اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مساجد کی تعمیر:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا‘‘
’’اور بے شک مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو‘‘-[1]
یہ آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ مساجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے ہے اور ان کا مقصد توحید کا پرچار ہے-
مساجد کی تعمیر کرنے والوں کی فضیلت:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘‘[2]
’’اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں‘‘-
یہ آیت مبارکہ مساجد کی تعمیر اور ان کی آباد کاری کے اجر کو واضح کرتی ہے-
مساجد کی تعمیر کا اجر:
رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اللہ کیلئے مسجد بنائے، اللہ اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘-[3]
یہ حدیث مبارکہ مساجد کی تعمیر کے لیے مسلمانوں کی ترغیب کا سبب بنی-
مسجد نبوی کی تعمیر:
جب رسول اللہ (ﷺ) مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلا کام مسجد نبوی کی تعمیر تھا-یہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کیلئے ایک مرکز کے طور پر قائم کی گئی جہاں عبادت، تعلیم اور مشاورت کا انتظام کیا جاتا تھا -
تاریخی پس منظر :
سب سے پہلی مسجد کعبہ تھی- کعبۃ اللہ کے ارد گرد مسجد الحرام کی تعمیر ہوئی- ایک روایت کے مطابق کعبہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے حضرت آدم اور حضرت حوا (علیہما السلام)نے زمین پر عبادت کی تھی- اسی جگہ پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر ایک عبادت گاہ تعمیر کی، یہی جگہ مسجد الحرام کہلائی- متعدد روایات کے مطابق اوائل دور میں اس جگہ پر حضور نبی کریم(ﷺ) نے نمازیں ادا فرمائیں-
دوسری مسجد ’’مسجد قباء‘‘ تھی جس کی بنیاد حضور نبی کریم (ﷺ)نے مدینہ سے کچھ باہر اس وقت رکھی جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرما رہے تھے-
تیسری مسجد ’’مسجد نبوی‘‘تھی جس کی بنیاد بھی آقا کریم (ﷺ) نے مدینہ میں ہجرت کے بعد رکھی اور اس کی تعمیر میں خود بھی حصہ لیا- مسجدِ نبوی مسلمانوں کا مذہبی، معاشرتی اور سیاسی مرکز تھا- آج مسجد الحرام اور مسجد نبوی مسلمانوں کی مقدس ترین جگہیں ہیں-
قدیم دور میں مساجد کی تعمیر:
قدیم دور کی مساجد کی تعمیر اسلامی تہذیب کا ایک اہم پہلو ہے، جو نہ صرف عبادت بلکہ مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی، اور سیاسی سرگرمیوں کے مراکز کے طور پر کام کرتی تھیں-
مسجد قُباء
یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے، جو رسول اللہ (ﷺ) نے ہجرت کے پہلے سال (1 ہجری / 622 عیسوی) میں مدینہ منورہ کے قریب قُباء کے مقام پر تعمیر کی-
تعمیر کا طرز:
ابتدائی طور پر مسجد قبا کو بڑی سادگی کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا-
مواد:
مسجد کی تعمیر میں پتھر، مٹی اور کھجور کی لکڑی استعمال کی گئی تھی- دیواریں پتھروں سے بنائی گئیں جبکہ چھت کو کھجور کی شاخوں اور تنوں سے ڈھانپا گیا تھا-
ڈیزائن:
مسجد کا طرز سادہ اور کھلا تھا، جس میں ہوا اور روشنی کے لیے کشادگی کا خیال رکھا گیا- ابتدائی طور پر یہ ایک چھوٹا سا مستطیل نما ڈھانچہ تھا-[4]
مسجد الحرام
یہ دنیا کی سب سے قدیم عبادت گاہ ہے، روایات میں ہے کہ اسے پہلی مرتبہ تخلیقِ آدم (علیہ السلام) سے بھی قبل ملائکہ نے بنایا تھا، بعد ازاں انہی بنیادوں پہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام)نے تعمیر کی-
مسلمانوں کا قبلہ ہے- اس کا تعمیراتی طرز مختلف ادوار میں اسلامی فن تعمیر کی ترقی اور جدیدیت کی عکاسی کرتا ہے- ہر دور میں اس کی توسیع اور تعمیر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مطابق کی گئی- یہ مسجد اسلامی تاریخ، روحانی تقدس اور فن تعمیر کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے-
ڈیزائن:
ابتدائی طور پر یہ ایک سادہ سی عبادت گاہ تھی، جس کے مرکز میں خانہ کعبہ موجود تھا- اس کی کوئی چھت یا باقاعدہ ڈھانچہ نہیں تھا-
مواد:
قریش نے خانہ کعبہ کی دیواروں کی تعمیر میں پتھروں اور لکڑی کا استعمال کیا-
خلفائے راشدین کا دور :
سیدنا حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) نے مسجد کے اطراف میں پہلی مرتبہ توسیع کی اور اس کی حدود کو واضح کرنے کے لیے دیوار تعمیر کروائی-سیدنا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے مسجد کی مزید توسیع کی اور چٹائی سے چھت بنوائی تاکہ نمازیوں کو دھوپ سے بچایا جا سکے-
اموی، عباسی اور عثمانی ادوار
اموی دور:
یزید کے دور میں مدینہ منورہ کی حرمت پامال کرنے کے بعد جب مکہ مکرمہ پہ چڑھائی کی گئی تو خانہ کعبہ شریف کی عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا -[5]اس واقعہ کی بنیاد پہ امام احمد بن حنبل ؒ نے یزید کے متعلق انتہائی موقف اختیار کیا-[6] اموی حکمران عبدالملک بن مروان نے مسجد میں سنگ مرمر اور قیمتی پتھروں کا استعمال شروع کیا-
عباسی دور:
عباسی خلفاء نے مسجد کو مزید وسیع کیا اور خطاطی اور آرائش کو اہمیت دی-
عثمانی دور:
مسجد کے اطراف میں خوبصورت مینار اور گنبد تعمیر کیے گئے، جن پر نیلے اور سبز نقش و نگار کیے گئے-[7]
سعودی دور:
مسجد کے اطراف میں شاندارتوسیع کی گئی ہے ، حجاج کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر طواف و سعی کے مقامات کو کئی منزلوں میں بنادیا گیا ہے - توسیع کا کام تاحال جاری ہے ۔
مسجد نبوی
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں رسول اللہ (ﷺ)نے 1 ہجری میں اس مسجد کی بنیاد رکھی-
مسجد نبوی شریف آقا کریم (ﷺ) کی زندگی، دعوت اور امت کیلیے رہنمائی کا مرکز رہی ہے- اس کی تعمیر اور توسیع کے مراحل اسلامی فن تعمیر کی شاندار عکاسی کرتے ہیں-
ابتدائی تعمیر (622ء)
حضور نبی کریم (ﷺ) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد سب سے پہلے مسجد نبوی کی بنیاد رکھی-
مواد:
مسجد کی دیواریں کچی اینٹوں اور پتھروں سے بنائی گئیں جبکہ چھت کھجور کی شاخوں اور تنوں سے ڈھانپی گئی-
ڈیزائن:
یہ ایک مستطیل نما عمارت تھی، جس کا کل رقبہ تقریباً 1050 مربع میٹر تھا- ایک حصہ نماز کے لیے مخصوص تھا اور ایک حصہ مسافروں کے لیے بطور ’’صفہ‘‘ استعمال ہوتا تھا-
سادگی:
ابتدائی مسجد انتہائی سادہ اور بے تزئین تھی، جو اسلامی تعلیمات کی سادگی اور عاجزی کی عکاسی کرتی ہے-
حضرت عمراور حضرت عثمان (رضی اللہ عنھم) کے ادوار میں توسیع :
حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) (638ء):
آپ کے دورمیں مسجد کی توسیع کی گئی، دیواروں کو مزید بلند کیا گیا، اور چھت کو مضبوط لکڑی سے بنایا گیا-
حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) (649ء):
آپ کے دور میں مسجد کی عمارت میں خوبصورتی کا اضافہ ہوا- سنگ مرمر اور دیگر نفیس مواد استعمال کیا گیا، جو اسلامی فن تعمیر کی ابتدائی جھلکیاں پیش کرتا ہے-
اموی دور:
ولید بن عبدالملک نے مسجد میں پہلی مرتبہ محراب اور مینار تعمیر کروائے- یہ اسلامی فن تعمیر میں ایک اہم سنگ میل تھا-
عباسی دور:
مسجد میں خطاطی اور اندرونی تزئین و آرائش کا آغاز ہوا، جس نے مسجد کی جمالیاتی اہمیت کو بڑھا دیا-
عثمانی دور:
مسجد میں نیلے اور سفید نقش و نگار، خوبصورت مینار اور عظیم گنبد شامل کیے گئے-
سعودی دور:
آل سعود کے مختلف ادوار میں مسجد نبوی شریف میں توسیعی کام ہوتے رہے ، نمایاں ترین توسیع کا آغاز ملک فہد بن عبد العزیز کے عہد میں ہوا جو کام تا حال جاری ہے، اس توسیعی خدمت کی نمایاں خوبی جدید ٹیکنالوجی کا موثر استعمال ہے -
مسجد اقصٰی
یہ مسجد حضرت سلیمان (علیہ السلام)کے زمانے میں تعمیر کی گئی-
’’سُبْحَٰنَ ٱلَّذِيٓ أَسْرٰى بِعَبْدِهِۦ لَيْلٗا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰى‘‘[8]
’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی‘‘-
تعمیر کا طرز:
مسجد اقصٰی کو بھی ابتدا میں مٹی اور پتھروں سے تعمیر کیا گیا -خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا اور قبۃ الصخرہ (گنبدِ صخرہ) بنایا-یہ مسلمانوں کا قبلہ اول تھا-معراج النبی (ﷺ) کا واقعہ یہاں پیش آیا-[9]
مسجد کوفہ
مسجد کوفہ کی بنیاد 17 ھ (639ء) میں دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ) کے حکم پر رکھی گئی- حضرت سعد بن ابی وقاص(رضی اللہ عنہ) نے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی اور یہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کیلئے ایک عبادت گاہ اور سماجی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی تھی-
مواد:
مسجد کوفہ کی ابتدائی تعمیر میں گارے، مٹی اور کھجور کے درختوں کے تنوں کا استعمال کیا گیا-
ڈیزائن:
مسجد ایک مستطیل نما ڈھانچے پر مبنی تھی، جس میں کھلا صحن اور نماز کے لیے ایک چھوٹا سا مسقف حصہ تھا-
اموی دور :
حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ)کے دور میں مسجد کوفہ کی تعمیر و تزئین میں نمایاں تبدیلیاں کی گئیں-دیواروں کو مضبوط پتھروں سے تعمیر کیا گیا-مسجد میں محراب اور منبر کا اضافہ کیا گیا-
عباسی دور:
عباسی خلفاء نے مسجد میں سنگ مرمر، قیمتی لکڑی اور خطاطی کے نمونے شامل کیے- مسجد کے ستون اور چھت کو خوبصورتی سے مزین کیا -[10]
قدیم مساجد کی تعمیر میں سادگی، عاجزی اور عبادت کی روح نمایاں تھی- ان مساجد کا مقصد نہ صرف اللہ کی عبادت تھا بلکہ یہ اسلامی معاشرتی زندگی کے مراکز کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھیں-
جدید دور میں مساجد کی تعمیر
جدید دور کی مساجد اسلامی فن تعمیر کے ساتھ ساتھ جدت اور تکنیکی ترقی کا حسین امتزاج ہیں- یہ مساجد نہ صرف عبادت کے لیے مخصوص ہیں بلکہ کئی سماجی، تعلیمی، اور ثقافتی سرگرمیوں کے مراکز بھی ہیں- جدید دور کی مساجد کی تعمیر میں سادگی اور روحانیت کے ساتھ ٹیکنالوجی اور آرکیٹیکچر کی خوبصورتی جھلکتی ہے-
جامع مسجد فیصل(اسلام آباد، پاکستان)
تعمیر کا آغاز: 1976
افتتاح: 1986
معمار:ترکی کے ماہر معمار ودات دلوکے
تعمیر کا طرز:
غیر روایتی ڈیزائن، جو ایک خیمے کی شکل کا ہے-88 میٹر اونچے مینار، جو عثمانی طرز کے ہیں-ایک وقت میں 1 لاکھ سے زائد نمازیوں کی گنجائش-یہ پاکستان کی قومی مسجد ہے-اسلام آباد کی پہچان اور اسلامی طرز تعمیر کا جدید نمونہ-[11]
شیخ زید مسجد (ابوظہبی، متحدہ عرب امارات)
شیخ زید مسجد، جو ابوظہبی، متحدہ عرب امارات میں واقع ہے، اسلامی فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے- یہ مسجد جدت اور اسلامی روایات کا امتزاج پیش کرتی ہے اور دنیا کی بڑی اور خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک ہے- اس مسجد کو متحدہ عرب امارات کے بانی صدر، شیخ زید بن سلطان النہیان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور یہ 2007 میں مکمل ہوئی-
تاریخی پس منظر :
شیخ زید مسجد کی تعمیر کا آغاز 1996 میں ہوا اور یہ 2007 میں مکمل ہوئی- مسجد کا مقصد نہ صرف عبادت کا ایک مرکز بنانا تھا بلکہ مختلف اسلامی ثقافتوں کو یکجا کرنے کی علامت پیش کرنا بھی تھا-
مسجد کے رقبے کا حجم:
یہ مسجد 22412 مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور بیک وقت 40000 افراد کو عبادت کی سہولت فراہم کر سکتی ہے-
معمار:
مسجد کے ڈیزائن میں یوسف عبدلّی، ایڈریان اسمتھ اور دیگر عالمی شہرت یافتہ معماروں نے حصہ لیا-
مواد:
مسجد کی تعمیر میں دنیا بھر سے لائے گئے بہترین مواد کا استعمال کیا گیا-مثلاًاٹلی سے سنگ مرمر، جرمنی سے شیشے، چین سے موزیک اور ہندوستان سے قیمتی پتھر-
مسجد کے نمایاں تعمیراتی عناصر :
گنبد
شیخ زید مسجد میں 82 گنبد ہیں، جن کا ڈیزائن مغلیہ، مورش اور عباسی طرز تعمیر کا امتزاج ہے-مرکزی گنبد دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے، جس کی بلندی 85 میٹر اور قطر 32.8 میٹر ہے-
مینار
مسجد کے چار مینار، جو 107 میٹر بلند ہیں، کلاسیکی اسلامی طرز تعمیر کے مطابق بنائے گئے ہیں-میناروں میں مملوک، عثمانی، اور فاطمی طرز کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں-
مسجد کا صحن
مسجد کا صحن 17000 مربع میٹر رقبے پر مشتمل ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے ماربل موزیک سے مزین ہے-یہ موزیک پھولوں کے مختلف نمونوں پر مبنی ہے، جو اسلامی آرٹ کا مظہر ہیں-
داخلی ہال اور ستون
مسجد کے اندرونی ہال میں 96 ستون ہیں، جو سفید سنگ مرمر اور قیمتی پتھروں سے بنے ہیں-ستونوں پر نیم قیمتی پتھروں، جیسے نیلم، عقیق اور فیروزہ کی نقاشی کی گئی ہے-
فانوس
مسجد میں سات بڑی فانوس/چاندیلرز ہیں، جو جرمنی میں تیار کی گئیں اور ان میں سواروسکی کرسٹل استعمال کیے گئے-مرکزی فانوس دنیا کا دوسرا بڑا فانوس ہے، جس کا وزن تقریباً 12 ٹن ہے-
قالین
مسجد کے مرکزی نماز ہال میں دنیا کا سب سے بڑا ہاتھ سے بنا قالین بچھایا گیا ہے، جو ایران میں 1200 ماہر کاریگروں نے تیار کیا-اس قالین کا وزن 35 ٹن ہے اور اس پر اسلامی طرز کے پھولوں کے نمونے بنائے گئے ہیں-
ماحولیاتی اقدامات :
روشنی کا نظام
روشنی کا نظام مسجد کو چاند کی مختلف حالتوں کے مطابق روشن کرتا ہے-
پانی کی بچت:
وضو خانے اور باغات میں پانی کے مؤثر استعمال کے لیے جدید نظام نصب کیا گیا ہے-[12]
مسجد الحسن الثانی (کاسابلانکا ،مراکش )
مسجد الحسن ثانی مراکش کے شہر کاسابلانکا میں واقع ہے اور اسلامی فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے- یہ مسجد دنیا کی بلند ترین مینار کی حامل ہے اور بحر اوقیانوس کے کنارے تعمیر کی گئی ہے- اس مسجد کی تعمیر مراکش کے بادشاہ حسن دوم کے حکم پر 1986 سے 1993 تک ہوئی- اس مسجد کا طرز تعمیر اسلامی اور مراکشی فنون کی خوبصورتی کو جدت کے ساتھ پیش کرتا ہے-
تاریخی پس منظر
مسجد الحسن ثانی کی تعمیر کا مقصد ایک ایسی عظیم عبادت گاہ بنانا تھا جو مراکش کی اسلامی ثقافت اور فن تعمیر کی نمائندگی کرے- بادشاہ حسن دوم نے اسے قرآن پاک کی اس آیت سے متاثر ہو کر تعمیر کروایا:
’’وَ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃٌ ‘‘[13]
’’اور اللہ کی زمین وسیع ہے‘‘-
یہ مسجد سمندر کے کنارے اس نظریے کے تحت بنائی گئی کہ ’’اللہ کا تخت پانی پر ہے‘‘-
معمار:
مسجد کے ڈیزائنر مشہور فرانسیسی معمار ’’میشل پینسو ‘‘ تھے، جنہوں نے اسلامی اور مراکشی روایات کو جدید تعمیراتی تکنیکوں کے ساتھ مربوط کیا-
مواد:
سنگ مرمر، گرینائٹ اور لکڑی جیسے مقامی مراکشی مواد استعمال کیے گئے-کچھ خاص مواد، جیسے شیشے اور لوہے، کو دیگر ممالک سے درآمد کیا گیا-
مسجد کے تعمیراتی عناصر :
مینار
مسجد الحسن ثانی کا مینار 210 میٹر بلند ہے، جو دنیا کادوسرا سب سے بلند مینار ہے-مینار میں روشنی کےلیےجدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جو رات کے وقت مکہ کی طرف روشنی کی شعاع بھیجتی ہے-
گنبد
مسجد کا گنبد روایتی مراکشی طرز کا ہے، جو خوبصورت نقش و نگار اور آرائش سے مزین ہے-گنبد پر مراکشی موزیک اور خطاطی کی گئی ہے-
نماز ہال
مسجد کا مرکزی نماز ہال 25000 نمازیوں کی گنجائش رکھتا ہے، جبکہ بیرونی صحن میں 80000 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں-ہال کی چھت خودکار نظام کے ذریعے کھل سکتی ہے، جو نماز کے دوران سمندری ہوا اور روشنی کو اندر آنے دیتی ہے-
ستون اور قوس
مسجد کے ستون اور قوس اسلامی طرز تعمیر کی خوبصورتی کو ظاہر کرتے ہیں-ستونوں پر سنگ مرمر اور نیم قیمتی پتھروں سے نقش و نگار کیے گئے ہیں-
بحری طرز تعمیر
مسجد کا ایک حصہ سمندر کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے، جو اسے ایک منفرد تعمیراتی حیثیت دیتا ہے-سمندر کی قربت مسجد کو قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ایک روحانی ماحول فراہم کرتی ہے-
انداز خطاطی اور آرٹ
مسجد کی دیواروں پر قرآنی آیات کی خطاطی کی گئی ہے، جو اسلامی ثقافت کی عظمت کی عکاسی کرتی ہیں-مراکشی آرٹ، جیسے زلیج (موزیک)، کاروینگ اور لکڑی کے کام، مسجد کے ہر گوشے میں دکھائی دیتے ہیں-
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال :
خودکار چھت
نماز ہال کی چھت خودکار نظام کے ذریعے کھل سکتی ہے، جو جدید تعمیرات کا ایک انوکھا پہلو ہے-
زلزلہ مزاحم نظام
مسجد کو زلزلوں سے محفوظ رکھنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے-
گرم اور ٹھنڈے فرش
فرش کو موسم کے مطابق گرم یا ٹھنڈا کرنے کا نظام موجود ہے-[14]
جدید دور کی مساجد میں روایتی اسلامی طرز کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہوتاہے- ان مساجد میں سنگ مرمر، شیشے، دھات اور روشن فانوس استعمال کیے جاتے ہیں-
خودکار وضو خانے، ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کیا جاتا ہے- جدید مساجد، عبادت کے علاوہ اسلامی ثقافت، تعلیم اور بین المذاہب ہم آہنگی کے مراکز کے طور پر کام کرتی ہیں-
جدید دور کی مساجد، اسلامی تاریخ کے ساتھ جڑی ہوئی، ٹیکنالوجی اور جدید فن تعمیر کے نئے پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہیں- یہ مساجد عبادت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لیے سماجی اور تعلیمی مراکز بھی بن چکی ہیں، جن کی تعمیر میں اسلامی اقدار اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے-
٭٭٭
[1](الجن: 18)
[2](التوبہ: 18)
[3](صحیح بخاری/ صحیح مسلم)
[4](ابن سعد، طبقات ابن سعد، ج: 1، ص: 235)
[5]( تاریخ الطبری، ج: 5، ص: 481-482)
[6](امام ابن حجر ہیتمی،الصواعق المحرقہ علی اھل الرفض و الضلال و الزندقۃ، ج:2 ، ص:635 ،بيروت، لبنان)
[7](محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم والملوک، ج: 1، ص:230)
(ڈاکٹر علی عبد اللہ، مسجد حرام کی تاریخ، دارالسلام پبلشرز، ریاض، 2016)
[8](الاسراء: 1)
[9](المقریزی، الخطط والآثار، ج:4، ص: 200)
[10](البلاذری، فتوح البلدان، ص :350)
(یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارالکتب العربیہ، 1985)
[11](کمال الدین، اسلامی فن تعمیر کا جدید دور، ص: 180)
[12](علی ابراہیم، شیخ زید مسجد کی تاریخ، دبئی پریس، 2018)
(یونسکو، ’’اسلامی ثقافتی ورثہ اور شیخ زید مسجد‘‘،
www.unesco.org)
[13](الزمر: 10)
[14]( جیمز اسٹیل، اسلامک آرکیٹیکچر: فارم، فنکشن، اینڈ میننگ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 1994)
(مراکش وزارت ثقافت، ’’مسجد الحسن ثانی کا فن تعمیر‘‘
www.moroccoculture.ma)