قرآن کریم کی رو سے سائنسی و منطقی فکر کی ضرورت

قرآن کریم کی رو سے سائنسی و منطقی فکر کی ضرورت

قرآن کریم کی رو سے سائنسی و منطقی فکر کی ضرورت

مصنف: ڈاکٹرعثمان حسن مارچ 2025

ابتدائیہ:

قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو نہ صرف روحانی رہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ اسے معاشرتی زندگی میں سائنسی و منطقی فکر اپنانے کی بھی دعوت دیتا ہے- قرآن کریم میں بار بار غور و فکر، تحقیق اور کائنات کے مشاہدے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ انسان اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھے اور اللہ کی نشانیاں دریافت کرے- قرآن کریم کا پیغام سائنسی، فلسفیانہ اور منطقی سوچ کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے-قرآن  کریم انسان کو علم حاصل کرنے اور کائنات میں موجود نشانیوں پر غور و فکر کرنے کا حکم دیتا ہے- سائنسی اور منطقی سوچ کی بنیاد تدبر، تفکر اور مشاہدے پر رکھی گئی ہے اور قرآن کریم ان سب کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہے-

سائنس کیا ہے؟

سائنس ایک ایسا منظم علم ہے جو تجربات، مشاہدات اور منطق پر مبنی ہوتا ہے- یہ دنیا اور کائنات کے حقائق کو جانچنے اور ان کے اصول وضع کرنے کا عمل ہے- آئزک نیوٹن کے مطابق:

’’سائنس وہ علم ہے جو فطرت کے اصولوں کو دریافت کرنے کیلئے تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے‘‘-[1]

البرٹ آئن سٹائن کے مطابق:

’’سائنس وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ہم قدرت کے قوانین کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘-[2]

ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق:

’’سائنس ایک ایسا منظم علم ہے جو مشاہدے، تجربے اور منطق کے ذریعے کسی خاص موضوع پر حقائق فراہم کرتا ہے‘‘-[3]

قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:

’’اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ‘‘[4]

’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں‘‘-

منطق کیا ہے؟

لفظ ’’منطق‘‘عربی زبان کے ’’نطق‘‘ سے نکلا ہے، جس کا مطلب ’’بولنا، اظہار کرنا یا عقل و شعور کے ساتھ گفتگو کرنا‘‘ ہے-

یونانی میں اسے Λογική (Logike) کہا جاتا ہے، جو ’’Logos‘‘سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ’’عقل، دلیل یا استدلال‘‘ہے-

منطق ایک ایسا علم ہے جو درست اور غلط استدلال میں فرق کرنے کے اصول سکھاتا ہے- اس علم کی بنیاد عقل، استدلال اور منطقی دلائل پر ہوتی ہے-ارسطو (Aristotle) کے مطابق:

’’منطق وہ علم ہے جو ذہن کو صحیح طریقے سے استدلال کرنے کے اصول فراہم کرتا ہے‘‘-[5]

ابن سینا کے مطابق:

’’منطق ایک ایسا آلہ ہے جو صحیح استدلال کی راہ دکھاتا ہے اور غلطیوں سے بچاتا ہے‘‘-[6]

امام غزالی کے مطابق:

’’منطق ایک ایسا معیار ہے جو انسانی فکر کو درست سمت میں گامزن کرتا ہے‘‘-[7]

قرآن کریم اور منطقی و سائنسی فکر:

ا-فکر و تدبر کی اہمیت:

’’اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ  اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا ‘‘[8]

’’کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟‘‘

امام فخر الدین رازیؒ لکھتے ہیں کہ :

’’تدبر کا مطلب گہرائی میں جا کر کسی چیز کو سمجھنا اور اس کے معنی و مقاصد کو کھولنا ہے- اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو تفکر اور تدبر کی صلاحیت دی ہے اور اسے استعمال کرنا اس کا فرض ہے‘‘- [9]

’’سَنُرِیْہِمْ  اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ  اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ  لَہُمْ  اَنَّہُ  الْحَقُّ‘‘[10]

’’ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور خود ان کے نفس میں دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہی حق ہے‘‘-

ابن عاشورؒ لکھتے ہیں کہ :

’’آفاق‘کا مطلب زمین، آسمان، ستارے، سیارے اور کائنات کی وسعتیں ہیں، جبکہ ’انفس‘ کا مطلب انسانی جسم اور اس کے اندرونی نظامات ہیں ‘‘- [11]

’’ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ  اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ‘‘[12]

’’ اپنی دلیل لاؤ، اگر تم سچے ہو‘‘-

امام طبریؒ اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ:

یہ قرآن کی ایک علمی و عقلی بنیاد ہے کہ کسی بھی دعوے کو محض اندھی تقلید سے نہیں مانا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے دلیل ضروری ہے‘‘- [13]

عدالتی نظام میں بھی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی مقدمے میں بغیر ثبوت کے کوئی الزام تسلیم نہیں کیا جاتا جوکہ قرآنی اصول پر مبنی ہے - اسی طرح سائنسی تحقیقات میں نظریات کو مشاہدات اور تجربے کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے، جو کہ ’’ہَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ‘‘کے اصول کے مطابق ہے-

جو لوگ فقط کہی سنی باتوں کو ہی بنیاد بنا کر اپنے نظریات کو تشکیل دیتے ہیں ان کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ  اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَنَا‘[14]

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے، تو وہ کہتے ہیں: نہیں، ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ‘‘-

امام قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ:

’’ اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو بغیر دلیل کے محض روایات کی بنیاد پر کسی چیز کو مان لیتے ہیں‘‘- [15]

ب- قرآن کریم کا تدبر و تفکر کی دعوت دینا :

قرآن کریم نے بار بار غور و فکر، تدبر اور مشاہداتی علم کے حصول پرنہ صرف زور دیا ہے بلکہ اس کی طرف دعوتِ عام بھی دی ہے جو کہ سائنسی اور منطقی فکر کی بنیاد ہے- انہی اصولوں پر عمل کر کے مسلمان سائنس دان جیسے ابن الہیثم، الرازی، ابن سینا اور الخوارزمی نے حیرت انگیز ایجادات کیں- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ؁ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذا بَاطِلًا ج ‘‘[16]

’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں جو لوگ اللہ کو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں (اور کہتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بےکار پیدا نہیں کیا‘‘-

’’ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ‘‘[17]

’’کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں‘‘-

’’ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ‘[18]

’’بے شک اللہ کے نزدیک سب سے بدتر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے‘‘-

یہ آیاتِ قرآنی واضح کرتی ہیں کہ اسلام میں سائنسی و منطقی فکر کو اپنانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ ایمان کا حصہ بھی ہے-قرآن مجید میں سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول اور کائنات میں غور و فکر کرنے کیلئے عقل والوں کو 60 سے زائد مقامات پر مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں کائنات میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دلائی گئی- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ  ص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ‘‘[19]

’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں‘‘-

’’ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہٗ  مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ ط مَا خَلَقَ اللہُ  ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ ج یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ‘[20]

’’وہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لیے (چھوٹا یا بڑا دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم (قطعی صحت کے ساتھ) برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو، اور اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا فرمایا مگر (بلا نقص و خلل) درست نظم و تدبیر کے ساتھ، وہ (ان کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے واضح فرماتا ہے جو علم رکھتے ہیں‘‘-

آج جدید دور کی فزکس، کاسمالوجی، اسٹرانومی، سیٹلائیٹ کمیونیکیشن اور ایسے تمام علوم کا حصول بھی اس حکمِ قرآنی کے ضمن میں آتاہے-

’’ اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ‘‘[21]

’’بیشک رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور ان (جملہ) چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا فرمائی ہیں (اسی طرح) ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہیں جو تقوٰی رکھتے ہیں‘‘-

’’ اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ‘[22]

’’سورج اور چاند (اُسی کی ریاضیاتی منصوبہ بندی کے ساتھ) مقرّرہ حساب سے چل رہے ہیں‘‘-

ج-ٹیکنالوجی اور قرآن کریم:

اللہ تعالیٰ نےقرآن پاک میں ٹیکنالوجی کو الہام کے طور پر بیان فرمایا ہے-ہر نبی کے دور کی کسی بھی چیز کی ایجاد انبیاء کی طرف اللہ کاالہام قرار دیا گیا ہے- اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

(i) حضرت نوح (علیہ السلام)  کی کشتی :

اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو کشتی بنانے کا حکم دیا اور فرمایا:

’’وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا ‘‘[23]

’’اور تم ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ‘‘-

اس کا مطلب ہے کہ کشتی کے سٹرکچر اور ڈیزائن کو الہام کیا گیا تھا- یہ ٹیکنالوجی اللہ کی طرف سے ذہن میں ڈالی گئی اور کشتی آج بھی انسانی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے-

(ii) جانوروں کا بطور سواری استعمال:

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی سہولت کیلئے جانوروں کو ذریعہ سواری بنایا اور یہ بھی فرمایا کہ مستقبل میں وہ سواری کے مزید ذرائع بھی پیدا فرمائے گا جنہیں ابھی انسان نہیں جانتے تھے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَّالْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْہَا وَزِیْنَۃً ط وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘[24]

’’اور (اُسی نے) گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو (پیدا کیا) تاکہ تم ان پر سواری کر سکو اور وہ (تمہارے لئے) باعثِ زینت بھی ہوں اور وہ (مزید ایسی بازینت سواریوں کو بھی) پیدا فرمائے گا جنہیں تم (آج) نہیں جانتے‘‘-

یہ 1400 برس قبل نازل کیا گیا الہام ہے-لیکن آج موٹر وہیکلز کی جدید ٹیکنالوجی کو دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کا اس جدت میں کتنا حصہ ہے؟

(iii) انبیاء کو صنعت کاری کے علم کا الہام ہونا :

اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو لوہے کی ایجادات پہ قدرت عطا کی - ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ  مِنَّا فَضْلًا ط یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ  مَعَہٗ  وَالطَّیْرَ ج وَ اَلَنَّا لَہٗ  الْحَدِیْدَ؁ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا ط اِنِّیْ  بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ‘‘[25]

’’اور بیشک ہم نے داؤد(علیہ السلام) کو اپنی بارگاہ سے بڑا فضل عطا فرمایا، (اور حکم فرمایا:) اے پہاڑو! تم اِن کے ساتھ مل کر خوش اِلحانی سے (تسبیح) پڑھا کرو، اور پرندوں کو بھی (مسخّر کر کے یہی حکم دیا)، اور ہم نے اُن کے لئے لوہا  نرم کر دیا- (اور ارشاد فرمایا) کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور (ان کے) حلقے جوڑنے میں اندازے کو ملحوظ رکھو‘‘-

قرآن پاک میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ عَلَّمْنٰہُ  صَنْعَۃَ  لَبُوْسٍ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْۢ بَاْسِکُمْ ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ شٰکِرُوْنَ‘‘[26]

’’اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو تمہارے لئے زِرہ بنانے کا فن سکھایا تھا تاکہ وہ تمہاری لڑائی میں تمہیں ضرر سے بچائے، تو کیا تم شکر گزار ہو‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے زرہ بنانے کی صنعت کا فن حضرت داؤود (علیہ السلام) کو عطا فرمایا اور یہ اُس دور کی جدید دفاعی ٹیکنالوجی تھی-ٹیکنالوجی دراصل فطرت میں موجود قوتوں کا سمجھ کر انسان کیلئے بروئے کار لانا ہے-تخلیقِ آدم (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسماء کے علم سکھائے جانے کا ذکر فرمایا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ‘‘[27]

’’اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے‘‘-

اس علم میں فطری(سائنسی) علوم بھی شامل ہیں جو کہ ٹیکنالوجی کی بنیاد ہیں- اسی طرح ایک اور مقام پر ارشادِ ربانی ہے:

’’وَ ہُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ وَ اَنْہٰرًا ط وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ؁ وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ قفوَ نُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ‘‘[28]

’’اور وہی ہے جس نے (گولائی کے باوجود) زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے، اور ہر قسم کے پھلوں میں (بھی) اس نے دو دو (جنسوں کے) جوڑے بنائے (وہی) رات سے دن کو ڈھانک لیتا ہے، بیشک اس میں تفکر کرنے والوں کے لئے (بہت) نشانیاں ہیں- اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جھنڈدار اور بغیر جھنڈ کے، ان (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور (اس کے باوجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں، بیشک اس میں عقل مندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں‘‘-

جیالوجی (Geology)، ارضی سائنسز (Earth Sciences) اور کرۂ ارض سے متعلقہ دیگر علوم اور ٹیکنالوجی کا حصول انہیں اشیاء میں غور کرنے سے انسان کو حاصل ہوا ہے-اسی طرح، زراعت کی جدید ٹیکنالوجی کا حصول درج ذیل حکمِ قرآنی سے لازم آتا ہے-

’’ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ یُنْۢبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَ النَّخِیْلَ وَ الْاَعْنَابَ وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِط اِنَّ  فِیْ  ذٰلِکَ لَاٰیَۃً  لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ‘‘[29]

’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اتارا، اس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں شاداب ہوتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو- اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اگاتا ہے، بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے‘‘-

آسمان کی وسعتوں کو پار کر کے اور زمین کا سینہ چیر کر انسان نے جو ترقی حاصل کی ہے اس کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں دیا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَ اَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ  ظَاہِرَۃً  وَّ بَاطِنَۃً ط وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللہِ  بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ‘‘[30]

’’(لوگو!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخّر فرما دیا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں- اور لوگوں میں کچھ ایسے (بھی) ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب (کی دلیل) کے‘‘-

’’وَ سَخَّرَ لَکُمْ  مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ‘[31]

’’اور اُس نے سماوی کائنات اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لیے اپنی طرف سے (مقررہ قوانین کے ذریعے) مسخر کر دیا ہے، بے شک اِس میں اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘-

آقا  کریم()کی احادیث میں غور و فکر کی اہمیت:

نہ صرف قرآن کریم بلکہ حدیثِ مبارکہ میں بھی آقا کریم (ﷺ) نے غور و فکر کرنے اور علم حاصل کرنے کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے- جنانچہ ارشادِ نبوی(ﷺ) ہے:

’’حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے، جہاں پائے اسے لے لے‘‘-[32]

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘-[33]

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال سیرت النبی(ﷺ)میں جا بجا ملتا ہے- حضرت ثوبان (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے اہل طائف کے مقابلہ پر منجنیق نصب کی- [34]

لہٰذا، قرآن  کریم ہمیں بار بار غور و فکر، سائنسی تحقیق، اور منطقی استدلال کی دعوت دیتا ہے- حضور نبی کریم(ﷺ) کی تعلیمات بھی اسی بات کو تقویت دیتی ہیں- تاریخ میں مسلمان سائنسدانوں نے انہی قرآنی اصولوں کی روشنی میں عظیم سائنسی کارنامے انجام دیے- یعنی ہر طرح کے فطری علوم کو انسان کیلئے مسخر فرمایا- چنانچہ ان علوم سے ٹیکنالوجی کا حصول بھی انسان کیلئے ممکن ہے- یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو کتنا استعمال کرتے ہیں- آج بھی ہمیں جدید سائنسی ترقی کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے اور اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں-

٭٭٭


[1]Philosophiæ Naturalis Principia Mathematica by Isaac Newton,1687

[2]Ideas and Opinions by Albert Einstein,1954

[3]Webster's New World Dictionary, 1988

[4]آلِ عمران: 190

[5]Aristotle, Organon, 350 BC

[6]ابن سینا، الشفاء

[7]امام غزالی، معیار العلم

[8]سورۃ محمد: 24

[9]تفسیر کبیر، ج: 9، ص: 234

[10]سورۃ فصلت: 53

[11]التحریر و التنویر، ج: 12، ص: 270

[12]البقرۃ: 111

[13]تفسیر طبری، ج: 2، ص: 406

[14]لقمان: 21

[15]تفسیر قرطبی، ج: 2، ص: 105

[16]آلِ عمران: 191-190

[17]الزمر: 9

[18]الانفال: 22

[19]البقرۃ: 164

[20]یونس:   5

[21]یونس:   6

[22]الرحمٰن: 5

[23]ھود: 37

[24]النحل: 8

[25]سبا: 11-10

[26]انبیاء: 80

[27]البقرۃ: 31

[28]الرعد: 4-3

[29]النحل: 11-10

[30]لقمان: 20

[31]الجاثیہ: 13

[32]سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2687

[33]سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 224

[34]مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر