مسجد قرطبہ اور اسپین میں عبدالرحمٰن اول کی خدمات

مسجد قرطبہ اور اسپین میں عبدالرحمٰن اول کی خدمات

مسجد قرطبہ اور اسپین میں عبدالرحمٰن اول کی خدمات

مصنف: ڈاکٹر عبدالرحمٰن جنوری 2025

711ء عالمی تاریخ میں ایک نہایت اہمیت کا سال ہے- جہاں ایک طرف محمد بن قاسم کی قیادت میں اسلامی افواج وادی سندھ کو فتح کر رہی تھیں وہاں مغرب میں طارق بن زیادکی سربراہی میں مسلمان سپین کو سرنگو کر رہے تھے-مسلمانوں نے اسپین کو فتح کرتے ہی ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جس نے اسلامی ثقافت، زراعت، فلکیات، جغرافیہ اور سائنسی علوم کو بام عروج تک پہنچادیا -مسلمانوں نے اپنی فوجی قوت کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا اور اقتصادی ترقی کی راہیں ہموار کیں -قرطبہ جو اس وقت کا ایک بڑا شہر تھا علم و ادب کا مرکز بن گیا- یہاں عظیم فلاسفہ،سائنسدان اور دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے یورپ میں علم کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا- مسلمانوں نے اسپین میں 1492ء تک حکومت کی اور ان 7 صدیوں سے زیادہ عرصہ میں غرناطہ،اشبیلیہ ،مالاگااور مدینۃ الزہرا جیسے شہر علوم و  فنون کے نہ صرف مراکز بنے بلکہ مسلمانوں نے ان میں اسلامی فن تعمیر کے شاہکار تخلیق کیے - اس مضمون میں ہم مسجد قرطبہ کے فن تعمیر اور عبدالرحمٰن اول کی خدمات کا جائز لیں گے- مضمون کے آخری حصہ میں ہم اسلامی فن تعمیر کے یورپ پر بھی اثرات کا جائزہ لیں گے-

 اسپین میں اسلامی فن تعمیر کی بنیاد عبدالرحمٰن اول (731ء – 788ء)نے رکھی- عبدالرحمٰن اول جو کہ اموی خلیفہ تھے،  نے مدینۃ الزہرا اور قرطبہ میں اسلامی فن تعمیر کے شاندار منصوبوں کا آغاز کیا- ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرطبہ کی جامعہ مسجد (مسجد القری) اور مسجد الزہرہ کی تعمیر ہے-عبدالرحمٰن اول کا تعلق دمشق سے تھا اور وہ دمشق کی اموی مسجد کے فن تعمیر سے بخوبی واقف تھے- اس لیے  انہوں نے اس نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے ایک قدم اور آ گے بڑھ کر فن تعمیر کو ایک قابل قدر مثال بنا دیا جس کو آج عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا ہے-

  مسجد قرطبہ کی بنیاد 784ء اور 786 ءکے دوران رکھی گئی -وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ یہ مسجد چھوٹی پڑتی گئی اور اسی وجہ سے اس کی دوبارہ توسیع کی گئی-ابتدائی تعمیر کے دوران مختلف ثقافتوں کے اثرات کو یکجا کیا گیا -مسجد کی تعمیر میں دوہری محرابیں، خوبصورت ستون اور آرائشی خطاطی شامل تھی- ان تعمیرات میں عرب، بربر اور ہسپانوی فنون کے امتزاج کو فروغ ملا-مسجد کے فن تعمیر میں محرابوں کی تعمیر ایک خاص اہمیت کی حامل ہے-یہاں پر مسجد اموی دمشق کی طرز پر دوہری محرابوں کا منفرد نظام متعارف کرایا گیا جس میں ایک محراب دوسری محراب کے اوپر بنائی گئی جس کا مقصد عمارت کی اندرونی کشادگی کا احساس دلانا ہے -محرابوں کو مختلف رنگوں کے پتھروں خصوصاًسرخ و سفید کے متبادل استعمال سے مزین کیا گیا ہے- یہ خوبصورت اور متوازن نمونہ تخلیق کرتا ہےجو دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے- محراب اسلامی رومی اور وزیگوتی طرز تعمیر کے امتزاج کی عکاس ہے جس میں گول ستونوں کے اوپر ستون رومن طرز تعمیرسےمشابہت رکھتے ہیں- ستونوں کے اوپر دوہری محرابیں کشادگی کے ساتھ روشنی اور سائے کے ایک دلکش نمونے کو بھی پیدا کرتی ہیں- مسجد کی تعمیر میں تقریباً 1250 ستونوں کا استعمال کیا گیا ہے- محرابوں کی اندرونی طرف گولائی بنانے کے لئے اینٹ اور پتھر کا استعمال کیا گیا ہے-

 جب مسلمانوں کی آبادی اسپین میں بڑھی تو مسجد میں نمایاں توسیع کی گئی -عبدالرحمٰن دوئم نے پہلی توسیع 832ء اور 852ء کے درمیان کی -اس توسیع نے مسجد کے حجم کو دگنا کر دیا اور مزید ستونوں اور محرابوں کا اضافہ کیا -اس توسیع کو اپنے پرانے طرز تعمیر کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے- وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی دولت اور فن کے ارتقا ،مسجدکی سجاوٹ اور پیچیدہ ٹائل کا کام اس بات کی عکاسی کرتا ہے -مسجد کی دوسری توسیع عبدالرحمان سوئم کے زمانے میں ہوئی جس میں ایک نیا محراب، مینار اور باغ کو توسیع کے ساتھ شامل کیا گیا-

مسجد کی تعمیر اور تزئین میں اینٹ، چونے کا پتھر، گرینائٹ اور تھوبے کے کام کا جا بجا استعمال کیا گیا ہے -مسجد کے فرش سنگ مرمر اور گرینائٹ سے بنائے گئے ہیں-اندرونی تزئین کیلئے شیشے کے موزیک کا استعمال کیا گیا ہے- مسجد کی بیرونی دیواروں پر ویسیگوتھ (نعل نما محراب لیکن یہ اسلامی نعل نما محراب کی نسبت کم گول اور زیادہ زاویہ دار ہوتی ہے اور اس کا خم اکثر بنیاد کی افقی لائن سے تھوڑا نیچے تک بڑھا ہوتا ہے)، تھیوڈر (نیم دائرہ نما) اور ملٹی فولڈ (نوکدار) محرابوں کا استعمال نظر آتا ہے-

 مسجد کی ایک اور خصوصیت اس کا گنبد ہے- یہ گنبد محراب کے اوپر واقع ہے اس گنبد کو شاندار موزیک اور خطاطی سے مزین کیا گیا ہے- جو اس دور کی فنکاری کی مہارت کی عکاسی کرتا ہے- جامع مسجد کا مینار شمالی افریقہ کے میناروں کی طرز پر بنایا گیا ہے -مسجد باہر سے ایک قلعے کی مانند دکھائی دیتی ہے جس میں صدر دروازے کو نہایت خوبصورتی سے مختلف ڈیزائن سے مزین کیا گیا تھا جس میں بلائنڈ آرچز جیومیٹری کے اشکال کی گرہ بندی درختوں کی بیلوں کی واضح موجودگی نہایت اہمیت کی حامل ہےجو صدر دروازے پر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ مسجد کے اندر داخل ہوں اور اسلامی فن تعمیر کے اعلیٰ شاہکار کا بذات خود مشاہدہ کریں-

 29 جون 1239ء کو قرطبہ ایک سانحہ سے دوچار ہوا -عیسائی بادشاہ فریڈیننڈ سوئم نے اپنی وسیع فوجی دستے کے ساتھ قرطبہ کو اپنے زیر نگوں کیا اور ساتھ ہی مسلم اسپین کے دوسرے شہروں پر اپنا تسلط قائم کر لیا -مسجد قرطبہ کے اصل ڈھانچے کو تبدیل کرتے ہوئے اس کے وسط میں ایک کیتھڈرل (کلیسا) کی تعمیر شروع کر دی جو آج بھی قائم ہے-اندرونی تبدیلیوں کے باوجود مسجد کی ابتدائی خصوصیات محفوظ رہیں جس میں محرابوں کا استعمال اور ان کے ڈیزائن کی ہم آہنگی کو برقرار رکھا گیا ہے- جامعہ مسجد میں موجود تعمیراتی جدتوں نے بعد میں بننے والی عمارتوں پر گہرے اثرات مرتب کیے جس میں نہ صرف اسپین بلکہ عالمی سطح پر بھی ان مٹ نقوش چھوڑ ے ہیں-اس کےہارس شو (نعل نما ) محرابیں، اورپیچیدہ ٹائل ورک بعدکی اسلامی فن تعمیر کے لیے ایک مثال بن گئی -

قرطبہ کی جامع مسجد اپنے عہد میں اسلامی تمدن کا مرکز رہی ہے-جہاں سے علوم فنون اور اسلامی ثقافت کی روشنی پھیلی- عباس ابن فرناس( 810ء -887ء )اندلس کی ایک ہمہ گیر شخصیت تھی -اس نے مسجد قرطبہ کے مینار سے دنیا کے تاریخ کی پہلی تجرباتی پرواز 875ء کے قریب کی -اس نے ہوا بازی کے شعبے میں ابتدائی تجربات کیے -ابن فرناس نے ایک ایسی مشین تیار کی جو پروں سے مشابہت رکھتی تھی اور اسے انسانی پرواز کیلئے استعمال کیا -ابن فرناس نے مسجد قرطبہ کے مینار سے چھلانگ لگائی اور مختصر وقت کے لیے ہوا میں پرواز کی لیکن جب وہ زمین پر اترے تو ان کی ٹانگیں زخمی ہو گئیں کیونکہ اس میں لینڈنگ کا مناسب انتظا م موجود نہیں تھا- ابن فرناس کی چوٹیں اتنی شدید تھی کہ وہ اس قابل نہ ہو سکا کہ دوبارہ پرواز کر سکے- ابن فرناس کے اس تجربے کو ہوا بازی کی تاریخ کا نہایت ہی اہمیت کا حامل تجربہ قرار دیا جاتا ہے جس سے آئندہ آنے والے ہوا بازوں نے استفادہ کرتے ہوئے اس کام کو آگے بڑھایا-

بر صغیر کے عظیم فلسفی شاعر علامہ اقبال ؒ نے 1933ء میں مسجد قرطبہ کا دورہ کیا- علامہ اقبالؒ اس مسجد کی تعمیر اور اس کی شان و شوکت کو یاد کر کے یہ بتاتے ہیں کہ یہ مسجد مسلمانوں کی ایک عظیم ماضی کی علامت ہے -اقبال کی نظم میں ایک گہرا پیغام ہے جو مسلمانوں کی ہمت افزائی کا کام کرتا ہے- وہ مسلمانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کا ماضی نہایت شاندار ہے اور وہ انہیں اپنی شناخت کو نہ بھولنے کا مشورہ دیتے ہیں -مسجد قرطبہ کی تعمیر کی عکاسی کرتے ہوئے اقبال یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے جب بھی اتحاد اور ایمان کے ساتھ کام کیا تو وہ دنیا میں ایک طاقتور قوم بن کر ابھرے- اس کے ساتھ اقبال نے اس نظم کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں ایک امید جگائی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں-مسجد قرطبہ کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اقبال نے اس کی ویرانی اور زوال کا بھی ذکر کیا ہے اور وہ یہ بتاتے ہیں کہ مسجد ایک زمانے میں مسلمانوں کی عظمت کا نشان تھی لیکن اب اس کی حالت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کمزور پڑ گئی ہے -یہ زوال ایک عبرت ہے جو مسلمانوں کو سوچنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ کیوں زوال پذیر ہوئے ؟

اقبال  اپنی اس نظم میں اسلامی تاریخی نشوونما اور زوال کے عوامل کا تجزیہ بھی کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان علم،اتحاد اور عمل سے دور ہو گئے ہیں اور اپنی قوت کھو بیٹھے ہیں- اسی لیے اقبال اپنے قارئین کو یہ دعوت فکر دیتے ہیں کہ ماضی کی اپنی عظمت سے سیکھیں اور ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن ہوں-یہ نظم آج بھی عزم اور اتحاد کی قوت کا احساس دلاتی ہے-

اے حَرمِ قُرطُبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل

عبدالرحمٰن اول نے قرطبہ شہر کو ترقی سے ہمکنار کیا اور اسے مضبوط دار الحکومت بنایا -اس کی دلچسپی صرف مساجد کی تعمیر تک ہی محدود نہ رہی بلکہ قرطبہ کو ایک ثقافتی مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے کئی عوامی تعمیرات بھی کیں جن میں نئے محلات، سڑکیں اور عوامی سہولتوں کی تعمیرات شامل تھیں- شہر کو اسلامی طرز زندگی کے مطابق ترتیب دیا گیا جس میں مساجد حمام اور بازار شامل تھے-اس کے ساتھ ساتھ قرطبہ میں ایک جدید آبپاشی نظام متعارف کرایا جس کی وجہ سے زراعت کو فروغ ملا - عوامی فلاحی منصوبوں کے ساتھ اس نے شاندار باغات بھی تعمیر کیے جس میں الرصافہ باغ بھی شامل ہے جو دمشق کے باغات سے متاثر ہے-

الرصافہ باغ دمشق کے باغات کی طرز پر بنایا گیا ہے جس میں  پھول، درخت، پانی کے چشمے اور نہریں ہیں-عبد الرحمٰن اول نے خاص طور پر شام سے پودے اور بیج منگوا کر ان باغات میں لگائے- الرصافہ باغ میں مختلف پھلدار درخت جیسے کھجور، انار اور لیمو لگائے گئے جنہوں نے اندلس میں زراعت و باغبانی کو فروغ دیا- یہ درخت نہ صرف خوبصورتی کا باعث تھے بلکہ مقامی لوگوں کے لیے ایک نیا ماڈل بھی فراہم کرتے تھے -

عبدالرحمٰن اول کی خدمات کو آنے والے حکمرانوں نے مزید دوام بخشا جو ہمیں مختلف محلات، مساجد، مدرسوں ،حمام اور باغات کی شکل میں نظر آتے ہیں- ان میں الحمرا کے محلات اور جنات العریف کے باغات شامل ہیں- فن تعمیر کے ان شاہکار منصوبوں کی آرٹ بعد میں آنے والے حکمرانوں کے لیے کشش رکھتی تھی جس کی وجہ سے یورپ میں ایک نئے فن تعمیر نے جنم لیا جس میں عیسائی حکمرانوں نے اپنی عمارات میں مسلم فن تعمیر کے اثرات کو اپنے اندرجذب کیا-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر