قرآن کریم کے حوالے سے توشیہیکوایزوتسو کے کام کا طائرانہ جائزہ

قرآن کریم کے حوالے سے توشیہیکوایزوتسو کے کام کا طائرانہ جائزہ

قرآن کریم کے حوالے سے توشیہیکوایزوتسو کے کام کا طائرانہ جائزہ

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز مارچ 2025

قرآن کریؔم حکمت و دانائی سے بھرپور ایک الہامی کتاب ہے ،قرآن کریم انسانوں کیلئے ہدایت کا سر چشمہ ہے - رسالت مآب (ﷺ) کے وسیلہ سے قرآن کریم کا نزول کائنات عالم پر رب تعالیٰ کا احسان عظیم ہے- پیغام ہدایت لئے ہوئے یہ کتاب ہر انسان کے لئے مشعل راہ ہے جس کا ایک ایک لفظ اپنے مطلب اور مفہوم کے اعتبار سے انسان کی رہنمائی کرتا ہے-

رنگ و نسل اور زُبان کی تمیز کے بغیر یہ الہامی کتاب طالبان حق کو فیضیاب کرتی ہے- جاپان کے مشہور فلسفی اور عالم توشیہیکو ایزوتسو  کا نام ایسے خوش نصیبوں میں شامل ہے جنہوں نے قرآن پاک کی اصطلاحات پر کام کیا- اِن کی علمی خدمات اسلامی فلسفہ، قرآنیات، صوفیانہ تعلیمات اور تقابلِ ادیان کے گِرد گھومتی ہیں- ایزوتسو کے علمی سفر کا آغاز جاپان کی کیو یونیورسٹی (Kcio University) سے ہوا جہاں انہوں نے عربی، فارسی، سنسکرت، یونانی اور چینی زبانوں پر عبور حاصل کیا ، جس نے انہیں اِسلامی ، مشرقی اور مغربی فلسفیوں کا براہ راست مطالعہ کرنے کے قابل بنایا- ایزوتسو نے قرآن  کریم کے حوالے سے اپنے بیشتر کام کا جاپانی زبان میں ترجمہ بھی کیا- جبکہ اُن کے کام میں خاص طور سے’’قرآن کریم کی الہٰیاتی اصطلاحات‘‘ شامل ہیں-

ایزوتسو کی مشہور تصانیف میں درج ذیل شاہکار شامل ہیں:

Ethico-Religious Concepts in the Quran

Sufism and Taoism

God and Man in the Quran

قرآنیات کے حوالے سے ایزوتسو کا کام  اپنی نوعیت کا بے مثال نمونہ ہے جِس میں انہوں نے قرآن پاک کے مختلف پہلوؤں کا لسانیاتی تجزیہ پیش کیا-ایزوتسو نے زبان کے معنیاتی ارتقاء (Semantic Evolution) کے ذریعے قرآنی الفاظ کو اس وقت کے ثقافتی اور تاریخی پسؔ منظر میں بیان کرنے کی کوشش کی جو کہ ان کے مطابق قرآن مجید کے مفاہیم کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے - ایزوتسو اِ س بات کے قائل ہیں کہ الفاظ کو اُس وقت کے سماجی، ثقافتی و روحانی تناظر میں سمجھا جائے- اِن کی اس نئی سوچ نے اِسلامی مطالعات میں نئے رجحانات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا-

1914 ء میں پیدا ہونے والے ایزوتسو کا علمی سفر مشرق و مغرب کے فلسفیوں کے درمیان ایک تعلق قائم کرنے کی کوششوں پر مبنی تھا- انہوں نے اِسلامی فلسفے اور قرآنی تعلیمات کو مغربی دُنیا کے لئے قابل فہم بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نا رکھی-جبکہ مشرقی فلسفہ جیسے تاؤمت اور بدھ مت کا اِسلامی فکر کے ساتھ موازنہ بھی پیش کیا- انہوں نے ہیگل، ہائیڈیگر اور کانٹ کے مغربی فلسفے کا بھی مطالعہ کیا اور ان کا بھی اسلامی فلسفے کے ساتھ جائزہ لیا- ایزوتسو کے نزدیک مغربی اور اسلامی فلسفے کے درمیان مکالمہ وقت کی ضرورت ہے جوکہ انسانی  شعورکی ترقی کیلئے ضروری ہے- انہوں نے ہائیڈیگر کے نظریہ ’’وجود‘‘(Being) کو اسلامی فلسفے کے تصور ’’وجود‘‘ کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جس میں دونوں فلسفے انسان کے وجود کی حقیقت اور حیثیت پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں-اِس کے علاوہ ایزوتسو نے ہیگل کے نظریہ جدلیاتی عمل (Dialectic Process) کا شیخ الاکبر  محی الدین ابن العربی ؒ کے نظریہ 'تجلیات'  (Divine Manifestations) سے موازنہ بھی پیش کیا جو اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے-

ایزوتسو نے اپنی کتاب ’’Sufism and Taoism‘‘ میں حضرت ابن الؔعربی ؒاور چینی فلسفی لاوزی (Laozi) کے نظریات کا تقابلی جائزہ کیا اور اِن دونوں شخصیات کے نظریہ وحدت (Unity of Being) اور خودشناسی (Self-realization) جیسے افکار کا مماثلتی تجزیہ بھی پیش کیا- ایزوتسو کے مطابق ابن العربیؒ کا تصور 'وحدت الوجود' اور لاوزی کا تصور 'تاؤ' دونوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کائنات کی حقیقت ایک ہی ہے اور انسان کا مقصد اس حقیقت کو پہچاننا ہے- ایزوتسو کے افکار اِس بات کی وضاحت پیش کرتے ہیں کہ کیسے زمانی اور مکانی فاصلوں کے باوجود مختلف تہذیبوں کے فلسفوں میں مشترکہ روحانی تجربات اور نظریات کے حامل  افکار موجود ہو سکتے ہیں جن کو سمجھنا بہت ضروری ہے-بعض محققین نے ایزوتسو کے اِن تقابلی نظریات پہ رائے دی ہے کہ اسلامی تصوف کی دیگر مشرقی فلسفوں کے مقابلے میں ایک انفرادیت ہے جسے قائم رکھنا چاہئے- اسلامی علماء کے مطابق ابن العربیؒ کا تصور وحدت الوجود صرف فلسفیانہ نہیں بلکہ الہامی اور دینی بنیادوں پر قائم ہے جبکہ دوسری طرف تاؤمت ایک خالصتاً انسانی فلسفہ ہے جو عقائد ِ معاشرت، سماجیت اور دیگر ظاہری اصولوں پر کاربند ہے- یہ تمام دلائل اپنی جگہ اہم ہیں تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ  ایزوتسو نے اپنے کام سے غیر مسلم دنیا  کو اسلامی تعلیمات سے روشنا س بھی کروایا ہے اور تقابلِ ادیان کے شعبہ میں ایک نیا رابطہ قائم کیا ہے۔

ایزوتسو کی کتاب ’’Ethico-Religious Concepts in the Quran‘‘ ایک علمی شاہکار تصور کی جاتی ہے جو 1959ء میں ’’The Structure of the Ethical Terms in the Quran: A Study in Semantics‘‘کے نام سے پہلی مرتبہ شائع ہوئی- جس میں ایزوتسو نے قرآنی بنیادی تصورات جیسے، ایمان، کفر، تقویٰ اورعدل  کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے- اُن کے مطابق قرآن کریم میں ایمان سے مراد صرف عقیدہ نہیں بلکہ یہ سماجی اخلاقی رویے کا نام ہے- اِسی طرح کُفرصرف مذہبی انکار نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی اندھے پن کی علامت بھی ہے اور اِس نظریے پر کاربند شخص صرف خُدا کا انکاری نہیں بلکہ جان بوجھ کر حق اور سچ کو چھپانے کا مرتکب بھی ٹھہرتا ہے- لفظ عدل کو ایزوتسو صرف قانونی انصاف کی بجائے وسیع تر اخلاقی اصول کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو انسان کا خُدا اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق کو مضبوط بناتا ہے جو کہ ایک صحت مند معاشرے کی بنیادی اکائی ہے- بعینہ، تقویٰ سے متعلق ایزوتسو لکھتے ہیں کہ اس سے مراد صرف گناہوں سے بچنا ہی نہیں بلکہ یہ ایک داخلی شعور ہے جو انسان کو خُدا کی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے اعمال بدؔ سے روکتا ہے- مزید برآں! صبرکی تفسیر بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ یہ ایک فعال قوت ہے جو مصائب و تکالیف میں انسان کے تعلق بااللہ کو کمزور نہیں پڑنے دیتی- احسان کے متعلق ایزوتسو کا نظریہ بہت واضح اور وسیع ہے کہ جس میں ہر وقت خُدا کی موجودگی کا احساس ایسے معاشرتی رجحان کو فروغ دیتا ہے جو  اِنسان کو اعلیٰ درجے کی اخلاقی اقدار کا حامل بناتا ہے- ایزوتسو کے افکار کے مطابق قرآن کی تفہیم کو مندرجہ بالا اوصاف کے تناظر میں سمجھنا بہت ضروری ہے - ایزوتسو  کا کام بلاشبہ قرآنی علوم میں ایک اچھا اضافہ ہے-

علاوہ ازیں، ایزوتسو نےاپنی کتاب ’’God and Man in the Quran‘‘میں قرآن اور انسان کے تعلق کا تجزیہ بھی کیا ہے- جس میں انہوں نے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ قرآن میں خُدا سے مراد صرف ایک خالق نہیں بلکہ انسان کی زندگی کا فعال حصہ ہے- انہوں نے کہا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات (رحیم، علیم، حکیم اور دیگر)لکھی گئی ہیں یہ انسان کے لئے صرف عقائد نہیں بلکہ عملی زندگی کے اُصول ہیں- مزید برآں، ایزوتسو لکھتے ہیں کی صفت 'رحمت' سے مراد اللہ تعالیٰ کا رحیم ہونا ہی مقصود نہیں بلکہ یہ کائنات کی تخلیق و ترتیب کے بنیادی اُصول کی وضاحت کرتا ہے- ایزوتسو کے فلسفے کے مطابق انسان کو بحیثیت ِ مخلوق صفات رب تعالیٰ کا مظہر ہونا چاہیے جِن کا اُس کی زندگی میں اظہار ضروری ہے-

مندرجہ بالا مختصر نگارشات کی روشنی میں اگر ایزوتسو کے کام کا دو حرفی جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں کہ ایزوتسو کا یہ علمی کام اسلامی فکر و فلسفے کے ساتھ غیر اسلامی مشرق اور مغربی فلسفے کے مطالعے کیلئے ایک جامعہ ڈھانچہ مہیا کرتا ہے جو ایک سنگ میل سے کم نہیں- ان کے لسانیاتی تجزیے اور تقابلی مطالعے نے اسلامی علوم کو نئے زاویے فراہم کئے ہیں جو مغربی و مشرقی افکار و فلسفے کو قرآن کے تناظر میں سمجھنے کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں- ایزوتسو کی تحریریں آج بھی اُن طلبہ و محققین کے لئے راہنمائی کا ذریعہ ہیں جو اسلامی فلسفے، صوفیانہ تعلیمات اور تقابلِ ادیان کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر