جس روز سے قرآن کا پیغام بھلایا ذلت نے اندھیروں نے ہمیں آن گرایا صد حیف کہ دُنیا میں نہیں کچھ بھی کمایا افسوس سوا کچھ بھی کہاں ہاتھ میں آیا
قرآن سے محبت ہو تو یہ خاص کرم ہے قرآن ہو سینے میں تو کس چیز کا غم ہے
اللہ کے احکام میں لافانی ہے تاثیر اس جیسی ہے آفاق میں کب کوئی بھی تحریر قرآن سے رغبت ہی بدل سکتی ہے تقدیر ہو سکتی ہے امت اسی بنیاد پہ تعمیر
جب تک ہمیں قرآں سے محبت نہیں ہوتی تبدیل کسی طور بھی حالت نہیں ہوتی
اے خالقِ کونین عطا ہو مجھے عرفان سینے میں سما جائے مرے خطۂ فاران ہر لمحہ تلاوت سے مرا سینہ ہو گنجان الفاظ و معانی کی عطا کر مجھے پہچان
مجھ جیسے گناہگار کے حالات بدل دے ظلمات میں لپٹے ہوئے دن رات بدل دے
اے سید ابرار (ﷺ) کرم کیجیے اک بار امت کی خبر لیجیے اذہان ہیں بیمار اعصاب ہیں بیکار تو سینے ہوئے زنگار کس منہ سے کروں حالتِ نادار کا اظہار
اے کاش کہ امت کا سنبھل جائے سفینہ ہم سیکھ لیں قرآن سے جینے کا قرینہ
قرآن کی تفسیر سے ہر سینہ ہو شاداب ہستی کا ہر اک دشت ہو قرآن سے سیراب تھم جائے اسی نام سے ہر ظلم کا سیلاب ہو جائیں رضاؔ ختم سبھی زیست کے گرداب
جس قوم نے کی صدق سے قرآن کی تعظیم خالق نے عطا کر دی اسے الفاظ کی تفہیم
|