ہے- مرکزی احاطے کے اندر مزید کئی چھوٹے احاطے موجود ہیں، جن میں قبریں ہیں-
مرکزی احاطے کے داخلی دروازے اور درمیان والے احاطے کی دیواروں پر کئی کتبے کندہ ہیں- یہ کتبے زیادہ تر قرآن پاک کی آیات پر مشتمل ہیں، جبکہ کچھ فارسی زبان میں ہیں- ان میں عیسیٰ خان کی وفات کی تاریخ بھی درج ہے- یہ مقبرہ 1572ء سے منسوب کیا جاتا ہے-
مرکزی حصے میں موجود چھوٹے احاطے تک جنوب کی جانب سیڑھیوں کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، جس میں چھ پتھر کی قبریں موجود ہیں- ان میں سب سے اہم قبر خود عیسیٰ خان کی ہے- تمام قبروں کے کتبے سیڑھی نما ڈھانچے کے ساتھ اوپر ایک باکس نما چیمبر رکھتے ہیں- عیسیٰ خان کی قبر کے سر کا پتھر نمایاں طور پر تراشا ہوا ہے، جو چراغ رکھنے کے لیے ایک پگڑی کی شکل میں بنایا گیا ہے-
عیسیٰ خان کے مقبرے کے احاطے کی دیواریں نہایت نفاست سے کندہ کی گئی ہیں، جنہیں محراب نما پینلز اور اندرونی جانب جالی دار کھڑکیوں میں تقسیم کیا گیا ہے- ہر پینل کو کندہ شدہ عمودی بینڈز سے الگ کیا گیا ہے- کم ابھری ہوئی کندہ کاری والے ہر پینل کے کونوں میں گلاب کا نقش موجود ہے- محراب کے سامنے دو چھوٹے ستون موجود ہیں، جو دائیں اور بائیں طرف ہیں- احاطے کی دیوار کے اوپر کنگورے ہیں، جن کے نیچے جالی دار کندہ کاری کی دو قطاریں ہیں، جبکہ عربی تحریریں دیوار پر ہر جگہ نقش ہیں-
مقرہ عیسٰی خان ترخان دوم:
مقبرہِ عیسیٰ خان ترخان (دوم) مکلی کے سب سے شاندار مقبروں میں سے ایک ہے، جو حجم، ڈیزائن اور سجاوٹ کے لحاظ سے ممتاز ہے- وہ مغلوں کے تحت گورنر بنے اور زیادہ تر ٹھٹہ کے علاقے دکن میں متعین رہے ، ان کا مقبرہ مکمل ہونے میں 18 برس لگے- یہ مقبرہ مکمل طور پر پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں منفرد عناصر شامل ہیں-
مقبرہ ایک احاطہ میں ہے، جس کے وسط میں مرکزی گنبد دار مربع کمرہ واقع ہے- اس پوری اسکیم کو 3 اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: احاطہ کی دیوار جس میں چار ایوان ہیں، مرکزی مقبرہ کے کمرے کے گرد گھومتی ہوئی ستونوں کی قطار اور وسط میں گنبد دار مربع کمرہ- احاطہ کی دیوار پر زیادہ تر کم اُبھری ہوئی کندہ کاری کی گئی ہے جن پر کنول کے پھولوں کے گلاب جڑے ہوئے ہیں، ایوان دیوار سے بلند ہیں، جس میں محراب والا ایوان سب سے بلند ہے-
ارغون مقبرے: مکلی میں فن تعمیر کی اہم مثالیں
مکلی میں ارغون دور کے مقبرے اپنی منفرد تعمیراتی اور آرائشی خصوصیات کیلئے مشہور ہیں- ارغون خاندان نے سندھ میں اپنی حکمرانی کے دوران مکلی کے قبرستان میں اپنے لیے کئی یادگار مقبرے تعمیر کیے- یہ مقبرے اپنے وقت کے تعمیراتی اور فنکارانہ رجحانات کی جھلک پیش کرتے ہیں اور ان پر فارسی، وسطی ایشیائی اور مقامی سندھ کے اثرات نمایاں ہیں-
احاطوں میں گمنام قبریں:
احاطوں کے اندر کچھ گمنام قبریں موجود ہیں، جنہیں ارغون دور سے منسوب کیا جا سکتا ہے- یہ قبریں سادہ مگر مخصوص طرزِ تعمیر رکھتی ہیں اور ان پر پھولوں کے نقوش سے مزین آرائشی کام کیا گیا ہے- تاہم، یہ ڈھانچے خستہ حالی کا شکار ہیں اور توجہ طلب ہیں -
کئی مقبرے ایسے ہیں جن کی قبریں گمنام ہیں، یعنی ان پر کسی فرد کا تعین یا شناخت نہیں کی گئی- یہ مقبرے زیادہ تر ارغون خاندان یا ان کے درباریوں سے منسوب کیے جاتے ہیں- ان گمنام قبروں پر بھی وہی تزئینی عناصر پائے جاتے ہیں، جیسے پھولوں کے نمونے اور جالیوں کا استعمال-
مکلی کے مغلیہ دور کے مقابر:
مکلی کے قبرستان میں مغلیہ دور کے مقابر تعمیراتی مہارت، جمالیاتی ذوق اور مغلیہ فن تعمیر کی منفرد خصوصیات کے نمائندہ ہیں- مغلیہ سلطنت کے دوران مکلی میں تعمیر کردہ مقابر میں مقامی تعمیراتی روایات کے ساتھ مغلیہ شاہانہ طرز کا امتزاج دیکھا جا سکتا ہے- یہ مقابر نہ صرف سندھ کی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں بلکہ مغلیہ دور کی ثقافت اور فنون کی عظمت کو بھی ظاہر کرتے ہیں-
مقبرہ دیوان شرفا خان :
دیوان شرفا خان ایک مقامی شخصیت تھے جو مغل دور میں وزیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے- ان کا انتقال تقریباً 1638ء میں ہوا- مقبرے کی محراب والی دیوار 1642ء کی تاریخ رکھتی ہے- یہ مقبرہ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے - یہ ایک احاطہ دار طرز کا مقبرہ ہے-احاطے کی دیوار میں محراب کو مکمل طور پر اینٹوں سے تیار کیا گیا ہے اور ٹائل ورک سے سجایا گیا ہے، سوائے اوپر کے کونوں میں موجود دو کتبوں کے جو پتھر سے بنائے گئے ہیں- ٹائل ورک ہزار باہ کے نمونے کی یاد دلاتا ہے، جو وسطی ایشیا کی بے شمار اینٹوں سے بنی عمارتوں میں دیکھا جا سکتا ہے-
مرکزی مقبرے کی عمارت احاطے کے مرکز میں ایک بلند پلیٹ فارم پر رکھی گئی ہے- اس کے چاروں طرف کھڑکیاں ہیں جو گہرے اور نوکدار محرابوں میں سیٹ کی گئی ہیں، جن پر ٹائل ورک کیا گیا ہے- تعمیراتی مواد میں سرخ اینٹیں اور نیلی چمکدار ٹائلیں شامل ہیں، جو متبادل قطاروں میں استعمال کی گئی ہیں- یہاں جالی کا کام اینٹوں سے بنایا گیا ہے-
ڈیزائن انتہائی متناسب اور متوازن ہے- اندرونی حصے میں گنبد کے اندر نیلی اور سرخ چمکدار اینٹوں کی قطاریں دوبارہ ترتیب دی گئی ہیں، جو اندر سے انتہائی خوبصورت دکھائی دیتی ہیں-
یہ مقبرہ مغلیہ دور کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے، جس میں پتھر پر نفیس نقش و نگاری اور پیچیدہ ڈیزائن موجود ہیں-
مقبرہ مرزا باقی بیگ ازبک:
مرزا باقی بیگ ازبک کا مقبرہ ایک مستطیل شکل کے احاطے پر مشتمل ہے- اس احاطے کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی مسجد کا حصہ ہے- سنگی قبریں احاطے کے مرکزی صحن میں ایک بلند پلیٹ فارم پر رکھی گئی ہیں اور یہ کھلے آسمان تلے ہیں- مقبرے کی تعمیر میں چمکدار اور سرخ اینٹوں کے امتزاج کے ساتھ ٹائل ورک شامل ہے، جبکہ پتھر کا استعمال صرف دروازے کے کناروں اور چبوتروں جیسے عناصر میں محدود ہے-
مقبرے کے بیرونی حصے کا پورا ڈیزائن کھلی محرابی طاقوں کی قطاروں پر مشتمل ہے، جن پر اندر اور باہر دونوں جانب اسپانڈرلز پر ٹائل ورک کیا گیا ہے- مسجد کے اندرونی حصے میں بھی دیگر مقابر کی طرح چمکدار اور سرخ اینٹوں کی متبادل ترتیب نمایاں ہے-
یہ مقبرہ ازبک طرز تعمیر کی خصوصیات کے ساتھ مقامی فنون اور مغلیہ اثرات کا امتزاج پیش کرتا ہے اور مکلی کے قبرستان کی تعمیراتی عظمت کا ایک منفرد نمونہ ہے-
مکلی کے قبرستان میں ان مذکورہ قبروں کے علاوہ بے شمار قبریں موجود ہیں جو مزید تحقیق اور توجہ کی متقاضی ہیں- یہ تاریخی قبرستان نہ صرف فن تعمیر اور ثقافت کا شاہکار ہے بلکہ مختلف ادوار کی تاریخ اور تہذیبی ارتقاء کا آئینہ دار بھی ہے- ان قبروں اور یادگاروں کی حفاظت نہ صرف ماضی کے ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے اہم ہے بلکہ یہ سیاحت اور تعلیمی مقاصد کے لیے بھی بے حد قیمتی ہے- اس مٹتے ہوئے ورثے کو محفوظ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے اس تاریخی اور ثقافتی میراث کو برقرار رکھا جا سکے- حکومت اور عوام کو مل کر اس کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں-
٭٭٭
[1]https://www.dawnnews.tv/news/1071044