خانہ بدوش عربوں کا سرقہ: کس طرح اسلامی فن تعمیر نے یورپ نکھارا

خانہ بدوش عربوں کا سرقہ: کس طرح اسلامی فن تعمیر نے یورپ نکھارا

خانہ بدوش عربوں کا سرقہ: کس طرح اسلامی فن تعمیر نے یورپ نکھارا

مصنف: ڈیانا ڈارت / عبدالباسط جنوری 2025

فَنّ تعمیر کسی خاص علاقے کے کلچر، روایات، طور طریقوں اور وہاں کے بسنے والوں کی بود و باش کو طرّز تعمیر کے ذریعے اظہار کا نام ہے- ہر خِطےّ کا طرز ِ تعمیر (Architecture) اُس کی شناخت تصور کیا جاتا ہے- عمارات کی تعمیر میں ڈھانچے سے لے کر بناوٹ ونقوش کاری تک مختلف مراحل طے ہوتے ہیں جِن میں کئی تصورات و نظریات کو سامنے رکھا جاتا ہے- یہ نظریات بنیادی طور پر اُس علاقے کے کلچر، روایات ،عقائد اور فنون لطیفہ کی عکاسی کرتے ہیں- جغرافیائی اعتبار سے دُنیا میں کئی قومیں آباد ہیں جو مختلف مذاہب، نظریات و عقائد، روایات اور کلچر کی حامل ہیں جِن کا اظہار وہاں کے باسیوں کے رہن سہن، سماج اور بودو باش سے ہوتا ہے-

فنّ تعمیر کے تناظر میں اگر دُنیا کے مختلف علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں کی حکومتوں کا اِس پر باقاعدہ ا ثر نظر آتا ہے؛ وہ چاہے عرب ہو، وسطی ایشیائی ممالک ہوں، ہر جگہ حکمران نظریات کی جھلک نظر آتی ہے- یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جِس طرح عالمی سطح پر علم و حکمت، تعلیم و ترقی اور فلسفہ اپنے ارتقاء اور بنیاد کے اعتبار سے مُسلم حکمرانوں، فلسفہ دانوں اور سائنسدانوں کا محتاج ہے وہیں فنّ تعمیر میں جدت اور ترقی بھی مسلمان ریاضی و فزکس دانوں اور حکمرانوں کے ہی مرہون منت ہے- اِسلامی معاشرے میں کیونکہ مذہب کو ایک بنیادی اکائی ہے تو اِس کا عکس اُس کے ماننے والوں کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے اور کیونکہ مسلمان بحیثیت علمبردارِ دین مختلف ادوار میں دُنیا کے طول و عرض پر راج کرتے رہے تو وہاں اپنے نظریات اور آثار چھوڑ کر آئے- اِسی طرح اگر مشرق اور مغرب کے درمیان ثقافتوں اور تہذیبوں کے ملاپ کو دیکھا جائے تو تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مغربی ترقی، اِسلامی ثقافت، نظریات، فن، فلسفہ اور سائنسی علوم سے ماخوذ ہے-   

اِس پہلو سے ہم آہنگی اور شناسائی کے لئے ہم ڈیانا ڈارک (Diana Darke) کی ایک شاہکار کتاب ؛

“Stealing from the Saracens: How Islamic Architecture Shaped Europe”.

 کا جائزہ لیں گے- جو نہ صرف موضوع بلکہ تحقیق اور تجزیے کے اعتبار سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی- گہرائی سے لکھی گئی یہ کتاب یورپی گوتھک طرزِ تعمیر پر اسلامی دُنیا کے اثرات کا وسیع جائزہ پیش کرتی ہے- اِس کا مقصد تاریخی تناظر میں مغرب اور مشرق کے درمیان ثقافتی تعاملات کا بغور جائزہ پیش کرنا ہے-یہاں لفظ ’’Saracens‘‘ ایک قدیم اصطلاح کے طور پر استعمال کی گئی ہے جو یورپی لوگ قرونِ وُسطیٰ میں مسلمانوں کے لئے استعمال کرتے تھے- یہ کتاب خاص طور سے قرون وسطٰی کے دور میں صلیبی جنگوں کے اثرات اور اس دور کے عِلم و فنون کے تبادلے پر روشنی ڈالتی ہے- ڈارک نے بڑی خوبصورتی سے واضح کیا کہ کس طرح یورپی ثقافت نے اِسلامی دُنیا سے متاثر ہو کر ترقی کی منازل طے کیں اور اپنے فن تعمیر کو جدید رنگ دے کر دنیا کے سامنے جھوٹی تصویر پیش کی- جبکہ مصنفہ نے اِس کتاب میں فلسفہ، فن اور سائنسی علوم کے تبادلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے جو کہ اُس دور کی تہذیبوں کے باہمی اثرات کی عکاسی کرتا ہے- ڈیانا  ڈارک کے مطابق اِسلامی اور یورپی تہذیبوں کے درمیان ثقافتی اور تکنیکی تبادلے کی بنیادی وجہ صلیبی جنگیں، تجارتی راستے اور سیاح بنے-

کیونکہ ہر معاشرے میں پڑھا لکھا طبقہ ہی اُس کی اقدار و روایات کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے- تو سترہویں صدی میں مغرب کے فنون لطیفہ اور فنّ ِتعمیر میں کرسٹوفر رَین (Christopher Wren) کا بہت اہم کردار رہا- کرسٹوفر کو برطانوی تاریخ میں ایک سائنسدان اور فلسفی کے طور پر جانا جاتا ہے جِس نے زندگی کے 36 برس مختلف طرز کی عمارتیں (گرجا گھر)  بنانے میں صرف کئے-

 اِ س کتاب میں مصنفہ ایک نئی تاریخی بصیرت پیش کرتی ہیں جس میں وہ روایتی نظریے کو چیلنج کرتے ہوئے اِس بات کی وضاحت پیش کرتی ہے کہ گوتھک طرزِ تعمیر قطعی طور پر یورپ کی اپنی مکمل تخلیق نہیں- اِس بات کا دعویٰ وہ گوتھک طرزِ تعمیر کی بنیادی خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اِس میں نوکیلے محراب (Pointed Arches)،  پسلی دار گنبد (Ribbed Vaults)، اڑتا ہوا ستون: یہ وہ طرزِ تعمیر ہوتا ہے جس میں ایک بیرونی معاون ستون عمارت کی دیوار سے جڑا ہوتا ہے، جو دیوار پر آنے والے بوجھ کو سہارا دینے کا کام کرتا ہے (Flying Buttresses) درحقیقت اسلامی طرزِ تعمیر سے سے ماخوز ہیں- اِن ڈیزائنوں اور تکنیکوں کا اِستعمال قرون ِ وسطیٰ کے دور میں عرب، اندلس،فرانس اور بازنطینی علاقوں میں بخوبی ملتا ہے- کتاب میں تاریخی دستاویزات، فن ِ تعمیر کی تصویروں اور مختلف مثالوں ؛ جن میں وینس، پیرس اور دیگر یورپی شہروں کے گرجا گھروں میں اِسلامی طرزِ تعمیر کے اثرات کی وضاحت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے-

ڈیانا  ڈارک لکھتی ہیں کہ کوئی بھی تہذیب تنہائی میں ترقی نہیں کر سکتی اور فنِ تعمیر و ثقافتی وراثت کسی بھی طور پر کسی ایک خطے یا تہذیب کی ملکیت نہیں ہو سکتے- یورپی صلیبیوں نے جنگوں کے دوران نا صرف اِسلامی عمارتوں کو قریب سے دیکھا بلکہ اِ ن کے ڈیزائن بھی سیکھے- وینس، امالفی اور جنیوا جیسے شہروں نے اِسلامی دُنیا کے معماروں، نظریات اور تجارتی سامان کو اپنانے میں اہم کردار ادا کیا- تعلیمی اعتبار سے اندلس کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی جہاں مُسلم تعلیمی اداروں نے یورپ کو سائنسی علوم کے ساتھ فنِ تعمیر کے اصول بھی سکھائے-

