فن تعمیر کا مذہبی و جمالیاتی ذوق

فن تعمیر کا مذہبی و جمالیاتی ذوق

فن تعمیر کا مذہبی و جمالیاتی ذوق

مصنف: محمد ذیشان دانش جنوری 2025

جب ہم فن تعمیر کی بات کرتے ہیں تو یہ فقط عمارت، تعمیریا معمار کے معنی نہیں بتاتا بلکہ یہ اصطلاح اپنی معنویت میں اک وسعت کو سموئے ہوئے ہے جس کی جہات متنوع لیکن ایک دوسرے سے متصل ہیں- اس فن کا اظہار معاشرتی اور وقتی ضروریات کے تحت ہوتا ہے- ہر فن پارہ اپنے خالق کی نفسیات، انداز فکر، سوچ، وسعت نظری و قلبی ، اس فنکار کی مہارت و جمالیات کا عکاس ہوتا ہے اسی طرح شاہکار عمارتیں بھی اپنے معمار کی سوچ کا آئینہ ہوتی ہیں - فن تعمیر کی تاریخ بھی لگ بھگ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ –

انسانوں نے اپنی سکونت اور حفاظت کی غرض سے مختلف طرز کی عمارات تعمیر کیں- اس طرز تعمیر میں موسم، بیرونی حملہ آوروں اور حالات کا کلیدی کردار تھا جسے انسان نے بھانپ لیا اورکبھی اپنی آنے والی نسل جبکہ کبھی اپنا راج سنگھاسن بچانے کے خاطر تگ و دو کی، کہیں اس نے جنگلوں سے لکڑیوں کو کاٹا اور اپنے استعمال میں لایا ، تو کہیں چٹانوں کو ایسے تراشا کہ یہ اس کے لئے سائبان بن گئیں ، کہیں مٹی میں مختلف چیزیں ملا ئیں تاکہ چھت بنا سکے اور کہیں پتھر کو ایسے استعمال کیا کہ وہ دیوار بن گیا - وقت کے ساتھ ساتھ ان کے انداز و طرزمیں جدت آتی گئی اور پرانے تجربات اور نئی سوچ نے مٹیریل بنانے میں معاونت کی- انسان آہستہ آہستہ قدرتی پناہگاہوں سے نکل کر میدان میں آتا گیا ، طرز تعمیر بھی وقتی اور علاقائی ضروریات کے تحت بدلتا گیا -

ضرورت کے دائرے سے نکل کر انسان نے عمارات کو اپنے شکوہ اور عظمت کا استعارہ بنانے کی ٹھان لی، یہ انسانی خوشحالی اور وسائل پر اس کی دسترس کا منہ بولتا ثبوت تھا اور ساتھ میں انسان کا جمالیاتی ذوق بھی عمارات میں جھلکتا گیا - ایک طرف تو یہ فن دفاعی اعتبار سے اپنی اہمیت میں اضافہ کا باعث بنا جس کی عمدہ مثالیں ہمارے پاس مینار (واچ ٹاورز) قلعے وغیرہ ہیں تودوسری طرف ثقافتی اظہار کا سبب، اک سمت میں شکوہ و بلندی کو آشکار کرنے کا موجب بنا جیسے محلات ، باغات و اہرام وغیرہ تو دوسری طرف مذہبی و روحانی عقائد کے اظہار کا سبب جیسے مساجد ، مندر، آتش کدے ،وچرچ وغیرہ -کہیں جدت کو اپنانے اور علم و تحقیق کو فروغ دینے کی مرکز گاہ جیسے رسد گاہیں، جامعات وغیرہ- فن ِتعمیر ہر طرز کی عمارت کے لئے الگ الگ اصولوں پر کار فرما تھا کہ ضرورت کے مطابق ایسے تعمیر کیا جائے کہ ہر طرح کی عمارت اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے آسودہ حال ہو اوراس کا سہرا اپنے وقت کے معماروں، تخلیق کاروں اور ان صاحب ثروت احباب کے سر جاتا ہے جنہوں نے اس فن کی ترویج کیلئے کاوش کی -

انسان کی فطرت ہے کہ جس کے سامنے جبین نیاز کو جھکاتا ہے اس سے منسوب ہر شے کی عزت و تکریم اپنی حیثیت سے بڑھ کر کرتا ہے - اس فطرت سلیمی کا اظہار دین برحق میں بدرجہ اتم موجود ہے-مسلمانوں کا قافلہ جو کہ چند نفوس قدسیہ پر مشتمل تھا جب دوسری ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ میں پہنچا تو تعمیر کا عمل اسی وقت شروع ہو گیا گو کہ یہ تعمیر ظاہری نہیں بلکہ روحانی تھی آپ (ﷺ) کی آمد مبارک نے ’’یثرب‘‘ کو ’’مدینۃ النبی (ﷺ)‘‘ بنا ڈالا - ابھی مسلمانوں کی حالت زار کافی خستہ تھی لیکن ایک مرکز کے قیام کی اشد ضرورت تھی جہاں مسلمان رہبر اعظم(ﷺ) کی اقتداء میں اپنے رب کے حضور اپنی جبین نیاز کو جھکا سکیں اسی امر کو پورا کرنے کے لئے ’’مسجد نبوی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی - عالم اسلام کی پہلی عمارت کی بنیادیں کھودی گئیں جو کہ بظاہر تو اتنی گہری نہ تھیں لیکن درحقیقت ان کی گہرائی کو ماپنا آسان نہیں آج 1400 برس بعد دنیا کے ہر خطے میں انہی بنیادوں پر کئی لاکھ مساجد و مدارس و خانقاہیں و آثار کھڑے ہیں- اینٹ، پتھر اور گارےسے ان دیواروں کی چنائی ایک محدود سی جگہ پر ہوئی ، لیکن اس کی روحانی وسعت نے پوری دنیا کو اپنے حلقہ میں لے لیا - مسجد پاک کے ستون کھجور کے تنوں سے اور چھت کھجور کے پتوں ،شاخوں سے بنائی گئی- گو کہ یہ تعمیر انتہائی سادہ تھی لیکن اسلام کی اشاعت و اقتدار کی بنیاد تھی -غزوہ خیبر تک شمع رسالت(ﷺ)کے پروانوں کی تعداد اتنی ہو گئی کہ اس کو توسیع دینی پڑی- وقت کا سیل رواں گزرتا گیا تاریخ نے عروج و زوال، شکستگی و خوشحالی کے مختلف دور دیکھے مجموعی طور پر اسلام اور مسلمان ریاستیں پھلتی پھولتی رہیں اور کئی طرح کے علوم و فنون بلندی و عروج پرپہنچے ان میں سے ایک ’’اسلامی فن تعمیر ‘‘ بھی ہے-

 اسلامی فن تعمیر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مختلف خطوں میں پائی جانے والی متنوع تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی اثرات کی عکاس ہے-اگر اسلامی فن تعمیر کی بات کی جائے تو اسلام کے انوار و تجلیات اور وسعت فن تعمیر میں بھی عیاں ہے - اسلامی حکومتیں خلفاء راشدین کے دور سے ہی وسیع ہونا شروع ہو گئیں- اسلامی فن تعمیر کی ترقی مختلف اسلامی سلطنتوں اور خلافتوں کے دوران ہوئی، جن میں مختلف طرز اور اصول شامل ہیں- سب سے پہلے شہر بسانے کی حکمت عملی کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنایا گیا جس میں شہروں کی حدود بندی کا خیال اہمیت و ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا گیا جس میں مدینہ منورہ کی حد بندی اور اس سے مضافاتی بستیوں کی نشاندہی اولین کام تھا - اس کے بعد بصرہ اورکوفہ کے شہر بسائے گئے - اسلامی فتوحات نے جہاں علم و ہنر کے کئی در وا کئے وہیں فن تعمیر کو جلا ملی -مختلف طرز کی عمارتیں ، عبادت گاہیں اور قلعے اسلامی سلطنت کا حصہ بنے ، گھروں کی تعمیر کے ساتھ ان کی تزئین و آرائش کا کام بھی آہستہ آہستہ فن تعمیر میں شامل ہونے لگا-اس سے پہلے بنیادی ڈھانچے، مضبوطی و پائیداری اور جنگ و محاصرہ کے دوران ضروریات زندگی کا حصول ہی مطمع نظر تھا-آسودگی نے جمالیات کو افشاء کرنا شروع کیا اور اس پر مستزاد اسلامی جمال کا طرہ ، جس نے فن تعمیر کو چار چاندلگا دیے اور اسلامی فن تعمیر کی دھوم اور انجینئرنگ کی شاہکار عمارتوں، جن میں صف اول میں مساجد ، پھر محلات اور قلعوں کا نمبر آتا ہے ، ایسے ہی مسلمان کے قائم کردہ مدارس و جامعات بھی ایک عرصہ تک مرکز نگاہ رہے -اسی لئے اسلامی فن تعمیر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مختلف خطوں میں پائی جانے والی متنوع تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی اثرات کی عکاس ہے-استحکام کا دور ہو یا شورش کا مسلمانوں کا جمالیاتی ذوق قائم و دائم رہا جس کے آثار ہمیں آج بھی نظر آتے ہیں-اس کا دائرہ کسی ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ ہر دور اور ہر علاقے میں اس کی مثالیں موجود ہیں ان کا مختصر سا تعارف پیش خدمت ہے -

اسلامی دورکی مساجد:

مسلمان حکمرانوں اور معماروں نے اس سلسلے میں جو داستان عشق و عقیدت رقم کی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں موجود نہیں- اسلام کی اولین مسجد جو مسجد نبوی(ﷺ) کے نام سے موسوم ہے اس کی وسعت اور آرائش کا کام 16 سے زائد مرتبہ ہو چکا ہے، ہر دور کی وسعت اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے  ہے- خلافت عثمانیہ میں ہوئی توسیع کی داستان ایک طرف تو فن تعمیر کا شاہکار ہے اور دوسری طرف عشق کا سیل رواں، مسجد کی تعمیر میں استعمال کی جانے والی لکڑی اور پتھر کہیں دوسری جگہ استعمال نہیں ہوئے - آج یہ ایک مکمل کمپلیکس ہے جہاں لاکھوں لوگوں کے لئے نماز ادا کرنے، رمضان میں اعتکاف کرنے  اور عام دنوں میں زیارت کرنے کے تمام انتظامات موجود ہیں - یہاں بیک وقت لاکھوں افراد کی موجودگی میں بھی گھٹن ، اندھیرا یا ایسے منفی اثرات دیکھنے کو نہیں ملتے، تو دوسری جانب فن تعمیر کی اس اعلیٰ مثال نے ابتدائی دور کے نقوش کو بھی بہت حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے - حالیہ توسیع کا سہرا خادمین حرمین شریفین کے سر جاتا ہے جنہوں نے عالم اسلام کے انتہائی قابل اور متقی انجینئر کمال محمد اسماعیل کو یہ فریضہ سونپا جو 1908ء میں پیدا ہوئے اور 2008ء  میں اس جہان فانی سے ایک لافانی اور عمدہ کام کر کے رخصت ہوئے- آپ اسلامی فن تعمیر کے ماہر تھے، اپنے تجربہ اور قابلیت کو حرمین شریفین کی توسیع میں صرف کیا اور اس کے لئے معاوضہ لینے سے انکار کر دیا -ایک خالص روحانی تجربہ اور تقوٰی میں بلندی کی غرض سے انہوں نے اس کام کو قبول کیااور آج حجاز کے گرم اور شدید موسم میں انہوں نے حجاج، عمرہ زائرین کے لئے چھتریوں اور ٹھنڈے پتھر کا استعمال کر کےمشکلات کو آسان بنا دیا -

مسجد قباء، کو مسجد نبوی سے لگھ بھگ 3 یا 4 کلومیٹر دور آقا پاک (ﷺ) نے خود تعمیر فرمایا اور اس کی اہمیت بھی مسلم ہے- اسی طرح مسجد قبلتین اور مسجد علیؑ ، اپنی اہمیت اور تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ اپنے گنبد ،میناروں کی عظمت اور نقشے کے اعتبار سے فن تعمیر کا ایک شاہکار ہیں-

 مسجد کوفہ، کوفہ میں تعمیر ہونے والی عظیم الشان مسجد ہے، اس مسجد کی حیثیت و اہمیت مسلمانوں کے ہاں مسلمہ ہے، اسی مسجد میں حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا گیا اس کے بعد کچھ عرصہ خلیفہ کے لئے مسجد میں حفاظت کی غرض سے ایک محراب نما اوٹ تعمیر کی جاتی تھی تاکہ یہ سانحہ پھر نہ رونما ہو -

قبۃ الصخرۃ کی تعمیربنوامیہ نے یروشلم میں کی -اس مقام سے آقا پاک(ﷺ)سفر معراج کے موقع پر آسمان کی جانب تشریف لئے گئے تھے، یہ ابتدائی دور کی یاد گار ہے یہ گنبد متاثر کن تھا -

 مسجد اقصٰی، اسی گنبد کے نزدیک اموی حکمران عبد الملک نے تعمیر کروائی جو زلزلے کے باعث شہید ہو گئی تھی، اسے خلیفہ منصور نے دوبارہ تعمیر کروایا -

جامع مسجد دمشق ، بھی اولین دور کی مسجد ہے، پھر پایہ ٔتخت بغداد منتقل ہو گیا-اموی دور کے بعد بنو عباس تعمیرات کی سرپرستی کرتے رہے- بنو عباس کا دور تقریباً 500 برس پر محیط ہے- اس عرصے میں مملکت اسلامیہ نے خوب ترقی کی، صحرائے صحارا سے چین کی سرحدوں تک چار براعظموں پر اسلامی حکومت قائم تھی - یورپ کے یخ بستہ موسم سے افریقہ کے تپتے ریگستانوں تک مسلم حکومت کا جھنڈا لہراتا تھا ،اتنے بڑے خطے میں جا بجا مسلم فن تعمیر کے بے تحاشا آثار ملتے ہیں- جن میں سے حجاز مقدس میں تعمیر کردہ مساجد کی تزئین و آرائش کا کام ابھی حال میں دوبارہ ہوا ہے-اگر خلافت عثمانیہ میں تعمیر ہونے والی مساجدکا ذکرکریں تو ایک طویل فہرست ہے –

استنبول جو خلافت عثمانیہ کا مرکزی شہر تھا 2007ء کے مطابق صرف اس ایک شہر میں 2944 فعال مساجدموجود ہیں ، یہ ایک شہر کی مساجد کی تعداد ہے جو ایک تسلسل کی طرف اشارہ ہے- ان مساجد کے گنبد، مینار اور نقشہ ، تزئین و آرائش اپنی مثال آپ ہیں ، لیکن صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہ) کے نام سے موسوم ایوب سلطان مسجد اور آپؓ کا مزار مقدس اپنی مثال ہے-آپؓ نے ہی مسجد نبوی کی زمین کی قیمت ادا کی تھی-سلجوق دور ، مملوک دور ، ایران میں مساجد ، ہرات ، مزار شریف ، بخارا، سمرقند، ملتان ، لاہور ، دہلی،  قاہرہ ، مراکش ، قرطبہ ، غرناطہ اور دیگر خطوں میں تعمیر ہونے والی مساجد اور قیام پاکستان کے بعد تعمیر ہونے والی مساجد کا ذکر کریں تو مضمون نہایت طویل ہو جائے گا- البتہ دور اولین سے آج تک تعمیر ہونے والی مساجدمیں جس اسلامی فن تعمیر کی مماثلت ہے چاہے وہ عرب میں ہوں یا عجم میں، ایران میں ہوں یا افریقہ میں، ان میں چند بنیادی عناصر کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان میں اولین احساس کشادگی کا ہے، پھر موسم کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا مٹیریل ، زاویہ اور ڈھانچہ تیار کیا گیا کہ موسم کی شدت کا اثر کم سے کم ہو اور آواز بھی دور تک پہنچ جائے تا کہ نماز کیلئے آئے نمازی زیادہ پریشان نہ ہوں اور وہ با جماعت نماز بھی ادا کرسکیں اور اہم موقع پر خطبہ بھی سن سکیں-اس سائنسی طریق اور احسن انداز میں کی گئی انجینئرنگ کی مثال دیکھنے کو ذرا کم ملتی ہے - کشادہ ہال، متعدد داخلی اور خارجی راستے، محرابیں، عظیم گنبد اور بلند مینار دور ہی سے اسلامی فن تعمیر کے پر شکوہ ہونے کا عملی ثبوت ہیں- اگر مساجد کی تزئین و آرائش کی جانب نظر دوڑائی جائے تو باقی مذاہب کے برعکس مساجد میں قرآنی آیات کو کنندہ کیا جاتا تھا اور ابھی تک کیاجاتا ہے، جس کے باعث فن خطاطی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا- اسی بدولت مسلمانوں کے ہاں فن خطاطی اوج کمال کو پہنچا  اور کئی رسم الخط ایجاد ہوئے -قرآنی آیات کو کندہ کرنے کے علاوہ حسین و پر وقار کاشی کاری و پچی کاری بھی مساجد کے حسن میں اضافہ کرنے میں معاون ہیں -یہ کاشی کاری اور عمدہ ڈیزائن مساجد کے گنبدوں سے دیواروں تک ہر جگہ دیکھنے کوملتی ہے - حسین اور دیدہ زیب ٹائل کا استعمال بھی عام ہے جبکہ عمدہ پتھروں کا فرش اور ستون بنانے کی روایت بھی دور اولین سے ہی ڈال دی گئی - اس سلسلہ میں دودھیا سفید سنگ مرمر کو استعمال کیا جانا ، مساجد میں پختہ لکڑی کا کام بھی معماروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے -صحن اور مرکزی ہال میں لکڑی کے دروازے ، جالی کا کام،محراب کی خوبصورتی عموماً لکڑی کی مرہون ہے، اور مساجد کا واحد فرنیچر جسے ’’منبر‘‘ کہا جاتا ہے عمدہ اور پائیدار لکڑی سے ہی تیار کیا جاتا ہے-اس لکڑی کا انتخاب اپنے اپنے علاقے میں دستیاب عمدگی کی بناء پر کیا جاتا ہے- دنیا میں موجود تمام مساجد کا رخ قبلہ کی طرف ایک وحدت میں پروئے ہونے کا احساس دلاتا ہے جہاں توحید کا نور دلوں کو منور کرتا ہے وہیں مساجد کو روشن کرنے کیلئے روشنی کا کام اولین دور سے ہی جاری ہے، جس میں بجلی آ جانےکے بعد انتہائی ترقی ہوئی اور مختلف طرز کی روشنیاں اور فانوس دیکھنے کو ملتے ہیں -

محلات، حویلیاں، گھر، باغات اور مقبرے :

مسلمان فرمانرواؤں نے جہاں سکونت اختیار کی اس جگہ نہایت خوبصورت محل اور حویلیاں تیار کیں جو فن تعمیر میں اپنی مثال آپ ہیں - نہ صرف یہ محل اور حویلیاں بلکہ شہروں میں کی گئی تعمیرات بھی اسلامی فن تعمیر کامنہ بولتا ثبوت ہیں - ماضی کے ان تابناک آثاروں میں سب سے اہم اور بلند ’الحمراء‘ ہے - الحمراء کی بنیاد 1213ء میں رکھی گئی اور یہ تقریباً 132 برس کے بعد 1345ء میں مکمل ہوا- اس قصرکو الحمراء یعنی سرخ پتھر کا محل کہا جاتا ہے - یہ عرب طرز کی عمارت ایک پلند پہاڑی پر قائم ہے ، اس کی راہداریاں ، آبی روش ، باغات ، کمرے ، ہال ، اندرونی اور بیرونی صحن، فوارے سب کے سب علم ریاضی اور جیومیٹری کے اصولوں پر تعمیر ہوئے ، اس سلسلے میں الحمراء کی چھتیں خاصی شہرت کی حامل ہیں ، لیکن ورطہ حیرت میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ 132 سال میں کئی حکمران اور معمار آئے لیکن عمدہ منصبوبہ بندی اور اپنی دھن پر قائم حکمرانوں نے اس عظیم شاہکار سے دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کیا - اب ظاہر ہے کہ جس شاہکار کی تعمیرمیں 132 سال کا عرصہ لگا یہ فن ایک مفصل تحقیق کی طلب کرتا ہے ہمیں امید ہے کہ قارئین کرام اس سلسلے میں اپنی معلومات کو بڑھانے کے لئے اس عظیم شاہکار کے متعلق موجود مواد سے ضرور استفادہ کریں گے-اندلس کے بعد تاریخ کے صفحات سے نظر چراتے خلافت عثمانیہ میں محلات کا ذکر کریں تو صرف استنبول میں 10سے زائد محلات تھے جو شاہی خاندان کے استعمال میں تھے، فن تعمیر کے حوالے سے یہ عظیم شاہکار تھے- شاہی محلات کو اگر چھوڑ بھی دیں تو استنبول کے عام گھر بھی موسم اور حالات کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے جن میں لکڑی کے فریم میں کچی اینٹ اور گارے سے بھرائی کی جاتی یہ گھر موسم گرما میں سرد اور سرما میں گرم رہتے - جبکہ شاہی محلات کثیر منزلہ،  ہوتے ان سے باہر کے مناظر کیسے نظر آئیں گے؟،  کا خاص خیال رکھا جاتا ، کھڑکیاں، بالکونیاں، روشندان، صحن و راہداریاں، پانی کے حوض و فوارے، سایہ کیلئے چھتریاں، محل سے متصل باغات و سبزہ سے اٹی روش، جالی و محراب، نشست و برخاست، قیام و طعام کے الگ کمرے، مطبخ اور قاعہ (چھت پر مہمانوں کیلئے آرائش و زیبائش والاکمرہ جہاں ان کی مہمان نوازی کی جاتی تھی) پرمشتمل یہ محلات اپنی شان و شوکت کا منہ بولتا ثبوت ہیں- یہ محلات و تعمیرات سلجوقی طرز تعمیر کی بنیاد پر قائم ہیں جنہوں نے کسی حد تک سلجوق فن تعمیر کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے -

سلطان محمود غزنوی کی ہندوستان فتح کے بعد آہستہ آہستہ اسلامی فن تعمیر برصغیر کی سر زمین پر وارد ہونا شروع ہوا - قطب الدین ایبک اور اس کے جانشین گو کہ بہت زیادہ تعمیرات نہ کرسکے کیونکہ نئے علاقے کے انتظامی امور زیادہ اہمیت کے حامل تھے، لیکن قطب مینار اور قطب مسجد اسلامی فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں-اس کے بعد تغلق خاندان، خلجی خاندان، سید خاندان اور لودھی خاندان کی بنائی عمارتیں مغلوں کو ایک بنیاد فراہم کرنے کیلئے کافی تھیں- جبکہ دوسری طرف سندھ و ملتان کے طرز تعمیر کے ساتھ عرب طرز تعمیر نے اسلامی فن تعمیر کو برصغیرمیں ایک الگ ہی جلا بخشی- مغل دور حکومت میں برصغیر دنیا کی اقتصادی ترقی میں 22 فیصد کا حصہ رکھتا تھا ، اس عظیم ریاست کے فرمانروا ایک الگ ہی ذوق کے حامل تھے جو اپنی بنیاد میں جہاں و ہ ترک و افغان ورثے کو سموئے ہوئےتھے وہیں ایرانی فنون سے بھی آشنا تھے جبکہ ان سے پہلے کے اسلامی فن تعمیر بھی ان کی نظر میں تھا جس کا ثبوت ہمیں ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں ملتا ہے-

ہندوستان میں مقامی طرز تعمیر یکسر مختلف تھا، گو یہاں کا ورثہ اپنی ایک الگ مذہبی و مقامی شناخت رکھتا ہے لیکن جو طرز تعمیر مغلوں نے اپنایا اس کی دلکشی اور پائیداری کا کوئی مول نہیں- مغلوں نے برصغیر میں اسلامی فن تعمیر کو ایک الگ ہی پیمانہ بخشا، انہوں نے جہاں بڑے بڑے محلا ت تعمیر کئے وہیں باغات لگانے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا ، قلعے اپنی اور عوام کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنوائے تو شہروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا وہاں دروازے اور بارہ دریاں بنوائیں، مساجد و مقبرے کی تعمیر سے مغلوں کو خاص شغف تھا - انہوں نے ایسے باغ بنوائے جہاں پھل دار درخت تو تھے ہی لیکن خوشبو بکھیرتے پھولوں کے پودوں کی بھی بہتات تھی- انہوں نے محلات و باغات میں پانی کی نہریں بنوائیں، حوض اور فوارے لگوائے جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں-محققین کے مطابق مغل دور میں فن تعمیر کے میدان میں پہلی بار سائز اور ڈیزائن کا مختلف انداز میں استعمال ملتا ہے- سجاوٹ کے لئے سنگ مرمر پر نقش و نگار اس دور کی خاصیت ہیں- اس دور میں رنگ برنگی پھول پتیوں کا بھی بے حد دلکش استعمال کیا گیا- اس دور میں گنبد اور ٹاورز کو سجانے کا رواج بھی چلا- مغلیہ دور کی تعمیرات میں اکبر کا مقبرہ، ہمایوں کا مقبرہ، نورجہاں و جہانگیر کے مقبرے (لاہور، پاکستان)، تاج محل، اعتماد الدولہ کا مقبرہ، اورنگزیب کا مقبرہ (اورنگ آباد)، فتح پور سکر اور اس کے محلات، آگرہ کا قلعہ اور اس کی عمارتیں، دہلی کا لال قلعہ اور اس کی عمارتیں، دلی کی جامع مسجد، فتح پوری مسجد، لاہور کا شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد وغیرہ خاص اہمیت کی حامل ہیں- کہتے ہیں کہ ہمایوں کا مقبرہ تاج محل کےمقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے، مغلوں کے دور کو ’’تعمیرات کی بہار‘‘ اور ’’آرٹ کی رانی ‘‘ کا دور بھی کہا جاتا ہے-

خانقاہ و مزارات :

اہل بیت، صحابہ اکرام (رضی اللہ عنھم)، اولیائے و علمائے امت، شہداء، صدیقین و صالحین (رحمتہ اللہ علیھم) کے مزارات کی تعمیر  بھی اسلامی فن تعمیر میں ایک الگ حیثیت کی حامل ہیں -اس سلسلے میں سب سے اہم اور شاہکار عمارتیں اہل بیت کے مزارات و زیارات ہیں، جن میں نجف مشرف میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، شام میں سیدہ بی بی زینب (رضی اللہ عنہا)کا مزار مقدس، کربلا معلی میں نواسہ رسول امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) اور ان کے جانثاروں کے مزارات، مشہد میں حضرت امام رضا (رضی اللہ عنہ) کا روضہ مقدس، عراق میں حضرت امام موسٰی کاظم (رضی اللہ عنہ) اور حضرت امام تقی جواد(رضی اللہ عنہ) کا روضہ مبارک، بغداد میں غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا روضہ مبارک، امام ابو حنیفہؒ کا روضہ مبارک، قونیہ میں حضرت جلال الدین رومیؒ کا مزار، ازبکستان میں امام بخاری اور خواجہ بہاؤ الدین نقشبندؒ کا روضہ مبارک ، اسی طرح پاک و ہند میں سینکڑوں اولیائے کاملین کے مزارات مرجع خاص و عام ہیں، ان تمام مزارات میں اسلامی فن تعمیر اپنے اپنے علاقائی رنگ و مزاج کے ساتھ جھلکتا ہے -

اسلامی فن تعمیرکی مختلف عمارات جن میں جامعات، کتب خانے ، رسد گاہیں ، شفاء خانے ، تجربہ گاہیں اور مدارس جا بجا اپنے آثار لیے ہوئے ہیں جو اسلامی فن تعمیر کا جمالیاتی ذوق عیاں کرنے کا باعث ہیں -

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر