رمضان المبارک میں سیرت نبویﷺ کے واقعات

رمضان المبارک میں سیرت نبویﷺ کے واقعات

رمضان المبارک میں سیرت نبویﷺ کے واقعات

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری مارچ 2025

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم (ﷺ)کی امت کو ایسا بابرکت مہینہ بھی عطاکیا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سمندر پورے جو بن کے ساتھ ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے- اُسے رمضان المبارک کہتے ہیں -یہ وہ مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے- گو یا بندگان خدا کو اپنی دنیا اور آخرت سنوار نے کا پورا موقع فراہم کردیاجاتا ہے -یہی وجہ ہے کہ اس ماہِ مقدس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشر ہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے -

رمضان المبارک میں سیرت نبوی (ﷺ) کے حوالے سے کئی واقعات رونما ہُوئے ہیں- لہٰذا زیر نظر مضمون میں ہم اُن میں سے چند واقعات کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں -

نزول قرآن :

سیرت نبوی (ﷺ) کا اہم اور بنیادی جز قرآن مجید کا نزول ہے - قرآن مجید ہدایت کا سر چشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ آقاکریم (ﷺ) کا معجزہ بھی ہے کہ جس کے سامنے عرب کے سرخیل فصحا ء و بلغاء بھی عاجز ہوگئے اور اِس کے مقابلے کی تاب نہ لاسکے- اس قرآن مجید کے نزول کا آغاز بھی رمضان المبارک میں ہُوا-

فرمان باری تعالیٰ ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج[1]

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں‘‘-

ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اِنَّآاَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ‘‘[2]

’’یقیناً ہم نے اس (قرآن مجید کو) شب قدر میں نازل فرمایا‘‘-

غزوہ بدر :

ہجرت کے دوسرے سال رمضان المبارک کی17 تاریخ کو غزہ بدر کا واقعہ پیش آیا حضوراکرم (ﷺ) کے تمام غزوات میں سے یہ بہت عظیم غزوہ تھا ،کیونکہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی عزت اور شان و شوکت کو واضح کردیا -اس دن کو یوم الفرقان سے تعبیر کیا گیا ہے ،کیوں کہ اس سے حق وباطل کے درمیان فرق رونماہُوا تھا-

آقاکریم (ﷺ) بارہ رمضان المبارک کو ایک مختصر سا لشکر جو کہ 313 افراد پر مشتمل تھا لےکر مدینہ منورہ سے روانہ ہُوئے ادھر کفارمکہ بھی آلات حرب سے مکمل لیس ہوکر لگ بھگ ایک ہزار کا لشکر لے کر نکلے جس میں ابو جہل سمیت دیگر سرداران مکہ شامل تھے دونوں لشکر بدر کے مقام پر آمنے سامنے آگئے ،آقاکریم (ﷺ) نے اپنے لشکر کو قریش کے سب سے قریب کنویں پر اُتارا اور اُس پر حوض بنا کر پانی سے بھر لیا اور دوسرے کنوؤں کو بند کردیا -پھر آپ (ﷺ) بذات خود معرکہ کی جگہ تشریف لے گئے اور دست مبارک کے اشارے سے فرماتے تھے کہ یہ فلاں کافر کے مارے جانے کی جگہ ہے اور یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے، جیسا کہ حضور اکرم (ﷺ) نے فرمایا تھا لڑائی میں ویسا ہی ہُوا کوئی بھی کا فر اشارے کی جگہ سے آگے پیچھے نہیں مرا-

جب رات ہُوئی تو آپ (ﷺ) تمام رات بیدار اور مصروف دُعارہے صبح ہوئی تو صحابہ کرام کو نماز کیلئے آوازدی اور نماز سے فارغ ہوکر جہاد پر وعظ فرمایا -پھر آپ صف آرائی میں مصروف ہوگئے آپ کے دست مبارک میں ایک تیرکی لکڑی تھی جس سے آپ کسی کو اشارہ فرماتے کہ آگے ہوجاؤ اور کسی سے ارشاد فرماتے کہ پیچھے ہوجاؤ -چنانچہ حضرت سوادبن غزیہ انصاری جو صف سے آگے نکلے ہُوئے تھے، آپ (ﷺ) نے اس لکڑی سے ان کے پیٹ کو ٹھوکا دیا اور فرمایا اے سوادبرابر ہوجاؤ- حضرت سواد نے عرض کی یا رسول اللہ(ﷺ)! آپ نے مجھے ضرب شدید لگائی ہے، حالانکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حق و انصاف کے ساتھ بھیجا ہے، آپ مجھے قصاص دیں ،یہ سن کر حضور نبی کریم(ﷺ) نے اپنا شکم مبارک سے کپڑا ہٹادیا اور فرمایا اپنا قصاص لے لو اس پر حضرت سواد رسول اکرم (ﷺ) سے لپٹ گئے اور آپ (ﷺ) کے شکم مبارک کو بوسہ دینے لگ گئے- آپ (ﷺ)  نے پوچھا اے سواد تونے ایسا کیوں کیا حضرت سواد نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) موت حاضر ہے میں نے چاہا کہ آخر میں میرا بدن آپ کے بدن اطہر سے مس کرجائے یہ سن کر آپ (ﷺ) نے اُن کیلئے دُعائے خیر فرمائی -

جب دونوں فوجیں جنگ کیلئے تیارہوئُیں آپ (ﷺ) صفیں درست فرمانےکے بعد عریش میں تشریف لائے عریش میں بجز یا ر غار آپؐ کے ساتھ کوئی نہ تھا اُس وقت آپ (ﷺ) قبلہ روہوکر دُعا فرمانے لگے ،یا اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا کر یا اللہ تونے جوکچھ مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ عطاکر ،یااللہ اگر یہ مٹھی بھر مسلمان شہید کردیئے گئے تو روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا، آپ (ﷺ) بڑے سوز و گداز کے ساتھ دُعا فرمارہے تھے،اسی دوران آپ (ﷺ) پر غنودگی طاری ہوگئی جب بیدار ہُوئے تو فرمایا :

’’اے ابوبکر! مبارک ہو اللہ کی نصرت آپہنچی حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) گھوڑے پر سوار باگ پکڑےآ رہے ہیں‘‘-

اسی انعام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا :

’’اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ‘[3]

’’جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سُن لی کہ میں تمہیں مدد دینے والا ہوں ہزار فرشتوں کی قطار سے‘‘-

آقاکریم (ﷺ) نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کفار کی طرف پھینک دی تو کوئی مشرک ایسا نہ تھا جس کی آنکھ میں کنکریاں نہ ہوں -

اب باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی نصرت الہٰی مسلمانوں کے ساتھ تھی اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) بڑی جانفشانی کے ساتھ لڑرہے تھے دوران جنگ بڑے عجیب و غریب واقعات بھی رونما ہُوئے حضرت عکاشہ بن محصن کفار سے جہاد کرنے میں مصروف تھے تو اچانک ان کی تلوار ٹوٹ گئی وہ دوڑے دوڑے حضور نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے پیارے محبوب میری تلوار ٹوٹ گئی ہے اب میں کس سے لڑوں ،سرکاردوعالم (ﷺ) کے پاس ایک لکڑی پڑی تھی وہی اُٹھا کر دے دی اور فرمایا :

’’قاتل بھذایاعکاشۃ‘

’’اے عکاشہ! اس سے دشمن کے ساتھ جنگ کرو‘‘-

جب حضرت عکاشہ نے اُسے پکڑکر لہرایا تو وہ لکڑی تلوار بن گئی اور اُس کا لوہا بڑا سخت تھا ،اُس کی رنگت سفید تھی، حضرت عکاشہ اس کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح مبین عطا فرما دی یہ تلوار العون کے نام سے مشہور ہوئی اس کے بعد وہ تمام غزوات میں اسی تلوارسے جنگ کرتے رہے -[4]

گھمسان کے معرکے کے وقت اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمان اپنے سے دوگنا دکھائے جس سے اُن پر رعب طاری ہوگیا ،قتل کا بازار گرم ہُوا تو فرشتے نظر تو نہیں آرہے تھے مگر اُن کے کام نمایاں نظر آرہے تھے ،کہیں کسی مشرک کے منہ اور ناک پر کوڑے کی ضرب کا نشان پایا جاتاہے کہیں بے تلوار سر کٹتا نظر آتا تو کہیں آواز آتی (اقدم حیزوم) حیزوم آگے بڑھو (حیزوم حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کا نام ہے) ؛

آخر کار کفار مکہ کو بڑی عبرت ناک شکست ہُوئی اور وہ اپنا بہت سارا سازوسامان چھوڑکر بھاگ نکلے،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک عظیم فتح عطا فرمائی -

اس جنگ میں صرف 14 صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)شہید ہوئے جبکہ کفار کے 70افراد مارے گئے اور اتنے ہی قیدی بنالیے گئے سردارِ مکہ عتبہ ، ولید بن عتبہ ، شیبہ ، ابوجہل ،امیہ بن خلف اوران کے علاوہ کئی ایک دیگر کفار کے سرکردہ افرادمارے گئے -

آپ (ﷺ) کے حکم کے مطابق مشرکین کے مقتولین میں سے 24 رؤسا کی لاشیں ایک کنویں میں پھینک دی گئیں اور باقی کو اور جگہ پھینک دیا گیا-

آپ(ﷺ) کی عادت مبارکہ تھی جب دشمن پر فتح پاتے تو تین دن میدان جنگ میں قیام فرماتے،چنانچہ بدرمیں بھی تین دن قیام فرمایا،تیسرے روز سوار ہوکر مقتولین کے کنویں جہاں اُن کو پھینکا گیا تھاتشریف لائے اور اُن سے یوں خطاب فرمایا -

اے فلاں کے بیٹے،اے فلاں بیٹے فلاں کے کیا اب تمہیں تمنا ہےکہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے جو کچھ ہمارے پروردگار نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا -ہم نے اُسے سچ پایا،کیا تم نے بھی اُسے جو تمہارے پروردگار نے تم سے وعدہ کیا تھا سچ پایا- یہ دیکھ کر حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ)نے عرض کی یا رسول اللہ آپ ان بے روح جسموں سے کیا خطاب فرمارہے ہیں اس پر آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’قسم ہے خداکی جس کے ہاتھ میں مَیں محمد (ﷺ) کی جان ہے تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سنتے‘‘-

تاریخ اسلامی کے اس غیر معمولی واقعہ میں مسلمانوں کیلئے ایک بنیادی سبق موجود ہےکہ اگر مسلمانوں کے سینے ایمان کامل،عشق ومحبت اور یقین وتوکل سے معمور ہوجائیں تو نصرت الٰہی شامل حال ہوجاتی ہے پھر ظاہری حالات ،افرادی قوت اور جنگی اسلحہ کوئی معنی نہیں رکھتا-

فتح مکہ:

فتح مکہ کا واقعہ بھی رمضان المبارک میں پیش آیا اس کا سبب یہ تھا کہ قریش نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا،آقاکریم (ﷺ) 10رمضان المبارک 8ھ کو 10ہزار کی فوج لے کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے- حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) جو ابھی تک مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کر کے مدینہ آرہے تھے، وہ مقام جحفہ میں آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہُو ئے، آپ (ﷺ) کے حکم کے مطابق انہوں نے اہل و عیال کو تو مدینہ بھیج دیا اور خود لشکر اسلام میں شامل ہوگئے - مقام قدید میں قبائل کو جھنڈے دیے گئے آخری پڑاؤ مر الظہران (یہ ایک جگہ کا نام ہے )تھا جہاں سے مکہ ایک منزل یا اس سے بھی کم تھا- یہاں محبوب کریم (ﷺ) نے تمام فوج کے گروہوں کو الگ الگ آگ روشن کرنے کا حکم فرمایا - قریش مکہ کو لشکر اسلام کی روانگی کی خبر پہنچ چکی تھی مزید تحقیق کیلئے انہوں نے ابو سفیان بن حرب ،حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء کو بھیجا ،لہذا اس تجس میں اُن کا گزر مرالظہران پر ہُوا ،ابو سفیان بولا یہ اس قدر جابجا آگ کیسی ہے یہ تو شب عرفہ کی آگ کی مانند ہے ،بدیل خزاعی نے کہا یہ قبیلہ خزاعہ کی آگ ہے ابو سفیان نے کہا خزاعہ گنتی میں اتنے نہیں کہ اُن کی اس قدر آگ ہو خیمہ نبوی(ﷺ) کی حفاظت پر جو دستہ متعین تھا انہوں نے ابو سفیان وغیرہ کو دیکھ لیا اور پکڑ کر رسول اکرم (ﷺ) کی خدمت میں لےآئے اور ابوسفیان ایمان لائے- جب آپ (ﷺ) یہاں سے مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر کھڑا کردو تاکہ افواج الہٰی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں -قبائل عرب کی مختلف فوجیں اپنے سربراہ کے ہمرہ ابو سفیان کے سامنے سے گزرنے لگیں بعد ازاں وہ مبارک دستہ آیا جس میں رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے اصحاب مہاجرین تھے اور اس دستے کا جھنڈا اٹھُا نے والے حضرت زبیر بن العوام تھے -

آپ (ﷺ) مکہ میں حصہ بالائی کی طرف سے داخل ہوئے یہ اعلان کردیا گیا کہ جو شخص ہتھیارڈال دے گا یا ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا یا مسجد میں داخل ہوگا ،یا دروازہ بند کرلے گا اس کو امن دیا جائے گا -حصہ بالائی میں ایک جگہ آپ(ﷺ) کیلئے خیمہ نصب کیا گیا ،آپ(ﷺ) نے خیمہ میں ذرا آرام فرمایا پھر غسل کیا اور ہتھیاروں سے لیس ہوکر اپنی اُونٹنی قصواء پر سوار ہوئے اور حضرت اُسامہ کو اپنے ساتھ سوار کر لیا آپ(ﷺ) بڑی شان و شوکت سے کعبہ شریف کی طرف روانہ ہُوئے -آپ(ﷺ) کے دائیں بائیں آگے پیچھے مہاجرین و انصار تھے -

بیت اللہ شریف میں داخل ہوکر آپ(ﷺ)نے پہلے حجراسود کو بوسہ دیا پھر بیت اللہ کا طواف کیا خانہ کعبہ کے اردگرد تین سوساٹھ بت تھے،جس کے سبب وہ خانہ خدابت خانہ بنا ہُوا تھا- آپ(ﷺ) کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی اس سے آپ ایک ایک بت کو ٹھوکر دیتے جاتے تھے اور یہ آیت مبارک پڑھتے جاتے تھے -

’’وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ  زَہُوْقًا‘[5]

’’اور فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا،بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا‘‘-

اور وہ منہ کے بل گرتے جاتے تھے جب خانہ کعبہ شریف بتوں سے پاک ہوگیا تو آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ سے کنجی لے کر دروازہ کھولا اندر داخل ہوئے تو حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیھم السلام) کے مجسمے پر نظر پڑی جن کے ہاتھوں میں جواء کھیلنے کے تیردیئے ہُوئے تھے -آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

خدا ان کو غارت کرے،اللہ کی قسم ان دونوں نے کبھی بھی تیروں سے جواء نہیں کھیلا - کعبہ کے اندر کچھ تصویریں تھیں وہ مٹادی گئیں -پھر دروازہ بند کردیا گیا - حضرت اسامہ، حضرت بلال اور حضرت عثمان بن طلحہ(رضی اللہ عنہ) آپ کے ساتھ اندر رہے آپ (ﷺ) نے نماز پڑھی اور ہر طرف تکبیر کہی پھر دروازہ کھول دیا گیا- مسجدحرام قریش کی صفوں سے بھری ہوئی تھی آپ (ﷺ) نے خانہ کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا- خطبہ کے بعد آپ (ﷺ) قریش کی طرف متوجہ ہُوئے قریش مکہ اس ناروا سلوک کی وجہ سے خوف زدہ تھے ، جو انہوں نے محبوب کریم (ﷺ) اور آپ (ﷺ) کے اصحاب کے ساتھ روا رکھا تھا وہ اس انتظار میں تھے کہ اب ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا - رسول کریم (ﷺ) اُس شہر میں واپس آگئے تھے جہاں سے اندھیری رات میں فقط صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ اکیلے نکلے تھے اب داخل ہوئے ہیں تو دس ہزار جاں نثار ساتھ ہیں اور بدلہ لینے پر پوری قدرت حاصل ہے -آپ(ﷺ) نے یوں خطاب فرمایا -

اے گروہ قریش تم اپنے گمان میں مجھ سے کیسے سلوک کی توقع رکھتے ہو تو وہ بولے نیکی کی توقع رکھتے ہیں آپ (ﷺ) شریف بھائی اور شریف برادرزادہ ہیں -

یہ سن کر حضور رحمۃ اللعالمین نے فرمایا:

’’آج تم پر کوئی الزام نہیں جاؤ تم آزاد ہو‘‘-

قریش مکہ کوعام معافی دی گئی اعلان عفو کے بعد حضور (ﷺ) مسجد حرام میں بیٹھ گئے بیت اللہ شریف کی کنجی آپ کے دست مبارک میں تھی پھر آپ نے وہ کنجی حضرت عثمان بن طلحہ کو (رضی اللہ عنہ)عطا فرمائی -

جب نماز کا وقت ہُوا تو آپ (ﷺ) کے حکم سے حضرت بلال(رضی اللہ عنہ) نے کعبہ کی چھت پر اذان کہی - نماز ادا کرنے کے بعد آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے وہاں مردوں اورعورتوں نے اسلام قبول کرکے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی جن میں حضرت معاویہ اور مستورات میں ان کی والدہ ہندہ بھی تھی جو حضرت امیرحمزہ(رضی اللہ عنہ) کا کلیجہ چباگئی تھی -آپ (ﷺ) نے اُس کو بھی معاف فرمادیا ،یوں مکہ بغیر کسی جنگ کے فتح ہوگیا-

سریہ زید بن حارثہ اُم قرفہ کی طرف :

اُم قرفہ ایک عورت کا نام ہے،یہ ربیعہ بن بدرفزاری کی بیٹی تھی اور اپنے حفاظتی انتظامات میں اس کا نام بطورضرب المثل زدعام تھا اس کے گھر میں ہر وقت پچاس مردان شمشیرزن ہر وقت موجود رہتے تھے اُس کے ایک بیٹے کا نام قرفہ تھا اسی وجہ سے اس کی کنیت ام قرفہ تھی اس کا گھر وادی القریٰ کے ایک جانب تھا- جو مدینہ طیبہ سے 7 رات کی مسافت پر تھا-

یہ سریہ ماہ رمضان المبارک سنہ6ھ میں وقوع پذیر ہُوا اس کا سبب یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ تجارت کی غرض سے شام کی طرف روانہ ہوئے -ان کے پاس دیگر صحابہ کرام کے اموال تجارت بھی تھے جب وہ وادی القرٰی میں پہنچے تو قبیلہ فزارہ کی ایک شاخ بنی بدرکے بہت سے آدمی نکل آئے انہوں نے حضرت زید اور اُنکے ساتھیوں کو سخت مارا پیٹا اور سارا سامان بھی چھین لیا - انھوں نے واپس آکر بارگاہ رسالت میں یہ ماجرا عرض کیا نبی کریم (ﷺ) نے ایک لشکر ان کے ساتھ بھیجا تاکہ ان لٹیروں کی گو شمالی کرے اس لشکر کو حضورنبی کریم (ﷺ) نے نصیحت کی کہ دن کے وقت آرام کریں اور رات کو سفر کریں ،بنی بدرکے اندازہ کے مطابق جس صبح کو اس لشکر نے پہنچنا تھا اس صبح کو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کی پوری تیاری کر رکھی تھی حسن اتفاق سے لشکر اسلام کا راہبر راستہ بھول گیا اور یہ لشکر اس صبح کو وہاں نہ پہنچ سکا، انتظار کے بعد وہ لوگ منتشر ہوگئے مسلمان دوسری صبح کو ایسے وقت میں پہنچے جب دشمن غفلت کی نیند سورہاتھا ، مسلمانوں نے اُن کا محاصرہ کرلیا اُن کے کئی آدمی مارے گئے اُم قرفہ اور اُس کی لڑکی جاریہ کو قیدی کرلیا گیا ، اُم قرفہ بوڑھی عورت تھی لیکن پرلے درجے کی گستاخ اور زبان درازتھی اس لئے مسلمانوں نےاس فتنہ باز عورت کو کیفرکردار تک پہنچا دیا اور اُس کی لڑکی کو اسیر بنالیا ،ان ڈاکوؤں کو ان کے کرتوتوں کا مزا چکھانے کے بعد حضرت زید اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس آگئے -[6]

سریہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ):

حضور نبی کریم (ﷺ) نے سن10ھ رمضان المبارک میں حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کو یمن کی طرف بھیجا ان کے لیے جھنڈا باندھا اور انہیں اپنے ہاتھ سے عمامہ مبارک باندھ کر روانہ کیا اور فرمایا ،جب تم اُن کےپاس جاؤ تو جنگ میں پہل نہ کرنا بلکہ انہیں کلمہ توحید کی دعوت دینا اگر وہ مان جائیں تو انہیں نماز کا حکم دینا اگر اللہ تعالیٰ تمہارےوسیلے سے اُن میں سے کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دےدے تویہ تمہارے لئے ہر اُس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے -

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) تین سو سواروں کے ہمراہ عازم سفر ہوئے جب اُس علاقہ میں پہنچے اور اُن کے لشکر کے ساتھ آمنا سامنا ہُوا ،تو حکم کے مطابق آپ نے انہیں پہلے اسلام کی دعوت دی انہوں نے انکار کردیا اور مسلمانوں پر پتھروں اور تیروں کی بارش کردی ،آپ نے فوراً صف بندی کرکے جھنڈا حضرت مسعود بن سنان کو عطا کیااور دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اُن کے بیس افرادکو تہ تیغ کردیا وہ شکست کھا کر منتشر ہوگئے - پھر ان کے پاس جاکر انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے یہ دعوت تیزی سے قبول کرلی ان کےکئی رؤسانے حضرت علی المرتضی (رضی اللہ عنہ) کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرلی انہوں نے عرض کی یہ ہمارے صدقات ہیں ان میں سےرب تعالیٰ کا حق لے لیں -حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے مال غنیمت جمع کیا اور پھر واپس تشریف لائے -[7]

سریہ حضرت سعد بن زید الاشہلی :

مشلل کے مقام پر ایک بہت بڑا بت تھا جس کا نام منات تھا-اوس ،خزرج اور غسان کے قبائل اس کی پوجا کیا کرتے تھے سرکا ر دوعالم (ﷺ) نے حضرت سعد بن زید الاشلہی کو بیس سواروں کے ساتھ روانہ فرمایا -

تاکہ منات بت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں - جب آپ وہاں پہنچے تو وہاں ایک خادم بیٹھا ہُوا تھا ،اس نے حضرت سعد سے پوچھا آپ کیسے آئے ہیں -آپ نے فرمایا میں تمہارے اس جھوٹے خدا کو گرانے کیلئے آیا ہوں - اُس نےکہا ، تم جانو اور وہ جانے مَیں کوئی مداخلت نہیں کروں گا - چنانچہ وہ ایک طرف ہوگیا ،حضرت سعد چل کر منات کی طرف گئے وہاں سے ایک برہنہ عورت نکلی جو سیاہ فام تھی اس کے سر کے بال بکھرے ہُوئے تھے وہ واویلا کررہی تھی اور سینہ کوبی کررہی تھی -

اس کے نوکرنےکہا اے منات یہ ہیں تیرے نافرمان -

حضرت سعد نے اس عورت پر وار کیا اور اُس قتل کردیا پھر اپنے مجاہدین کے ساتھ مل کر اُس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے - فرمان رسالت کی تعمیل کرنے کے بعد حضرت سعد واپس آئے اُس دن رمضان المبارک کی چوبیس تاریخ تھی -[8]

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی شہادت:

رسول کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تم کو اُس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک کہ تمہاری اس جگہ ضرب نہ لگائی جائے اور تمہاری یہ جگہ خون سے رنگین نہ ہو جائے ،اور آپ نے اپنی داڑھی مبارک اور سر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا قوم کا سب سے بدبخت شخص تم کو شہید کرے گا جیسے قوم ثمود کے بد بخت آدمی نے اللہ کی اُونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں-

امام محمد بن سعد بیان کرتے ہیں کہ خوارج کے تین شخص مکہ میں جمع ہوئے عبدالرحمن بن ملجم ،برک بن عبداللہ اور عمروبن بکیر انہوں نے آپس میں یہ عہد کیا کہ وہ تین شخصوں کو قتل کریں گے حضرت علی بن ابی طالب ،حضرت امیرمعاویہ اور حضرت عمر وبن عاص؛ اور ان کو قتل کر کے مسلمانوں کو ان سے نجات دلائیں گے، ابن ملجم نے کہا کہ میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ)  کو قتل کروں گا ،بَرک نے کہا میں معاویہ کو اور عمر وبن بکیرنے کہا میں عمروبن عاص کو قتل کروں گا وہ سب ایک دوسرے سےعہد وپیمان کرکے اپنی اپنی مہم پرروانہ ہوگئے ،ابن ملجم نے شبیب اشجعی کو اپنا ہم راز بنایا اور اُس کو ساتھ لیا-جب فجر کی نماز کے وقت حضرت علی مسجد میں آئے تو یہ دونوں اپنی تلواریں لےکر آگے بڑھے اور زور سے نعرہ مارا اے علی حکومت اللہ کی ہے تمہاری نہیں ابن ملجم نے تلوار ماری جو آپ کی پیشانی کو کاٹتی ہوئی دماغ تک پہنچی اور شبیب کی تلوار طاق میں لگی پھر لوگ اُن کو پکڑنے کیلئے دوڑ ے شبیب بھاگ گیا اور ابن ملجم پکڑا گیا ،جب اُس کو حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے پاس لایاگیا تو حضرت علی نے فرمایا اس کو آرام سے رکھواگر میں زندہ رہا تو میں اس کے متعلق فیصلہ کروں گا اور اگر میں فوت ہوجاؤں تو اس کو ماردینا حضرت علی جمعہ ،ہفتہ اور اتوار کی رات تک زندہ رہےاور19رمضان سنہ 40ھ کو وفات پائی بعض روایات میں 21 رمضان کا ذکر بھی آیا ہے-

حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین اور عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) نے آپ کو غسل دیا اور تین کپڑوں میں کفن دیا گیا، حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی تدفین کے بعد ابن ملجم ملعون کو قتل کر دیا گیا -[9] وہ خبیث تو اپنے انجام کو پہنچ گیا مگر اس کے شیطانی چیلے آج تک بُغضِ علی کو ہوا دیتے پھرتے ہیں- اللہ پاک اپنے پیاروں کے بغض و عناد سے ہم سب کو محفوظ رکھے حدیث پاک میں ہے کہ بیشک جو اللہ تعالیٰ کے ولیوں سے دشمنی رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہے -

٭٭٭


[1](البقرۃ: 185)

[2](القدر:1)

[3](الانفال:9)

[4](عیون الاثرفی المغازی والشمائل والسیر، جز:1 ، ص: 305)

[5](الاسراء :81)

[6](امتاع الاسماع، جز: 1،  ص:270)

[7](سیرۃ النبویہ از احمد بن زہبی دحلان، ج:2،  ص:247)

[8](عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر، جز:2، ص:234)

[9](اسدالغابہ، جز:4، ص:102)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر