طالبانِ حق، قرآن کریم سے رہنمائی لیتے ہوئے اِ س کے پوشیدہ پہلوؤں میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور حق کے دریائے عمیق سے واحدانیت کے ایسے موتی تلاش لاتے ہیں جو اُن کے ظاہر و باطن کی تمام گرہیں کھول کر اُنہیں حَق شناؔسی سے بہرہ ور کر دیتے ہیں- اِن مراتب کا حُصول دِل بِیناؔ کے بغیر ممکن نہیں- بقول علامہ محمد اقبال:
دِل بِینا بھی کر خُدا سے طلب |
قرآن کریم کے معانی اور مفاہیم قاری پر اس کے باطن کی روشنی کے مطابق کھلتے ہیں -باطن کا نور جیسے جیسے بڑھتا چلا جاتا ہے اسرار و رموز ویسے ویسے کھلتے چلے جاتے ہیں-
قرآن کریم کے پوشیدہ و ظاہر پہلوؤں کی تشریح و تفاسیر بے شمار علماء، فقہاء اور صالحین نے کی ہے اور اپنے اپنے نورِ باطن کے مطابق اس کے اسرار و رموز کو بیان فرمایا ہے- ایسی ہی ایک تفسیر احمد ہلوسی (Ahmed Hulusi) نے بھی پیش کی- احمد ہلوسی کا یہ تحقیقی و تجزیاتی جائزہ-ڈی کوڈنگ دی قرآن (Decoding the Quran) ایک منفرد عارفانہ تشریح ہے جو قرآن کریم کے مفاہیم کو مابعدالطبیعیات، فلسفہ اور سائنس کے فکری تناظر میں بیان کرنے کا مضبوط مؤقؔف اختیار کرتی ہے- اِس میں قارئین کیلئے اِسلامی صوفی اُصولوں کو جدید سائنسی تصورات و نظریات (کوانٹم فزکس اور ہولو گرافک یونیورس تھیوری) کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جو کہ اپنی نوعیت کی مخصوص کاوش ہے -
احمد ہلوسی ایک تُرک مصنف ہیں جِن کے نظریات میں خود شناسی اور حقیقت اِنسان جیسے موضوعات نمایاں ہیں- وہ قرآن کریم کی باطنی اور سائنسی تشریح پیش کرتے ہیں، جِس میں وہ اِنسان کی نفسیاتی اور شعوری ترقی پر زور دیتے ہیں- ہلوسی کے مطابق مذہب کا اَصل مقصد اِنسان کی ذِہنی و روحانی ترقی ہے جِس کے ذریعے وہ شعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی معرفت کا راستہ اختیار کرتا ہے اور خُود شناسی و خود آگاہی جَیسی منازل طے کرتا ہوا مقصد حیات حاصل کر لیتا ہے- علاوہ ازیں، ہلوسی رَسمی مذہبی روایات و نظریات پر کم، بلکہ عقل، مشاہدے، عمل اور تجربے پر زور دیتے ہیں- اِن کی تحریریں خاص طور پر شعور، ذہن اور حقیقت بارے گہرے فکری مباحث پر مشتمل ہوتی ہیں-
زَیر بحث کتاب، ڈی کوڈنگ دی قرآن (Decoding the Quran) کے متعلق ہلوسی لکھتے ہیں کہ یہ کوئی عام قرآنی تفسیر نہیں اور نہ ہی قرآن کریم کا سادہ ترجمہ ہے بلکہ ایک منفرد فکری کوشش ہے جو قرآن کریم کی تفسیری جہتوں کو ایک ’’نیا زاویہ‘‘ فراہم کرتی ہے جو پڑھنے والوں کو گہرے معنوی، فکری اور علامتی اشارات سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے- مُصنؔف کے مطابق: قرآن کریم ایک ایسا صحیفہ ہے جو حقیقت اور نظام فطرت (Sunnatullah) کی تفہیم فراہم کرتا ہے - اِس نظریے کی تائید میں ہلوسی، تصوف سے وحدت الوجود کے اصولوں اور جدید سائنسی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہیں-
اللہ تعالیٰ کو خارجی ہستی کے طور پر دیکھنا مُصنؔف کے نزدیک قرآنی تفہیم کی سب سے بڑی غلطی ہے- اُن کے مطابق اللہ تعالیٰ کوئی جسمانی یا خارجی وجودنہیں بلکہ ایک لامحدود حقیقت ہے - اللہ کا روایؔتی تصور جو کہ ایک ’’الگ‘‘ اوپر اور بلند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یہ اِنسانی ذہن کی توجیہ ہے جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے وہ ذات پاک جہت و سمت سے مبرہ ہے کوئی ظاہر نہیں جو اس سے الگ ہو ، کوئی باطن نہیں جو اس سے خالی ہو بلکہ ہر شئے کی حقیقت وہی ہے جب کائنات کی ہر چیز باعتبار حقیقت اپنے ماخوذ سے منسوب ہے اور یہ تعلق اُس کے ہونے اور مالک کی موجودگی کا منہ بولتا ثبوت ہے- مصنف کے نزدیک اِنسان کی سب سے بڑی غلط فہمی ’’دوئی‘‘ کا نظریہ ہے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کو کائنات سے الگ دیکھتا ہے حالانکہ کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات و قدرت کے عظیم مظاہر میں سے ہے-کائنات کی ہر چیز اس کی صفاتِ خالقیت، علمیت اور قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ تصوف کی رو سے دوئی ایک فریب ہے ورنہ ہر شے کی حقیقت ایک ہی ہے اور وہ خالق حقیقی رب تعالیٰ کی ذات ہے-
مصنؔف کے نزدیک کائنات اور اِنسان درحقیقت اللہ کے ناموں (Asma ul Husna) کے مظاہر ہیں جِسے صوفی اصطلاح میں ’’وحدت الوجود‘‘ کہا جاتا ہے اور قرآن کریم کا اصل پیغام بنام اِنسان اِسی حقیقت کو سمجھنا ہے- قرآنی الفاظ ، خاص طور پر اِبتدائی حروف کی علامتی اور صوفیانہ تشریح کرتے ہوئے ہلوسی’’بسم اللہ‘‘ میں ’’ب‘‘ کو خاص اہمیت دیتے ہیں - وہ اِ ن بنیادی الفاظ کے مابعدالطبیعیاتی معانی اخؔذ کرتے ہوئے علمی اور فکری دلائل سے حقیقت حق کی وضاحت پیش کرتے ہیں جو عارفانہ نظریات کی عکاسی کرتا ہے- حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے قول میں حرف ’’ب‘‘ کے نیچے نقطے کو بنیاد بنا کر ہلوسی دلیل دیتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں حروف اور الفاظ کی سطحی تشریح کافی نہیں بلکہ ان کے اندرونی اور علامتی معانی پر غور کرنا بھی ضروری ہے- مصنؔف کے مطابق حرف ’’ب‘‘ وجود کی حقیقت اور ’’کائنات میں وحدت‘‘ کی علامت ہے- مزید برآں! ہلوسی جدید سائنسی نظریات (کوانٹم فزکس، ہولوگرافک یونیورس تھیوری اور توانائی کی سائنس) کو قرآنی تعلیمات سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناصرف وجود اِنسانی بلکہ کائنات عالم کے مشاہدے کے لئے قرآنی الفاظ کی گہری تفہیم پر زور دیتے ہیں- ہلوسی کے مطابق: الفاظ کے باطنی پہلوؤں سے ہم آہنگی و آگاہی، اِنسان کو مظاہر عالم کی تشریح کے لئے ایک منفرد زاویہ فراہم کرتی ہے-
مصنؔف کے مطابق اِنسان محض جسمانی وجود نہیں بلکہ اِس کی حقیقت روحانی ہےجو کہ ذاتِ الٰہی کے انوار و تجلیات کی جلوہ گاہ ہے- اِنسان نا صرف صفات الٰہیہ کا مظہر ہے بلکہ ذات حق تعالیٰ کے نور کا بھی سر چشمہ ہے- باطنی وجود ہی اصل اِنسان ہے جسے مابعدالطبیعاتی اصول سے تسخیر کرنا ہی مقصد حیات ہے-جبکہ قرآن کریم اِن تمام علوم و فنون اور حکمت و دانائی کا منبع ہے- خود شناسی وخود آگاہی، تجلیۂ روح اور تصفؔیہ قلب وہ بنیادی مقاصد ہیں جن کے حصول کیلئے مصنف نے روایت سے ہٹ کر قرآن کریم کو سمجھنے پر زور دیا ہے- طالب کیلئے ضروری ہے کہ روحانی آسودگی اور ترقی کے لئے قرآن کریم کی معنوی تشریحات سے آگے بڑھ کر روحانی مفاہیم کوسمجھے اور اُن پر عمل کرے تاکہ مقصد حیات حاصل ہو- اگرمِن جملہ کاملین و عارفین کے افکار کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بیشتر صوفیاء نے قرآن کریم کی تشریح اُسی انداز میں کر رکھی ہے جیَسے ہلوسی نے بیان کرنے کی کوشش کی جو کہ ایک منفرد اور غیر روایتی کاوش ہے-
ہلوسی اس کتاب میں نماز اور دیگر ظاہری عبادات کو محض رسمی اعمال کی بجائے روحانی تربیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں- یہ عبادات انسان کو اپنی باطنی حقیقت سے جوڑنے اور صفات الٰہی کو بیدار کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں- مصنؔف نے آخرت اور قیامت کے تصورات کو خارجی واقعات کی بجائے اِنسان کی باطنی حالتوں اور روحانی تجربات کے طور پر سمجھنے پر زور دیا ہے- ہلوسی، دُعا اور ذِکر کو اِنسان کی باطنی صفائی اور روحانی ترقی کیلئے اہم سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک صحیح نیت اور توجہ کے ساتھ دُعا اِنسان کو ذات الٰہی کے ساتھ جوڑنے میں مدد دیتی ہے-
صوفیاء کے ہاں دُعا، بنیادی طور پر طالب کی مطلوب کے لئے وہ تڑپ اور جستجو ہے جو اسے خالص اور پاک کرنے کا آلہ تصور کی جاتی ہے- دُعا، اِنسان کے عاجز اور انکسار ہونے کی دلیل ہے جو اَپنے مالک کے سامنے انؔا، تکبر و غرور کا سر کچلنے میں مدد دیتی ہے- طالب حقیقی کا سَفؔرحَقؔ، دُعا و مناجات کے بغیر ممکن ہی نہیں-کیونکہ یہ ہر مشکل مرحلے کو باآسانی سَر کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے- قرآن کریم میں بیان کردہ قِصوں کو ہلوسی نے مَحض تاریخی واقعات سمجھنے کی بجائے روحانی اسباق کے طور پر پیش کیا ہے - جِن کی تشریحات بے شک قاری کے لئے گہری معنویت رکھتی ہیں-
احمد ہلوسی کی یہ کتاب طامبان مولیٰ اور حق شناسوں کے لئے ایک فکری اور تجرباتی کتاب ہے جو قرآنی تعلیمات کو غیر روایتی اور سائنسی نقطہ نظر سے بیان کرتی ہے- کچھ نیا سیکھنے والوں کے لئے ایک موزوں کتاب ہے جو روایتی تشریحات سے ہٹ کر نئے اور گہرے زاویوں سے قرآن کریم کو سیکھنے اور سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے-
٭٭٭