پاکستان میں مسلم فن تعمیر : ایک مختصر جائزہ

پاکستان میں مسلم فن تعمیر : ایک مختصر جائزہ

پاکستان میں مسلم فن تعمیر : ایک مختصر جائزہ

مصنف: پروفیسر شاکر اللہ جنوری 2025

اسلام کی آمد کے بعد آٹھویں صدی عیسوی میں، پاکستان کا علاقہ تقریباً ہزار برس تک مسلم حکمرانی میں رہا، سوائے چند مختصر وقفوں کے جب سکھوں اور انگریزوں نے حکمرانی کی- صدیوں تک آزاد رہنے کے سبب، برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آیا-

عرب دور:

اسلامی فن تعمیر کی ابتدا 622ء میں مدینہ منورہ میں تعمیر ہونے والے حضور نبی اکرم (ﷺ) کے گھر مبارک سے ہوئی- یہ ایک سادہ مربع شکل کا گھر تھا(x100100 مربع فٹ) جس میں مستقبل کی مسجد کے منصوبے کے اجزاء موجود تھے- یہ ایک مٹی کی اینٹوں سے بنایا گیا ڈھانچہ تھا جس کے جنوبی حصے میں ایک پورچ (سایہ دار جگہ ) تھا اور مشرقی دیوار کے بیرونی طرف چھوٹے کمرے تھے جو صحن میں کھلتے تھے- صحن کے جنوب مغربی کونے میں ایک ابتدائی ڈھانچہ تھا جو شمال کی جانب کے پورچ (سایہ دار جگہ ) کی مانند تھا- وقت کے ساتھ ساتھ، اس سادہ ڈھانچے سے مسجد کے اہم اجزاء نے نشونما پائی، جیسے کہ محراب، صحن، منبر، مَقْصُورَہ اور مینار، یہ تمام اجزاء ایک ساتھ نہیں آئے تھے، کیونکہ اسلام کی ابتدائی مساجد میں یہ سب اجزاء اکٹھے موجود نہیں تھے- بعض عرب مورخین کے مطابق، حضرت عمر بن عبد العزیز ؓنے پہلی بار محراب تعمیر کروایا جب انہوں نے مدینہ کی مسجد کی تعمیر نو کی، جس کا حکم خلیفہ الولید نے دیا تھا- دوسری سب سے قدیم محراب مسجدِ عمرو میں تعمیر کی گئی، جسے 710-712ء میں دوبارہ تعمیر اور وسیع کیا گیا- اسی طرح مینار کی تعمیر کا پہلا حوالہ المقریزی نے دیا ہے، جن کے مطابق حضرت امیر معاویہ ؓنے مصر کے گورنر مسلمہ کو اذان کے لیے مینار بنانے کا حکم دیا تھا- مسجد کے منصوبے کا ایک اور اہم عنصر ’’مَقْصُورَہ‘‘ (پردہ یا پردہ دار جگہ) تھا، جسے حضرت امیر معاویہ ہی نے متعارف کرایا تھا-

پاکستان کا اسلامی فن اور فنِ تعمیر انہی اصولوں پر نشوونماپاتا رہا ہے- یہ مختلف قسم کی عمارتوں کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے، جنہیں دو اہم اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1.مذہبی عمارتیں

2. عوامی یا دنیاوی عمارتیں

مذہبی عمارتوں کی مزید تقسیم کی جا سکتی ہے:

  1.                       I.            مساجد
  2.                     II.            مقبرے

عوامی یا دنیاوی عمارتوں میں شامل ہیں:

محلات، قلعے، شہر، کارواں سرائے، باغات وغیرہ-

مسلم عمارتوں کی روایات برصغیر میں عربوں کی آمد اور ان کے یہاں آباد ہونے کے ساتھ آئیں، جنہوں نے اپنے ساتھ دین اسلام لایا اور اسے مقامی لوگوں میں پھیلایا- اس کا آغاز بلا شک و شبہ مکران اور بلوچستان کے علاقے سے ہوا- بعد ازاں یہ روایت ایک واضح صورت میں اُس وقت سامنے آئی جب محمد بن قاسم یہاں آئے اور سندھ اور پنجاب کے حصوں کو فتح کیا- معاصر تاریخ نویسوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ عرب جنرل نے اپنے پیش رو اور ہم عصر عرب جرنیلوں کی پیروی کرتے ہوئے، جن مقامات کو فتح کیا، وہاں مساجد تعمیر کیں- اس طرح دیبل، سہون، نیرون، ارور، السِکہ اور ملتان میں پہلی بار مساجد قائم ہوئیں-

بھنبھور کے مقام پر کی جانے والی آثارِ قدیمہ کی کھدائیوں میں ایک مسجد کے آثار دریافت کیے گئے ہیں، جو جنوبی ایشیائی برصغیر کی زمین پر تعمیر ہونے والی سب سے قدیم مسجد سمجھی جاتی ہے-

یہ مسجد ایک مربع شکل میں ہے، جس کا منصوبہ 36 x 36 میٹر ہے اور یہ دو حصوں پر مشتمل ہے: ایک محراب والا حصہ (مقصد) اور صحن- نماز کےلئے کمرہ 33 لکڑی کے ستونوں پر قائم ہے جو کہ تین قطاروں میں ترتیب دیے گئے ہیں- اس کا چھت چپٹی ہے اور اس میں کوئی محراب نہیں ہے- صحن کے تین طرف کلسٹر ہیں اور یہ جلتی ہوئی اینٹوں سے پکا ہوا ہے- اس تک رسائی دو مرکزی دروازوں سے ہوتی ہے، ایک مشرقی سمت اور ایک شمالی سمت میں، اور ایک چھوٹا دروازہ قبلہ کی طرف بھی ہے- اس میں تمام وہ ساختی اجزاء موجود ہیں جو اس کے ہم عصر مساجد میں موجود تھے، جو مختلف دوسری خلافتوں کے مراکز میں تعمیر کی گئی تھیں-

اسی طرح ایک اور ہائپو اسٹائل مسجد کے آثار سندھ کے شہر شاہداپور کے عربی شہر منصورہ میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئے- ان دونوں عربی طرز کی مساجد کی دریافت انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ پاکستان میں مسجد کے فنِ تعمیر کے آغاز کی بنیاد فراہم کرتی ہیں اور شاید پورے برصغیر میں بھی، جو بنیاد رکھی گئی تھی، اس پر بعد میں دوسرے عرب گورنروں اور حکمرانوں نے عمل کیا، خاص طور پر سندھ کے حباریوں اور ملتان کے بنو سامح کے حکمرانوں نے-

عرب مؤرخین نے سندھ اور پنجاب کے اہم شہروں اور قصبوں میں ان عرب حکمرانوں کے عہد اور سماجی و ثقافتی حالات کی تفصیلات فراہم کی ہیں-

ابتدائی مسلم فنکاروں کا ایک اور اہم کام چمکدار مٹی کے برتنوں کی روایات کا تعارف تھا- دیبَل اور منصورہ میں مسلم مٹی کے برتنوں میں چینی اثرات کے علاوہ دیگر ابتدائی اسلامی شہروں کے اثرات بھی دیکھے گئے ہیں، خاص طور پر خلیج کے ساحلی علاقوں سے- منصورہ سے دریافت ہونے والے مشہور دروازے کی دستک یا کنڈی (ڈور ناکرز) کی تاریخی اور فنونِ لطیفہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے- یہ ڈور ناکرز مقامی اور مسلم فنون کے روایات کو یکجا کرنے کی مثال ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دھات کاری کے فن کی بھی عکاسی کرتی ہیں- یہ ڈور ناکرز 50 کلوگرام سے زیادہ وزنی ہیں اور ان میں دو حصے ہیں: ایک شیطان کا سر اور ایک کندہ شدہ حلقہ جس میں خوبصورت کوفی خط میں تحریریں ہیں-

تاریخی حوالوں کے مطابق، ابو طربی کی قبر ٹھٹھہ کے جنوب مشرق میں، گوہجو اور کہڑی کے درمیان تقریباً 8 کلو میٹر دور واقع ہے اور اس کے گنبد پر 787ء کی تاریخ درج ہے، جو اس قبر کو عباسی دور کی واحد یادگار بناتا ہے-

مغل دور سے پہلے:

ملتان اور لاہور، غزنوی اور ان کے بعد کے ادوار میں اہم سماجی اور سیاسی مراکز کے طور پر ابھرے- غزنوی خاندان وسطی ایشیائی فنونِ تعمیر کی روایات کو اپنے ساتھ لایا اور پاکستان میں اسلامی فن اور فنِ تعمیر کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا- لاہور بعد ازاں غزنویوں کا دارالحکومت بن گیا اور اسے شاہی محلوں اور مذہبی عمارتوں سے سجایا گیا- ہمیں لاہور میں ابھرنے والے فنِ تعمیر کے طرز کے بارے میں مکمل طور پر علم نہیں ہے کیونکہ یہ عمارتیں علاءالدین جہانسوز کے ہاتھوں تباہ کر دی گئی تھیں- زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ عمارتیں غزنی کے طرز پر تعمیر کی گئی ہوں گی، جو ایشیا کا سب سے خوبصورت شہر تھا- تاریخی حوالوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غزنویوں نے نمک کے پہاڑوں کے علاقے نندنہ، لاہور اور ٹیکسلا کے گرد و نواح میں مساجد تعمیر کیں-

کے پی کے میں حالیہ تحقیقاتی کاموں نے غزنوی دور سے تعلق رکھنے والی کئی دیگر عمارات کا بھی پتہ چلایا ہے- ہیلیان مشن نے سوات کے علاقے اور دیگرام میں ایک مسجد کے آثار دریافت کیے ہیں- یہاں ایک کتبہ ملا ہے جس میں درج ہے کہ یہ مسجد انوشتیگین نے 1048-49ء میں تعمیر کرائی تھی، جو ایک غزنوی گورنر تھا- یہ مسجد گندھارا طرزِ تعمیر کی ایک جدید قسم سے بنائی گئی ہے اور مقامی پتھروں سے تیار کی گئی ہے- یہ عمارت چپٹی چھت والی تھی جس کے قبلہ والی دیوار میں چپٹی محراب تھی- پنجاب کے زرعی میدانوں میں پتھر کی کمی کے باعث، معماروں نے اس کی تعمیر میں آگ پر تیار کی گئی اینٹوں کا استعمال کیا-

کبیر والا میں خالد ولید(ایک صوفی بزرگ) کا مقبرہ، مرالہ گڑھ جھنگ روڈ پر جلاران کے قریب سادات شہید کا مقبرہ architecture funerary (وہ تعمیراتی فن ہے جو تدفین یا یادگار کے طور پر بنایا جاتا ہےجس میں مقبرہ،مزار وغیرہ شامل ہیں)کا عمدہ نمونہ ہیں- خالد ولید کا مقبرہ مربع شکل کا ہے اور اسے دو مراحل میں تعمیر کیا گیا ہے- مربع نما کمرہ براہِ راست ایک بڑے گنبد سے ڈھانپا گیا ہے- ایک کتبہ جو کوفی خط میں لکھا گیا ہے، اس میں درج ہے کہ علی بن کرمک، جو غوری حکمران تھا اور ملتان صوبے کا گورنر تھا، اس کمپلیکس کا سرپرست تھا-

یہ بات یہاں ذکر کرنا ضروری ہے کہ کتبے میں مسجد کی تعمیر کا ذکر کیا گیا ہے نہ کہ مقبرہ کی- لہذا یہ برصغیر کی تاریخ میں سب سے قدیم مسجد مقبرہ ہے- اسی طرح سادات شہید کا مقبرہ جو ملتان کے قریب مُظفرگڑھ میں واقع ہے، وہ بھی اسی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا مگر زیادہ سلیقے سے اور کٹی ہوئی اینٹوں سے تیار کیا گیا تھا- اس مقبرے میں اینٹوں پر مختلف ڈیزائنوں کے نقش و نگار کے علاوہ خوبصورت کوفی کتبے بھی نقش کیے گئے ہیں- ان دونوں مقابر کی طرزِ تعمیر اور سجاوٹ میں مقامی فن تعمیر کی سجاوٹ سے گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے- اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعد میں تعمیر ہونے والا مقبرہ، جو پہلے والے سے مشابہ ہے، 12ویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا ہوگا- یہ وہ دور تھا جب غوریوں نے برصغیر میں اپنے اقتدار کا آغاز کیا تھا-

غزنوی خاندان کی جگہ غوریوں نے لے لی، جنہوں نے برصغیر میں پہلی مسلم سلطنت قائم کرنے کی بنیاد رکھی- 12 ویں صدی کے بعد، ان کے حکومتی علاقے کے اہم مراکز میں وسط ایشیائی اور مقامی فنون کے امتزاج سے کچھ اہم عمارات تعمیر کی گئیں-

اس حوالے سے لسبیلہ میں محمد بن ہارون کے نام سے منسوب ایک مقبرہ قابل ذکر ہے- یہ ایک مربع شکل کی عمارت ہے جس پر براہ راست ایک گنبد قائم کیا گیا ہے- اس جگہ کی خاصیت اس کی مٹی کے برتنوں کی سجاوٹ ہے، جو اس علاقے کی قبل از اسلام سجاوٹ کی تکنیکوں سے گہری مشابہت رکھتی ہے-

12ویں صدی عیسوی کے سب سے شاندار یادگاروں میں سے ایک لال مہرہ شریف، ڈی آئی خان میں واقع مقبرے ہیں- یہ مربع شکل کے گنبد والے مقبرے ہیں جو کہ مقامی اور وسط ایشیائی فن تعمیرکے امتزاج کو خوش اسلوبی سے ظاہر کرتے ہیں- کٹی ہوئی اینٹوں کے کام کے ساتھ ساتھ، چمکدار ٹائلوں (glazed tiles) کی سجاوٹ بھی بطور سجاوٹی عنصر یہاں پہلی بار نظر آئی ہے اور اس سے پہلے ایسی سجاوٹ کہیں نہیں دیکھی گئی-ان مقبروں پر کی جانے والی مختلف نباتاتی اور ہندسی (جیومیٹریکل ) ڈیزائنز یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مقبرے ممکنہ طور پر ملتان طرزِ تعمیر کے آغاز کی نمائندگی کرتے ہیں-

شہاب الدین غوری کی 1206ء میں وفات کے بعد، ان کی سلطنت کو ان کے گورنروں میں تقسیم کر دیا گیا- قطب الدین ایبک نے دہلی کی مسند پر قدم رکھا اور سلطنتِ دہلی کے پہلے خود مختار حکمران کے طور پر اپنی حکومت قائم کی، ناصر الدین قباچہ ملتان کے اور اوچ کے حکمران بنے، جبکہ تاج الدین یلدوز غزنی کے مشرقی علاقے اور کرمان کے علاقے کے حکمران بنے- موجودہ پاکستان کی سرزمین پر عہدِ غلاماں اور خلجی خاندانوں کے ادوار کی کوئی بھی عمارت وقت کے گزرتے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی-

خلجی خاندان کے بعد 1320ء میں تغلق خاندان نے اقتدار سنبھالا اور 1414ء تک حکمرانی کی- تغلق دور نے فنِ تعمیر میں ایک نیا انداز متعارف کرایا، جس میں افقی طور پر رکھی جانے والی لکڑی کی بیمیں، ڈھلوان دیواریں اور کونوں پر برج جیسے منفرد عناصر شامل تھے- ان کی تعمیراتی سرگرمیوں کے آثار ملتان میں شاہ رکنِ عالم کے مقبرے میں دیکھے جا سکتے ہیں- ملتان کی طرزِ تعمیر کو وہ دور سمجھا جاتا ہے جب 12ویں صدی عیسوی کے وسط سے ملتان شہر میں مقبروں کی ایک بڑی تعداد تعمیر ہوئی-

پنجاب میں معماروں نے جلائی ہوئی اینٹوں سے عمارتیں تعمیر کرنے کی ترغیب دی- یہی وجہ ہے کہ ملتان طرزِ تعمیر کی خصوصیات میں جلائی ہوئی اینٹیں، مٹی کے ٹائلز، چمکدار ٹائلیں (glazed tiles)، لکڑی کی بیمیں (wooden beams)، ڈھلوان دیواریں (sloping walls)، چپٹی اور گنبدی چھتیں، مربع شکل (square shape) اور آٹھ گوشہ (octagonal shape) عمارتیں شامل ہیں-یہ وہ جگہ ہے جہاں وسطی ایشیائی اور ایرانی فن تعمیر کے اثرات کو مقامی فنون کے ساتھ ملا کر استعمال کیا گیا-

محققین کے مطابق ملتان شہر کا سب سے قدیم مقبرہ شاہ یوسف گردیزی کا ہے، جو 1152ء میں تعمیر کیا گیا تھا- یہ عمارت مستطیل شکل (rectangular shape)کی ہے، جس کی چھت چپٹی ہے اور اس کی بیرونی دیواروں کو سفید اور نیلی ٹائلوں (جس کو اب ملتانی ٹائل بھی کہا جاتا ہے)سے مکمل طور پر ڈھانپ دیا گیا ہے-

جبکہ مشہور صوفی بزرگ حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ  کا مقبرہ (1262ء)، سادات شہید کا مقبرہ (1270ء) اور شاہ شمس تبریزی (سبزواری) کا مقبرہ (1276ء) ڈیزائن کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں- یہ تین منزلہ عمارتیں ہیں، پہلی منزل مربع شکل میں (square form)، دوسری منزل آٹھ گوشہ (octagonal form)اور تیسری گنبد کی صوت میں ہے- ان مقبروں کی بیرونی سطحوں پر سفید اور نیلی ٹائلوں کا استعمال کیا گیا ہے- لیکن ملتان طرزِ تعمیر اپنی تکمیل کو شاہ رکنِ عالم کے خوبصورت مقبرے (1325-1335ء) میں پہنچا- اس مقبرے کی پہلی دو منزلیں آٹھ گوشہ ہیں اور تیسری گنبد کی صورت میں ہے- یہ مضبوط اور عظیم عمارت تغلق طرزِ تعمیر کی تمام اہم خصوصیات کو ظاہر کرتی ہے-

ملتان طرزِ تعمیر نے ملتان شہر میں ایک طویل عرصے تک اپنا اثر برقرار رکھا، لیکن اوچ شریف میں یہ طرزِ تعمیر 13ویں صدی عیسوی کے دوران، 1228 عیسوی تک ناصر الدین قباچہ کے زیر اقتدار آ گیا تھا- اس نے اپنی دارالحکومت اوچ میں قائم کی تھی- ناصرالدین قباچہ کے مشہور درباری مورخ، منہاج الدین سراج جوزجانی نے ذکر کیا ہے کہ اس کے دور میں صرف مساجد اور مقبرے تعمیر کیے گئے تھے- اوچ میں موجودہ یادگاریں اسی طرزِ تعمیر میں 15ویں صدی اور اس کے بعد کے ادوار میں تعمیر کی گئیں-

مغلیہ سلطنت کا دور:

مغلیہ سلطنت کی بر صغیر پر حکمرانی نے ایک نئے دور کا آغاز کیا، جو عظیم علمی اور فنونِ لطیفہ کی روایات سے مزین تھا- انہوں نے ہر پہلو میں فنون اور دستکاریوں میں کمال حاصل کیا- تیمور کی نسل سے تعلق رکھنے والے مغلوں نے سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کے تمام شعبوں کو فروغ دیا ، ابتدائی برسوں میں سیاسی حالات کے غیر مستحکم ہونے کے باعث کوئی خاص اہمیت کا کام نہیں ہو سکا-لیکن وقت کے ساتھ ایک ایسا طرزِ تعمیر سامنے آیا جس میں مغلیہ خاندان کے جمالیاتی ذوق کی جھلک تھی، جو بلا شبہ جنوبی ایشیا کا سب سے اہم اور نمایاں طرزِ تعمیر بن گیا-

مغلیہ سلطنت کے عہد میں فنون کے فروغ میں کئی عوامل کا ہاتھ تھا- سلطنت کی طاقت اور دولت اور نسبتاً پُرامن حالات نے اس فن کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا- تاہم سب سے اہم وجہ سلطنت کا سرپرستی فراہم کرنا اور بادشاہوں کی اپنی جمالیاتی فطرت تھی- مغلیہ بادشاہوں نے مختلف اقسام کی عمارتیں تعمیر کیں، جیسے قلعے، محل، مساجد، مقبرے، باغات اور سرائے- مغلیہ دور کی تعمیرات کو دو مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے- پہلی مرحلے میں وہ عمارتیں شامل ہیں جو لال پتھر سے تعمیر کی گئیں اور یہ عمارتیں اکبر اور جہانگیر کے دورِ حکمرانی کی نمائندہ ہیں، جبکہ دوسرا مرحلہ شاہجہان کے عہد میں سفید سنگ مرمر سے بنی عمارتوں کی صورت میں سامنے آیا-

مغلیہ دور میں ایک مختصر مدت کے لیے شیر شاہ سوری نے حکومت کی، جس کی وجہ سے ہمایوں کو ملک سے نکلنا پڑا اور دہلی کا تخت شیر شاہ سوری نے سنبھال لیا- ساسارم میں عمارتوں کے فن کا تجربہ رکھنے والے شیر شاہ سوری نے مسلم فن ِتعمیر پر گہرا اثر ڈالا، جس کا ثبوت روہتاس کے قلعے سے ملتا ہے، جو جہلم کے قریب گکھڑوں پر مسلسل نظر رکھنے کیلئے تعمیر کیا گیا تھا- اسلام شاہ سوری نے لاہور کے شاہدرا میں ایک مسجد تعمیر کی- سوری طرزِ تعمیر واقعی اس عہد کے انداز تعمیرکی درست طور پر ظاہر نمائندگی کرتا ہے-

روہتاس کا قلعہ جہلم کے شمال مغرب میں تقریباً 12 میل کی دوری پر واقع ہے- اس کی مضبوط اور بھاری دیواروں کی موٹائی 30 فٹ سے 40 فٹ تک ہے- قلعے کی کل حد 2.5 میل ہے اور اس میں 68 برج اور 12 دروازے ہیں- سہیل دروازہ ابھی تک اچھی حالت میں محفوظ ہے اور اس کی اونچائی 70 فٹ ہے- مرکزی دروازہ ایک بڑی قوسی محراب میں واقع ہے، جس کے دونوں طرف دیوار سے باہر نکلی ہوئی ایک کھڑکی ہے-

اکبر عظیم نے مغلیہ طرزِ تعمیر کی بنیاد رکھی- تاہم، اس کے پیش رو بابر (1526-30ء) اور ہمایوں (1530-40ء) اور (1555-56ء) اصل میں عمارتوں کے فن کے بانی تھے- بابر کو باغات کی سجاوٹ کا بہت شوق تھا اور اس نے اپنے مختصر دورِ حکمرانی میں کئی باغات تعمیر کیے- اپنے والد کی طرح، بادشاہ ہمایوں نے کوئی بڑی عمارت نہیں بنوائی، لیکن ان کے صفوی حکمرانوں کے ساتھ تعلقات نے برصغیر کے فن اور عمارت پر دور رس اثرات مرتب کیے- صفوی دربار سے واپسی پر وہ ایرانی فنکاروں کے ہمراہ آئے- اگرچہ یہ ایرانی روایات ان کی زندگی کے دوران ظاہر نہیں ہوئیں، مگر ان کے انتقال کے بعد ان کا اثر ظاہر ہونا شروع ہوا، جیسا کہ ان کے اپنے مقبرے میں دیکھا جا سکتا ہے- یہ مقبرہ ملکہ حاجی بیگم نے ان کی وفات کے 8 برس بعد تعمیر کرایا تھا- پاکستان میں مغلیہ فنِ تعمیر کے اس ابتدائی مرحلے کی واحد عمارت کامران کی بارا داری لاہور میں ہے، جو اب مکمل طور پر نئے سرے سے تعمیر کی گئی ہے- بادشاہ اکبر زیادہ تر مقامی بھارتی فن اور عمارت سے متاثر تھا- اکبری طرزِ تعمیر پر گجراتی، سوری اور فارسی طرزوں کا گہرا اثر تھا-

لاہور، جو مغلوں کا دوسرا گھر تھا، اس دور کی دنیاوی اور مذہبی عمارتوں میں اپنی نوعیت کا نمایاں مقام رکھتا ہے-بادشاہ اکبر نے 1566ء میں مٹی کے قلعے کو اینٹوں کے کام سے بدل دیا- یہ قلعہ1050x 1200فٹ کے رقبے پر محیط تھا اور دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا- جنوبی حصہ انتظامی عمارتوں کے لیے مختص تھا جبکہ شاہی رہائشگاہیں اس کے پچھلے حصے میں تعمیر کی گئیں- بعد میں ان کے جانشینوں جہانگیر، شاہ جہان اور اورنگزیب نے اس میں کئی اضافے کیے- اکبر اور جہانگیر کے دور کی عمارتیں زیادہ تر سرخ پتھر سے تعمیر کی گئی تھیں، جیسے جہانگیر کے چوراہے میں اور ان پر نباتاتی ڈیزائن اور تراشے ہوئے جانوروں کی تصاویر بنائی گئی تھیں- یہ عمارتیں شاہ جہان اور اورنگزیب کی عمارتوں سے بہت مختلف ہیں، جیسے موتی مسجد، نولکھا، شیش محل اور بادشاہی مسجد- یہ تمام عمارتیں زیادہ تر سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہیں اور ان پر پیٹراڈورا کا کام (پیٹراڈورا ایک سجاوٹی فن ہے جس میں رنگین قیمتی پتھروں کو تراش کر مختلف پیچیدہ اور خوبصورت ڈیزائن بنائے جاتے ہیں)، ٹائل اور پتھر کی موزیک اور فریسکو کی سجاوٹ کی گئی ہے-

اکبر نے اٹک میں بھی ایک قلعہ تعمیر کروایا جو کابل اور دریائے سندھ کے سنگم کے قریب بائیں کنارے پر واقع ہے- یہ قلعہ 1583ء میں مکمل ہوا اور مقامی پتھر وں سے تعمیر کیا گیا، جو چونے کے گارے کی مدد سے تعیر کیا گیا تھا- قلعے کی محرابیں، گنبد اور چبوتریاں اینٹوں سے بنائی گئیں- قلعے کی دیواروں کا دائرہ ایک میل سے زیادہ ہے اور اس میں 18 برج ہیں- اس کی خصوصیت اس کی جنگی چٹائیاں، سوراخ، مشیکولیشنز (مکان کی چھتوں سے گرا کر دشمن پر پتھر پھینکنے کی سہولت) اور اوپر ایک ڈھانپنے والی گیلری ہے- اس میں تین دروازے تھے جو اب استعمال میں نہیں ہیں- بعد میں کچھ اور دروازے بھی شامل کیے گئے تھے- زمین کے نیچے کا کمرہ چھوڑ کر، قلعے میں کوئی پرانی عمارت باقی نہیں رہی-

جہانگیر کی اصل دلچسپی مصغرہ پینٹنگ (miniature painting)میں تھی اور اس کی سرپرستی میں یہ فن عروج پر پہنچا- جہانگیر کے دور کی ایک اہم عمارت مریم زمانی مسجد ہے جو لاہور قلعے کے مستی دروازے کے باہر واقع ہے- یہ مسجد مریم زمانی، جو جہانگیر کی والدہ تھیں، نے 1614ء میں تعمیر کرائی- اس مسجد کی خاص پہچان اس کی مشہور فریسکو پینٹنگز (fresco paintings)ہیں-

شاہ جہان کے دور میں فارسی اثرات زیادہ واضح ہوئے- سرخ پتھر کی عمارتوں سے سفید سنگ مرمر کی عمارتوں کی طرف منتقلی کا یہ دور ’’آصف خان‘‘ کے مقبرے سے ظاہر ہوتا ہے، جو نور جہاں کے والد اور جہانگیر کے وزیرِ اعظم تھے- یہ مقبرہ سنگ مرمر کی تعمیرات کا آغاز ثابت ہوتا ہے- عمارت کے مٹیریل میں تبدیلی نے فن تعمیر کی سجاوٹ میں بھی تبدیلی پیدا کی- شاہ جہان، جو ’’ہندوستان کے انجینئر بادشاہ‘‘ کہلاتے ہیں، نے لاہور میں کئی اہم عمارتیں تعمیر کیں- لاہور قلعے میں اس نے دیوانِ عام، شیش محل، نولکھا پویلیئن ، موتی مسجد اور دیوانِ خاص تعمیر کیے- اس کے علاوہ اس نے جہانگیر، نور جہاں، عیف خان، علی مردان خان کے مقبروں کو اور شالیمار باغات بھی لاہور میں بنوایا- لیکن اس کا سب سے عظیم کارنامہ وزیر خان مسجد ہے، جو لاہور شہر کا جواہر ہے- وزیر خان، جو لاہور کے گورنر تھے، نے یہ مسجد 1634ء میں تعمیر کرائی- یہ مسجد اینٹوں سے روایتی انداز میں بنائی گئی ہے لیکن اس کی خاص بات اس کی سجاوٹ ہے- اس کی سطح کا ہر انچ داخلی اور خارجی طور پر ٹائل موزیک اور فریسکو پینٹنگز سے بھرپور سجا ہوا ہے- اس کے علاوہ مختلف خطاطی کے انداز کو اندر اور باہر دونوں طرف دیواروں پر بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا ہے-

اسی طرح، شاہ جہانی مسجد بھی اہمیت کی حامل ہے جو ٹھٹہ میں واقع ہے- اس کا آغاز شاہ جہان کے دور میں 1647ء میں ہوا لیکن اسے اورنگزیب نے 1658-59ء میں مکمل کیا- ٹھٹہ میں تعمیر ہونے والی دیگر عمارتوں میں مرزا عیسیٰ خان ترکان، باقی بیگ، تغرال بیگ اور دیوانِ شرف خان کے مقبرے شامل ہیں-

اورنگزیب، جو عظیم مغل سلطنت کا آخری بادشاہ تھا، نے لاہور میں بادشاہی مسجد تعمیر کرائی- یہ مسجد 1674ء میں فدائی خان کوکاکی حکمرانی کے دوران تعمیر مکمل ہوئی- مسجد x567 567فٹ دو حصوں پر مشتمل ہے: نماز پڑھنے کا ہال اور ایک وسیع صحن، جس میں ایک شاندار دروازے کے ذریعے داخلہ کیا جا سکتا ہے- نماز کا ہال دو راستوں پر مشتمل ہے اور اس کی فرش اصل میں کاٹے گئے اینٹوں سے بنی ہوئی تھی، جو مصلہ (نماز کے قالین) کی شکل میں بنائی گئی تھی، اور اس میں سنگِ عربی اور سیاہ سنگ مرمر سے نشان دہی کی گئی تھی- اس کاFacade گیارہ محرابوں پر مشتمل ہے، جن میں سے مرکزی محراب باقی سب سے بلند ہے اور یہ نماز کے ہال میں مرکزی داخلہ کو ظاہر کرتی ہے- مسجد میں آٹھ بلندکونوں والے مینار ہیں، ایک ہر نماز کے ہال کے کونے پر اور چاروں طرف پورے کمپلیکس کے چاروں کونوں پر-

مغلیہ دور کی عمارتیں خیبر پختونخوا میں زیادہ تر پشاور شہر کے ارد گرد واقع ہیں- اس دور کی ابتدائی عمارتیں اکبر کے دور حکومت میں تعمیر ہوئیں-  1586ء میں اکبر کے دور میں تعمیر ہونے والا ہنٹ قلعہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع ہے- یہ چھوٹی اینٹوں اور پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا، جیسے کہ اس کا کچھ حصہ آج بھی بچا ہوا ہے- اسی دور کی ایک اور عمارت جو شاہ قطب نے بنوائی تھی، پشاور کے دیلا ساک کے قریب واقع ہے- یہ8 کونوں کی شکل میں ہے اور اس میں چار دروازے ہیں- آٹھ کونوں کی عمارت کے اوپر 16 طرفہ ڈرم (گنبد کی بنیاد چونکہ ایک سلنڈر کی طرح ہوتی ہے تو اس کو ڈرم کہا جاتا ہے)ہے، جو ایک کم بلندی والے گنبد کو سپورٹ کرتا ہے- اندرونی طور پر اس کی شکل بہت نفیس ہے اور ہر طرف ایک محراب کے اوپر افقی خطوط کی مٹی کی جڑت ہے- اس جڑت کے اوپر دیواروں کی پینٹنگز کے کچھ نقوش باقی ہیں-

شیخ امام الدین کا مقبرہ اور مسجد جو پشاور یونیورسٹی کے قریب پالوسی پیراں میں واقع ہیں، بھی قابل ذکر ہیں- سنگ مرمر پر درج ایک تحریر کے مطابق شیخ 1650ء میں وفات پا گئے تھے- یہ مقبرہ صاف و شفاف شکل میں ہے اور ایک بلند پلیٹ فارم پر واقع ہے- یہ مقبرہ آٹھ کونوں والے ڈرم سے مزین ہے، جس کے اوپر ایک بلند گنبد ہے- بیرونی طور پر یہ چونے کےپلستر سے ڈھکا ہوا ہے اور اندرونی حصے میں اس کی سجاوٹ بہت خوبصورت ہے، جس میں پھولوں کی تصاویر کی پینٹنگز کی گئی ہیں- مقبرے کے مغربی جانب مسجد بھی واقع ہے- اس کی نماز کا ہال مستطیل شکل میں ہے اور اس کے دروازوں پر محرابیں بنی ہوئی ہیں- نماز کے ہال کی چھت تین گنبدوں سے ڈھکی ہوئی ہے اور اس کی دیواروں پر سائپریس اور دیگر پھولوں کے ڈیزائن کی پینٹنگز کی گئی ہیں-

شاہ جہان کے دور میں اس کی سب سے بڑی بیٹی جہاں آرا بیگم نے 1640ء میں گور کھتری کو ایک کاروان سرائے میں تبدیل کیا اور اسے سرائے جہاں آباد کا نام دیا- اس میں ایک چھوٹے سرائے کی تمام خصوصیات موجود ہیں، اس کے دو شاندار دروازے ہیں: مغربی اور مشرقی دروازہ، اور یہ تقریباً  x700 700فٹ کے علاقے میں محیط ہے- اس کے چاروں طرف ایک بلند دیوار سے گھرا ہوا کھلا صحن ہے- اندرونی حصے میں دیوار کے ساتھ کمرے بنائے گئے ہیں جہاں تاجروں یا سیاحوں کے قیام کیلئے کمرے موجود ہیں جو ہندوستان اور وسطی ایشیا کے درمیان سفر کرتے تھے- یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جہاں آرا بیگم نے اس سرائے میں ایک مسجد اور حمام بھی تعمیر کروایا تھا، لیکن وقت کے ساتھ یہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، اور اب صرف دو دروازے اور جنوبی سمت کے کچھ کمرے باقی ہیں-

پشاور کی سب سے شاندار عمارت مہابت خان مسجد ہے- یہ ایک بلند پلیٹ فارم پر تعمیر کی گئی ہے، جس میں تین دروازے ہیں، سوائے قبلہ والے دروازے کے- اس کا نقشہ مستطیل شکل (x163 185فٹ) میں ہے اور نماز کے ہال میں خوبصورت سجاوٹ کی گئی ہے- نماز کے ہال کے سامنے دو بلند مینار ہیں، ایک ہر طرف کے کونے پر- اس مسجد کی تعمیر مہابت خان نے اورنگزیب کے دور حکومت میں کی تھی-

یہ ایک مختصر خاکہ ہے اسلامی فن تعمیر کے شاندار ورثے کا جو تدریجاً ترقی کرتا گیا اور مغلیہ دور میں اپنے عروج کو پہنچا- اس میں ہمسایہ علاقوں کے ساتھ ثقافتی تعلقات کی جھلک بھی نظر آتی ہے اور ایک ایسا طرزِ تعمیر تیار ہوا جو کئی مختلف فنون کے امتزاج کا نتیجہ تھا، لیکن اس کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے جنہوں نے علاقائی تنوع کے باوجود اسلامی فنِ تعمیر کو ایک منفرد پہچان دی-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر