یک زماں با رَفتگان صحبت گزیں |
اسلامی فن تعمیر ایک منفرد اور عظیم تہذیبی ورثہ ہے جو اسلامی ثقافت اور تاریخ کا عکاس ہے- اس کا آغاز ساتویں صدی کے آغاز میں ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں اور ادوار میں مختلف نوعیت کی عمارات کی صورت میں پروان چڑھا- اسلامی فن تعمیر میں سادگی، توازن، ہم آہنگی اور جمالیات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے-اس فن کا مقصد صرف عمارات کی خوبصورتی نہیں بلکہ یہ انسان کے روحانی تجربات کو مزید گہرا بنانے اورمقام کی عظمت کو پیش کرنے کے لیے ہوتا ہے- اسلامی فن تعمیر، اپنی گہری مذہبی، ثقافتی اور فلسفیانہ روایات سے متاثر ہے، جوکہ مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے، جن میں مساجد، محلات، قلعے، باغات اور صوفی درگاہیں یا مزارات شامل ہیں-
صوفیائے کرام کے مقابر، جنہیں دَرگاہ یا مقاماتِ زیارت بھی کہا جاتا ہے، صرف برکت و زیارت کے مراکز ہی نہیں بلکہ فن تعمیر کے ایسے شاہکار ہیں جو اسلامی عقیدت، مقامی دستکاری اور صوفیانہ افکار کے امتزاج کو اجاگر کرتے ہیں- یہ درگاہیں عبادت کے علاوہ، ایک روحانی تجربہ فراہم کرنے والی فضا بھی مہیا کرتی ہیں، جہاں مادی دنیا اور روحانی دنیا کے درمیان ایک تعلق قائم ہوتا ہے- صوفی درگاہوں کے ڈیزائن میں اسلامی فن تعمیر کے روایتی عناصر جیسے گنبد، مینار، کنگرے، پتھر اور لکڑی کی جالی کا پیچیدہ کام اور جیومیٹری کےپیچیدہ ڈیزائنز اور مختلف انداز کی خطاطی کا امتزاج ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی مقامی ثقافت اور فنون کا رنگ بھی نمایاں ہوتا ہے جو ان درگاہوں کو مختلف علاقوں کی منفرد خصوصیات سے جوڑتا ہے-
مدینہ منورہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے روضہ مبارک کی زیارت انسان کو نہ صرف روحانی سکون عطا کرتی ہے بلکہ یہاں قدیم اسلامی فن تعمیر اور جدید اسلامی طرز تعمیر کا حسین امتزاج بھی نظر آتا ہے- اسی طرح، نجف اشرف میں مولیٰ کائنات حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کا روضہ، بغداد میں سید الطائفہ جنید بغدادیؒ کا مزار، غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی درگاہ ، شیخ شہاب الدین سہروردی کا مکتبہ اور مزار، ازبکستان میں شیخ بہاؤالدین نقشبند کا مزار، ترکی میں مولانا جلال الدین رومی ؒ کی خانقاہ ، لاہور میں حضرت داتا علی ہجویری ؒ کی درگاہ مقدس،جھنگ میں حضرت سلطان باھوؒ کی درگاہ ، ملتان میں حضرت شاہ رکن عالم ، دہلی میں خواجہ نظام الدین اولیاء کی درگاہ اور اجمیر میں خواجہ غریب نواز کا دربار، سب ہی نہ صرف اسلامی تعلیمات کے اہم مراکز ہیں بلکہ عظیم اسلامی فن تعمیر کے بے مثال نمونے بھی پیش کرتے ہیں-
سلطان العارفین کا لقب پانے والے اور اپنی ’’ھُو‘‘ کی لے سے پہچانے جانے والے حضرت سلطان باھوؒ کی درگاہ بھی ایک عظیم روحانی درگاہ ہے جو اسلامی ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے- آپ کی درگاہ مقدس کی تعمیر میں مغلیہ فنِ تعمیر کی یاد تازہ ہوتی ہے، جبکہ سندھ کے کاشی گروں اورپنجاب کے کاریگروں کی مہارت بھی نمایاں نظر آتی ہے- یہ خانقاہ نہ صرف ایک روحانی مرکز کے طور پر نظر آتا ہے بلکہ اسلامی فن تعمیر کے منفرد امتزاج کا بہترین نمونہ بھی پیش کرتا ہے-
درگارِ حضرت سلطان باھوؒ کے فنِ تعمیر کی تفصیل:
درگاہ کی جو عمارت اب موجود ہے اس کو سجادہ نشین حضرت محمد امیر سلطان نے تیار فرمایا تھا- آپؒ روحانیت میں کمال درجہ کی شخصیت تھے قادری طریقت کے وظائف کی کامل مہارت رکھتے تھے بشمول اسم اللہ ذات کا تصور ، مشق وجودیہ ، دعوت قبور ، تسخیر خلق، مقام ہاہویت اور اس جیسے روحانی امور - روحانی درجات کے ساتھ ساتھ آپ کا ذوقِ فن تعمیر بھی انتہائی کمال کا تھا- عمارت کا نقشہ انتہائی سادہ ہے مگر عمارت کے ڈیزائن کا تناسب بہت کمال کا ہے- اس کے فن تعمیر میں سادگی بھی ہے اور اسلامی فنِ تعمیر کی عکاسی بھی اور اس خطے کی جمالیاتی ثقافت اور خوبصورتی کی جھلک بھی موجود ہے- دربارپر انوار کی ساری عمارت فن تعمیر کے اعتبار سے دیکھی جائے تو مکمل طور پر مغلیہ فن تعمیر کے مطابق تعمیر کی گئی ہے- داخلی دروازے سے لے کر درگاہ کی عمارت ، مسجد، راہداری، وضو خانہ اور زائرین کے آرام کیلئے بنائے گئے برآمدوں سمیت تمام جگہوں پر مغلیہ فنِ تعمیر کا رنگ نمایاں ہے-
داخلی دروازہ:
درگاہ کے صحن میں داخل ہونے کے لیے ایک راستہ ہے جو دو دروازوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کے درمیانی حصے کو ستونوں کے ساتھ سجایا کیا گیا ہے- دونوں دروازوں پر ایک سیدھا بیم بنایا گیا ہے اور اس پر ایک بیضوی محراب بنائی گئی ہے، جس کے اوپر ایک نوکدار محراب تعمیر کی گئی ہے- محرابوں کے درمیان مرکزی حصوں میں اسم اللہ ذات، اسم محمد (ﷺ)، حضرت سلطان باھوؒ کی سوانح حیات، اور آپ کے تحریری کلمات کو خوبصورت خطاطی کے انداز میں تحریر کیا گیا ہے - دونوں دروازوں پر روایتی انداز میں تین مینار نفاست کے ساتھ تعمیر کیے گئے ہیں- میناروں کے درمیان میں سرامک ٹائلز سے سجائے ہوئے تاج بھی بنائے گئے ہیں جو پورے دروازے کے جمالیاتی حسن کو بڑھاتے ہیں اور مغلیہ فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں-
کھلا صحن:
درگاہ کے صحن میں داخل ہونے کا دروازہ مشرقی دیوار کے بائیں جانب واقع ہے- گیٹ سے گزرتے ہی ایک وسیع صحن ہے جو سفید سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے- اس کھلے صحن کے درمیان میں ایک پرانا تالاب ہے جس کے چاروں طرف وضو کی جگہ ہے- گرمیوں میں جب دن کے وقت فرش کا پتھر گرم ہو جاتا ہے تو زائرین کے لیے غالیچے بچھائے جاتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے مسجد یا درگاہ تک پہنچ سکیں-
وضو خانہ:
وضو کا یہ مقام ایک تالاب کی شکل میں تھا جو مغلیہ طرزِ تعمیر سے متاثر ہوکر تعمیر کیا گیا تھا اور اس پر کوئی سایہ دار چیز نہیں تھی، لوگ یہاں چاروں اطراف بیٹھ کروضو کرتے تھے- لیکن وقت کے ساتھ یہاں ایک چھت بنائی گئی اور ایک عمارت بارہ دری کی شکل میں تعمیر کی گئی- اس عمارت کے چاروں طرف کی نوکدار قوسیں اور گول ستون تعمیر کیے گئے ہیں اور ان پر شیشہ گری سے سجاوٹ کی گئی - بعد میں بارہ دری کے اطراف برآمدے بنائے گئے اور پانی کے نلکوں کی تنصیب کی گئی-
زائرین کے لئے آرام گاہ:
صحن کے شمال مغرب اور جنوبی اطراف میں زائرین کے بیٹھنے اور آرام کرنے کے لیے وسیع برآمدے بنائے گئے ہیں- برآمدوں کی تعمیر سادہ ہےجہاں اینٹوں کی مدد سے ستون تعمیر کیے گئے ہیں اور پھر ستونوں کے درمیان قوسیں بنائی گئی ہیں تا کہ زائرین کے لئے جگہ ہوادار اور روشن رہے-
مسجد اور درگاہ کا پلان:
درگاہ مسجد اور راہداری کے جنوب (بائیں طرف)کی طرف واقع ہے- درگاہ کی عمارت مربع شکل میں ہے، جس کی بیرونی پیمائش 33 x 33 فٹ ہے جبکہ اندرونی طرف 27 x 27 فٹ ہے- درگاہ کے اندر حضرت سلطان باھوؒ کی قبر انوار کے علاوہ ان کی اولاد اور خلفاء کی قبریں بھی موجود ہیں- راہداری جو کہ درگاہ اور مسجد کے درمیان ایک جگہ ہے جسے تلاوتِ قرآن پاک اور ذکر و اذکار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے- درگاہ کے شمال میں مسجد ہے جس کے دو حصے ہیں- ایک مغرب کی دیوار میں محراب کے ساتھ مرکزی نماز گاہ ہے اور دوسرا صحن کی طرف جانے والا برآمدہ ہے جو خوبصورت ستونوں اور مغلیہ طرز کے محرابوں سے مزین ہے- مسجد کا پلان انتہائی سادہ روایتی انداز میں بنایا گیا ہے جس سے تعمیر کے قدیمی طرز ہونے کا تاثر ملتا ہے-
اگر حضرت سلطان باھوؒ کے درگاہ کے پلان کا تاریخی طور پر موازنہ کریں تو اس کا پلان قدیم مسجد نبوی (ﷺ) کے پلان سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے- مسجد نبوی (ﷺ) کے پلان میں روضہ رسول(ﷺ)مسجد سے بائیں جانب ہے اور درمیان میں کچھ فاصلہ بھی ہے جو کہ ایک راہداری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور محراب کی جگہ بھی حجرہ رسول (ﷺ) سے کچھ آگے کی جانب موجود ہے جیسا کہ پلان میں دیکھا جا سکتا ہے-
نور الدین السمہودی اپنی کتاب ’’وفاء الوفا‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ایک عربی مورخ ابن النجار نے اپنی کتاب میں رسول اللہ (ﷺ) کے حجرے (کمرے) کے لے آؤٹ پلان کی تصویر بنائی تھی، لیکن جب میں نے جا کر دیکھا- یہ حجرہ مبارک مربع شکل میں تھا‘‘-
مسجد کے پلان کے بعد ایک موازنہ یہ بھی ہے کہ حضرت سلطان باھوؒ کے درگاہ کا پلان مربع شکل ہے تو روضۃ رسول (ﷺ) کا ابتدائی پلان بھی مربع شکل میں تھا-السمہودی کی کتاب وفا ء الوفا میں روضہ رسول (ﷺ)کے لے آؤٹ پلان کا خاکہ دیا گیا ہے -
فرنٹ ایلیویشن:
مشرق سے صحن میں داخل ہوتے ہی سامنے سے عمارت کو دیکھیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ عمارت کو مغلیہ فن تعمیر کے اصولوں کے مطابق تعمیر کیا گیا ہے- مزار، راہداری اور مسجد کی چوڑائی تقریباً 92 فٹ ہے اور میناروں سمیت اونچائی تقریباً 39 فٹ ہے-
درگاہ کے فنِ تعمیر کو تفصیل سے بیان کرنے کیلئے عمارت کے اندرونی اور بیرونی حصوں کو تقسیم کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں-
بیرونی آرائشی خصوصیات
روضہ کے دروازے کی چوکاٹھ اور دروازہ:
درگاہ کے داخلی دروازے کی چوڑائی 4 فٹ ہے جس کو اخروٹ کی لکڑی سے تیار کیا گیا ہے جس پر کندہ کاری کر کے مختلف پھولوں کے پتے اور ٹہنیاں کو لکڑی کے اندر سجایا گیا ہے اور دروازے کی چوکاٹھ کو سنگ مر مر سے بنایا گیا ہے جس کی اونچائی ساڑھے چھ فٹ ہے اور اس کے کناروں کو کندہ کاری کی مدد سے بیل بوٹے بنا کر سجایا گیا ہےاور دونوں دروازوں کے بیرونی جانب ایک بیرل بولٹ لاک لگایا گیا ہے جس پر قدیم طرز کا پیتل کا تالا لگا یا گیا ہے-
(Arch & Spandrel) قوس اور اس کے اوپر کا مثلثی حصہ:
درگاہ کے مرکزی دروازے کے اوپر مغلیہ طرز پر بنائی گئی نوکدار محراب ہے جس کے اوپر والے مثلثی حصے کے اندر اور ان کے کناروں کو گہرے نیلے، آسمانی نیلے، سفید اور فیروزی رنگ کی سندھی کاشی ٹائلوں کی مدد سے مختلف پھولوں کے ڈیزائن کی مدد سے سجایا گیا ہے-
مقرنس:
مرکزی دروازے اور قوس کا درمیانی حصہ مقرنس سے مزین ہے جونیلے رنگ کی سندھ روائتی کاشی ٹائلز سے بنایا گیا ہے-مقرنس ایک منفرد اور پیچیدہ آرائشی طرز ہے جو اسلامی فنِ تعمیر میں اہمیت رکھتا ہے- یہ چھتوں، دروازوں اور قوسوں کی آرائش میں استعمال ہوتا ہے، جس میں باریک اور متعدد زاویوں سے بنے ہوئے منفرد ڈیزائن ہوتے ہیں-مقرنس زیادہ تر ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی عمارات میں ایک اہم جزو کے طور پر بنائی جاتی ہے-
قوس ، سپنڈرل (قوس کے اوپر مثلثی حصہ) کے اوپر افقی اورمربع شکل کے حصے:
سپنڈرل کے اوپر مختلف اشکال کے حصے ہیں جیسے مربع، مستطیل، عمودی اور افقی حصے، جن پر خطاطی، پھولوں کے نمونوں اور جیومیٹریکل ڈیزائنز کے ساتھ سجاوٹ کی گئی ہے- یہ تمام ڈیزائن نیلے، سفید، سنہری اور فیروزی رنگ کی چمکدار ٹائلز سے مزین ہیں-اسی حصے میں قرآن پاک کی آیات، حضرت سلطان باھوؒ اور دوسرے صوفیائے کرام کے فارسی اشعار کو خطاطی کی شکل میں تحریر کیا گیا ہے جو کہ اسلامی فن تعمیر کا انتہائی اہم اور خصوصی جزو سمجھا جاتا ہے-
درگاہ کی جنوبی طرف کی بیرونی دیوار پر نقش و نگاری:
درگاہ کی جنوبی طرف کی دیوار پر کوئی دروازہ نہیں ہے، بلکہ یہاں پتھر سے بنی ہوئی جالی نصب کی گئی ہے- جالی کے اوپر مغلیہ طرز کی نوک دار قوس بنی ہوئی ہے- جالی اور قوس کے درمیان سندھ کی روایتی ٹائلز سے مزین ابھرے ہوئے گنبد اور چھوٹےمیناربنائے گئے ہیں ، جو مغلیہ فن ِتعمیر میں بڑی فنکاری اور مہارت کے ساتھ بنائے گئے ہیں-
(Parapet wall)روضہ کی چھت کی پردہ دیوار:
درگاہ مبارک کی چھت کی پردہ دیوار کے نچلے حصے کو کنول کے پھول کے پتے کی شکل میں کٹی ہوئی ٹائلز سے سجایا گیا ہے- اس کے اوپر، مسدس شکل کے نمونوں کی مدد سے جالی کو تیار کیا گیا ہے، جو قوس کو بنایا گیا ہے اور اس قوس میں جالی نصب کی گئی ہے- اس کے بعد چھوٹے گنبد کی شکل کے مینارے بنائے گئے ہیں جن کوسندھ کی کاشی ٹائلز سے تیار کر کے سجایا گیا ہے-عام طور پر پردہ دیوار پر زیادہ نقش و نگار دیکھنے کو نہیں ملتے مگر یہاں پردہ دیوار میں اتنی زیادہ پیچیدہ قسم کی ڈیزائننگ کر کے سندھی ٹائلز کی مدد سے ایک شاہکار تعیر کیا گیا ہے جس کی مثال صرف صوفیاء کے مزارات پر ہی پائی جا سکتی ہے کیونکہ یہ مختلف ثقافتوں کو اکٹھا کرنے کی مثالی جگہیں ہوتی ہیں-
درگاہ کی عمارت کے مینار:
درگاہ کی چھت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار نصب کیا گیا ہے- اس عمارت کے میناروں کی ساخت بہت منفرد ہے جس میں مغلیہ فن تعمیر کا رنگ بھی نمایا ں ہے اور ساتھ میں مینار کو بیرونی طور پر سندھی ٹائلز سے سجایا گیا ہے - ہر مینار کے تین حصے ہوتے ہیں: بنیاد، ستون اور چھتری (کِیوسک)- مینار کی بنیاد مسجد کی چھت سے شروع ہوتی ہے، اس کے بعد مربع شکل میں ستون بنایا گیا ہے ہے جو عمدہ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی بیرونی سطح کو خوبصورت بنانے کے لیے رنگین کاشی ٹائلز سے سجا دیا گیاہے- اس کے اوپر جو حصہ آتا ہے اسے چھتری یاکِیوسک کہا جاتا ہے جس میں ایک بالکنی بنائی گئی ہے اور اس کے گرد جالی کا احاطہ بھی ہے- اسی چھتری کے اوپر کی طرف مینار کی اونچائی اور اس کے حجم کے مطابق گنبد بھی بنایا گیا ہے ،اس گنبد کو بھی کاشی ٹائلز سے خوبصورت رنگوں میں ڈھالا گیا ہے-اگر ہم حضرت سلطان باہوؒ کے درگاہ کی چھت کے چاروں کونوں پر بنائے گئے چار میناروں کی بات کریں تو اس کا تعلق ہمیں مغلیہ فن تعمیر سے ملتا ہے چاہے وہ عمارتیں موجودہ پاکستان میں ہوں یا ہندوستان میں- مقبرے یادرگاہ کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار مغلیہ فنِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے جیسا کہ جہانگیر بارشاہ کا مقبرہ،ہندوستان میں اتمام الدولہ کے مقبروں پر بھی چار چار مینار تعمیر کئے گئے ہیں-
غار دار قوس (Recessed arch):
مرکزی دروازے کے دونوں جانب نیلے اور سفید ٹائلز کی مدد سے دو عمودی فریم بنائے گئے ہیں- ان فریموں میں مغلیہ دور کی نوکدار قوس بنائی گئی ہے جس میں فیروزی، نیلے، سبز، سفید اور سنہری رنگ کی کاشی ٹائلز سے خوبصورت اور پیچیدہ جیومیٹری کے ڈیزائنز بنائے گئے ہیں-
مسجد اور درگاہ کے درمیان راہداری کے فرنٹ پر نقش و نگار:
راہداری کے دروازے کے اوپر تقریباً 10 فٹ کی اونچائی پر ایک چار مرکزی قوس بنائی گئی ہے جس پر قرآنی آیات کو خطاطی کی صورت میں تحریر کیا گیا ہے- اس قوس کے اوپر زمین سے 12.5 فٹ بلند مغلیہ نوکدار قوس بنائی گئی ہے- اس قوس کے کناروں کو سندھ کی سیاہ نیلے اور سفید رنگ کی کاشی ٹائلز سے مزین کیا گیا ہے- چار مرکزی قوس کے ایک فٹ بیرونی حصے پر قرآنی آیات خطاطی کی صورت میں تحریر کی گئی ہیں -اس حصے کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح ہے کہ ایک بظاہر چھوٹی سی عمارت ہے مگر اتنی گہرائی سے عمارت پر ثقافت اور سندھی کلچر کا رنگ نمایاں ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی-
مسجد کے مینار:
مسجد کے میناروں کی بنیاد پر آٹھ کونوں والے ستون ہیں جو درگاہ کے میناروں سے ملتے جلتے ہیں- میناروں کے ستون سفید، آسمانی نیلے اور گہرے نیلے رنگ کی چمکدار ٹائلز سے سجائے گئے ہیں، جن پر پھولوں کے نمونے ہیں- ستون کے بالکل اوپر ایک کِیوسک ہے جس میں جالی والی بالکنی کی ریلنگ ہے، اور بالکنی کے اندرونی حصے کو نیم دائروی قوسوں سے سجایا گیا ہے جن پر چمکدار ٹائلز کی آرائش کی گئی ہے- بالکنی کے بالکل اوپر مغلیہ طرز پر ایک سفید چمکدار گنبد ہے جو کاشی گری سے مزین ہے-
درگاہ اور مسجد پر کسی گنبد کا نہ ہونا:
یہ بات بڑی اہم ہے کہ اس خانقاہ کی عمارت میں کوئی مرکزی گنبد تعمیر نہیں ہوا- اگر ہم حضرت سلطان باھوؒ کے خلفاء یاآپ کے سلسلہ سے اکثر بزرگوں کی درگاہ دیکھتے ہیں گنبد کی بجائے چھت بلکل سیدھی دکھائی دیتی ہے -آپ کے درگاہ کے علاوہ پیر بہادر علی شاہ کی درگاہ اور پھر سلطان محمد عبد العزیز ؒ کا دربار بھی بغیر گنبد کے تعمیر کیا گیا ہے-
اندرونی سجاوٹ کی خصوصیات:
اسلامی طرزِ تعمیر کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ یہ عمارت کے بیرونی سجاوٹ سے زیادہ اس کے اندرونی سجاوٹ پر زیادہ توجہ دیتی ہے- ہر چیز کو ایک نئے رنگ، نئے فن اور نئے طریقے سے بنایا جاتا ہے، جس میں ثقافتی اور روایتی حسن کی عکاسی ہوتی ہے-
قبر شریف کا تعویذ اور پلنگ:
قبر شریف کا تعویذ فرش سے تقریباً 5 فٹ بلند ہے، جس پر مختلف رنگوں کی کڑھائی والی چادریں بچھائی گئی ہیں اور قبر کے چاروں طرف شیشم کی لکڑی سے بنا ہوا ایک فصیل نما ڈھانچہ (جو مقامی طور پر ’’پلنگ‘‘کہلاتا ہے) رکھا گیا ہے، جو ملتان کی روائتی کاریگری سے مزین ہے- چونکہ یہ پلنگ وقتاً فوقتاً تبدیل کیا جاتا ہے، پہلے یہ پلنگ ملک کے مختلف علاقوں سے بنوا کر بھیجا جاتا تھا، لیکن اب یہی پلنگ رحیم یار خان کے کاریگروں کے ذریعے بنایا اور نصب کیا جاتا ہے- پلنگ کے کناروں کو موٹی لکڑی کی کٹائی سے سجایا گیا ہے اور اس پر سرخ، سیاہ، پیلے اور سبز رنگ کے پھولوں کے نمونوں سے آرائش کی گئی ہے جو علاقائی فن کی عکاسی کرتا ہے-درگاہ کے سرہانے کی طرف پلنگ کو درمیان میں بلند رکھا گیا ہے، جس پر تلاکڑھائی سے بنا ہوا تاج رکھا گیا ہے- پلنگ پر قرآنی آیات، کلمہ طیبہ، اسم اللہ ذات اور حضرت سلطان باھوؒ کے فارسی کلام کی کچھ لائنیں تحریر کی گئی ہیں- پلنگ کو مضبوط اور پائیدار رکھنے کیلئے اس کے لکڑی کے پیروں کو آپس میں جوڑنے کیلئے سٹینلیس اسٹیل کی پائپیں نصب کی گئی ہیں- اصحاب کرام، دیگرصوفیائے کرام کی قبور کو دیکھا جائے تو ان کی قبور کے ارد گرد بھی فصیل نما ڈھانچہ نصب کیا جاتا ہے کہیں وہ ڈھانچہ شیشے کا، کہیں سونے اور چاندی کا اور کہیں لکڑی کا بنا ہوتا ہے-
اندرونی دیواروں، دروازوں اور جالیوں کی سجاوٹ:
درگاہ کی اندرونی دیواریں نیلے، سیاہ اور سرخ ٹائلز سے سجائی گئی ہیں جو دو سے تین فٹ اونچائی تک لگائی گئی ہیں، جبکہ اوپر کے حصے کو مختلف رنگوں اور پھولوں کے نقش و نگار سے سجایا گیا ہے-درگاہ کی شمالی اور جنوبی دیواروں پر پتھر کی جالی کا کام نصب کیا گیا ہے، جس میں مثلثی، آٹھ کونوں والے ستارے اور چھ پتی والے پھولوں کے ڈیزائنز شامل ہیں-
درگاہ کی چھت کا سیلنگ ڈیزائن:
درگاہ کے اندرونی حصے میں چھت کے بارڈر پر خوبصورت ڈیزائنز اور روایتی رنگوں کے ساتھ کام کیا گیا ہے، جس میں پھولوں کے ڈیزائن اور مختلف مقدس ناموں کو چھت کی کونوں پر تحریر کیا گیا ہے- مقبرے کی چھت کو بہت کمال کاریگری اور عمدگی سے بنایا گیا ہے- چھت کا ڈیزائن صوفیوں کے جمالیاتی ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے- چھت کے حصے کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں چار مربع، چار مستطیل اور ایک مرکزی مربع ڈیزائن شامل ہیں- چھت کے وہ حصے جو بارڈر میں آتے ہیں، سبز، سرخ اور پیلے رنگ کے جیومیٹرک نمونوں اور ڈیزائنزسے مزین ہیں، جو اس کو باقی ڈیزائننگ سےالگ کرتےہیں- مربع شکل کے حصوں میں پیچیدہ اسلامی جیومیٹرک کے ڈیزائنزکو سرخ، سنہری، سیاہ اور پیلے رنگوں میں بنایا گیا ہے، جبکہ مستطیل حصوں میں سبز، پیلے، سرخ اور سنہری رنگوں میں آٹھ کونوں والے ستارے کے ارد گرد مربع اور مستطیل جیومیٹرک ڈیزائن بنائے گئے ہیں- جیومیٹرک ڈیزائن کے مختلف مرکزی حصوں پر اسم اللہ لکھا گیا ہے-
مسجد کی چھت کا سیلنگ ڈیزائن:
مسجد کے برآمدے کی چھت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے- درمیانی حصہ مستطیل شکل کا ہے جبکہ اطراف میں مربع شکل کے حصے بنائے گئے ہیں- ان تینوں حصوں کے درمیان اور ارد گرد ایک خوبصورت سرحد بنائی گئی ہے، جس میں پیلے، سبز، نیلے، سرخ اور سفید رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے- اسی حصے میں 8 کونوں والے ستارے اور دیگر اسلامی جیومیٹرک ڈیزائن پیٹرن بنائے گئے ہیں- آٹھ کونوں والے ستارے اور اس کے اطراف کو آئینہ کاری اور فریسکو ورک سے سجایا گیا ہے- جو حصہ مربع شکل میں ہے، اس کے جیومیٹرک ڈیزائن نمونوں کو 6 کونوں والے ستارے اور 12 کونوں والے ستارے/ پولیگون اشکال سے مزین کیا گیا ہے، اور اس کے ارد گرد بھی آئینہ کاری اور فریسکو کا کام کیا گیا ہے- اس حصے میں سفید، سبز، سرخ، سنہری، پیلا اور گلابی رنگ استعمال کیے گئے ہیں- مستطیل حصے میں گلابی، سرخ، سبز، سفید اور سنہری رنگوں کی سجاوٹ کی گئی ہے، جو کاریگروں اور معماروں کی کاریگری کو دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بناتی ہے-
حضرت سلطان باھوؒ کی درگاہ نہ صرف ایک تاریخی عمارت ہے بلکہ ایک زندہ روحانی ورثہ بھی ہے جو اسلامی فن تعمیر کی بے مثال عکاسی پیش کرتا ہے- اس درگاہ کا طرز ِتعمیر مغلیہ فن تعمیر کے مطابق ہے، جس میں جالیاں، سنگِ مرمر کی باریک کٹائی، میناروں پر گنبداور شاندار محرابیں شامل ہیں- ان عناصر کی حسین ترکیب اس عمارت میں ایک منفرد روحانی ماحول پیدا کرتی ہے، جو نہ صرف دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خوشی دیتی ہے بلکہ ان کے دلوں کو بھی سکون بخشتی ہے- یہاں آنے والے لوگ درگاہ کے ہر گوشے میں عقیدت اور محبت کے جذبات کو محسوس کرتے ہیں اور ان کا دل اللہ کی یاد میں محو ہو جاتا ہے- اس کی تعمیر میں اسلامی فنون کی باریکیوں کا خیال رکھا گیا ہے، جو نہ صرف فنون لطیفہ کے عکاس ہیں بلکہ زائرین کو روحانیت کے ایک نئے رنگ میں رنگین کرتے ہیں- ماضی کے اسلامی فنون کی عمدہ مثالیں جیسے نقش و نگار، عربی خطاطی اورجیومیٹری کی پیچیدہ اشکال، یہاں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں، جو ماضی کی عظمت کو زندہ رکھتی ہیں- یہ درگاہ اپنی روحانی اور ثقافتی اہمیت کے ساتھ ماضی کی عظمت اور موجودہ روحانی تحریک کا ایک سنگ میل بھی ہے، جو آنے والوں کو متاثر کرتا ہے اور انہیں حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے قریب لے آتا ہے- اس کی تعمیر کے ذریعے ہمیں نہ صرف مغلیہ عہد اور علاقائی ثقافت کی شان و شوکت نظر آتی ہے بلکہ ایک ایسا ماحول بھی ملتا ہے جو دلوں کو سکون اور روح کو جلا بخشتا ہے- یہ درگاہ ایک ایساعالمگیر روحانی مرکز ہے، جہاں ہر طبقے اور ہر مذہب کے افراد کو روحانی سکون اور مسرت کی تلاش میں رہنمائی ملتی ہے-حضرت سلطان باھوؒ کی درگاہ آج بھی ان کی تعلیمات اور روحانیت کا زندہ اظہار ہے، جو نسل در نسل لوگوں کے دلوں کو سکون اور ہدایت فراہم کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا-
٭٭٭