ڈیانا  ڈارک مزید لکھتی ہیں کہ اموی جامع مسجددمشق کے نوکیلے محراب، پیچیدہ جیومیٹری اور تعمیراتی اصولوں نے یورپی گوتھک گرجا گھروں کی تعمیر کو بہت متاثر کیا- اِسی طرح قرطبہ کی عظیم مسجد کے ستون اور گنبد ی ساختوں کی تکنیک کے اثرات کو نوٹر ےڈیم (Notre-Dame de Paris) جیسے کلیسا ئے کی تعمیر میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے- علاوہ ازیں، یورپی گوتھک عمارتوں میں شیشے کی کھڑکیوں اور فلائنگ بٹرس کا استعمال بھی اِسلامی طرزِ تعمیر کا واضح اثر ہے-مصنفہ تحقیق کے تناظر میں یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ فنِ تعمیر ایک مشترکہ انسانی رویہ ہے جو کسی ایک خطے یا تہذیب کی ملکیت تصور نہیں کیا جا سکتا- نشاۃ ثانیہ اور اِس کے بعد کے ادوار میں یورپ نے اپنی شناخت کو نمایاں دکھانے کی غرض سے اِسلامی نظریات و ثقافت کو غلط طریقے سے پیش کیا جِس میں بنیادی کردار یورپی نواز مذہبی و سیاسی ہرکاروں نے ادا کیا- ڈیانا ڈارک کےاِس درست اور متوازن تجزیے سے تاریخ کی نا صرف صحیح سمت کا تعین کیا جا سکتا بلکہ بین ا لثقافتی تعلقات کو بھی سمجھا جا سکتا ہے-

مصنفہ اِسلامی طرزِ تعمیر کے ارتقاء اور اِ س کی منفرد خصوصیات کا گہرائی سے جائزہ پیش کرتی ہیں- وہ لکھتی ہیں کہ؛ اسلامی طرزِ تعمیر قرآنی اصولوں، جغرافیائی اہمیت، ثقافتی اقدار اور تاریخی پسِ منظر پر مشتمل مختلف تہذیبوں کا مجموعہ ہے- ڈارک اس بات کی بھی وضاحت پیش کرتی ہیں کہ کس طرح اِسلامی طرزِ تعمیر نے گوتھک طرزِ تعمیر کو ترقی کی بنیادیں فراہم کیں اور دُنیا کو متاثر کیا- اِسلامی فنِ تعمیر سادگی، ہم آہنگی، جمالیات، فعالیت، ترتیب، خوبصورتی اور اِسلامی بنیادی اصولوں کی شاہکار نظر آتی ہے- سر زمین عرب میں پروان چڑھنے والے فنون لطیفہ اور ثقافت پر اِسلامی افکار،جغرافیائی و ماحولیاتی اثرات اور روایات و عقائد کا واضح اثر نظر آتا ہے- ڈیانا ڈارک نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ اِسلامی فن ِ تعمیر کی ابتداء ا ور بنیاد وں میں جہاں عرب ثقافت و اقدار کا اثر ہے وہیں بازنطینی، ساسانی اور رومی طرزِ تعمیر استفادے کے آثار بھی نمایاں نظر آتے ہیں-

علاوہ ازیں، ڈیانا ڈارک نے اِس کتاب میں اِسلامی تاریخ کے مختلف ادوار (امیّہ دور شام اور سپین میں، عباسی دور، اموی دور، سلجوق وغیرہ ) کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اِن ادوار میں ہونے والی (فنِ تعمیر کے ذریعے) ترقی اور عروج کی داستانیں رقم کی ہیں -

اِسلامی معماروں نے اِن تہذیبوں کے روحانی اور جمالیاتی حُسن کو تعمیراتی تکنیکوں میں استعمال کرتے ہوئے منفرد شاہکار تخلیق کئے-ڈارک کے مطابق، نوکیلے محراب، پسلی دار گنبد، جیومیٹرک ڈیزائن ، خطاطی، صحن اور حوض ہر مسلم طرزِ تعمیر میں مشترک نظر آتے ہیں- ڈارک کے مطابق دمشق اور اموی خلافت، بغداد اور عباسی دور اور اندلس (قرطبہ اور غرناطہ) اِسلامی فن ِتعمیر کے بنیادی مراکز تصور کئے جا تے ہیں- اِسی طرح اگر مُسلم فن تعمیر کے شاہکاروں کا ذکر کیا جائے تو؛ اموی مسجد، راؤنڈ سٹی آف بغداد، مسجد قرطبہ، الحمرا محل وغیرہ سرِ فہرست نظر آتے ہیں جن کے اثرات یورپی گوتھک عمارتوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں- اِن حقائق کی بنیاد پر ڈیانا ڈارک اِسلامی طرزِ تعمیر کی ابتداء کو ایک روحانی ، سماجی، تکنیکی اور معاشرتی انقلاب قرار دیتی ہیں جن کے اثرات یورپ سمیت پوری دُنیا پر نظر آتے ہیں- جِن کی بدولت اِسلامی فنِ تعمیر کو محض ایک تاریخی شے کی بجائے، ایک عالمی ورثہ کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیئے-

 ڈیانا ڈارک صلیبی جنگوں کو جہاں مذہبی اور سیاسی تنازعے کے طور پر دیکھتی ہیں وہیں اِن جنگوں کو یورپ اور اسلامی دُنیا کے درمیان ثقافتی و فنی تبادلے کا ذریعہ بھی قرار دیتی ہیں- مصنفہ کے نزدیک یہ جنگیں دونوں تہذیبوں کے درمیان تعمیراتی، علمی او ر تکنیکی خیالات کے تبادلے اور فروغ کا ناصرف ذریعہ بنیں بلکہ اِن کے اثرات یورپی گوتھک فنِ تعمیر اور دیگر ثقافتی مظاہر میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں- گیارہویں صدی میں شروع ہونے والی صلیبی جنگوں کا بنیادی مقصد یورپی عیسائیوں کے لئے یروشلم (فلسطین) کا حصول ممکن بناناتھا- اِن جنگوں کے دوران صلیبیوں کو مسلم ثقافت و افکار کے ساتھ مُسلم فن ِ تعمیر کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جِس نے اُن کے ذِہنوں پر اَن مِٹ نقوش چھوڑے-تجارت اور جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اشیاء (مخطوطات، نقشے، فنون وغیرہ) نے یورپ کے علمی و تعمیراتی افکار کو متاثر کیا جبکہ قلعوں (قلعہ حلب، قلعہِ صلاح الدین وغیرہ) اور مساجد کی بناوٹ نے بھی انہیں تعمیر و ترقی کے لئے روڑ میپ مہیا کیا- قلعہ’’ کریک ڈیس چیوالیر‘‘ یورپی طرزِ تعمیر کا شاہکار تصور کیا جاتا ہے، لیکن ڈارک کے نزدیک اُس کے تعمیراتی ڈیزائن میں بھی کئی چیزیں مُسلم فنِ تعمیر سے مُستعار لی گئی ہیں- اِسی طرح صلیبیوں نے نوکیلے محراب اور پسلی دار گنبد جیسے عناصر کا استعمال بھی مُسلم فن تعمیر سے سیکھا ہے جن کا اظہار گوتھک طر زِتعمیر (نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل جیسے کلیساؤں)کی بنیاد بنا - مزید برآں! اِسلامی مساجد اور محلات کے فنِ تعمیر نے بھی صلیبیوں کو بہت متا ثر کیا جس کا اثر گوتھک طرز ِ تعمیر میں رنگین شیشوں اور کھڑکیوں کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے- ڈیانا ڈارک کے مطابق، صلیبی جنگوں نے یورپی صلیبیوں کو اسلامی علم و فنون کے خزانوں تک رسائی فراہم کرنے میں مدد دی اور اِسلامی سائنس، ریاضی، جیومیٹرک ڈیزائن، نقش و نگاراور طب کے میدان میں ہونے والی ترقیات کے بارے نا صرف صلیبیوں کو آگاہی فراہم کی بلکہ یورپی آرٹ کو بھی متاثر کیا- اِن جنگوں کے نتیجے میں ہاتھ آنے والے پیمائشی آلات، نقشے اور انجینئرنگ کے اوزاروں کو یو رپ لاکر استفادہ کیا گیا - مصنفہ اس بات کی بھی قائل ہے کہ صلیبی جنگوں کا دور مختلف تہذیبوں کے مکالمے کا دور تھا جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی ترقی تہذیبوں کے تعاون سے ہی ممکن ہے جنہیں سمجھنے کے لئے کشادہ دلی کے ساتھ بین الثقافتی تعلقات میں بہتری ضروری ہے-

ڈیانا ڈارک کے نزدیک تجارتی راستے (ریشم کے راستے اور بحیرہّ روم کی تجارتی بندرگاہیں) بھی یورپی فنِ تعمیر میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے اور یہ مراکز تجارتی و ثقافتی روابط کا مر کز تھے- اِسلامی دُنیا سے یورپ میں نہ صرف تجارتی اشیاء (ریشم، مصالحہ جات، شیشے وغیرہ) منتقل ہوئیں بلکہ فنِ تعمیر اور سائنسی خیالات نے بھی یورپ کو متاثر کیا جِن کا اظہار اِٹلی اور جنوبی یورپ کی بیشتر عمارتوں میں پایا جاتا ہے-مصنفہ نے اندلس کو تہذیبوں کا سنگم قرار دیتے ہوئے اِسلامی اور یورپی تاریخ میں اِس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے- ڈارک کے نزدیک اندلس میں قرطبہ اور غرناطہ جیسے شہروں نے اِسلامی دُنیا کے تعمیراتی کمالات و افکار کو یورپ تک پہنچایا - اِس کے علاوہ، اِن علاقوں کی تعمیرات کے اثرات فرانس، جرمنی اور اِٹلی کے گوتھک گرجا گھروں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے- اِسلامی فنِ تعمیر میں خطاطی، ڈیزائن اور نقش و نگار کو روحانی اور تکنیکی اہمیت حاصل ہے جبکہ گوتھک عمارتوں میں انہیں تزیئن و آرائش کے طور پر استعمال کیا گیا ہے-

ڈیانا ڈارک نے اِس کتاب کے ذریعے مُسلم فن تعمیر کے جِن پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے- تحقیق، تجزیے اور مکالمے کی مناسبت سے یہ کتاب مُسلم فن تعمیر کے حق میں ایک بلند آواز ہے جسے عام کرنے کی اشد ضرورت ہے- اِسلامی افکار و اقدار کی حامل تاریخی مسلم عمارتوں کو مزید اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے- تاکہ عالمی سطح پر اِس اسلامی تشخص اور اسلامی فن تعمیر کے اثرات کو واضح کیا جا سکے- مصنفہ کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ، تاریخ کو اُس کے افکار سے دیکھا جائے اور جو کریڈٹ جس کے حصے میں آتا ہو اُسے دینا چاہیئے- مُسلم سائنسدانوں، سیاستدانوں، حکمرانوں، ریاضی دانوں اورفلسفیوں کے مثبت تاثر کی وضاحت ضروری ہے - مزید برآں عالمی ترقی کے لئے ادا کئے گئےاُن کے کردار کو بھی سراہنا چا ہیے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر