قرآن مجید اور سیدنا علی ابن ابی طالب(رضی اللہ عنہ)

قرآن مجید اور سیدنا علی ابن ابی طالب(رضی اللہ عنہ)

قرآن مجید اور سیدنا علی ابن ابی طالب(رضی اللہ عنہ)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مارچ 2025

حضرت عمار بن یاسر اور حضرت ابوایوب (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’حَقُّ عَلِيٍّ عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ حَقُّ الْوَالِدِ عَلٰى وَلَدِهٖ‘‘[1]

’’مسلمانوں پر علی(رضی اللہ عنہ) کا حق ایسے ہے جیسے والد کا اپنی اولاد پر ہوتا ہے‘‘-

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت کرنا اور آپ (رضی اللہ عنہ)کی ذات گرامی سے اپنے روحانی اور دینی تعلق کو غیر متزلزل طور پہ مضبوط کرنا یہ مومن کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے والد سے محبت کرنا -کیونکہ ایک اچھی اولاد کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے والد کی طلبگار بھی ہوتی ہے اور حب دار بھی-لہٰذا امیر المؤمنین سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) سے وفاداری اور حب داری ہمارے ایمان کا حصہ ہے- ترمذی شریف کی حدیث ہے :

’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (ؓ)، قَالَ: فَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ: یٰا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا اِنْ اَخَذْتُمْ بِہٖ لَنْ تَضِلُّوْا: کِتَابَ اللّٰہِ وَ عِتْرَتِیْ اَھْلَ بَیْتِیْ‘‘[2]

’’حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے آقا کریم(ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! بے شک میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے اگر تم اسے پکڑ لو گے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے: وہ اللہ کی کتاب اور میری عترت (یعنی) میرے اہلِ بیت‘‘-

اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم) میں امیر المؤمنین حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نمایاں ترین ذات گرامی ہیں- قرآن کریم اور سیدنا علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’عَلِیٌّ مَّعَ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِیٍّ لَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ‘‘[3]

’’حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) قرآن کے ساتھ اور قرآن حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)کے ساتھ ہے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گےیہاں تک کہ دونوں مجھ سے حوض کوثر پر آ ملیں گے‘‘-

ایک اور مقام پہ امام احمد بن حنبل (المتوفى: 241ھ) ’’فضائل الصحابہ‘‘، امام ابو جعفر الطحاوی(المتوفى: 321ھ)، ’’شرح مشكل الآثار‘‘میں اور امام ابن ابی شیبہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :

’’ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) تشریف لائے اور ہمارے پاس بیٹھ گئے-ہم میں سے کوئی بھی بات نہیں کررہا تھا گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں-تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’إنَّ مِنْکُمْ رَجُلًا یُقَاتِلُ النَّاسَ عَلٰی تَأْوِیْلِ الْقُرْآنِ کَمَا قُوْتِلْتُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہٖ فَقَامَ أَبُوبَکْرٍ، فَقَالَ: أَنَا ہُوَ یَا رَسُوْلَ اللہِ قَالَ : لَا فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ: أَنَا ہُوَ یَا رَسُوْلَ اللہِ، قَالَ: لَا وَ لٰکِنَّہُ خَاصَفَ النَّعْلَ فِی الْحُجْرَۃِ قاَلَ فَخَرَجَ عَلَیْنَا عَلِیٌّ وَ مَعَہُ نَعْلُ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)یُصْلِحُ مِنْہَا‘[4]

’’تم میں سے ایک آدمی ہوگا جو لوگوں سے قرآنی تاویل پر قتال کرے گاجیسا کہ اس کی تنزیل (یعنی اترنے) پر تم سے قتال کیا گیا تھا-پس حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) اٹھے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ)! کیا وہ شخص میں ہوں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : نہیں -پس حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اٹھے اور عرض کیا:یا رسول اللہ (ﷺ)! کیا وہ شخص میں ہوں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : نہیں- بلکہ وہ شخص حجرے میں جوتے کو پیوند لگا رہا ہے-حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ پس حضرت علی (رضی اللہ عنہ)  ہمارے پاس آئے اس حال میں کہ ان کے پاس رسول اللہ (ﷺ) کی نعلین مبارک تھی جنہیں وہ ٹھیک کر رہے تھے‘‘-

قرآن کریم وحی تھی اور دلیلِ نبوت ، اس بات پہ صحابہ کرام نے کفار سے جہاد کیا ، حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ اسی طرح بعض منافقین قرآن پاک کی تاویل میں جھگڑا کریں گے جو قرآن کریم کی تاویل پہ جہاد بالحق کرے گا وہ سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) ہوں گے-اس لئے سیدنا علی المرتضیٰ (ﷺ) کو اور قرآن کریم کو ایک مقام پہ نہیں بلکہ کئی مقام پہ ایک ساتھ بیان کیا-تاکہ امت کو یہ ذہن نشین ہو جائے کہ قرآن کریم کی راہ سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کی راہ ہے اور سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کی راہ قرآن کریم کی راہ ہے ، قرآن حضرت علی سے جدا نہیں  حضرت علی قرآن سے جدا نہیں -

حضرت علی(رضی اللہ عنہ)کو یہ سعادت اور اعزاز حاصل ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کی ابتدائی تربیت اور پرورش آقا پاک (ﷺ) نے فرمائی- جیسا کہ’’السيرة النبوية لابن هشام‘‘ میں مذکور ہے کہ :

’’وَكَانَ مِمَّا أَنْعَمَ اللهُ (بِهٖ) عَلٰى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهٗ كَانَ فِيْ حِجْرِ رَسُوْلِ اللہِ (ﷺ) قَبْلَ الْإِسْلَامِ، فَلَمْ يَزَلْ عَلِيٌّ مَعَ رَسُوْلِ اللہِ (ﷺ) حَتّٰى بَعَثَهُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى نَبِيًّا‘‘[5]

’’اور آپ (رضی اللہ عنہ)پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے یہ بھی تھا کہ اسلام سے پہلے آپ (رضی اللہ عنہ) آقا پاک (ﷺ) کے زیرِنگرانی تربیت میں رہے اورسیدنا حضرت علی ؓ ہمیشہ رسول اللہ (ﷺ)کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ (ﷺ) کو نبی بناکر مبعوث فرمایا‘‘-

امام ابن حجر الہيتمی (المتوفى:974ھ) ’’الصواعق المحرقة‘‘ اور امام ابو الفرج الحلبی (المتوفى: 1044ھ) ’’اَلسيرة الحلبية ‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ :

’’حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ میں جو سیدنا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں نازل ہوا ہے وہ کسی کیلئے نہیں ہوا-وہ فرماتے ہیں کہ:

’’نَزَلَ فِيْ عَلِيٍّ ثَلَاثُ مِائَةِ آيَةً‘‘[6]

’’حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے حق میں 300آیات نازل ہوئی ہیں‘‘-

اہلِ علم نے ان آیات کریمہ کی تقسیم اس طرح کی ہے کہ کچھ آیات کریمہ ایسی ہیں جو اس طبقہ کیلئے نازل ہوئیں جن میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) شامل تھے-کچھ آیات مبارکہ ایسی ہیں جو ان مواقع پر نازل ہوئیں جن مواقع کے مصداق سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) تھے اور کچھ آیات کریمہ ایسی ہیں جو براہِ راست سیدنا علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کے حق میں نازل ہوئیں- ان آیات کریمہ میں سے چند آیات کریمہ یہاں برکت کیلئے پیش کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ قرآن کریم کہاں کہاں توصیفِ علی (رضی اللہ عنہ) میں ناطق ہے-

پہلی آیت

’’لِلْفُقَرَآءِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَ اَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗط اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ ۚ‘[7]

’’ ان فقیر ہجرت کرنے والوں کے لئے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے اور اللہ اور رسول کریم (ﷺ) کی مدد کرتے ہیں، وہی سچّے ہیں ‘‘-

اس آیت کریمہ میں مہاجرین کی تعریف کی گئی ہے اور یہ  مہاجرین کیلئے نازل ہوئی اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) مہاجرین میں شامل ہیں-اس لیے اس آیت کریمہ کے مصداق سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) ہیں کیونکہ قرآن کریم نے تصدیق کی ہے سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) سچے ہیں-

دوسری آیت

’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ سکتہ صلے وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا‘[8]

’’مومنوں میں ( ایسے ) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالٰی سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض ( موقعہ کے ) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ‘‘-

یاد رکھیں! یہ مومنین کا وہ وعدہ تھا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا کہ وہ اپنی جانیں اپنےمال سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی سربلندی کے لئے قربان کر دیں گے-ان مومنین میں سے کچھ ایسے تھے جنہوں نے اپنے رتبہ شہادت کو پالیا تھا اور جبکہ کچھ ایسے تھے جو ابھی اپنی شہادت کے انتظار میں تھے اور ان کا یہ عہدِ شہادت اس قدر پختہ اور قوی تھا کہ کہ وہ اس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں کرتے تھے- بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو آقا پاک (ﷺ) کے عہد میں شہادت ملی اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) ان صحابہ میں شامل تھے جنہیں خود حضورنبی کریم (ﷺ)نے شہادت کی بشارت دی تھی اور وہ اس برحق دن کا انتظار کرتے تھے -

تیسری آیت

’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِط وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا ‘‘[9]

’’محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (ﷺ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں- آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں‘‘-

علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی ’’ تفسیر مظہری ‘‘ میں سیدنا حضرت امام حسن بصریؒ سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

  • ’’وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ‘‘ سے مراد حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ہیں (کیونکہ ایمان لانے کے بعد اسلام کی تبلیغ کرنے میں حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ)آپ(ﷺ) کے ساتھ ساتھ تھے- )
  • ’’اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ‘‘سے مراد حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) ہیں- (آپؓ کا کفار پر سخت ہونا بہت مشہور ہے )

ایک شخص نے رسول اللہ (ﷺ) کا فیصلہ ماننے میں تَامُّل کیا تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے اُس کوقتل کر دیا یہ اُن کے مزاج میں کفار پرسختی کا تقاضا تھا کہ اُنہوں نے قریش مکہ سے صُلح کرنے کے معاملہ میں بہت تردُّد کیا- 

  • ’رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ‘‘ سے مراد حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)ہیں -(کیونکہ آپ بہت نرم دل تھے جب مسجد نبوی میں مسلمانوں کیلئے جگہ کم تھی تو آپؓ نے مسجد نبوی کی توسیع کی، مسلمانوں کیلئے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا تو روما نام کا کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کیا-غزوۂ تبوک کے لشکر کیلئے 300 اونٹ مع سازوسامان مہیا کیے، خود جان پر کھیل گئے لیکن اپنی حفاظت کیلئے مدینۃ النبی میں مسلمان فوجوں کو بلانے کی اجازت نہیں دی )-
  • ’’تَرٰہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا‘‘ سے مُرادسیدنا علی(رضی اللہ عنہ)ہیں،جن کی اکثر راتیں رکوع اور سجود میں گزرتی تھیں-
  • ’’یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا‘‘ سے مراد باقی عشرہ مبشرہ (رضی اللہ عنھم)ہیں-

چوتھی آیت

جب حضور نبی کریم (ﷺ)نے نجران کے عسائیوں پر آیات کریمہ تلاوت کیں تو انہوں نے انکار کردیا اور آپ (ﷺ)کے سمجھانے سے نہ سمجھے اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو پھر ان کے بارے میں آیت مباہلہ نازل ہوئی:

’فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ‘[10]

’’پس آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو شخص عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں، پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑگڑا کر دعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں‘‘-

’’صحیح مسلم‘‘ کی روایت ہے کہ شہادتِ علی کے بعد  حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) کو کہا گیا کہ آپ حضرت علی کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے ، تو آپ نے فرمایا :

’’مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے متعلق فرمائی تھیں اس لئے میں کبھی ان کو برا نہیں کہہ سکتا-اگر ان تین باتوں میں سے صرف ایک بات بھی میرے لئے فرمائی ہوتی تو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ عزیز تھی-

1- جب رسول اللہ (ﷺ) نے بعض مغازی میں حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کوپیچھے مدینہ میں چھوڑ دیا تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ دیا، تواُس وقت میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے یہ فرماتے ہوئے سنا:کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام)کے لئے ہارون (علیہ السلام)تھے-البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا -

2-  غزوہ خیبر کے دن میں نے آپ (ﷺ) سے یہ سنا کہ کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول کریم (ﷺ) سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (ﷺ) اس سے محبت کرتے ہیں- حضرت سعد نے کہا کہ پھر ہم سب اس کے انتظار میں تھے کہ آپ (ﷺ) کس کو بلاتے ہیں- آپ (ﷺ) نے فرمایا علی ؓ کو میرے پاس لاؤ-حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو لایا گیا- حالانکہ ان کی آنکھیں دکھتی تھیں آپ (ﷺ) نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر خیبر فتح کر دیا-

3-’’وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ (ﷺ) عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا اَللّٰهُمَّ هٰؤُلَاءِ أَهْلِيْ‘‘[11]

’’اور جب آیت نازل ہوئی کہ آپ کہیے! آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ تو رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کو بلایا اور فرمایا کہ اے اللہ! یہ میرے اہل ہیں‘‘-

مفسرین اور محدثین کرام کے نزدیک یہاں ’’اَبْنَآءَنَا‘‘ سے مراد سیدنا امام حسن اور امام حسین (رضی اللہ عنہ) ہیں-’’نِسَآءَنَا‘‘ سے مرادسیدہ کائنات خاتونِ جنت حضرت فاطمۃالزہراء (رضی اللہ عنہا)  ہیں-امام ابنِ ابی حاتم ؒ اپنی مشہور زمانہ تفسیر ’’تفسیر ابن ابی حاتم ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’اَنْفُسَنَا‘‘سےمراد تاجدارِ انبیاء (ﷺ) اور حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)ہیں-

لہذا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اس آیت مباہلہ کے بطور خاص مصداق ہیں-

پانچویں آیت

’’اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا ط لَا یَسْتَوٗنَ‘[12]

’’بھلا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہو اس کی مثل ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو، (نہیں) یہ (دونوں) برابر نہیں ہو سکتے‘‘-

امام ابن جریر ابو جعفر الطبری (المتوفى: 310ھ)’’تفسیر طبری‘‘ میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’وَذُكِرَ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ‘‘

’’اور ذکر کیا گیا کہ بے شک یہ آیت کریمہ حضرت علی بن ابی طالب(رضی اللہ عنہ) اور ولید بن عقبہ کے حق میں نازل ہوئی-

حضرت عطا بن یسار (رضی اللہ عنہ)اس آیت کریمہ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’حضرت علی مرتضٰی (رضی اللہ عنہ) سے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کسی بات میں جھگڑ رہا تھا،دورانِ گفتگو میں کہنے لگا خاموش ہو جاؤ تم لڑکے ہو میں بوڑھا ہوں میں بہت زبان دراز ہوں ، میری نوکِ سنان تم سے زیادہ تیز ہے ، میں تم سے زیادہ بہادر ہوں، میں بڑا جھتے دار ہوں، حضرت علی مرتضٰی(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:

’’اُسْكُتْ، فَإِنَّكَ فَاسِقٌ فَأَنْزَلَ اللّهُ فِيْهِمَا: اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا طلَا یَسْتَوٗنَ ‘‘

’’خاموش ہو جاؤ، پس تم فاسق ہو -پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی: بھلا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہو اس کی مثل ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو، (نہیں) یہ (دونوں) برابر نہیں ہو سکتے‘‘-

یعنی حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کا فرمانا تھا کہ تو فاسق ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی کیونکہ اس آیت کریمہ میں جو مومن ہیں وہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) ہیں اور جو فاسق ہے وہ ولید بن عقبہ ہے-

چھٹی آیت

’’اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ط لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ ط وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘[13]

’’کیا تم نے (محض) حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی آبادی و مرمت کا بندوبست کرنے (کے عمل) کو اس شخص کے (اعمال) کے برابر قرار دے رکھا ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لے آیا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ لوگ اللہ کے حضور برابر نہیں ہو سکتے، اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘-

امام ابو منصورسمعانی الشافعی (المتوفى: 489ھ) ’’ تفسير القرآن ‘‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :

’’اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی کے حق میں نازل ہوئی-اس آیت کا ظاہر بلاشبہ اس کے قول کو باطل کرتا ہے مشرکین میں سے جس نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد کو آباد کرنے پر فخر کیا-جیسا کہ امام سدی نے ذکر کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ :

قبل از قبولِ اسلام بعض سرداروں نے حاجیوں کو پانی پلانے میں فخر کیا اور شیبہ نے(مسجد حرام) تعمیر کرنے پر فخر کیااور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اسلام اور جہاد کے ساتھ اظہار فخر کیاپس اللہ تعالیٰ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی تصدیق کردی اور ان دونوں کو جھٹلادیااور یہ خبر دے دی کہ مسجد کی آبادی کفر کے ساتھ نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ایمان، عبادت اور طاعت و فرمانبرداری کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ بات اتنی بین و واضح ہے کہ اس پر کوئی غبار نہیں‘‘-

حضور مولیٰ کائنات(رضی اللہ عنہ) کی تصدیق اور تائید میں اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ نازل فرمادی-

ساتویں آیت

’’سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ ۚ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلٰمَ اللہِ ط قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا کَذٰلِکُمْ قَالَ اللہُ مِنْ قَبْلُ ج فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا ط بَلْ کَانُوْا لَا یَفْقَہُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا ‘‘

’’جب تم (خیبر کے) اَموالِ غنیمت کو حاصل کرنے کی طرف چلو گے تو (سفرِ حدیبیہ میں) پیچھے رہ جانے والے لوگ کہیں گے: ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے پیچھے ہو کر چلیں- وہ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے فرمان کو بدل دیں- فرما دیجئے: تم ہرگز ہمارے پیچھے نہیں آسکتے اسی طرح اﷲ نے پہلے سے فرما دیا تھا-سو اب وہ کہیں گے: بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، بات یہ ہے کہ یہ لوگ (حق بات کو) بہت ہی کم سمجھتے ہیں‘‘-

آٹھویں آیت

’’لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَ اَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا‘‘[14]

’’بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا‘‘-

ان دو آیات کریمہ میں بالعموم امتِ مسلمہ کے لئے اور بالخصوص صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کیلئے فتح خیبر کی بشارت ہے-اس لئے یہ آیت کریمہ بالخصوص حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے حق میں نازل ہوئی-جیسا کہ ’’صحیح بخاری‘‘ کی حدیث مبارک ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر آقا پاک (ﷺ)نے ارشادفرمایا :

’’ لَأُعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ، أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّأيَةَ، غَدًا رَجُلًا يُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ،يَفْتَحُ اللهُ عَلَيْهِ‘‘[15]

’’کل میں ضرور جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس سےاللہ اور اس کا رسول (ﷺ)محبت کرتے ہوں گے(اور ) جس کے ہاتھ پر اللہ پاک فتح عطا فرمائے گا‘‘-

نویں آیت

’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ‘‘[16]

’’(اے حبیب (ﷺ)!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا-

علامہ ابن حجر عسقلانی’’فتح الباری شرح صحيح البخاری‘‘ میں  لکھتے ہیں کہ اس (فتح خیبروالی) حدیث مبارک میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے :

’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ‘‘[17] فَكَاَنَّهٗ أَشَارَ إِلٰى أَنَّ عَلِيًّا تَامُّ الْاِتِّبَاعِ لِرَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) وَ لِهٰذَا كَانَتْ مَحَبَّتُهٗ عَلَامَةُ الْإِيْمَانِ وَبُغْضُهٗ عَلَامَةُ النِّفَاقِ‘‘[18]

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا-اس حدیث مبارک میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ)حضور نبی کریم کی کامل اتباع کرنے والے تھے (حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ متصف ہو گئے )اسی وجہ سے ان سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہےاور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے‘‘-

گویا حضرت علی(رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (ﷺ) کے ایک ایک قول اور عمل کی اس حد تک اتباع کی کہ اللہ تعالیٰ نے محبتِ علی (رضی اللہ عنہ) کو ایمان اور نفاق کے درمیان کسوٹی بنا دیا کہ جو حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے محبت کرتا ہے وہ مومن ہے اور جو حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے بغض رکھتا ہے وہ منافق ہے-

علامہ ابن حجر عسقلانی آگے لکھتے ہیں: ’’مسلم شریف‘‘ کی روایت ہے کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهٗ لَعَهْدُ النَّبِيِّ (ﷺ) أَنْ لَّا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَّلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ‘‘

’’اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدافرمایابے شک آقا کریم (ﷺ) نے مجھ سے یہ عہد فرمایا کہ مجھ سے صرف وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگااور وہی مجھ سے بغض رکھے گا جو منافق ہوگا‘‘-

متفق علیہ حدیث پاک ہے جسے حضرت ابو سعید خدری اورکئی دیگر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے روایت کیاکہ مدینہ منورہ میں ہم پہ ایک ایسا وقت آیا جب مومن اور منافق کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے -حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’إِنَّا كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِىَّ بْنَ أَبِىْ طَالِبٍ‘‘[19]

’’بے شک ہم جماعت ِانصار، منافقین کو حضرت علی المرتضی ٰ (رضی اللہ عنہ) سے بغض کی وجہ سےپہچان لیتے تھے‘‘-

یعنی منافق کو پہچاننے کی کسوٹی ذکرِ علی (رضی اللہ عنہ) ہوتا تھا-جب منافق کو پہچاننا ہوتا تو ذکرِ علی (رضی اللہ عنہ) شروع کر دیتے تھے-مومن کا چہرہ ہشاش بشاش ہوجاتا اور منافق کے چہرے پر بَل پڑ جاتے تھے-پس ہم پہچان جاتے تھے کہ یہ منافق ہے- دوستو! صحابہ کا بنایا ہوا یہ طریقہ کار آج بھی نہایت کار گر ہے، میں خود گواہ ہوں اس بات کا کہ ذکرِ علی(رضی اللہ عنہ) پہ بعض چہرے اترتے بگڑتے دیکھے ہیں -

دسویں آیت

’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘‘ [20]

’’ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو (خدائے) رحمن ان کے لیے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا ‘‘-

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ ’’تفسیر مظہری‘‘ میں مذکورہ آیت کے ضمن میں امام طبرانیؒ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ:

’’یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کےحق میں نازل ہوئی :

یَجْعَلُ اللہُ تَعَالیٰ مَحَبَّتَہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ سَائِرِالْخَلاَئِقِ غَیْرَ الْکَافِرِیْنَ

’’اللہ تعالیٰ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی محبت کو سوائے کافروں کے تمام مؤمنوں اور ساری مخلوق کے دلوں میں ڈال دیا ‘‘-

لہذااولیاء اللہ، صالحین،صحابہ  کرام،  اہل بیت کرام اور حضور مولائے کائنات حضرت علی المرتضی (رضی اللہ عنہ) کی محبت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے-اس لئے بارگاہِ الٰہی میں خود کو عاجزی سے پیش کرنا چاہیے  تاکہ وہاں سے محبت کی خیرات ملے -

امام قرطبی (المتوفى : 671ھ)’’ تفسير قرطبی‘‘ اور امام جلال الدین سیوطی(المتوفی:911ھ)’’تفسیر در منثور‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’بعض علماء نے فرمایا : یہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں نازل ہوئی- حضرت براء بن عازب (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:  اے علی تم یہ دعا مانگو

اَللّٰهُمَّ اِجْعَلْ لِيْ عِنْدَكَ عَهْدًا وَّاجْعَلْ لِيْ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ مَوَدَّةً فَنَزَلَتِ الْآيَةُ ‘‘

اے اللہ ! میرے لیے اپنی بارگاہ سے عہد بنا دے اور میرے لیے مومنین کے دلوں میں محبت ڈال دےتو یہ آیت نازل ہوئی ‘‘-

امام ابو الحسن الماوردی (المتوفى: 450ھ) ’’تفسیر اَلنُّكَتُ وَالْعَيُوْن‘‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ :

’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘‘میں تین وجہیں ہیں :

أَحَدَهُمَا: حُبًّا فِي الدُّنْيَا مَعَ الْأَبْرَارِ وَهَيْبَةً عِنْدَ الْفُجَّارِ اَلثَّانِيْ: يُحِبُّهُمُ اللهُ وَيُحِبُّهُمُ النَّاسُ

ایک وجہ یہ ہے کہ دنیامیں محبت ابرار لوگوں کے ساتھ ہے اور ہیبت فاجر و فاسق کے ساتھ ہے - دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرماتا ہے اور لوگ بھی ان سے محبت کرتے ہیں-

حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے:

’’أَلْقٰى لَهُ الْمَحَبَّةَ فِيْ قُلُوْبِ أَهْلِ السَّمَاءِ ثُمَّ أَلْقَاهَا فِيْ قُلُوْبِ أَهْلِ الْأَرْضِ وَ يَحْتَمِلُ ثَالِثًا: أَنْ يَّجْعَلَ لَهُمْ ثَنَاءً حَسَنًا‘‘

’’تو اس کی محبت آسمان والوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے پھر اس کی محبت زمین و الوں کے دلوں میں بھی القاء کرتا ہےاور تیسری وجہ یہ ہے ان کے لئے اچھی تعریف بنا دیتا ہے‘‘-

حضرت کعب(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: بندہ جب تک دنیا میں رہتا ہے اس کے لئے دنیا میں ثناءہوتی ہے حتیٰ کہ پھر اہل آسمان میں ا س کی تعریف ہوتی ہے-

حضرت ضحاک (رضی اللہ عنہ) حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ)  سے روایت کرتے ہیں کہ:

أَنَّ هٰذِهِ الْآيَةِ نَزَلَتْ فِيْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ جَعَلَ لَهٗ وُدًّا فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ

یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ)کے حق میں نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کی محبت کو مومنین کے دلوں میں پیدا فرما دیا-

حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے مجھے علی بن ابی طالب کی طرف بھیجا پس آپ (ﷺ) نے فرمایا:

أَنْتَ سَيِّدٌ فِي الدُّنْيَا، وَسَيِّدٌ فِي الْآخِرَةِ، مَنْ أَحَبَّكَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَحَبِيْبُكَ حَبِيبُ اللهِ، وَعَدُوُّكَ عَدُوِّيْ، وَعَدُوِّيْ عَدُوُّ اللهِ، اَلْوَيْلُ لِمَنْ أَبْغَضَكَ مِنْ بَعْدِيْ ‘‘[21]

اے علی ! تم دنیا میں سردار ہو اور آخرت میں سردار ہو-جس نے تجھ سے محبت کی پس تحقیق اس نے مجھ سے محبت کی اور تمہا را حبیب اللہ کا حبیب ہے -تمہارا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے ہلاکت ہے اُس کیلئے جو میرے بعد تم سے بعض رکھتا ہے-

لہذا جب ہم سیدنا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت کرتے ہیں توہم اس فریضہ کو ادا کرتے ہیں جو قرآن مجید اور حضور نبی کریم (ﷺ) نے ہمارے ذمہ لگایا ہے-

گیارہویں آیت

’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللہِ ط وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ ‘‘[22]

’’اور (اس کے برعکس) لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کیلئے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے اور اﷲ بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے‘‘-

امام فخر الدین رازی (المتوفى: 606ھ)’’تفسیر كبير‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں مختلف روایات ہیں-ان میں ایک روایت یہ ہے کہ:

’’یہ آیت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے حق میں نازل ہوئی جب انہوں نے آقا کریم (ﷺ) کی غارِحرا کی طرف ہجرت کے دوران آپ (ﷺ) کے بستر مبارک پر رات گزاری‘‘-

یہ جانتے ہوئےکہ کفار سازش کر رہے ہیں، حالات سخت ترین ہیں لیکن سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنی جان حضور نبی کریم (ﷺ) کے لئے پیش کرد ی-

’’اور روایت کیا گیا ہے کہ بے شک جب آپ (رضی اللہ عنہ) حضورپاک (ﷺ) کے بستر پر سوئے تو جبریل (علیہ السلام)  ان کے سر کی طرف اور میکائیل (علیہ السلام)  ان کے پاؤں کی طرف کھڑے ہوئے -حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ندا دی:

’’بَخْ بَخْ مَنْ مَّثَلُكَ يَا اِبْنَ أَبِيْ طَالِبٍ يُبَاهِي اللهُ بِكَ الْمَلَائِكَةَ وَنَزَلَتِ الْآيَةُ‘‘

’’واہ! واہ! اے ابن ابی طالب !آپؓ کی مثل کون ہے –اللہ تعالیٰ آپ پر فخر کر رہا ہے فرشتوں کے سامنے اور یہ آیت نازل ہوئی‘‘-

یہ سکینہ کی علامت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ایسے موقعوں پر دل پہ سکینہ طاری فرما دیتا ہے- جیسے اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) کے دلوں پر سکینہ طاری فرما دیا-جیسا کہ سورۃ انفال میں ہے کہ ایک طرف سےہزاروں کی تعداد میں  کفار کا لشکر آرہاہے، جنگ کے طبل بج رہے  ہیں اور دوسری طرف صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)مختصر تعداد میں  چند گھوڑوں، چند تلواروں، چندتیر اندازوں کے ساتھ نڈر ہو کر اس لشکر کے سامنے کھڑے ہیں- حالانکہ خوف و ہراس کی فضا تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے سینوں پر ایسا سکینہ نازل کیا کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) بدر میں اونگھ رہے تھے-اس قدر طمانیت کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے کہ اس کی مدد ان صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے ساتھ شامل حال تھی-

المختصر! سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) وہ ذات قدسیہ ہیں جنہیں فرشتے مبارکباد دیتے ہیں-اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے ملائکہ میں آپ (رضی اللہ عنہ) کی عزت و توصیف  کو بلند فرماتا ہے-

اس لئے جتنے بھی  اولیاء و صالحین ہیں جن کی غرض معرفت و ولایت، تزکیہ و تصفیہ سے تھی ان تمام نے  فیضِ روحانیہ حاصل کرنے کے لئے اس بات پہ بالاتفاق اجماع کیا کہ اگر کسی کو فیض مل سکتا ہے تو اس کے لئے صرف ایک شرط ہے کہ اس کےسینے میں حُبِّ علی (رضی اللہ عنہ)ہونی چاہیے -یہی وجہ ہے کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت کرنا اولیاء اللہ کا شیوہ و وطیرہ ہے-قطب ربانی محبوب سبحانی غوث الاعظم ؒ جن کے لئے حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ :

بغداد شہر دی کیا نشانی اچیاں لمیاں چیراں ھُو
تن من میرا پرزے پرزے جیوں درزی دیاں لیراں ھُو
اینہاں لیراں دی گل کفنی پا کے رلساں سنگ فقیراں ھُو
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں باھُوؒ کرساں میراں میراں ھُو

سن فریاد پیراں دیا پیرا عرض سنی کن دھر کے ھو
بیڑا اڑیا وچ کپراں دے جدھ مچھ نہ بے ہندے ڈر کے ھو
شاہ جیلانی محبوب سبحانی خبر لیو جھٹ کر کے ھو
پیر جنہاں دا میراں باہوؔ کدھی لگ دے تر کے ھو

قاضی ثناؤ اللہ پانی پتیؒ نے ’’تفسیر مظہری‘‘ اور شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے ’’زبدۃ الاسرار‘‘ میں رقم کیا ہے کہ:

’’مشائخ نے سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانیؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ؛

’’رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ لِیْ یَا بُنَیَّ لِمَ لَا تَتَکَلَّمُ فَقُلْتُ یَا اَبَتَاہُ اَنَا رَجُلٌ اَعْجَمِیٌّ کَیْفَ اَتَکَلَّمُ عَلٰی فُصَحَآئِ بَغْدَادَ فَقَالَ افْتَحْ فَاکَ فَفَتَحْتُ فَتَفَلَ فِیْہِ سَبْعًا وَّ قَالَ لِیْ تَکَلَّمْ عَلَی النَّاسِ وَادْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ فَصَلَّیْتُ الظُّھْرَ وَ جَلَسْتُ وَ حَضَرَنِیْ خَلْقٌ کَثِیْرٌ فَارْتَجَّ عَلَیَّ فَرَاَیْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَائِمًا بِاِزَائِیْ فَقَالَ لِیْ اِفْتَحْ فَاکَ فَفَتَحْتُہُ فَتَفَلَ فِیْہِ سِتًّا فَقُلْتُ لَہٗ لِمَ لَمْ تُکْمِلْھَا سَبْعًا قَالَ اَدَبًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) ثُمَّ تَوَارٰی عَنِّیْ‘‘

’’میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا کہ آپ نے مجھے فرمایا کہ اے میرے بیٹے تم کلام کیوں نہیں کرتے؟میں نے عرض کی نانا حضور میں ایک عجمی ہوں پس بغداد کے فصیح لوگوں سے کیسے کلام کروں؟ آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو- میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے اس میں سات مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا کہ لوگوں کو وعظ کرو اور انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف حکمت اور وعظِ حسنہ سے بلاؤ-پس میں نے ظہر کی نماز ادا کی اور بیٹھ گیا- میرے سامنے بہت ساری مخلوق حاضر تھی کہ مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی -پس میں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اپنے سامنے کھڑا ہوا دیکھا-انہوں نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو - پس میں نے اپنا منہ کھولا تو انہوں نے اس میں چھ مرتبہ اپنا لعابِ دہن ڈالا-میں نے عرض کی کہ سات مرتبہ مکمل کیوں نہ کیا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ادبِ رسول (ﷺ) کی وجہ سے پھر آپ مجھ سے غائب ہو گئے‘‘-

اور میں نے کہا؛

’’غَوَّاصُ الْفِکْرِ یَغُوْصُ فِیْ بَحْرِ الْقَلْبِ عَلٰی دُرَرِ الْمَعَارِفِ، فَیَسْتَخْرِجُھَا اِلٰی سَاحِلِ الصَّدْرِ، فَیُنَادِیْ عَلَیْھَا سِمْسَارَ تَرْجُمَانِ اللِّسَانِ، فَتَشْتَرِیْ بِنَفَائِسِ اَثْمَانٍ حُسْنَ الطَّاعَۃِ، فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ‘‘

’’فکر کا غوطہ خور دِل کے سمندر میں معرفت کے موتیوں پر غوطہ زن ہوتا ہے، پس وہ انہیں نکال کر سینہ کے ساحل پر لاتا ہے، پھر ان پر زبان کے ماہر ترجمان کو بلاتا ہے، پھر وہ زبان عمدہ قیمتوں کے بدلے حُسنِ اطاعت کو ایسے گھروں (مسجدوں) میں خریدتی ہے جن کو بلند کرنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دے رکھی ہے ‘‘-

سب نے کہا کہ یہ وہ پہلا کلام ہے جو شیخ عبد القادرؒ نے کرسی پر تشریف رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا‘‘-

اس لئے جو فیضِ غوثیہ ہے اس کا بنیادی فیض لعابِ رسول کریم (ﷺ)اورلعابِ  سیدنا علی(رضی اللہ عنہ)ہے-

مکہ مکرمہ میں حضرت امام احمد رضا خانؒ سے  علمِ مصطفےٰ (ﷺ) کے مسئلہ پہ جب سوال ہوا کہ تو آپ نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ :

’’مجھے شیدید بخار تھا ، میرے پاس لائبریری نہیں تھی، مَیں مکہ میں تو مسافر تھا اور جس دن یہ سوال ہوا اسی دن نمازِ عصر کے بعد میں نے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہونا تھا، لیکن میں نے نمازِ فجر پڑھ کر خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر آب زم زم پیااور مراقبہ کیا- جیسے ہی میری آنکھ بیت اللہ شریف کے دروازے پر پڑی تو میں نے دروازے پر دیکھا کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) تشریف فرما ہیں، آپ (ﷺ) کے دائیں جانب سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) اور بائیں جانب سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ تشریف فرما ہیں-اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ جب میں  زیارت کی تو میرے دل پہ پورا مضمون القاء ہوگیا کہ مَیں نے کیا لکھنا ہے‘‘-

کتب میں ہے کہ وہیں بیٹھے بیٹھے آپ نے اپنی مشہور تصنیف ’’الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ‘‘8 گھنٹوں میں لکھی- اس کے بیان  کا مدعا یہ ہے کہ ولایت ہو یا ہدایت دینے والا علم، اس فیض کی ترسیل و تقسیم سینۂ مرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)  سے ہوتی ہے -  ولایتِ علی (رضی اللہ عنہ) کے فیض کا انکار کرنے والا محروم و شقی و مقہور ہے -

لہذا ہمیں  اپنے دلوں کو اس محبت کیلئے تیار رکھنا چاہیے جس محبت کے بغیر یہ دل کا پیمانہ کبھی لبریز نہیں ہو سکتا- کیونکہ اصل بات دل کی ہے اور نیت انسان کے دل میں  ہوتی ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

’’اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃٌ فِاذَ صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ‘‘[23]

’’بیشک انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہی صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے خبردار! وہ دِل ہے‘‘-

دل کی  اصلاح کے لئے عارفین نے مختلف طریقے بیان کئے لیکن حضرت سلطان باھوؒ نے دل کی اصلاح کے لئے تصور اسم اللہ ذات کو اختیار فرمایا  ہے-جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

نال تصور اسم اللہ دے دم نوں قید لگائیں ھو

کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے جیسا کہ حدیث مبارک ہے :

لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُاللہِ تَعَالٰی‘‘[24]

’’ ہر چیز کو صاف کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے دل کو صاف کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے‘‘-

اصلاحی جماعت کی یہی دعوت ہے کہ اولیاء اللہ پاکیٔ قلب کی دعوت  دیتے ہیں اس لئے بالخصوص نوجوان نسل کو اس تربیت کی ضرورت ہے- آج کی مادہ پرست دنیا کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اس باطنی تربیت سے دور کرتی ہے -اس مادہ پرستی کی تہذیب کے تحت پروان چڑھنے والی جتنی بھی تفرقہ ورانہ تحریکیں ہیں ان سب کی بنیادصرف مادیت پرستی ہے-لہذا اصلاحی جماعت میں شامل ہو کر اس تربیت کو حاصل کر کے اپنے ظاہرکے ساتھ ساتھ باطن کی بھی  پاکیزگی کو حاصل کریں-اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے-

٭٭٭


[1](مناقب امیر المومنین علی بن ابی طالب)

(تاریخ دمشق)

(مختصر تاريخ دمشق)

[2](سنن ترمذی، کتاب المناقب اھل بیت النبی (ﷺ)

[3](جامع الاحادیث)

(مجمع الزوائد)

(المستدرک للحاکم)

(المعجم الاوسط)

(کنز العمال)

[4](فضائل الصحابة)

(شرح مشكل الآثار)

(جامع الأحاديث)

(مصنف ابن ابی شیبہ)

[5](السيرة النبوية لابن هشام)

[6](الصواعق المحرقة)

(اَلسيرة الحلبية)

[7](الحشر:8)

[8](الاحزاب:23)

[9](الفتح :29)

[10](آلِ عمران:61)

[11](صحیح مسلم، كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِی اللهُ عَنْهُمْ)

[12](السجدہ: 18)

[13](التوبہ:19)

[14](الفتح:18)

[15](صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر)

[16](آلِ عمران:31)

[17](آلِ عمران:31)

[18](فتح الباری شرح صحيح البخاری)

[19](سنن الترمذى، کتاب المناقب)

[20](مریم:96)

[21](فضائل الصحابةاز امام احمد بن حنبل)

[22](البقرہ:207)

[23](صحیح بخاری)

[24](مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الدعوات)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر